Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghar lamhe epi 1

Yaadghar lamhe:


Yaadghar lamhe


   قسط 1

"یار پتہ نہیں کل رات سے میرے موبائل کو کچھ ہو گیا ہے."فریحہ نے کہا 


"کیا ہوا ہے؟" اقصی اور عرشی نےایک ساتھ پوچھا 


"پتہ نہیں یار !سم ہی نہیں اٹھا رہا ۔کل رات سے ہی ایسا ہو رہا ہے"۔فری نے موبائل میں دوبارہ سے سم ڈالتے ہوئے کہا 


"ہو گیا ۔شکر ہے"۔اچانک فری زور سے چیختے ہوئے بولی۔


"آہستہ بول ۔۔کان کے پردے مت پھاڑ۔اور اگر ہسڑی نے سن لی تیری چیخ تو پھر بس" ۔۔۔۔اقصی نے کہا 


"شکر ہے ٹھیک ہو گیا۔اب میسجز بھی آرہے ہیں"۔اسنے موبائل دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کہنے لگی۔


"اللہ کو بھی معلوم ہے میں شریف اور مظلوم سی بندی ہوں۔اسلئے اللہ نے موبائل خود سے ٹھیک کر دیا۔زیادہ پریشان نہیں ہو نے دیا۔"فری نے خوش ہوتے ہو ئے کہا 


"جی نہیں۔جو لوگ زیاد برے ہوتے ہیں اللہ نے انکی رسی اتنی ہی دراز کی ہوئی ہوتی ہے۔"عرشی نے اقصی کے ھاتھ پر ھاتھ مارتے ہوئے کہا 


"دفع ہو"۔فری نے کہا اور پھر تینوں کھلکھلا کر ہنس دیں۔


وہ تینوں اس وقت فری پیریڈ کو انجوائے کر رہی تھیں۔


اتنے میں گھنٹی بجی۔


"کس کا پیریڈ ہے اقصی؟"عرشی نے پو چھا 


"کلاس روم منیجمنٹ کا "۔اقصی نے جواب دیا 


"تو مس تحسین آئیں گیں"؟عرشی نے پوچھا 


"پتہ نہیں دیکھو کون آتا ہے۔"اقصی نے کہا 


"انکی کلاس نے پچھلے ہفتے میڈم کو درخواست لکھی تھی کہ مس تحسین کا پڑھایا سمجھ نہیں آتا ۔براہ مہربانی انکی جگہ کسی اور کو یہ مضمون دیا جائے۔"


تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے مس نسرین کو اپنی کلاس میں آتے دیکھا


"یار یہ کیوں آرہی ہیں"؟فری نے انکو آتے دیکھ کر ہانی سے سرگوشی میں پوچھا 


"ڈانس کرنے"۔۔اقصی نے کہا 


"انکا تو ہم نے نہیں کہا تھا کہ انکو مضمون دیں"۔فری روہانسی ہوتی ہوئی بولی۔


"یار بول دو کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں"۔فری نے کہا 


"ابھی جب وہ آکر لیکچر دیں گیں تو تیرے تمام خواب ٹوٹ جانے ہیں" ۔اقصی نے کہا 


اتنے میں مس نسرین کلاس میں پہنچ چکی تھیں۔اٹینڈس کے بعد وہ اب ڈائس کے سامنے کھڑی منیجمنٹ کی تعریف بیان کر رہی تھیں۔


"منیجمنٹ کی تعریف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا منیجمنٹ کو اردو میں نظم و نسق کہا جاتا ہے۔


نظم کے معنی ہیں پرونا،سلیقہ حکمت عملی ۔۔۔۔۔۔


"یار یہ سینا ،پرونا کیوں سکھا رہی ہیں؟"اقصی نے سرگوشی کی۔


"بس بہن ۔اسی چیز کی کمی تھی جو آج پوری ہو گئی"۔فری نے اقصی کی طرف ہو کر آہستہ سے کہا


"ہم نے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔"عرشی نے اقصی کے رجسٹر پر لکھا 


"کلہاڑی نہہیں کلہاڑا وہ بھی بڑا والا۔"اقصی نے جوابی بات عرشی کے رجسٹر پر لکھی۔


"جسے پڑھ کر وہ اپنی مسکراہٹ ضبط نہ کرسکی اور کچھ اس کی قسمت بھی بڑی تھی کہ مس کی نظر اس پر پڑگئی۔"


"کیا ہوا ہے؟کس بات پر اتنا مسکرایا جارہا ہے ؟"انہوں نے عرشی سے پوچھا 


"کچھ نہیں مس۔۔۔"عرشی نے جواب دیا 


"مجھے بھی بتاو تاکہ میں بھی ہنسوں"۔مس نے کہا 


عرشی خاموش رہی تو مس نے آگے لیکچر دینا شروع کیا ۔


جب مس کچھ لکھنے کے لئے بورڈ کی طرف گئیں تو فری نے کہا 


"تم لوگ کیا باتیں کر رہے تھے؟"


"بعد میں بتائیں گے۔ابھی ادھر دیکھ۔یا تجھے بھی اپنی عزت کرانی ہے؟"


اقصی نے کہا ۔


تو وہ تینوں سنجیدہ ہو کر لیکچر نوٹ کرنے لگیں۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


وہ کالج سے گھر آئی تو وقاص گھر آیا ہوا تھا۔


"اوہو۔۔۔آپکی تشریف آوری ہو گئی"؟عرشی نے وقاص سے پوچھا 


"نہیں۔ابھی راستے میں ہوں۔"اس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا 


وقاص اسکی پھوپھو کا بیٹا تھا۔اور اسکا دودھ شریک بھائی بھی تھا۔کچھ بچپن ساتھ گزرا تھا ۔اسلئے دوستی بھی تھی۔


"اور سناو لوگوں"۔۔۔۔وقاص نے کہا 


"آپ کیا سننا پسند کریں گے؟گالیاں یا بھر طعنے؟چوائس از یورز"۔اسنے اسے کہا 


"کبھی انسانوں کی طرح بھی بات کیا کرو"۔وقاص نے کہا 


"ہاں تو انسانوں سے انسانوں کی طرح بات کرتی ہوں۔جو انسان ہی نہ ہو اس سے کیا انسانوں کی طرح بات کرنا۔۔۔۔۔"عرشی نے ہنستے ہوئے کہا 


"زبان کافی تیز نہیں ہو گئی؟ "وقاص نے کہا 


"بس کیا کروں۔۔۔۔غرور نہیں کرتی میں "۔عرشی نے کہا 


"ویسے وقاص ایک بات بتاو" ۔عرشی نے اسے سر سے پاوں تک تکتے ہوئے کہا 


"ہاں؟ "وقاص نے کہا 


"اتنے صاف ستھرے ہو کر کس سے ملنے آئے تھے"؟عرشی نے پوچھا


"مطلب ؟"وقاص نے ایک آبرو اٹھا کر پوچھا 


"مطلب یہی کہ تم مہینے دو مہینے کے بعد نہانے والے بندے ہو ۔آج لگ رہا ہے کافی رگڑ رگڑ کر نہا ئے ہو۔"اس نے کہا 


"میں ہر روز نہا تا ہوں"۔وقاص نے کہا 


"خوابوں میں ناں"؟ عرشی نے کہا


"اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے؟" وقاص نے کہا 


"نہیں نا ں۔اسلئے تو پوچھ رہی"۔عرشی نے کہا 


"میں الحمد اللہ ہر روز نہاتا ہوں۔"وقاص نے کہا


"جاو جاو۔جیسے مجھے تمھارا پتہ ہی نہیں ہے۔مجھے یاد ہے بچپن میں پھوپھو کتنی مشکل سے تمھیں واش روم میں نہلانے کے لئے گھساتی تھیں۔اور تم بھاگ جاتے تھے۔"

عرشی نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا 


"وہ بچپن کی بات تھی۔وہ جملہ سنا نہیں رات گئی بات گئی۔

اب تو آپکا بھائی پورا ٹشن میں ہے"۔وقاص نے کالر کھڑے کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا 


"اچھا بتاو ناں کیا سین ہے؟اچھے بھائی ہو ناں "؟ عر شی نے کہا 


"میں اپنی ایک فرینڈ سے ملنے آیا تھا ۔تو واپسی میں تم لوگوں سے بھی ملنے آگیا۔"اس نے آخر بتایا 


"اوئے ہوئے ۔کیا بات ہے۔ویسے پھوپھو کو پتہ ہے"؟عرشی نے پوچھا


"نہیں۔"اسنے کہا 


"امی نے تو سنتے ہی گنجا کر دینا ہے۔"اس نے کہا تو وہ بھی ہنس دی


"ویسے صرف تم ہی اسے پسند کرتے ہو یا وہ بھی پسند کرتی ہے؟"عرشی نے پوچھا 


"بیوقوف لڑکی۔۔وہ بھی کرتی ہے"۔وقاص نے اسکے سر پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا 


"ہیں واقعی"؟اسنے کہا 


"تمہیں اتنی حیرت کیوں ہو رہی ہے"؟وقاص نے پوچھا 


"میرے بھائی بات تو حیرت کی ہے ناں۔تمھیں بھی کوئی پسند کر سکتا ہے یہ بات خود میں ایک بہت بڑی حیران کن بات ہے۔"


"ویسے کیا اسکی نظر وظر ٹھیک ہے ناں"؟عرشی نے کہا


وقاص نے اسے گھورا پھر کہا 


"جی بلکل ٹھیک ہے اسکی نظر۔بلکہ میں تمھیں اسکی تصویر دکھاتا ہوں۔"


اور موبائل نکال کر اسکی تصویر دکھائی۔


ہمم۔۔۔۔اس نے اسٹرابڑی کھاتے ہوئے تصویر دیکھی اور کہا 


"منہ امریکی پاوں افریقی۔"


"لیکن دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔تم میں ملتی ہے۔"عرشی نے کہا تو وقاص نے اسے گھورا اور کہا 


"کیوں؟کیا کمی ہے مجھ میں؟اتنا ہینڈ سم ہو۔"


"ہاں "۔اس نے زور و شور سے سر ہلایا ۔


"اگر آنکھیں بند کر کے دیکھو تو بہت پیارے ہو"۔۔۔

عرشی نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا تو وقاص نے کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔


اتنے میں عرشی کی امی نے آواز آئی۔


"کھانا کھا لو آکر۔"


تو وہ دونوں کھانا کھانے کے کئے اٹھ گئے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔ ۔۔۔۔


"یہ کیا گرا ہے ؟"باہر سے کسی چیز کی گرنے کی آواز سن کر عرشی نے کہا 


"میرے خیال سے آج پھر بلے نے سینٹرل ٹیبل پر رکھے گلدان کو گرایا ہے۔"


"ایک تو میں اس بلے سے بہت تنگ ہوں" ۔انہوں نے کہتے ہوئے عرشی سے کہا 


"باہر دیکھنا زرا۔کیا گرا ہے۔"


عرشی نے جاکر دیکھا اور آکر کہا


"آپ کے چھ فٹ لمبے بلے نے بوتل صوفے پر پھینکی ہے جو نیچے جا گری ہے۔"


اس نے اندر آتے ہوئے بتایا تب تک ضمیر اندر آچکا تھا۔


"امی کھانا دیں "۔اس نے کہا تو وہ اٹھتے ہوئے بولیں۔


"جلدی جلدی شادی کرو ۔تا کہ کھانا بنانے والی آئے اور میری جان چھوٹے۔"


"ویسے بھائی ۔۔آپکو کس قسم کی لڑکی پسند ہے"؟؟عرشی نے کہا 


"جو بولتی بھی نہ ہو اور جسے غصہ بھی نہ آئے۔"انھوں نے کہا 


"امی ہم لوگ پھر کب ابنارمل سینٹر جائیں گے"؟عرشی نے اچانک اپنی والدہ سے کہا 


"کیوں ؟وہاں جا کر کیا کرنا ہے تم نے"؟ اسکی امی نے حیرت سے اسے کہا 


ضمیر بھی حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھنے لگ گیا 


"بھائی کے لئے لڑکی وہیں سے تو ملے گی۔کیونکہ نارمل لڑکیاں تو بولتی بھی اور غصہ بھی کرتی ہیں۔"


"انکی ڈیمانڈ صرف ابنارمل لڑکی ہی پوری کر سکتی ہے"۔عرشی نے کہا تو وہ بھی ہنسنے لگیں۔


بس تم دونوں سے فضول باتیں کرا لو۔


اتنے میں اسکا موبائل بجا ۔۔


فری کی کال ہے۔وہ کہتی وہاں سے اٹھ گئی ۔اور باہر جا کر بات کرنے لگی


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"سر کلاس نہیں لیں گے؟"مس تحسین نے ان لوگوں سے آکر پوچھا 


"لیں گے مس۔"فری نے کہا 


"اچھا وہ اگر نہیں لیں تو مجھے بلالینا۔میں اپنا مضمون پڑھا لونگی"

۔انہوں نے کہا تو ان لوگوں نے بھی سر ہلا دیا ۔


انکی میڈم نے کلاس روم مینیجمنٹ کے چیپٹرز دونوں ٹیچروں میں بانٹ دئے تھے۔اسلئے اب وہ لوگ مس تحسین اور مس نسرین دونوں سے ہی ایک مضمون پڑھ رہے تھے۔


""قسم سے یار۔پتہ نہیں ۔۔کہاں پھس گئے ہیں؟ایک اردو میں پڑھاتی ہے اور دوسری انگلش میں"۔ فری نے تلملاتے ہوئے کہا


"سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ نوٹس کس میں بنائیں۔ایک کہتی اردو میں بناو دوسری کہتی انگلش میں بناو۔"عرشی نے کہا 


"اور مزے کی بات یہ ہے کہ سمجھ دونوں کا ہی نہیں آتا" ۔فری نے کہا


"یار پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگوں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہے۔جسکی سزا ہمیں یوں مل رہی ہے"۔اقصی نے کہا 


"میں سر کو بلا کر لاتی ہوں۔اس سے پہلے کہ مس تحسین دوبارہ نازل ہو۔"عرشی نے کہا 


"مے آئی کم ان سر۔۔۔۔"اسنے کہا


"یس"۔۔۔انھوں نے کہا 


"سر وہ آپکی کلاس ہے۔"عرشی نے کہا 


"جی بیٹا ۔۔میں آتا ہوں۔"وہ کہتے کے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔


"وہ اس وقت اپنے آفس میں تھے اور مس شمیم انکے سامنے بیٹھی کچھ باتیں کر رہیں تھیں۔


سر کہ چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ جانا چاہتے ہیں۔


جتنا مس شمیم سر کو پسند کرتی تھیں۔سر اتنا ہی ان سے بھاگتے تھے۔


اسکی بنیادی وجہ مس شمیم کی زبان درازی اور شک کی عادت تھی۔انکو لگتا تھا کہ کالج میں موجود لڑکیاں سر پر ڈوریں ڈالتی ہیں۔


وہ اگر کسی لڑکی کو موبائل استعمال کرتا دیکھتیں تو انھیں لگتا یہ لازمی اپنے کسی بوائے فرینڈ سے بات کر رہی ہے۔


عجیب نفسیاتی قسم کی شخصیت تھی انکی۔وہ بچوں سے بات کرتے ہوئے استاد کے درجے سےبہت نیچے آجاتی تھیں۔حالانکہ آفیشل ورک وہ ٹھیک کرتی تھیں۔۔۔لیکن کچھ عادتیں ان میں ایسی تھیں جسکی وجہ سے لوگ ان سے دور بھاگتے تھے۔جن میں اسٹوڈنٹس بھی تھے اور ٹیچرز بھی۔"


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"یار تم لوگوں کو ایک بات پتہ ہے"؟فری نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 


"کیا بات ؟"ان لوگوں نے پوچھا 


"سنا ہے سر وسیم وائیوا لیں گے"۔فری نے کہا


"نہ کر یار۔"عرشی نے کہا 


"شب شب بول ۔۔۔۔۔منہ اچھا نہ ہو تو بندہ بات اچھی کرتا ہے"۔اقصی نے کہا 


"یار میرے تو ابھی سے یہ سوچ کر ہی ہا تھ ٹھنڈے ہو رہے ہیں کہ سر وسیم وائیوا لیں گے۔میں وہاں جاکر بولوگی کیا" ۔۔عرشی نے کہا 


"ویسے عرشی سوچ ۔۔۔اگر سر وسیم نے ہی وائیوا لیا تو"؟فری نے کہا 


"میں نے اس کھڑکی سے کود کر جان دے دینی ہے۔"اسنے کہا 


"جلدی کر۔نیک کام میں دیری کیسی"۔فری نے کہا 


"ہاں یہ نہ ہو کہ تیرا موڈ بدل جائے"۔اقصی نے کہا 


"بلکہ ہمیں بتانا ۔ہم خود دھکا دیں گے تاکہ بچنے کی کوئی امید ہی نہ ہو"۔فری نے ہنستے ہوئے کہا 


"کمینیوں۔۔"عرشی نے اقصی کے منہ پر تھپڑ مارا جو اتفاق سے اسے زور سے لگا ۔۔


"عرشی کی بچی۔۔۔۔اقصی نے کہتے ہوئے عرشی کو تھپڑ مارا ۔"


فری یہ سب دیکھ کر ھنستے ہوئے حال سے بے حال ہو رہی تھی۔


مار دو۔۔قتل کر دو ایک دوسرے کو"۔فری نے کہا 


اور تینوں کھلکھلا کر ہنس دیں۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments