Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyaar epi 8

 Ajab Pyaar:

Ajab pyaar episode 8

    قسط

وہ جیسے ہی لاونج میں داخل ہوئی سامنے ہی شائستہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔اسکی حالت دیکھ کر فورن اسکی طرف بڑھی۔

"کیا ہوا ہے زرتاشہ ؟"انہوں نے اسے اسکے بازو سے پکڑ کر پوچھا  تب تک زریاب بھی وہاں پہنچ چکا تھا۔

اسے دیکھا تو  کہا

"کیا ہوا ہے ؟ کہاں سے آرہے ہو تم دونوں ؟" وہ ابھی زریاب سے پوچھ ہی رہی تھیں کہ زری  اپنے بازو سے انکا ہاتھ ہٹا کر اپنے کمرے کی طرف تیز قدموں سے چلی گئی  ۔

انہوں نے حیرت سے  اپنے  بیٹے کو دیکھا تو زریاب نے  نرمی سے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا

"کچھ نہیں ہوا مما۔وہ اپنے والد سے ملنا چاہتی تھی  اور میں اسے وہاں لے گیا تھا"۔۔اسکی بات سن کر انہوں نے پوچھا

"پھر کیا ہوا؟" تو زریاب نے  کہا

"وہ اس سے ملنا نہیں چاہتے۔آپ جاکر اسے دیکھیں۔"تو انہوں نے زریاب کا بازو پکڑتے ہوئے کہا

"میرے خیال سے اب تمہیں اسکو سمجھانا چاہیے۔۔تاکہ اسے لگے کہ  وہ اکیلی نہیں ہے"۔۔انکی بات پر وہ خاموشی سے سوچے گیا کہ اگر انکو علم ہو جائے کہ  وہ انکے بیٹے کے ساتھ رہنا ہی نہی چاہتی تو پھر کیا ہو ۔۔وہ اپنے ہی خیالوں میں  کھویا ہوا تھا جب انہوں نے اسکا بازو پھر سے ہلایا  تو وہ جی اچھا کہہ کر اسکے پیچھے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ  دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو  اسے کمرے میں  کہیں بھی زری دکھائی ناں دی ۔البتہ واش روم کی لائٹ آن  تھی تو وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔

وہ کافی دیر پانی کے چھپیٹے منہ پر مارنے کے بعد  تولیہ سے منہ صاف کرتی  واش روم سے باہر نکلی تو اسکی نظر صوفے پر  بیٹھے زریاب پر پڑی۔

اسے دیکھ کر زریاب نے کہا

"میرے خیال میں ہم دونوں کو   بات کرلینی چاہیے"۔۔تو  وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"دیکھو میں بات کو بلکل بھی نہیں گھماونگا"۔زریاب نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا 

"تمھارے ابوابھی بہت غصہ میں ہیں اور  تمہیں اپنے سامنے نہیں دیکھنا  چاہتے۔اور طلاق مجھے میرے گھر والے نہیں دینے دیں گے تو بہتر یہ نہیں ہے کہ  ہم دونوں انسانوں کی طرح  ایک دوسرے کے ساتھ تب تک رہ لیں جب تک تمھارے ابو تم سے راضی نہیں ہوجاتے اور شاید تب تک مما پپا کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ  ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے بہتر نہیں "؟اسکی بات سن کر زری نے   اسکی بات ناسمجھتے ہوئے زریاب کی طرف دیکھا تو  وہ بولا

"میرا  مطلب ہے کہ ابھی جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔مماپپا ولیمہ کرانا چاہتے ہیں کرانے دو۔۔تم یہاں اس گھر میں انکے ساتھ انکی بیٹی  بن کر رہو۔۔مجھے تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا اور ظاہر سی بات ہے تمہیں بھی مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔۔اور جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو تم اپنے راستے چل پڑنا اور میں اپنے راستے ۔لیکن یہ بات صرف ہمارے درمیان میں رہے"۔کہہ کر زریاب نے اسکا چہرہ دیکھا

"اور آپ جو کہہ رہے تھے کہ  آپ طلاق نہیں دے پائیں گے  اور ناں دیں گے" ؟ زری نے الجھتے ہوئے کہا تو وہ بولا

"کیا پتہ تب تک کوئی اور لڑکی میری زندگی میں آجائے اور مما پپا مان جائیں"۔اسکی بات سن کر وہ خاموشی سے اسے  دیکھے گئی اور پھر کہا

"اور اگر آپ نےمجھے طلاق نہیں دی تو ؟" اسکی بات پر زریاب کچھ لمحے سوچتا رہا اور پھر کہا

"میں تمہیں  اسٹامپ  پیپر پر لکھ کر دے دونگا  کہ  جب  تمھارے ابو راضی ہو جائیں گے اور میں کسی کو پسند کرنے لگونگا  تو میں تمہیں طلاق دے دونگا۔اسکے علاوہ تمہیں اطمینا ن دلانے کے لئے میں اور کچھ بھی نہیں کر سکتا"۔وہ اپنی بات کہہ کر اسکی طرف دیکھنے لگا تو کچھ لمحے سوچنے کے بعد اسنے اثبات میں سر ہلایا۔۔

"ٹھیک ہے لیکن یہ بات صرف ہمارے درمیان رہے "۔زریاب نے کہا تو وہ سر ہلا دی اور پھر کہا

آپ اپنی بات سے مت مکرئیے گا۔تو وہ  سر ہلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے کا  اہتمام  ہوٹل میں  کیا گیا تھا۔۔وہ شاکنگ پنک  کلر کے خوبصورت سے لہنگے  میں ملبوس تھی جبکہ  زریاب نے بلیک کلر کا تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔

اور بجائے اسٹیج پر بیٹھنے کے  وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑاباتیں کر رہا تھا کہ  اسے  کسی نے کندھے پر تھپڑ مارا ۔۔

وہ چونک کر پیچھے مڑا تو سامنے توثیق اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا تھا۔۔

"اوہو تم ہو"۔۔کہتے ہوئے وہ توثیق سے گلے ملا۔۔

جب وہ لوگ گلے مل کر پیچھے ہٹے تو توثیق کی بیوی شمسہ نےہنستے ہوئے کہا

"اور آخر کار ہمیں زریاب کے ولیمہ کا کھانا نصیب ہو ہی گیا۔"اسکی بات سن کر ہ خود بھی ہنس دیا تو وہ بولیں

"ویسے زریاب یہ لڑکی وہی نہیں ہے جس کو تم نے ہمارے گھر بھیجا تھا ؟"تو اسنے اثبات میں سر ہلایا اور کہا

"جی بھابھی کچھ ٹریجیڈی ہو گئی تھی  تو مجھے نکاح کرنا پڑا"۔۔تو انہوں نے کہا

"جو بھی ہے لڑکی ویسے تمھارے جوڑ کی  ہے۔جیسے تم ہینڈسم ہو ویسے ہی یہ بھی نازک سی ہے  تو وہ مسکرا دیا"۔

"آپ مما سے ملیں ؟" اسنے بات کو گھماتے ہوئے ان سے پوچھا تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا  تو وہ بولا

"آیئے میں  آپ کو مما کے پاس لے چلتا ہوں "تو   انہوں نے ہنستے ہوئے سر ہلایا اور کہا

"ہاں کیوں نہیں"۔تو وہ انکو ساتھ لیکر اپنی ماں کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

رات گئے  جب تقریب ختم ہوئی تو اسنے شکر ادا کیا۔

بیٹھ بیٹھ کر اسکی کمر اکڑ چکی تھی ۔

جیسے ہی وہ گھر پہنچی تو وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر اپنے کمرے کی طرف بڑھی اور سب سے پہلے تو بھاری زیور سے نجات حاصل کئے۔

پھر وارڈروب سے سادہ  لان کا سوٹ نکال کر  واش روم میں  چینج کرنے چلی  گئی۔

اور واپس آکر زیرو پاور کا بلب آن کر کے  صوفے پر تکیہ رکھ کر لیٹ  گئی۔اور کچھ ہی لمحوں میں سو گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"دریاب زریاب جاو اب سوجاو۔"شائستہ بیگم نے  دونوں کو لاونج میں بیٹھےٹی وی  دیکھتے  دیکھا تو کہا

انکی بات سن کر  دریاب نے ٹی وی آف کیا تو وہ  بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

"شب بخیر بھائی"۔۔۔دریاب نے کہا تو اسنے  بھی جوابن اسے شب بخیر کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے یہی سوچ رہا تھا کہ اگر  اس دن کی طرح  کمرہ لاک  ملاتو پھر کیا ہوگا؟

یہی سب سوچتے ہوئے وہ اپنے کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔اور پھر ناب  گھمایا۔

ناب گھماتےہی  اسکے  تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور دروازہ کھلتا  چلا گیا۔

وہ کندھے اچکاکر اندر داخل ہوا تو اسے زیرو پاور کی روشنی میں  صوفے پر لیٹی زرتاشہ دکھائی دی۔اسنے ایک نظر سوئی ہوئی زرتاشہ کو  دیکھا اور پھر الماری کی طرف بڑھ گیا۔

اپنے مطلوبہ کپڑے نکال  کر  وہ  بھی  واش روم کی طرف بڑھ گیا۔اور کچھ دیر بعدشاور لیکر  واش روم سے نکلا۔

گیلے  بالوں   مین انگلیاں چلاتے ہوئے اسنے سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھایا اور موبائل ٹارچ آن کر کے   پہلے تو جاکر  کمرے کا دروازہ لاک کیا اور پھر زیرو پاورکا بلب بھی آف کر کے  بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔

چونکہ وہ  بہت دنوں سے اپنے کمرے  کو مس کر رہا تھا اسلئے ایک سکون سا محسوس کرتے ہوئے لمحوں میں سوگیا۔

اسکی اچانک آنکھ کھلی تو چاروں طرف گھپ اندھیرا دیکھ کر  وہ لمحوں میں پسینہ پسینہ ہو گئی۔

اسکے اندر پچپن سے ہی اندھیرے کا ڈر موجود تھا۔اسلئے وہ  بلکل اندھیرا کر کے کبھی نہیں سوتی تھی۔۔

کچھ لمحے وہ  ساکت سی لیٹی رہی۔اسے محسوس ہو رہا تھا کہ  اسکی ٹانگوں میں جان نہیں رہی  لیکن پھر  آہستگی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

لیکن مسئلہ اب بھی وہی کا وہی تھا ۔ایک تو چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔اور دوسرا اسکے اندھیرے کا ڈر۔وہ پاوں صوفے پر اوپر  کرکےبیٹھ گئی اورسر گھٹنوں میں دیکر  دبی دبی سسکیوں سے رونے لگی۔۔

وہ ایسے ہی روتی روتی کب بیہوش ہوئی اسے علم ناں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الارم کی آواز پر  جیسے ہی اسکی آنکھ کھلی تو اسنے موبائل اٹھا کر پہلے تو الارم بند کیا اور پھر وقت دیکھا۔

صبح کے پانج بج رہے تھے۔

وہ کچھ دیر ایسے ہی لیٹا رہا اور پھر نما ز پڑھنے کے لئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

جماعت تو خیر نکل چکی تھی لیکن وہ گھر  میں ہی پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا اسلئے  موبائل کی ٹارچ آن کر کے موبائل کو بیڈ پر رکھا اور خود جیسے ہی واش روم کی طرف جانے کے لئے مڑا تو  اسکی نظر صوفے پر پڑی جہاں زری اسے آدھی  صوفے کے اوپر اور آدھی نیچے پڑی دکھائی دی   تو وہ کچھ پریشان  ہوا اور پھر  جاکر کمرے کی لائٹ آن کر دی۔

دوبارہ مڑ کر زری کو دیکھا تو  وہ اسی حالت میں تھی۔وہ فورن اسکی طرف  گیا۔

"زری"۔۔۔۔۔۔اسکے قریب پہنچ کر  زریاب نے اسکو آواز دی  لیکن اسکے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوئی ۔

ایک دو دفعہ آواز دینے کے بعد  اسے محسوس ہوا کہ یہ بے ہوش ہے تو وہ اسے اٹھا کر بیڈ  پر لے گیا۔

بیڈ پر لٹا کر وہ اسکے قریب ہی  بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ آواز میں اسے آواز دینے لگا۔۔

جب وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوا  تو آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔

جو بلکل انگاروں کی طرح تپ رہا تھا۔۔

وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا اور پھر  گلاس میں سے پانی لیکر چھینٹے اسکے منہ پر مارے ۔

تین چار  دفعہ  ایسا کرنے پر اسنے آنکھ کھولیں۔لیکن پھر دوبارہ بند کر گئی تو وہ  پریشانی سے اٹھا اور شائستہ بیگم کو بلانے نیچے  چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مما" ۔۔۔۔زریاب نے انکا کمرہ ناک کرتے ہوئے ساتھ آواز بھی دی۔

تو  شائستہ بیگم جو نما ز کے بعد بیٹھ کر ابھی  قرآن پڑھ رہی تھیں اسکی  آواز سن کر فورن دروازہ کھولا۔

زریاب نے انہیں دیکھا تو کہا

"زرتاشہ کی طبیعت خراب ہے۔آپ اسے دیکھ لیں"۔تو وہ اسکے پیچھے اسکے کمرے کی طرف بڑہیں۔

"زرتاشہ میری بچی"۔۔انہوں نے اسکا  سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے  کہا لیکن اس میں کوئی جنبش ناں ہوئی۔

"یہ تو انگاروں کی طرح تپ  رہی ہے"۔انہوں نے زریاب کو کہا تو وہ خاموش رہا۔

"تم ڈاکٹر کو بلا لاو اور میں نیچے سے پٹی اور ٹھنڈا پانی لیکر آتی ہوں"۔۔۔شائستہ بیگم نے اسے  کہا تو زریاب نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کہا

"ہم اسے خود ڈاکٹرکے پاس لے جائیں؟ڈاکٹر کو یہاں آنے میں وقت لگے گا۔"تو انہوں نے نفی میں سر ہلایااور  پھر کہا

سامنے والے بنگلے میں جو ڈاکٹر اعجاز ہیں انکو بلاو۔۔

تو  وہ انکو بلانے چلا گیا۔۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

"فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔بہت زیادہ زہنی اور جسمانی تھکن سے یہ بیمار ہوئی ہیں۔"

ڈاکٹر  نے تسلی دیتے  ہوئے  کچھ دوائیاں لکھی اور نسخہ  زریاب کو دیتے  ہوئے کہا 

"یہ میڈیسنز لے آئیں"۔ اور اپنے  میڈیکل باکس سے خوراک نکال کر انہیں دی اور کہا

"یہ ابھی کھلا دیں۔"تو سائستہ بیگم نے پوچھا

"اسے کب ہوش آئے گا؟"تو انہوں نے کہا

"فکر ناں کریں۔کچھ دیر تک ہوش میں آجائیں گی  یہ"وہ کہہ کر اپنا میڈیکل باکس اٹھا کر وہاں سے چلے گئے۔

انکے جانے کے بعد  وہ اپنا والٹ لیکر کمرے سے باہر جانے لگا تو شائستہ بیگم نے اسے پکارا

"کہاں جارہے ہو  زریاب "؟ تو وہ مڑا اور پھر کہا

"اسکی  میڈیسنز لینے"۔تو انہوں نے اچھنبے سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"لیکن اس وقت کونسی فارمیسی کھلی ہو گی"؟تو زریاب نے کہا

"ہسپتال میں تو کھلی ہوتی ہیں۔میں وہی سے لیکر آتا ہوں۔ورنہ فارمیسیاں  تو گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتی"۔وہ کہہ کر باہر نکل گیا۔اور وہ اسکے سر ٹھنڈی پٹیاں رکھنے لگیں۔

کافی خواری کے بعد آخر اسے ایک ہسپتال کی فارمیسی سےمیڈیسنز  ملیں تو وہ شکر ادا کرتا  گھر واپس آیا۔

اور جاکر میڈیسنز  شائستہ بیگم کو دیں  تو انہوں نے  ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق  اسے گولیاں کھلا دیں۔

وہ  پریشان حال وہی بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جب شائستہ بیگم نے اسے مخاطب کیا

"تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں "؟تو وہ چونکا

"نہیں مما۔"اسنے  جواب دیا 

تب ہی انہیں زری لے کراہنے کی آواز آئی  تو وہ اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔

و ہ تھوڑا سا اور جھکی تو انہیں سمجھ آیا کہ وہ پانی مانگ رہی ہے۔

انہوں نے سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھا کر  اسےاپنے سہارے پر بٹھاکر  پانی  پلایا  ۔

جب وہ پانی پی چکی تو انہوں نے کہا

"اور دوں ؟" تو زری نے  نفی میں سر ہلا دیا۔

"اب کیسی طبیعت ہے "؟انہوں نے پوچھا  

"میں ٹھیک ہوں"۔اسنے کہا اور پھر دوبارہ سے آنکھیں بند کر گئی۔

اسکی آنکھیں بند کرنے کے بعد وہ کچھ دیر وہی بیٹھی رہیں اور پھر اٹھ کر   اس پر چادرٹھیک کر کے باہر جانے لگیں تو زریاب نے کہا

"مما یہ اب ٹھیک ہے ؟"تو انہوں نے کہا 

"ہاں اب بے ہو شی میں نہیں ہے ۔سو رہی ہے۔تم بھی آجاو باہر۔"

تو وہ انکے ساتھ لاونج میں جاکر بیٹھ گیا۔

"ویسے میں ایک بات سوچ رہا  ہوں مما"۔اسنے پاس بیٹھی شائستہ بیگم سے کہا تو انہوں نے پوچھا

"کیا بات ؟" تو زریاب نے کہا

"یہی کہ  شادی شدہ زندگی واقعی خواری  ہے"۔تو انہوں نے ہنستے ہوے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا۔

۔۔۔۔۔۔*  ۔۔  ۔۔۔۔۔

"آیان اب میں چلتی ہوں۔"کومل نے اٹھتے ہوئے کہا

"اتنے دنوں کے بعد تو تم آئی ہو۔آیان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھاتے ہوئے کہا"

"بہت دیر ہو گئی ہے۔"اسنے وقت دیکھتے ہوئے کہا

"چلی جانا۔۔کیا جلدی ہے ؟"ایان نے پھر  اپنی بات دہرائی  تو وہ بولی

"آج کل تھوڑی سی گھر میں سختی ہے"۔اسکی بات سن کر وہ بولا

"خیریت؟" تو کومل نے اسے زرتاشہ کے بارے میں پوری  بات بتائی۔تو وہ بولا

"ہممم تو اب اسکو گھر سے نکال دیا ہے ؟" تو کومل نے کہا

"ہاں اور اسی وجہ سے  مجھ پر بھی سختی ہے "تو  آیان نے ہنکارا بھرا۔

"ہممم اچھا"۔۔آیان نے کہا تو  وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"چلو آو میں تمہیں ایک جگہ لیکر چلتا ہوں"۔اسکی بات سن کر وہ بولی

"دیر ہو جائے گی"تو آیان بولا 

"نہیں ہو گی۔آو"کہتا  اٹھ کھڑا ہوا تو چارو ناچار وہ بھی کھڑی ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

اسے وہاں رہتے سات ماہ ہو چکے تھے۔ اور وہ اب   وہاں  سب سے گھل مل چکی تھی۔

اس وقت بھی وہ لاونج میں بیٹھی ایک سنگنگ شو دیکھ رہی تھی جب دریاب وہاں آیا۔

دو منٹ  خاموش رہنے کے بعد دریاب نے کہا

"ویسے آپ ایک بتائیں "۔تو زری جسکی پوری توجہ شو کی طرف تھی اسنے مڑ کر اسے  دیکھا اور پھرکہا

"ہاں کیا  بات "؟ تو وہ بولا

"آپ کے دل کو خفقان   نہیں ہوتا ان لوگوں کی بے سری آوازیں  سن سن کر ؟میرے تو کانوں سے بس خون نکلنا باقی رہ گیا ہے "۔اسکی بات سن کر  پہلے تو وہ ہنستی رہی اور پھر اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا

"حد ہے دریاب ۔"تو وہ بولا

"سچی میں یار بھابھی۔ چھوڑیں ان شو کو دیکھنا۔۔میں آ پ کو  گانا سناتا ہوں ۔آپکا دل باغ باغ ہو جائے گا"۔ تو وہ بولی

"ناں  میرے  بھائی ناں ۔۔رحم کرو میرے کانوں پر"۔۔وہ دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر بولی

تب ہی  دریاب نے سیڑھیوں سے آتے زریاب کو دیکھا تو کہا

"بھائی دیکھ لیں آپ کے ہینڈسم سے بھائی کی خوبصورت  آواز کا یہ مزاح  بنا رہی ہیں۔"اسکی بات سن کر وہ انکے قریب آیا  اور کہا

"کیا کہا ہے ؟ تمھاری آواز اور پیاری ؟ یہ بہت سنگین مزاح ہے ۔"تو دریاب نے ہنستے ہوئے کہا

"بھائی لوگ تو تھوڑے سے بدلتے ہیں  آپ توپورے ہی  بدل گئے ہیں"۔تو زریاب  نے کہا 

"ہاں اب کیا کیا جا سکتا ہے۔"ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ اسکے موبائل پر میسج آیا۔

میسج پڑھ کر اسنے جلدی جلدی کہا

"اچھا چلو یار ۔میں آکر بات کرتا ہوں"۔کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔

اسکے جانے کے بعد وہ دوبارہ  زری کی طرف مڑا جو ریمورٹ  صوفے پر رکھ رہی تھی۔

"آپ کہاں جارہی ہیں" ؟دریاب نے پوچھا تو وہ بولی

"چائے بنانے"۔تو وہ بولا

"میرے لئے بھی بنائے گا" تو  وہ سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"ہاں بھائی بلاو ان دونوں کو۔۔جن کو تم لوگوں نے  نشہ  بیچتے  ہوئے پکڑا ہے۔"

تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ ان دونوں کو اسکے سامنے لیکر آئے۔۔

لڑکی کی شکل دیکھ کر پہلے تو وہ حیران ہوا اور پھر اس کے قریب جاکر اس سے پوچھا

"تمہارا نام کیا ہے ؟"تو وہ اسکی شکل دیکھتے ہوئے بولی 

"کومل۔۔آپ زرتاشہ کے ہسبنڈ ہیں ؟" کومل نے پوچھا  تو وہ جواب دینے کے بجائے لڑکے کی طرف بڑھ گیا

"اور تمھارا نام؟"اپنی اسٹک سے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا

"آیان۔"تو اسنے کہا

"کس کے لئے کام کرتے ہو تم دونوں ؟" تو آیان ادھر ادھر دیکھنےلگ گیا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں ناں تم سے ؟"زریاب نے زور سے کہا تب ہی کومل بولی

"ہم کسی کے لئے بھی کام نہیں کرتے۔۔آپ کو  تو علم ہے میں آپکی بیوی کے خاندان سے ہوں"۔تو وہ بولا

"میری بیوی کا وہ خاندان کبھی تھا ہی نہیں۔ورنہ تم لوگ اسکی پیٹھ پیچھے چھڑا ناں گھوپتے۔"اسنے ترش لہجے میں کہتے ہوئے کانسٹیبل کو انکو لے جانے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی بولا

"ان لوگوں کی تب تک دہلائی کرو جب  تک  یہ اپنے گروہ کےبارے میں سب بتا ناں دیں۔اور ہاں ایک اور بات۔

انکے گھروں میں بھی اطلاع کر دو "۔تو کانسٹیبل   نے سر ہلایا

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments