Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 20

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe

قسط 20


 "کیا بات ہے عرشی کی بچی"۔۔۔۔مبینہ نے پین اسکے سر پر مارتے ہوئے کہا

"کچھ نہیں یار"۔۔اسنے جواب دیا

"وہ دیکھ۔"مبینہ  اسکے کان کے پاس ہو کر آہستہ سے بولی۔

"کیا؟" عرشی نے جواب دیا

"یار یہ لڑکی  روز کینٹین میں بیٹھی رہتی ہے"۔

"ہاں تو بیٹھنے دے"۔اسنے کہا


"ارے سنو تو! وہ کینٹین میں لڑکا نہیں ہے چھوٹے سے قد کا؟ اسے دیکھتی رہتی بس"۔۔مبینہ نے پوری بات بتائی۔

"بہت ہی ویلی ہے یہ تو"۔عرشی نے ہنستے ہوئے کہا

"اور  نہیں تو کیا"۔مبینہ نے کہا

"تمہیں پتہ ہے شروع شروع میں مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ چینی   کاڈبہ سامنے  میز پر رکھا ہے۔۔میں روز بغیر چینی کے چائے پی لیتی تھی۔اور وہ چھوٹے قد والا لڑکا مجھے پندرہ کی چائے پچیس میں دیتا تھا"۔عرشی نے بتایا

"وہ کیسے ؟"اسنے پوچھا

"یار میں نیو تھی۔تو میں نے اس سے چائے کے کپ کی پرائس  پوچھیں تو اسنے پچیس روپے بتاے"۔عرشی نے ہنستے ہوئے بتایا

"اور تم بیوقوف اسے چائے کے پچیس روپے دیتی رہی ؟" مبینہ نے کہا

"ہاں۔"عرشی نے جواب دیا


"پھر  کیسے پتہ چلا کہ چائے  پندرہ کی  ہے"۔مبینہ نے پوچھا

"پھر ایک دن  دوسرا لڑکا تھا۔اسنے مجھے  دس روپے واپس کئے اور کہا"

"مس لگتا ہے آپ کے پاس پیسے زیادہ ہیں۔"اسنے بتایا

"ہی ہی۔۔مطلب کینٹین میں بھی تمھاری عزت ہو چکی ہے۔"وہ ہنسی۔

"جی جی خیر سے۔"عرشی نے کہا

"توبہ ہے۔"مبینہ نے کہا


"اچھا چلو اٹھو  کلاس ہونے والی ہے۔"

"چھوڑ بنک کرتے ہیں"۔اسنے جواب دیا

"اٹھ جا۔وہ  نفسیاتی عورت مس رخسانہ کی کلاس ہے۔"مبینہ نے کہا تو اسے اٹھنا پڑ گیا 

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


اب فری اور اقصی کی بلکل  بھی کال نہیں آتی تھی۔

وہ سب ایک دوسرے کے بغیر رہنا سیکھ چکی تھیں۔اور عرشی  کو تو خیراب  علی کے علاوہ اور کسی کی یادہی نہیں آتی تھی ۔

"وہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتی تھی تو اسے  اسکی باتیں اسکاغصہ اور پھر آخری ملاقات سب یاد آنے لگتی تھی۔


اسے لگتا تھا کہ وہ سب غم  دیکھ چکی ہے۔اب وہ کوئی بھی بات کوئی بھی دکھ آرام سے برداشت کر سکتی ہے۔"

یوں دن مہینوں پر اور مہینے سالوں پر سے گزرتے  چلے گئے تھے۔

اور یونی کا عرصہ بھی ختم ہو گیا تھا۔


"صرف یادیں رہ گئی تھیں۔گزرے ماہ  وسال میں عرشی نے جو بات سیکھی تھی وہ یہی تھی کہ انسان بھی گزر جاتا   ہے اور وقت بھی۔اسلئے ہر لمحے کو یادگار بنانا چاہیے۔جیسے اسکی یادیں تھی  فری  اور اقصی کے ساتھ گزارے گئے پلوں کی۔اب بھی  اسے اگر اچانک ان دونوں کی  کوئی بات یاد آجاتی تھی تو ایک  بے ساختہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر آجاتی تھی۔"

وقت گزر گیا تھا۔بس یادیں  رہ گئی تھیں۔

حسین  یادیں ،خوبصورت یادیں۔

۔۔  ۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


اسے یہاں آئے دوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا تھا 

اسے  لگتا تھا کہ  اسے دل سے مسکرائے صدیاں گزر گئی ہیں۔

عرشی نے شروع شروع میں اسے بہت کالیں کی تھیں۔پھر ایک دن اسنے  عرشی کو کہا تھا کہ

"اگر تم میری خوشی چاہتی ہو تو مجھے کالیں مت کرو۔میں پریشان ہو جاتا ہو۔اور پھر اسکے بعد اسکی کال نہیں آئی تھی۔"


"لیکن جب اسنے کالز کرنا بند کی تھیں تب  سے وہ بے چین رہنے لگا تھا۔پھر اسکا دل چاہنے لگا تھا کہ وہ اسے کال کرے اور منائے۔"

"لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔انا اس میں سینہ تان کر کھڑی تھی  کہ اب کال عرشی کی آئے گی تو مانوگا"۔

"اور عرشی اسلئے خاموش ہو گئی تھی کہ اگر وہ  دور رہ کر خوش ہے تو اسے پریشان نہیں کرنا چاہیے۔"

اور یوں یہ سلسلہ اب تک جاری تھا اور دونوں ہی بڑی کامیاب ایکٹنگ سے حسین صاحب کو بیوقوف بنائے ہوئے تھے۔


لیکن اب علی کی  واپس  جانے میں ٹال مٹول دیکھ کر ا نہیں بھی شک پڑ چکا تھا۔

"میرے خیال سے یار!اب واپس جانا چاہیئے۔بہت تبدیل ماحول میں رہ لئے"۔انہوں نےکھانا کھاتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں اسے کہا تو وہ دل ہی دل میں کراہ کر رہ گیا

"تمہارا کانٹریکٹ بھی تو اگلے مہینے ختم ہو رہا ہے"۔انہوںنے کہا

"لیکن میں سوچ رہا ہونکہ کچھ عرصہ اور یہاں گزارو۔اور کانٹریکٹ رینیو کراوں"۔اسنے کہا

"شادی کے بعد آکر رہ لینا۔جاوید نے بھی کتنی ہی دفعہ ڈھکے چھپے لفظوں میں رخصتی کا کہا ہے "۔ان کی بات سن کر وہ سر جھکا گیا۔


"تمھاری اور عرشی کی کوئی لڑائی ہوئی ہے ناں ؟ "انہو ں نے اچانک کہا

"نہیں تو"۔اس نے جواب دیا

"جھوٹ مت بولو علی!میں تمہاری اور عرشی کی رگ رگ سے واقف ہوں۔"

"اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اسکے نروس بریک ڈاون کے پیچھے تم لوگوں کی کوئی لڑائی تھی"۔انہوں نے کہا


"آپ کو عرشی نے بتایا ہے ؟ "اسنے پوچھا

"وہ مجھ سے بات ہی نہیں کرتی کہ کہیں میں تم لوگوں کی اداکاری پہچان نہ لو"۔انہوں نے تیز لہجے میں کہا اور پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکے سامنے کیا

اور جلے ہوئے نشان پر انگلی رکھ کہ کہا 

"اسکے زریعے مجھے پتہ چلا تھا"۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


گرمیوں کی شاپنگ کرنے وہ آج  مال  آئی تھی۔

وہ کپڑے دیکھ رہی تھی کہ اچانک کسی نے اسکا نام پکاڑا وہ پیچھے مڑی تو سامنے اسرا کسی لڑکے کے ساتھ  کھڑی تھی۔ہاتھ میں ایک سال کا بچہ بھی اٹھایا ہوا تھا۔

"کیسی ہو؟" اسرا آگے بڑھ کر خود اس کے گلے لگی  ۔

"میں ٹھیک "۔اسنے جواب دیا تو اسرا اس آدمی کی طرف مڑی اور کہا

"احمد یہ عرشی ہے۔علی کی وائف۔

اورعرشی  یہ میرے ہسبنڈ ہیں احمد۔"


تو اس بندے نے سر کے اشارے سے اسے سلام کیا اور پھر  اسراکے ہاتھ سے بچہ لیتے ہوئے کہا میں گاڑی میں ہو تم وہی آجانا تو وہ مسکرا دی۔

اسکے جانے کے بعد اسرا نے اسے دیکھا  تو اسے عرشی پہلی والی عرشی ناں لگی۔

وہ عرشی تو کوئی اور ہی  عر شی تھی جو جب مسکراتی تھی تو اسکی آنکھیں بھی مسکراتی تھیں۔اور سامنے والے کا اعتماد ڈگمگا جاتا تھا۔


"یہ بچہ تمھارا  ہے ؟" عرشی نے مدہم لہجے  میں پوچھا 

"ہاں۔۔علی کے امریکہ جانے سے پہلے میری اور احمد کی شادی ہوئی تھی"۔اسنے کہا

"اچھا۔۔"وہ بجھی بجھی آنکھوں سے  مسکرائی

"عرشی"۔۔۔اسنے بے ساختہ اسکا ہاتھ پکڑا

"سب ٹھیک ہے ناں ،؟ "اسرا نے پوچھا

"جی!"اسنے جواب دیا

"مجھے سچ بتاو"۔اسرا نے کہا  تو وہ خاموش رہی

اسکی خاموشی پر اسرا نے کہا


"میں اگر آج احمد کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار رہی ہو تو اس میں بڑا ہاتھ علی کا ہے۔جس نے  مجھے میری محبت سے ملوایا ۔مجھے لگتا تھا کہ میں علی سے پیار کرتی ہو۔لیکن  اس نے کہا تھا کہ یہ وقتی جزبات ہیں تم صرف مجھ سے ایمپریس ہو۔اور وقت نے اسکی اس بات کو سچ ثابت کیا کہ میں اس سے بس ایمپریس تھی۔

اسلئے میں چاہتی ہوں اگر  تمہیں  کوئی بھی مسئلہ ہے تو مجھے بتاو۔

تاکہ میں علی کا  یہ احسان اتار سکو۔"اسرا نے اسکا ہاتھ دباتے ہوئے کہا  تو وہ اسکے گلے لگ کر رو دی۔

"میں نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ مجھ سے نہیں تم سے محبت کرتے ہیں۔مجھے پتہ  نہیں  تھا کہ تمھاری شادی ہو چکی ہے۔اور پھر وہ ا۔ریکہ چلے گئے"۔اسنے روتے ہوئے بتایا


" تم سے ناراض ہو کر گیا ہے ؟ "اسرا نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا

"ہاں"۔اسنے روتے ہوئے سر ہلایا

"پاگل ہے وہ بلکل۔"اسرا نے خود سے کہا

"تم رو  مت"۔اسنے پھر اسکے آنسو صاف کئے۔


"یہ میرا نمبر ہے۔یہ اپنے پاس رکھو۔" اسرا نے اپنے پرس سے ایک کارڈ نکال کر اپنا نمبر اس پر لکھا اور اسے دیا

"چلو میں چلتی ہوں۔یہ انتظار کر رہے ہونگے میرا۔وہ اسکے گال کو چومتی وہاں سے چلی گئی۔"

جبکہ وہ دوبارہ شاپنگ کرنے لگی

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"علی کے بچے !تمہیں میں چھوڑونگی نہیں"۔جیسے ہی اسنے کال اٹھائی تو اسرا  غرائی

"توبہ ہے یہ  جنگلی بلیوں کی سی حرکتیں کیوں کر رہی ہو۔"اسنے ہنستے ہوئے کہا

"بکواس بند کرو۔"اسنے غصے میں کہا

"احمد کا غصہ مجھ پر اتارا جا رہا ہے کیا؟" اسنے پھر ہنستے ہوئے پوچھا

"وہ تمھاری جیسی حرکتیں نہیں کرتے۔اور نہ میں عرشی جتنی سیدھی ہو کہ رو کر چپ ہو جاو۔"اسرا نے کہا تو  وہ چپ ہو گیا


"اب اسنے تمہیں وکالت کے لئے بھیجا ہے ؟ "علی نے طنزیہ کہا

"کاش وہ کہہ دیتی" ۔اسرا  نے کہا

"میں کال رکھتا ہوں"۔اسنے کہا

"ٹھیک ہے رکھ لو کال! لیکن جب وہ مرجائے ناں پھر اسکی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی مت جانا۔کیونکہ مار تو   تم اسے ویسے  بھی چکے ہو۔"

"اسرا"۔۔۔وہ چیخا


"کیوں برا کیوں لگ رہا ہے ؟ ایک زندہ دل لڑکی  کو تم نے زندہ درگور کیا ہے۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ وہ مر چکی ہے۔"اسرا نے پھر لفظ چباتے ہوئے کہا

"بکواس بند کر و "۔۔۔وہ غرایا

"میں آج عرشی سے ملی تھی۔اوو  ہاں سوری میں اسکے ہڈیوں کے  ڈھانچے سے ملی تھی۔جسکی آنکھوں میں ناں وہ چمک تھی جس نےپہلی دفعہ ملنے پر ہی  میرا اعتماد  ریزہ ریزہ کیا تھا اور ناں آنکھوں میں جینے کی خوشی۔"ابکی بار وہ بتاتے ہوئے رو پڑی۔

"دیکھو اسرا"۔۔۔۔۔اسنے کچھ کہنا چاہا


"مت  اسکی برداشت کو آزماو۔یہ ناں ہو کہ وہ  ہمت چھوڑ بیٹھے اور تمھارے پاس پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو"۔اسنے کہہ کر کال بند کر دی۔وہ وہی خاموش بیٹھا رہ گیا۔

جو فیصلہ پاپا کے غصے کے باوجود وہ نہیں کر پایا تھا وہ اسرا کی باتیں سن کر لمحوں میں کر گیا تھا۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"میں تمھارے گھر سے باہر گاڑی میں تمھارا انتظار کر رہی ہو۔"

اسنے کہہ کر کال بند کر دی۔

"امی میں اسرا کے ساتھ جارہی ہوں"۔اسنے اپنا پرس لیا اور اپنی امی کو آواز لگاتی گھر سے باہر نکلی۔سامنے ہی اسکی گاڑی کھڑی تھی۔

"کیا  ہوا ہے ؟ کیوں اتنی ہنگامی بنیادوں پر مجھے بلایا ہے۔"عرشی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا

"شاپنگ مائی لو شاپنگ"۔اسرا نے کہا  جبکہ  پیچھے بیٹھی فارحہ نے کہا 

"دماغ خراب کر دیا ہے  انکی شاپنگ نے۔"


"بہن تمھارادماغ خراب عمر نے کیا ہے  جھوٹی تعریفیں کر کر کے"۔اسرا نے کہہ کر گاڑی آگے بڑھائی

"خبردار میرے معصوم شوہر پر الزام لگایا۔"فارحہ نے کہا

"جی جی ایک آپ معصوم ہیں اور دوسرے آپ کے شوہر"۔اسرا نے کہا

"کوئی شک"۔۔۔۔فارحہ نے  اتراتے ہوئے کہا

"شک ہے اسلئے بول رہی ہو"۔اسرا نے کہا


"بس کر دو بھئی تم لوگ"۔عرشی نے انکی لڑائی ختم کرائی تب تک وہ بازار پہنچ چکے تھے۔

"یار  اتنا رش ہو رہا ہے۔چھوڑو کل آئیں گے"۔عرشی نے پارکنگ  میں کھڑی گاڑیوں  کو  دیکھتے ہوئے کہا

"اب آہی گئے ہیں  تو کچھ لے لیتے ہیں۔"اسرا کہہ کر گاڑی سے باہر نکل گئی توچارو ناچار اسے بھی نکلنا پڑا۔

وہ چوڑیوں کی شاپ پر کھڑی چوڑیاں خرید رہی تھیں۔جب اسرا نے اسے بھی چوڑیاں لینے کا کہا


"نہیں مجھے  نہیں پسند"۔اسے علی کا چوڑیاں توڑنا یادآئیا تو وہ بے ساختہ ناں کر گئی۔

"تمھاری کلائی پر پیاری لگیں گیں۔"اسنے کہا اور پھر اسکی کلائی کے سائز کی ست رنگی چوڑیاں  خرید لیں۔

"اسرا  یہ لاسٹ  ٹائم ہے۔فارحہ نے کہا تو عرشی کسو اقصی یاد آگئی ۔ایسے ہی وہ ایک دوکان سے دوسری دوکان میں اسکی دوڑیں لگواتی تھیں۔عرشی خیالوں میں گم تھی جب سسے اسرا کی آواز  حقیقت  کی دنیا میں لائی۔

"اوکے اوکے۔اسرا نے کہا اور کپڑوں کی دوکان  میں گھس گئی۔

یہ کیسا ہے ؟" اسرا نے پوچھا 


"بہت اچھا ہے۔"عرشی نے ستائشی انداز میں کہا تو اسرا نے اسکے ہاتھ میں  پکڑے سوٹ دیکھے جو سب ہلکے رنگوں میں تھے۔

"یہ مت لو۔تھوڑے تیز لو"۔اسرا کے منہ سے بے ساختہ نکلا

"مجھ پر اچھے لگے گے۔"عرشی نے کہہ کر سیلز مین کو پیک کرنے کا اشارہ کیا

آخر وہ شاپنگ کر کے  جب گاڑی کی طرف بڑھیں تو انہیں  علی اور  عمر انکی گاڑی کے پاس کھڑے دکھائی دیئے۔


اسرا تو  انکو دیکھتے ہی تیز تیز چلتی انکے پاس گئی اور کہا

"اوہو!شیطان کے ساتھ شیطان کا چیلہ بھی موجود ہے"اسکی بات سن کر   علی بے ساختہ ہنسا اور پھر  کچھ دور حیران کھڑی عرشی کی  طرف دیکھا 

جسکے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔


"یہ مجھے اب  سڑکوں پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔میں پکا  کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے چیک اپ کراونگی کہ مجھے اب  ونادیدہ لوگ چلتے پھرتے نظر آنے لگے ہیں۔اسنے دل میں کہاتب  ہی  فارحہ نے اسے پکارا تو وہ اسکے ساتھ چلنے لگی۔

لیکن حیرت کا جھٹکا تب لگا جب فارحہ نے علی کو سلام  کیا

"یہ سچ میں یہاں ہیں۔"اسنے دل میں کہا


"کبھی مجھے بھی سلام کیا کرو۔دعائیں دونگا"۔عمر نے پھر اپنا دکھڑا رویا

"دیکھ لو عرشی اس کی حرکتیں ۔بلکہ علی کو اس سے دور رکھا کرو۔یہ بگاڑ دیگا اسے بھی" ۔اسرا کی بات پر وہ ادھر ادھر دیکھنے کگی۔

"بگڑے ہوئے کو کیا بگاڑنا۔"عمر نے کہا تو علی نے اسے مکا مارا

"چلو ہٹو !میرا بچہ رو رہا ہوگا"۔اسرا کہہ کر گاڑی کی طرف بڑھی اور پیچھے مڑ کر علی کو عرشی کے شاپنگ بیگز دیتے ہوئے کہا


"اپنی وائف کو گھر چھوڑ آو۔میں اپنے گھر جا رہی ہو" ۔۔۔۔کہہ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

اسکے جانے کے بعد عمر نے کہا

"ہمیں قادر انکل سے ملنے جانا ہے۔تو ہم بھی چلتے ہیں۔"کہہ کر وہ علی سے گلے ملا اور عرشی کو خداحافظ کہتا  فارحہ کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔


پیچھے وہ دونوںوہاں اکیلے رہ  گئے تھے۔اسنے کچھ بھی کہنے کے بجائے اسکے بیگز ہاتھوں میں تھامے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ تو وہ کچھ لمحے  وہی کھڑی رہی۔۔

"اسے خود سے جانا برا لگ رہا تھا۔

پھر نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو اسکے بیگز گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ چکا تھا اور اب اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے اسکی طرف دیکھ رہاتھا۔


وہ درحقیقت اسکے آنے کاانتظار کر رہا تھا۔"

"آنا تو تمہیں خود پڑے گا عرشی۔مجھ سے محبت کرتی ہو تو تمہیں مجھ سمیت ہر چیز پر اپناحق استعمال کرنا آنا چاہیے۔"اسنے دل میں کہا تب تک وہ بھی اپنی   انا  کو مار کر اسکی طرف بڑھ چکی تھی۔

گاڑی کے قریب جاکر دروازہ کھولا اور بیٹھ گئی۔

اسکے بیٹھتے ہی وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

۔،۔۔۔۔۔*۔،۔۔۔۔،


گھر پہنچ کر وہ  کچھ کہے بنا گاڑی سے اترا تو وہ بھی  جلدی سے نیچے اتری۔اور   تقریبا بھاگتی ہوئی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔

اسکی اس حرکت پر وہ بے ساختہ مسکرا گیا۔

جیسے ہی وہ لاونج کا دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا   تو حسین صاحب  نے اسکی طرف دیکھا اور پھر  اسکے پیچھے چلتی عرشی کو دیکھا تو وہ ایک دم خوش ہو کر اٹھے۔

"عرشی"۔۔۔۔انہوں نے اسے پکارا  تو وہ انکے گلے سے لگ کے رونے لگ گئی۔


"بس میرا بچہ۔"۔۔انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ آنسو صاف کرتی پیچھے ہوئی۔

"آپ کب آئے"۔اسنے پوچھا

"کل رات کو آئے تھے"۔انہوںنے جواب دیا

رحیم پانی لیکر آیا  تو اسنے رحیم سے کہا


"  میری چائے اوپر  لے آنا۔"وہ یہ کہہ کر اوپر چلا گیا  تو وہ سر  جھکا گئی۔

"رحیم تم چائے رہنے دو۔جاو تم میرے لئے سوپ بنا لاو۔" انہوں نے فرمائش کی۔

" صاحب علی بھائی غصہ کریں گے بات ناں ماننے پر۔"رحیم نے کہا

"نہیں کرے گا۔"انہوں نے کہا  تو وہ وہاں سے چلا گیا۔

اسکے جانے کے بعد وہ عرشی کی طرف متوجہ ہوئے جو اپنے پاوں کے انگھوٹے کو کارپٹ کے ڈیزائن پر پھیر رہی تھی۔


"پتہ ہے عرشی جب کوئی ایک ناراض ہو تو دوسرے کو منا لینا چاہیے"۔انہوں نے کہا

"وہ مانتے ہی نہیں۔" عرشی نے آہستگی سے کہا

"وہ یہ بوجھ اٹھائے اب تھک رہی تھی۔اور چاہتی تھی کہ کسی کو سب کچھ بتا دے تاکہ اسے کوئی مشورہ ملے  اور وہ کنارے لگے"۔

"بیٹا  میں نہیں جانتا کہ  کہ تم لوگوں کی کس بات پر اتنی لڑائی ہو گئی کہ وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا اور تم اپنا نروس بریک  ڈاون کر بیٹھی"۔انکی اس بات پر اسنے  چونکتے ہوئے انہیں دیکھا

"لیکن تمہیں کم از کم مجھے یہ سب بتانا چاہیے تھا۔"انہوں نے شکوہ کیا


"وہ غصے میں تھے۔اور پھر مجھے  پہلے بھی منع کیا تھا کہ آپ کو لڑائی کا نا بتاوں۔"اسنے بتایا

"یعنی اس گدھے کی بات کی اہمیت  میرے مشورے سے زیادہ تھی ؟" انہوں نے کہا

"نہیں انکل!وہ بس اور ناراض ہو جاتے۔اسلئے نہیں بتائی تھی۔"اسنے کہا


"اچھا اب ایسا کرو جاواسکے کمرے میں  چائے لیکر جاو"۔انہوں نے کہا وہ انکی بات سن کر بدکی۔

"مجھے کمرے سے نکال دیا  تو ؟" اسنے کہا

"میں کس لئے ہو۔میں اسے گھر سے نکال دونگا۔"انہوں نے اسے حوصلہ دیا

"میں بتا رہی ہونکہ میری لاش آپ کے سر ہو گی۔"اسنے چائے اٹھاتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دئیے۔

اور وہ چائے لیکر اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔،۔۔


اسنے دروازہ ناک کیا  تو کم ان کی آوازآئی۔

وہ دبے قدموں اندر داخل ہوئی تو  سامنے ہی وہ بیڈ پر بیٹھا تھا۔

اسنے عرشی  کو  دیکھا ضرور لیکن کہاں کچھ نہیں۔

وہ  خاموشی سے چائے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر مڑی تو علی نے اسکو آواز دی۔

"عرشی!۔۔۔یہ اب پھر مجھے اپنے کمرے میں آنے کے لئے ڈانٹیں گے" ۔اسنے دل میں سوچا اور پھرگردن گھماکر اسے دیکھا اور کہا


"مجھے آپکے پاپا نے کہا تھا کہ چائے آپکو دے آوں۔اور یہ چائے آپ پی سکتے ہیں۔کیونکہ میں نے نہیں بنائی۔"وہ اپنی بات کہہ کر اسکے کمرے سے نکل گئی۔پیچھے وہ اسے جاتا دیکھتا رہا۔

وہ اسے چائے دیکر انکے پاس آئی اور کہا

"مجھے اب گھر جانا ہے۔بہت دیر  ہو گئی ہے۔"تو انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا

"ہاں بھابھی انتظار کر رہی ہونگی تمھارا۔"۔۔اسے کہہ کر انہوں نے رحیم کو آواز دی

"جی صاحب جی"۔وہ پاس آکر بولا


"جاو علی کو   کہو کہ پاپا کہہ رہے ہیں کہ عرشی کو گھر چھوڑ آو تو وہ انکا پیغام  علی کو دینے چلا گیا۔"

"انکل میں خود چلی جاونگی"۔رحیم کے وہاں سے جانے کے بعد عرشی نے کہا

"ابھی تھوڑی دیر میں وہ چھوڑ آئے گا تمہیں"۔۔انہوں نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔تب ہی وہ وہاں آیا۔

"لو دیکھو آگیا!"انہوں نے اسکو  دیکھتے ہوئے عرشی سے کہا اور پھر اس  سے مخاطب ہوئے

"یہ کہہ رہی تھی کہ میں خود چلی جاونگی۔تو میں نے کہا علی چھوڑ آئے گا۔۔"


"میں باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہو۔وہ کہتا ہوا  لاونج سے چلا گیا۔"تو وہ بھی انہیں خداحافظ کہتی  اسکے پیچھے بھاگی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا  جب عرشی نے اسے پکارا۔

"سنیں مجھے  آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"

"کہو؟" اسنے ڈرائیو کرتے ہی جواب دیا


"میں جانتی ہونکہ آپ  مجھ  سے نکاح کر کے پچھتا رہے ہیں لیکن آپ مجھے  ایسے ہی رہنے دیں۔مجھے طلاق نہیں  دیں۔آپ خود کسی سے بھی شادی کر سکتے ہیں۔میں کچھ نہیں کہونگی"۔اسکی  بات سن  کر اسنے عرشی کی طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگ گیا۔

"یہ تو فواد ہے۔اسنے سامنے  کھڑے لفٹ مانگتے فواد کو دیکھ کر خود کلامی کی اور پھر اسکے پاس جاکر گاڑی روکی۔

اور گاڑی کاشیشہ نیچے کر کے کہا

"فواد کیا ہوا ؟ "


"یار شکر ہے تم مل گئے۔۔ہماری  گاڑی خراب ہو گئی  تھی اورکوئی لفٹ بھی نہیں مل رہی تھی"۔ ۔۔فواد نے کہا

"اچھا آو میں  ڈراپ کر دیتا ہوں۔"علی نے کہا تو فواد نے کہا

"میں ہنزہ کو لیکر آتا ہوں"۔تو اسنے سر ہلادیا۔

جیسے ہی ہنزہ گاڑی میں بیٹھی تو   اسکی نظر عرشی پر پڑی۔

"تم بے وفا دوست۔ہنزہ نے اسے دیکھتے ہی کہا تو وہ ہنس دی۔

کتنی دفعہ میں نے کالز کیں۔لیکن عرشی صاحبہ آپ نے تو ایسا کنارہ کیا کہ بس۔مجھے معافی مانگنے کا بھی موقع نہیں دیا"۔ہنزہ نے کہا تواسکی بات سن کر  فواد نے کہا


"بھابھی آئی ایم سوری۔مجھے اس سارے قصے کا بعد میں علم ہوا ۔۔اور یہ بھی کہ فہد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر علی کی پٹائی کی تھی"۔اسکی بات سن کر عرشی نے بے ساختہ  علی کی طرف دیکھا تو وہ نظرین چرا گیا۔

"یقین کرو میں اس شرمندگی کی وجہ سے تم سے ملتا نہیں تھا۔مجھے تو کبھی بھی علم ناں ہوتا اگر فہد خود ناں بتاتا۔"فواد نے  شرمندہ ہوتے ہوئے علی سے کہا

"کوئی بات نہیں یار۔"علی نے بیک مرر سے فواد  کو دیکھتے ہوئے کہا


"فہد علاج کے لئے برطانیہ چلا گیا ہے۔اسے کینسر ہوگیا ہے۔وہ جانے سے پہلے تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن تم پاکستان میں نہیں تھے۔"اسنے  کہا 

"اللہ شفا دے"۔علی نے جواب دیا

"بس بھائی یہاں روک دیں"۔اچانک ہنزہ نے کہا تو اسنے گاڑی روک دی۔

وہ لوگ اسکاشکریہ ادا کرتے گاڑی سے اتر گئے تو اسنے گاڑی عرشی کے گھر کی طرف موڑی۔

مطلب انکو  جو مارا گیا تھا وہ میری وجہ سے مارا تھا؟ باقی کا تمام راستہ وہ یہی سوچتی گئی۔

اچانک گاڑی جھٹکا کھا کر رکی  تو وہ خیالات سے باہر آئی اور کھڑکی سے باہر دیکھا 

سامنے ہی اسکا گھر تھا۔۔وہ خاموشی سے اپنا سیلٹ بیلٹ کھولنے لگی تو علی نے کہا


"تو پھر تمہیں واقعی کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر میں کسی اور سے شادی کر لو؟ " وہ اسکی بات سن کر سیلٹ بیلٹ کھولنا بھول گئی تھی۔

"مطلب  آپ دوسری شادی کرناچاہتے ہیں ؟"اسنےدھڑکتے دل کے ساتھ  پوچھا۔

"ہاں"۔علی نے اسکے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھ کر  اثبات میں سر ہلایا تو وہ خاموش سی اسے دیکھے گئی۔

"لیکن میری بیوی کو مجھے شئیر کرنا پسند نہیں ہوگا۔"اسنے عرشی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر  مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا


"تو پھر جو آپکا دل کرے وہ کریں۔"کہہ کر جلدی جلدی سیلٹ بیلٹ کھولنے لگی۔لیکن آنسووں کی وجہ سےایک تو  آنکھوں  کے سامنے اندھیرا آرہا تھا اور پھر غصے کی وجہ سے ہاتھ بھی کپکپارہے تھے۔اسلئے وہ کھل ہی نہیں رہاتھا۔

اسنے ایک نظر اسکے کپکپاتے ہاتھوں پر ڈالی اور  پھر اسکا آنسووں سے تر چہرہ دیکھا جو اب لال ہو رہا تھا۔تو بے ساختہ  اسکا بازو پکڑا

"آپ کی ہونے والی بیوی میرا بازو پکڑنے پر بھی ناراض ہو گی"۔عرشی نے کہتے ہوئے اسکا  ہاتھ اپنے بازو سے ہٹانا چاہا


"ہاں کیا کرو۔جیلس بھی تو بہت ہوتی ہے۔"کہتے ہوئے اسکے آنسو صاف کئے۔

"میں کیا کرو۔اسی کو جاکر بولیں "۔۔کہتے ہوئے اسنے اپنا چہرہ  کھڑکی طرف موڑا۔وہ اسکے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔


"اسی کو تو بول رہا ہونکہ جیلس ناں ہوا کرو۔یقین رکھا کرو مجھ پر۔نہیں  چھوڑ سکتا تمہیں کبھی بھی۔اور نہ ہی کوئی تمھاری جگہ لے سکتا۔"اسنے مسکراتے ہوئے کہا

"آپ  مجھے پاگل بنا رہے ہیں۔"وہ اسکی بات سن کر بولی۔

"نہیں یار بنی بنائی پاگل کو میں کیا بناو۔"علی نے ہنستے ہوئے کہا

"آپ  سچ کہہ رہے کہ آپ  کی لائف میں میرے علاوہ کوئی نہیں۔"عرشی نے پوچھا

"میری آنکھوں میں دیکھ لو"اسنے الٹا اس سے  کہا تو وہ سر جھکا گئی۔

پھرکچھ یاد آنے پر سر اٹھا یا اور کہا

"آپ مجھ سے اتنا ناراض کیوں تھے؟"


"مجھے غصہ تھا ناں۔تم نے ہماری باتیں پاپا سے کی تھیں۔تمہیں جو پوچھنا تھا مجھ سے پوچھتیں۔"اسکی بات سن کر اسنےدوبارہ  شرمندگی سے سر جھکالر کہا

"مجھے معاف کر دیں۔"

"آپ سے ناراض کون رہ سکتا ہے"۔۔علی نے ہنستے ہوئے کہہ کر جیب سے اسکا بریسلیٹ نکالا۔اور اسکا ہاتھ پکڑ کر پہنانے لگا۔


"ایسا میرے پاس پہلے بھی تھا۔پھر وہ کہی گر گیا  تھا۔"عرشی نے بریسلیٹ  کے نگوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا

"یہ تمھارا ہی ہے۔میری ہی گاڑی میں تم سے گرا تھا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلا تھا"۔۔اسنے مسکراتے ہوئے بتایا تو وہ شرمندہ ہو کر دروازہ کھول  گاڑی سے اتری اور پھراچانک یاد آنے پر اسے کہا

"آپ نہیں آئیں گے ؟"


"نہیں اب ایک ہی دفعہ آونگا رخصتی کرانے"۔وہ کہہ کر گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔جبکہ وہ وہی کھڑی اسکی گاڑی کو دور جاتا تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔

"پھر وہ مسکراتی ہوئی اپنے گیٹ کی طرف اس یقین سے بڑھی کہ  اب دنیا کی کوئی طاقت انہیں جدا نہیں کر سکتی۔۔کیونکہ اسکا ہمسفر اسکے ساتھ تھا۔اور وہ اسکے دل میں بستی تھی۔"


"دوسری طرف علی  کو  یقین ہو چلا تھا کہ وہ چاہے تو بھی عرشی سے پیار کرنا نہیں چھوڑ سکتا۔"وہ سوچ  کر مسکرایا  اور گاڑی کی رفتار بڑھائی۔ابھی اسنے اپنی سب اپنوں کو بتانا  تھا کہ اسنے ملال نہیں خریدا بلکہ اپنی محبت کو کامران کر دیا تھا۔


غلط فہمی نےانکے یقین اور پیار کو دیکھ کر  اپنے پر سمیٹ  کرکہی اور اڑان بھری تھی۔جبکہ محبت  وہی کھڑی اپنی جیت پر فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

The End.


Thank u everyone jin hone is Khani ko pra, comments kiye, vote diye sab ka behad shukriya..

Agr ap ko content and an aya ho ya meri writing style to u can tell me in comment box..me bill mind nhi Kru gi😂.

Actually, it will improve my writing skill.

Love u all...💗💗


Post a Comment

2 Comments