Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 3

Yaadghaar lamhe:


Yaadghaar lamhe


"تم لوگوں کو پتہ ہےکل میں اسٹاف روم میں گئی تھی تو
 مس شمیم مس تبسم سے کالج کی کسی لڑکی کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔"عرشی نے بتایا 

"کیا بات" ؟ فری اور اقصی نے پوچھا 

"یار پتہ نہیں کالج کی ہی کسی لڑکی کا کہہ رہی تھی کہ انھوں نے اسے کسی لڑکے کے ساتھ بائیک پر جاتے دیکھا ہے۔"عرشی نے کہا 

"وہ لڑکا اسکا بھائی بھی تو ہو سکتا ہے"۔اقصی نے کہا 

"ہاں ناں۔پتہ نہیں یار کس قسم کی سوچ ہے انکی۔تعلیم نے انکی شخصیت پر کوئی اثر نہیں کیا ۔"فری نے کہا

"میں تو یہ سوچ رہی ہونکہ انکو ہر لڑکی بد کردار لگتی ہے۔جو لڑکیاں ابائے کے بغیر آتی ہیں انکو یہ بے حیا کہتی ہیں۔

اور بد قسمتی سے کوئی لڑکی انکے سامنے موبائل استعمال کر لے تو انکو لگتا ہے کہ لازمی کسی لڑکے سے بات کر رہی ہے۔"عرشی نے کہا 

"پڑھی لکھی جاہل عورت کی زندہ مثال ہمارے کالج میں ہے"۔فری نے کہا 

اتنے میں انھیں شور کی آواز آئی۔

"یار یہ کیا ہو رہا ہے"؟عرشی نے کہا 

"آو کسی بھانے چل کر معلوم کرتے ہیں۔"اقصی نے کہا 

"نہیں یار۔میں نہیں جا رہی۔"عرشی نے کہا 

"ہم لوگ واش روم کے بھانے سے باہر کا چکر لگا کر آتے ہیں"۔فری اور اقصی نے کہا

تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ واپس آئیں۔

"تمہیں معلوم ہے سر عباس اور مس شمیم کی لڑائی ہو رہی ہے۔"فری نے کہا 

"ہیں ؟ کس بات پر ؟ "عرشی نے کہا 

"یار بات سمجھ نہیں آئی ہے۔ہم نے سننے کی بڑی کوشش کی۔لیکن سر بہت غصے میں ہیں۔"اقصی نے کہا 

اتنے میں مس منزہ کلاس لینے آگئیں تو وہ لوگ سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

کالج آف ہونے پر وہ جیسے ہی کالج گیٹ سے باہر نکلی تو اپنے والد کو گاڑی کے سامنے کھڑے پایا تو وہ فورن انکی طرف بڑھی۔

"میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا تمھیں پک کر لو۔"انھوں نے کہا 

تو وہ ہنس دی۔اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔

اسکے بیٹھتے ہی انھوں نے گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔

اچانک جاوید صاحب کی نظر آئسکریم پارلر پر پڑی تو انھوں نے اسے کہا 

"ائسکریم کھاو گی ؟ "

"بلکل۔ نیکی اور پوچھ پوچھ ۔"وہ ہنس کر بولی تو انھوں نے گاڑی سائیڈ پر روک دی۔

وہ اسے ساتھ لیکر آئسکریم پارلر کی طرف بڑھے۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ اپنی مطلوبہ آئسکریم کھا رہے تھے۔اچانک ایک صاحب انکی ٹیبل کے پاس آے۔

جاوید۔۔۔۔۔۔انھوں نے پکارا 

تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی ہی گرمجوشی سے گلے ملے۔

"عرشی نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

"یہ تمھاری بیٹی ہے ؟" انھوں نے اسے دیکھتے ہو ئے پوچھا

"ہاں۔"جاوید صاحب نے جواب دیا 

"یہ تو بہت چھوٹی تھی جب میں پاکستان سے گیا تھا"۔انھوں نے کہا

"بچے جوان ہو گئے ہیں۔ہم بوڑھے ہو گئے ہیں"۔عرشی کے والد نے ہنستے ہو ئے کہا 

"پاپا" ۔۔۔۔۔اتنے میں ایک لڑکاانکے قریب آیا 

"یہ میرا بیٹا ہے علی۔اور یہ میرا بچپن کا دوست جاوید ہے۔"

انھوں نے تعارف کرایا تو علی نے آگے بڑھ کر جاوید صاحب سے مصافحہ کیا ۔

"کبھی آو ناں میرے گھر۔بلکہ ابھی چلو"۔حسین صاحب نے کہا 

جب حسین صاحب کسی صورت نہ مانے تو آخر کار جاوید صاحب انکے گھر کی طرف چل پڑے۔

تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد وہ انکے گھر میں بیٹھے تھے۔

گھر آتے ہی علی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا ۔

"انکے گھر میں کتنا سناٹا ہے ۔۔بلکل موت سا سناٹا۔۔"عرشی نے دل میں سوچا 

"بیٹا آپ کیا کرتی ہو؟" انھوں نے اس سے پوچھا 

"میں A.d.e کر رہی ہوں۔"اس نے جواب دیا 

"کون سا سیمسٹر ہے ؟"انھوں نے پوچھا 

"تیسرا"۔اسنے جواب دیا 

"بھابھی کہاں ہیں"؟جاوید صاحب نے پوچھا 

"دو سال پہلے اسکا انتقال ہوا ہے۔"حسین صاحب نے بتایا 

"اتنے میں علی کچھ اسنیکس اور جوس لیکر وہاں آیا ۔"

"آو بیٹا ۔تم بھی بیٹھو"۔جاوید صاحب نے خوش اخلاقی سے کہا 

مجھے آفس سے ایک ضروری کال آنی ہے"۔اسنے مسکراتے ہوئے کہا

اتنے میں اسے کال آئی تو وہ باہر چلا گیا ۔

"جاوید اور حسین صاحب پچھلی یادوں کو تازہ کرنے لگے تو اسے بھول ہی گئے کہ وہ بھی وہاں ہے۔"

وہ کچھ دیر ڈرائنگ روم میں لگی پینٹنگ کو دیکھتی رہی پھر اسنے "گلاس ونڈو سے باہر دیکھا جہاں رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھارہے تھے۔"

اچانک حسین صاحب کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے خالی گلاس پر پڑی تو انھوں نے کہا 

"لو تمھارا جوس تو ختم ہو گیا "۔

"رکو میں اور منگواتا ہوں۔انھوں نے کہا اور اپنے بیٹے کو آواز دی۔"

ایک بار ،دو بار ،تین بار۔

"شاید بہرہ ہو گیا ہے انکا بیٹا"۔عرشی نے دل میں سوچا۔

جب کوئی جواب موصول نہ ہوا تو وہ خود اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا 

"لاو ۔میں خود لا کر دیتا ہوں۔"

"نہیں انکل ۔بس"۔۔۔اسنے کہا 

"جاو بیٹے آپ خود کچن سے لے لو۔"اتنے میں اسکے والد صاحب نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بیٹے۔یہاں سے نکل کر سیدھی جانا۔الٹے ہاتھ پر ہی کچن ہے۔اور جوس فریج میں ہوگا۔"حسین صاحب نے اسے زبانی بتایا تو وہ سر ہلادی۔

کچھ ہی دیر کے بعد وہ انکے کچن کے سامنے کھڑی تھی۔

"اسے عجیب بھی لگ رہا تھا یوں کسی دوسرے کے گھر کے کچن میں آنا۔

لیکن خیر۔اسنے تمام سوچوں کو جھٹکتے ہو ئے اسنے فریج کھولا ۔

سامنے ہی جوس سے بھرا جگ رکھا تھا ۔"

"اسنے جگ نکالا اسی وقت اسکے پاوں پر سے کچھ گزرا۔"

"جب اسنے اپنے پاوں کی طرف دیکھا تو اسے چوہا بھاگتا نظر آیا۔

چوہے کو دیکھتے ہی اسکی چیخ نکل گئی ۔اور ساتھ ہی جگ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔"

"علی جو ابھی ہی کال سن کر اندر آیا تھا ۔زنانہ چیخ سن کر وہ آواز کی سمت بھاگا ۔جبکہ جاوید اور حسین صاحب بھی چیخ کی آواز سن کر کچن کی طرف بھاگے۔"

"وہاں جاکر انھوں نے دیکھا کہ وہ فریج کے سامنے کھڑی ہے۔اور تمام جوس زمین پر گرا ہوا ہے۔"

"کیا ہوا ہے ؟ "جاوید صاحب نے پوچھا 

"وہ بابا ۔۔۔بابا چوہا تھا۔۔میرےپاوں کے اوپر سے گزرا تو میری چیخ نکل گئی۔"

وہ بولتے بولتے روہانسی ہو گئی۔

"توجاوید صاحب اور حسین صاحب مسکرانے لگے۔"

"اچھا بیٹا ۔چلو آو کمرے میں"۔حسین صاحب نے کہا 

تو وہ انکے ساتھ چلدی۔باقی پیچھے علی کھڑا رہ گیا ۔

"پاپا نے تو مجھے نوکر سمجھ لیا ہے۔۔۔

مہارانی صاحبہ نے ایک تو پورا جوس گرا دیا ہے۔اب اسے صاف کون کرے گا۔

چوہا ہی تھا ۔اسے کھا تھوڑی جاتا "۔وہ بڑ بڑایا 

پھر صفائی کرنے لگ گیا ۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ اس وقت بیٹھا کچھ فائلز دیکھ رہا تھا۔جب حسین صاحب ان دونوں کے جانے کے بعد اسکے کمرے میں آئے۔

"کام ختم نہیں ہوا تمھارا ؟" انہوں نے پوچھا 

"ہو جاتا اگر وہ مہا رانی جوس نہ گراتی اور نہ مجھے صفائی کرنی پڑتی۔"اسنے کہا 

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی پھوپھو کے گھر میں بیٹھی مصباح اور ارسلان سے باتیں کر رہی تھی۔

"اچانک اسنے کہا واک کے لئے چلیں؟"

"ہاں ہاں باجی" ۔ارسلان نے فورن اسکی تائید کی۔

"وقاص کے گھر آنے سے پہلے گھر آجانا "۔ماجدہ بیگم نے کہا تو وہ لوگ سر ہلا گئے ۔

"باجی فالودہ کھائیں گیں" ؟ارسلان نے کہا 

"تم کھلا دو تو مہر بانی"۔عرشی نے کہا تو وہ ہنس دیا پھر کہا 

"آئیں چلتے ہیں ۔میرا بھی دل کر رہا ہے۔"وہ انھیں شاپ میں لیکر چلا گیا۔۔

شاپ میں تین ٹیبلز رکھے تھے۔وہ لوگ بھی ایک ٹیبل پر جاکر بیٹھ گئے۔

"اچانک عرشی نے سامنے دیوار پر لگے پرائز بورڈ کو دیکھا ۔مصباح اور ارسلان کی اس طرف پیٹھ تھی ۔اسلئے وہ اب تک پرائز بورڈ نہ دیکھ سکے تھے۔"

"اٹھو"۔عرشی نے کہا 

"کیوں کیا ہوا؟" مصباح اور ارسلان نے بیک وقت پوچھا 

"یار یہ جگہہ بہت مہنگی ہے۔ہم پرس بھی نہیں لائے"۔اسنے کہا ۔

"تمھیں کیسے پتہ "؟مصباح نے کہا 

"پیچھے دیوار پر دیکھو۔پرائز بورڈ لگا ہے"۔اس نے کہا تو مصباح نے بھی پیچھے مڑ کے دیکھا 

"سچ میں یار۔ارسلان اٹھو۔"مصباح نے کہا 

"نہیں۔کو ئی نہیں اٹھے گا۔میری بے عزتی ہو گی"۔ارسلان نے کہا 

"یہ کون سا ہمارے رشتہ دار ہیں۔دفع کرو اٹھو"۔عرشی نے کہا

"ڈش واش کر نے سے بہتر ہے بندہ اٹھ جائے"۔مصباح نے کہا اتنے میں ویٹر آرڈر لینے آگیا۔

"تو ارسلان نے تین فالودوں کا آرڈر دے دیا ۔"

"آرڈر توتم نے دے دیا ہے۔پیسے ہیں تمھارے پاس؟" عرشی نے پوچھا 

"ہاں ہیں"۔اسنے کہا

"نکالو۔گنو"۔مصباح نے کہا 

تو وہ پیسے گننے لگ گیا ۔

"شکر ہے پورے ہیں"۔اسنے کہا تو ان لوگوں نے بھی سکون کا سانس لیا ۔

اتنے میں ویٹر فالودوں کے گلاس لیکر آکر گیا تو وہ لوگ فالودہ کھانے لگ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

"شکر ہے عزت رہ گئی ہماری۔"مصباح نے چلتے ہو ئے کہا 

"ارسلان کے بچے کو میں کہ رہی تھی اٹھو۔یہ اٹھ ہی نہیں رہا تھا"۔عرشی نے کہا 

"اسے بے عزت ہونے کا شوق تھا ۔"مصباح نے کہا 

"جلدی چلو۔بھائی گھر آنے والے ہونگے"۔ارسلان نے کہا 

اتنے میں اسکا موبائل بجنے لگ گیا ۔اسنے نمبر دیکھا اور کہا 

"بھائی کی کال ہے۔"

"مت ریسیو کرو"۔مصباح نے مشورہ دیا۔

"ڈانٹیں گے وہ"۔کہہ کر ارسلان نے کال ریسیو کر لی۔

"بھائی آرہے ہیں"۔اسنے کال ریسیو کر کے کہا 

"جلدی آو۔"وقاص نے کہا 

تو اسنے "جی" کہہ کر کال بند کر دی۔

"تیز تیز چلو۔بھائی غصے میں تھے"۔اسنے ان لوگوں سے کہا تو وہ لوگ تیز تیز چلنے لگے۔

وہ لوگ گھر پہنچے تو وقاص لاونج میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔

انھیں دیکھا تو فورن ارسلان کے پاس آیا۔

"تم انھیں اتنی رات گئے وہاں لیکر کیوں گئے" ؟ اسنے ارسلان کو کہا 

"میں نے کہا تھا ۔اسلئے وہ لیکر گیا تھا"۔عرشی نے کہا 

تو وقاص خاموش ہو گیا ۔

"تمہیں کیوں جانا تھا ادھر"؟ وقاص نے عرشی سے کہا 

"کونسا گناہ کیا ہے ہم نے جو تم اتنا شور مچا رہے ہو؟ جاکر آنا تھا تو ہم بھی ہو کر آگئے۔"عرشی نے جواب دیا

"وہ جگہ ٹھیک نہیں ہے یار"۔وقاص نے کہا 

"اب تو آگئے ناں ہم "۔عرشی نے کہا 

"ویسے آپ چڑیل ہمارے یہاں کب آئیں "؟ وقاص نے کہا

"شام میں آئی تھی"۔اسنے کہا

"تم لوگوں کو ایک بات بتاو؟"

"تمھارے یہ بھائی جو ابھی فوں فاں کر رہے ہیں یہ امریکی افریقی مکس لڑکی کے پیار میں گودے گودے ڈوب چکے ہیں۔"عرشی نے ارسلان اور مصباح کو بتایا 

"عرشی کی بچی۔اعلان کر دو تم۔"وقاص نے کہا 

"بھائی یہ سچ ہے" ؟ مصباح نے پوچھا 

"نہیں یہ جھوٹ بول رہی ہے"۔اسنے کہا 

"یہ خود سب سے بڑا جھوٹا ہے۔اسنے خود مجھے اسکی تصویر دکھائی تھی۔"عرشی نے کہا 

"کس نے کس کو کس کی تصویر دکھائی تھی" ؟ ماجدہ بیگم نے پوچھا 

"کچھ نہیں امی۔وہ ایک کالج گروپ فوٹو میں نے عرشی کو دکھائی تھی۔اسکا بول رہی ہے یہ"۔۔اسنے عرشی کو آنکھیں دکھاتے ہوئے اپنی والدہ کو جواب دیا ۔

"اچھا اچھا۔۔اور تم لوگوں نے سونا نہیں ہے کیا ؟"

" چلو اٹھو۔اپنے اپنے کمروں میں جاو۔"انہوں نے کہا 

"عرشی باجی اتنے عرصے بعد آئیں ہیں۔آج ہم سب مووی دیکھیں گے"۔ارسلان نے کہا 

"نہیں مووی نہیں۔بلکہ ہم آج ایک دوسرے کو ڈرونے قصے سنائیں گے"۔۔عرشی نے کہا 

"اور پھر چیخیں ماریں گے"۔ارسلان نے جملہ پورا کیا

"تم سے کسی انسانی کام کی امید رکھنا گناہ ہے عرشی"۔وقاص نے کہا 

"کیا کرو۔تمھاری صحبت کا اثر ہے"۔اسنے کہا 

"ارسلان میرے روم میں سے کسی فنی مووی کی سی ڈی لے آو۔"وقاص نے کہا 

تو ارسلان سر ہلاتا چلا گیا۔

"ویسے وقاص تم فنی مووی مت دیکھا کرو"۔اس نے بڑی ہی سنجیدگی سے مشورہ دیا 

"کیوں" ؟ وقاص نے ایک آبرو اٹھا کر اس سے پوچھا 

"تمہاری حرکتیں بھی تو بلکل بندروں جیسی ہیں اسلئے تم فنی موویز کو دیکھنے کے بجائے خود کو کو شیشے میں دیکھ لیا کرو"۔۔اسنے کہا 

"کیا کروں۔آپ سے ہی تو سیکھا ہے سب۔آپ میری گرو ہیں۔اگر میں بندر تو بندریا تو آپ بھی ہیں۔"۔وقاص نے بھی تاک کر جواب دیا۔

"بھائی مجھے نہیں مل رہی سی ڈی"۔اتنے میں ارسلان کی آواز آئی

"میں لیکر آتا ہوں"۔وہ کہتا ہوا اٹھ کر سی ڈی لینے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"تم ایک دن کا کہہ کر گئی تھی۔اب تین دن ہو رہے ہیں۔

کب آو گی ؟" وہ اقصی کا میسج پڑھ کر بے ساختہ مسکرائی۔

"کل آونگی"۔اس نے جواب دیا۔

"لازمی آنا "۔اس نے کہا 

"اوکے۔۔۔ اور سناو "۔عرشی نے لکھا 

"مس روبینہ کہہ رہی تھیں کہ عرشی آجائے تو ٹیچنگ پریکٹس کے لئے تم سب کو بھیجوں گی"۔

اسنے مزید بتایا۔

"اچھا"۔۔۔عرشی نے کہا 

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"وقاص کل مجھے گھر چھوڑ آنا۔"عرشی نے وقاص کو کہا 

"کیوں؟ اتنے دنوں کے بعد آئی ہو۔ابھی اور رہو ناں "۔مصباح نے کہا 

"یار کالج میں کام ہے ضروری۔"اس نے بتایا 

"ایسا کرو تم بھی کل میرے ساتھ ہمارے یہاں چلو۔"عرشی نے کہا 

"ہاں چلی جاو۔جا کر رہ آو"۔۔ماجدہ بیگم نے کہا 

"میں بائیک پر لے کر جاونگا"۔وقاص نے کہا 

"ہاں تا کہ ہمیں کہیں گرا دو اور پھر کہو کہ یہ لوگ خود گری ہیں تو وہ ہنسنے لگ گیا۔"

"ارے واہ تم تو میرے خفیہ عزائم سے واقف ہو"۔وقاص نے کہا 

"تمھاری دودھ شریک بہن جو ہوں"۔اسنے کہا 

"ویسے ایک بات بتاو "؟۔عرشی نے کہا 

"فرماو"۔وقاص نے کہا 

"تمہاری لو اسٹوری کا کیا بنا "؟ عرشی نے پوچھا

"کیا بننا ہے اسکا ؟ چل رہی ابھی تو"۔اسنے جواب دیا

"مجھے کبھی اس سے ملوانا "۔عرشی نے کہا 

"ہاں تاکہ بریک اپ ہو جائے پچھلی دفعہ کی طرح"۔وقاص نے کہا 

"اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔"اس نے کہا 

"مجھے مت یاد دلاو ماضی کو۔جب تم نے میرا بریک اپ کرایا تھا"۔وقاص نے کہا 

تو وہ ہنسنے لگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"چلو تم لوگ تیار ہو جاو"۔اگلے دن وقاص نے ان دونوں کو کہا 

اتنے میں ماجدہ بیگم وہاں آئیں۔

"وقاص ان دونوں کو بائیک پر مت لیکر جانا ۔دونوں کو ٹھیک سے بیٹھنا نہیں آتا۔

جاو ۔جاکر ٹیکسی لے آو۔تو وہ ٹیکسی لینے چلا گیا ۔"

"تم لوگ جلدی سے تیار ہو جاو۔ورنہ اسنے آکر جلدی جلدی کا شور مچانا ہے"۔ماجدہ بیگم نے کہا

"جی پھوپھو"۔عرشی نے کہا 

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"آگئیں آپ"؟ان دونوں نے عرشی کو کلاس میں آتے دیکھا تو کہا

"جی"۔۔عرشی نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور اپنی جگہ پر آکر بیٹھی۔

"ہم تو سمجھے تم مر مرا گئی ہو"۔۔اقصی نے طنزیہ کہا 

"نہیں۔تمھاری شادی کے بعد ہی مروگی"۔عرشی نے ہنستے ہوئے جواب دیا 

"اچھا سنو یہ نوٹس کل سر نے دئیے تھے اور یہ مس تحسین نے"۔فری نے اسکی طرف کچھ نوٹس بڑھاتے ہو ئے کہاجو اس نے لیکر رکھ دئیے۔

"اور کتنا کام ہوا ہے ؟" عرشی نے پوچھا 

"یہ سارا کام ہوا ہے۔"اقصی نے اپنی نوٹ بک اسکے آگے کرتے ہوئے کہا 

اتنے میں مس روبینہ انکی کلاس میں آئیں۔تو وہ لوگ خاموش ہو گئیں۔

"یہ بلیک بورڈ آپ لوگوں نے کیوں نہیں صاف کیا؟" مس نے کہا پھر وہ عرشی کی طرف مڑیں۔ 

عرشی میرے پیریڈ میں یہ آپکی زمہ داری ہے کہ آپ نے میرے آنے سے پہلے بلیک بورڈ صاف کرنا ہے۔انھوں نے کہا 

"جی مس"۔اس نے جواب دیا۔

"پیریڈ آف ہونے سے پہلے انھوں نے پھر یاد دہانی کرائی کہ کل سے ٹیچنگ پریکٹس شروع ہو رہی ہے۔اسلئے کوئی بھی چھٹی نہ کرے۔سب لازمی آئیں تو ان سب نے سر ہلادیا ۔"

"یار میں تو یہاں سے آتی بھی نہیں ہوں۔مجھے وہ ٹریننگ سینٹر بھی نہیں معلوم جہاں ہم نے ٹیچنگ پریکٹس کے لئے جانا ہے۔"فری نے کہا

"مجھے بھی نہیں معلوم۔"عرشی نے کہا

"مجھے معلوم ہے"۔اقصی نے کہا 

"ایسا کرو تم دونوں کل یہاں کالج میں ہی آنا۔یہی سے ہم تینوں مل کر وہاں جائیں گے۔"اقصی نے کہا

جسے سن کر ان دونوں نے سر ہلا دیا۔

"اگلے دن مقررہ وقت پر فری اور اقصی کالج کے سامنے کھڑی عرشی کا انتظار کر رہیں تھیں۔ "

"آخر کار اللہ اللہ کر کے عرشی آئی ۔"

"کہاں رہ گئی تھی تم"۔انھوں نے عرشی سے کہا 

"یار صبح آنکھ ہی دیر سے کھلی"۔اسنے بتایا 

"رات کو دیر سے سو گی تو یہ تو ہونا ہے"۔فری نے کہا 

"چلو اب۔"اقصی نے کہا 

"یہاں سے پیدل چلنا ہے" ؟فری نے پوچھا 

"ہاں"۔اقصی نے سر ہلایا 

تو وہ لوگ سڑک کے کنارے پیدل چلنے لگیں۔

"باجی اللہ کے نام پر دے دو "۔ایک چھوٹی بچی نے فری سے کہا

"کھلے پیسے نہیں ہیں"۔اسنے بچی کو کہا

"آپ دے دو باجی۔اب وہ اقصی سے مانگ رہی تھی"۔

"بیٹا آپکو کہا تو ہے کھلے پیسے نہیں ہیں"۔فری نے کہا

"ورنہ ہم تمھیں کیا پیدل چلتے نظر آتے"۔اس دفعہ اقصی نے کہا

"باجی اللہ کا واسطہ ہے۔تم دے دو پیسے۔اللہ تمھارے نصیب اچھے کرے۔تم جسے چاہتی ہو وہ تمھیں ملے"۔خیرات مانگنے والی نے کہا

عرشی نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

"باجی آج تو ویلنٹائن بھی ہے"۔اس فقیرنی نے پھر عرشی کے آبائے کو پکڑتے ہوئے کہا

"ان دونوں کے پاس تو کھلے نہیں ہیں۔میرے پاس تو ہیں ہی نہیں۔ایسا کرو تم مجھے پیسےدے دو" ۔عرشی نے اس سے کہا 

"اس فقیرنی نے ہاتھ میں پکڑا پھول جو اس نے کسی کے گھر کے سامنے سے اٹھایا تھا وہ عرشی کو دےدیا ۔"

"جسے لیکر پہلے تو عرشی ہنستی رہی اور پھر اسنے دس روپے نکال کر اس بچی کو دئیے۔تو تب کہی جاکر اسنے ان لوگوں کی جان چھوڑی۔"

گاڑی میں جاتے علی نے عرشی کو فقیرنی سے پھول لیتے دیکھا تو ہنس دیا۔

یہ لڑکی واقعی بلکل پاگل ہے۔اسنے سوچتے ہوئے سائیڈ مرر سے پھر اسے دیکھا جو اب بچی کو پیسے دے رہی تھی۔

اس سے کسی بھی بات کی امید رکھی جا سکتی ہے۔اسنے سوچا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"وہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔مجھے تو ڈر تھا کہ لوگ اسے ہماری بہن نہ سمجھ لیں۔"اقصی نے کہا 

"ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اب تم لوگ دیکھو 

کبھی سوچا تھا کہ ایک فقیرنی سے ویلنٹائن پر مجھے پھول ملے گا۔"عرشی نے کہا 

"لوگوں کو لڑکوں سے پھول ملتے ہیں۔اور تجھے فقیرنی نے دیا ہے"۔اقصی نے کہا

"بس بہن نصیب اپنا اپنا" ۔۔۔عرشی نے کہا 

اتنے میں انکے ٹریننگ سینٹر کی گلی آچکی تھی۔

Post a Comment

0 Comments