Ticker

6/recent/ticker-posts

محبتوں کا موسم

"Muhabbato ka mosam"


Novel By Ayesha Saeed

Muhabbato ka mosam

"یار میں ایک بات سوچ رہی ہوں۔"عنایہ نے کینو کھاتےہوئے اچانک کہا
"ارے واہ تم سوچتی بھی ہو؟" ہنزہ نے کہہ کر حیرت سے اسکی طرف دیکھا
"ارے سنو تو!اتنا زبردست آئیڈیا آیا ہے میرے دماغ میں"۔عنایہ نے کہتے ہوئے ابکی بار اسکا ہاتھ پکڑا تو اسنے کہا
"نہیں بہن معاف کرو جب جب تمہارا کوئی آئیڈیا سنا ہے تب تب کسی نہ کسی مسئلے میں لازمی پھنسے ہیں۔"
"ارے یار اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔تم سنو گی تو واہ واہ کرو گی۔"عنایہ نے پھر اپبی بات زور دیتے ہوئے کہا تو اسنے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسکی طرف بے چارگی سے دیکھا اور پھر کہا

 

"اچھا بتاو کیا آئیڈیا آیا ہے تمہارے اس فسادی دماغ میں۔"اسکی بات پر عنایہ نے اسے گھورا اور پھر سر جھٹکتے ہوئے کہا
"میں سوچ رہی ہونکہ دوپہر کا وقت ہے اور آس پاس بھی کوئی نہیں ہے "۔اسنے اتنا کہہ کر ہنزہ کی طرف دیکھا جو اسکی طرف ہی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔اسکی خاموشی پر اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا
"آگے بولو!"اسکی بات پر عنایہ نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی اور کہا
"آو باہر چلتے ہیں۔اور وہ جو کونے والا بنگلہ ہے ناں اسکی گھنٹی بجا کر گھر واپس آجائیں گے"۔اسکی بات سنکر ہنزہ نے آنکھیں سکیڑیں
"اور اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟"اسکے کہنے پر وہ بولی
"ارے نہیں پتہ چلتا کسی کو بھی۔آو چلتے ہیں۔"کہہ کر اسنے پلیٹ سینٹرل ٹیبل پر رکھی اور خود اٹھ کھڑی ہوئی اور ساتھ ہی ہنزہ کا ہاتھ بھی پکڑ کر اسے کھڑا کر دیا ۔تو وہ بھی گہری سانس بھرتی اسکے ساتھ دبے قدموں چلتی ادھر ادھر دیکھتی لاونج سے باہر نکلیں اور پھر لان کراس کر کے گھر سے بھی باہر نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

 


باہر نکل کر سب سے پہلے انہوں نے گہرے گہرے سانس لئے اور پھر سڑک کے کنارے چلنے لگیں۔
کچھ ہی دیر کے بعد وہ دونوں اپنی منزل سے چبد قدم دور کھڑی تھیں۔
"تم یہاں کھڑی رہو ۔اور بھاگنے کے لئے تیار رہنا۔میں ابھی گھنٹی بجاکر آتی ہو"۔اسنے ہنزہ کو ہدایات دیں ۔جسے سن کر اسنے پہلے تو سر ہلایا اور پھر کہا
"دو دفعہ گھنٹی بجانا تاکہ مزہ بھی آئے" ۔اسکی بات سن کر وہ بولی
"ارے تم ٹینشن ہی ناں لو"۔کہہ کر وہ بنگلے کے بلکل سامنے جا کھڑی ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے اسنے کھنٹی کے بٹن کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔
گھنٹی بجاکر اسنے اپنے کارنامے پر شاباشی حاصل کرنے کےلئےاسنے ہنزہ کی طرف دیکھا تو وہ اسے کچھ پیلی پیلی سی دکھائی دی ۔
"اسے کیا ہوا ہے "؟ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسنے ہنزہ کو اندھا دھند بھاگتے ہوئے دیکھا
"یہ کہا جارہی ہے ؟"اسنے دل میں سوچا اور پھر خود بھی اسکے پیچھے بھاگنے لگی۔
"ہنزہ کیا ہوا ہے ؟ میری بات تو سنو ۔"اسکی آواز پر ہنزہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر زور سے کہا

 

"عنایہ بھا گو کتا ہے "۔اسکی بات پر اسکے قدم ٹھٹکے اور جیسے ہی اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکی چیخ نکل گئی۔
ایک کالا سیاہ کتا ،لال زبان باہر لٹکائے جسکی رال بھی بہہ رہی تھی انکے پیچھے بھاگا چلا آرہا تھا۔اسے دیکھ کر وہ جھرجھری لیکر رہ گئی۔اور پھر اسنے بھی بھاگنا شروع کر دیا۔
اب صورتحال یہ تھی کہ آگے ہنزہ تھی ، ،اسکے پیچھے عنایہ اور ان دونوں کے پیچھے کتاچلا آرہا تھا۔اگر کوئی انہیں دیکھتا تو لازمی سوچتا کہ جیسے ان تینوں میں فرسٹ آنے پر مقابلہ بازی ہورہی ہے۔
آخر پندرہ منٹ بھاگنے کے بعد ہنزہ نے ایک گلی میں ٹرن لیا ۔یہ ایک کشادہ گلی تھی۔جس میں سے کوئی بھی گاڑی آسانی سے گزر سکتی تھی۔اسکے پیچھے عنایہ بھی اسی گلی میں داخل ہوئی۔
اسے دیکھتے ہی ہنزہ نے عنایہ کا ہاتھ پکڑا اور دائیں طرف جو تھوڑی تنگ گلی بنی تھی اس میں جا کھڑی ہوئیں۔اور اپنا سانس درست کرنےلگیں۔
تین منٹ تک وہ دونوں وہاں خاموش کھڑی رہیں ۔جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب کتا انکے پیچھے نہیں آرہا تو ہنزہ نے عنایہ کی طرف دیکھا اور پھر کہا
"دیکھا کہا تھا ناں میں نے۔تمہارے آئیڈیاز صرف اور صرف ہمیں مرواتے ہیں۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا

 

"جی نہیں میرا آئیڈیا بلکل ٹھیک تھا ۔تم خود ہی کتے کو دیکھ کر بھاگنا شروع ہو گئی تھیں۔اگر تم بھاگتی نہیں تو وہ ہمارے پیچھے ناں لگتا۔"
اسکی بات سن کر وہ بولی
"میں اکیلی نہیں بھاگ رہی تھی۔تم بھی بھاگ رہی تھیں ساتھ میرے"۔تو عنایہ کی آنکھوں کے سامنے کتے کی رال ٹپکاتی زبان آگئی
تو اسنے جھرجھری لیکر کہا
"مجھے تو لگتا ہی ڈر ہے کتوں سے۔"اسکی بات پر ہنزہ نے فورن کہا
"ہاں جیسے مجھے تو بہت پیار ہے کتوں سے۔"اسکی بات سن کر وہ ہنسی تو ہنزہ نے بھی ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چلنے لگی۔
"کدھر لیکر جارہی ہو "؟ عنایہ نے اسکے ساتھ چکتے چلتے لوچھا تو اسنے ایک لفظی جواب دیا

 

"گھر"۔اسکے جواب پر عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا
"تو جہاں سے آئے ہیں وہیں سے واپس چلتے ہیں"۔اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا
"ہاں جی تاکہ وہ محترم کتے صاحب ہمارا سواگت بھوکنے سےکریں اور ہمیں کاٹ ڈالیں"۔اسکی بات سن کر وہ بھی خاموشی سے اسکے ساتھ چلنے لگیں۔لیکن چونکہ وہ زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتی تھی اسلئے اسنے ہنزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"یہاں سے ہم گھر پہنچ جائیں گے ناں ؟تو اسنے اثبات میں سرہلایا"۔اور پھر کہا
"مجھے ایک دفعہ بھائی یہیں سے کوچنگ سے واپس لائے تھے"۔اسکی بات پر وہ سر ہلاکر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

 

تقریبا بیس منٹ کے بعد وہ دونوں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھیں۔گھر کے دروازے کو دیکھ کر انہوں نے شکر کا کلمہ پڑھا اور دروازے کو تھوڑا سا دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا تھا۔یقیناان دونوں کے بھائیوں میں سے کوئی دروازہ کھلا چھوڑ کر باہر گیا تھا۔وہ اللہ کا شکر ادا کرتیں دروازے سے اندر داخل ہوئیں اور ادھر ادھردیکھ کر انہوں نے لان کراس کر کے جیسے ہی گلاس ڈور کھولا تو سامنے ہی بی جان بیٹھی تھیں۔
ان دونوں کو باہر سے آتا دیکھا تو بولیں
"کدھر سے آرہی ہو تم دونوں ؟ "انکے سوال پر عنایہ نے گھبرا کر انکی طرف دیکھا تو وہ بولی
"یہیں باہر واک کرنے گئے تھے۔سب سو رہے تھے تو ہم نے سوچا واک کر آئیں۔"اسکی بات سن کر وہ کچھ لمحے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتی رہیں اور پھر کہا
"تم لوگ جھوٹ تو نہیں بول رہی ہو؟ "انکی بات سن کر عنایہ بولی
"ارے میری شہزادی دادو۔جھوٹ اور وہ بھی آپ سے ؟"توبہ توبہ کہتی انکے پاس ہی جاکر بیٹھ گئی۔اور انکے پائیدان میں سے چھالیہ نکال کر منہ میں ڈالا ۔اور پھر ان کے قریب ہوکر آہستگی سے پوچھا
"ویسے بی جان آپس کی بات ہے۔آپ کیوں جاگ رہی ہیں ؟یہ تو آپ کے قیلولے کا وقت ہوتا ہے ناں "۔اسکی بات سن کر انہوں نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"ہاں میرا بچہ۔۔لیکن بس اس بڑھاپے میں اب ڈھنگ کی نیند بھی نہیں آتی۔آنکھ کھل گئی تھی تو پھر یہیں آکر بیٹھ گئی۔"انکی بات سن کر اسنے سر ہلایا اور پھر کہا
"اچھا ہم دونوں چلتے ہیں سونے۔تھوڑا آرام کر لیں۔"کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہنزہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے اپنے مشترکہ کمرے کی طرف چل پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بوگن ویلیا کی بیل سے ڈھکا یہ بنگلہ بخاری ہاوس تھا۔جہاں شہام بخاری ،حسام بخاری اپنی اپنی اولادوں کے ساتھ یہاں قیام پزیر تھے۔یہ گھرانہ محبت کی ڈور سے کچھ ایسی مضبوطی سے بندھا تھا کہ آج کل کے نفسا نفسی کے ماحول میں یہ لوگ پیارومحبت سے ساتھ رہتے تھے۔
شہام بخاری کی صرف دو ہی اولادیں تھیں۔ہنزہ بخاری اور حمزہ بخاری۔جبکہ حسام بخاری کی تین اولادیں تھیں۔شارم بخاری ،حسن بخاری اور عنایہ بخاری۔
شارم بخاری شادی شدہ تھے اور ملک سے باہر قیام پزیر تھے ۔جبکہ حسن اور حمزہ انجینئرنگ کے لاسٹ ائیر کے اسٹوڈنٹس تھے۔اور جہاں تک بات تھی عنایہ اور ہنزہ کی تو دونوں بی ایس سی کی اسٹوڈنٹس تھیں۔لیکن پڑھنے لکھنے کی طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیتی تھیں۔لیکن ذہین تھیں۔اسلئے تھوڑی سی محنت سے بہی پاس ہو جاتی تھیں۔
شہام بخاری اور حسام بخاری کی اپنی فیکٹری تھی۔جسے فلحال
وہ دونوں ہی سنبھال رہے تھے
ہنزہ اور عنایہ ہم عمر اور اکلوتی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی کزنیں بھی تھیں ،دوستیں بھی تھیں،اور بہنوں والے تمام چاو بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے ہی پورے کرتی تھیں۔
اور چونکہ دونوں ایک ہی کالج میں تھیں تو وہاں بھی دونوں کا ہنسی مزاق چلتا ہی رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
"شکر ہے جان بچ گئی۔"ہنزہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو عنایہ نےبھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔

 

"ہاں بھئی۔اگر سوچو کتا کاٹ لیتا تو ؟"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"آہستہ بولو !دروازہ بھی کھلا ہے اور دوسرا تمہارا والیم اتنا تیز ہوتاہے کہ مردہ بھی سن کر جاگ جائے"۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ہنزہ کی والدہ خالدہ بیگم انکے کمرےمیں داخل ہوئیں اور کہا
"کس کا والیم اونچا ہوتا ہے ؟" انہوں نے چونکہ صرف آخری جملہ سنا تھا اسلئے اندر آکر ان دونوں سے پوچھا تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہا 
"کچھ نہیں امی آپ بتائیں کیا ہوا "؟تو وہ بولیں
تمہاری پھوپھو کی کال آئی تھی ۔انہوں نے تمہید باندھتے ہوئے اندونوں کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہیتھیں۔انکے خاموش ہونے پر ہنزہ نے ہی کہا
"آگے تو بتائیں"۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے بولیںکہ تمہاری پھوپھو چاہ رہی ہیں کہ کل کا جو فنکشن ہے اس میں تمدونوں بھی شریک ہو۔اپنی بات مکلمل کر کے انہوں نے ایک نظران دونوں کو دیکھا تو ہنزہ نے ہی جواب دیتے ہوئے کہا

 

"امی آپکو معلوم ہے ناں کہ ہم وہاں کتنا عجیب محسوس کرتے ہیں۔وہ لوگ ہماری طرح کے نہیں ہیں امی ۔ہمارا پہناوا الگ ہے ۔انکالائف اسٹائل ہمارے لائف اسٹائل سے مختلف ہے۔آپ کیوں نہیں ہمارامسئلہ سمجھتی۔ہم دونوں جب بھی وہاں جاتے ہیں اتنا عجیبسا محسوس کرتے ہیں۔ہم اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہیں"۔ہنزہ نےمنہ بسورتے ہوئے کہا تو عنایہ نے بھی اسکی بات کی تائید کرتےہوئے کہا
"ہاں ناں تائی امی۔سمجھا کریں ۔آپ کوئی بھی بہانہ بنادیں ۔لیکنپلیز پھوپھو کو منع کردیں۔پلیز پلیزپلیز"۔۔اسنے انکے ہاتھ پکڑتےہوئے کہا تو انہوں نے ان دونوں کو بغور دیکھا ۔دونوں کے چہروںسے ہی صاف لگ رہا تھا کہ وہ لوگ وہاں جانے پر راضی نہیں ہیں!تو وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں
"بیٹے بار بار منع کرنا برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھی تم لوگوں نے منعکروا دیا تھا۔وہ اتنی چاہ سے بلاتی ہیں اور تم دونوں اس طرح منعکر دیتی ہو۔اس دفعہ میں نے ہاں کر دی ہے۔اور میں یہی بتانے آئیتھی۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی وہ دونوں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔تھوڑی دیر کے بعد ہنزہ نے سر اٹھایا اور پھرکہا
"ایک تو یار پتہ نہیں کیوں روز روز فنکشن رکھ لیتی ہیں"۔اسکیبات پر عنایہ نے اسے دیکھا اور پھر کہا

 

"پیسہ میری جان پیسہ۔"اسکی بات سن کر وہ بولی
"یار میں کہ رہی کہ جو دل چاہیں کریں۔بس ہمیں ناں بلایا کریں۔"اسکی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا ضرور۔لیکن بولی کچھ نہیں توہنزہ نے اپنی بات کے جواب میں کوئی جواب موصول ناں ہونے پرسر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہا
"تم کون سی دنیا میں ہو؟زندہ بھی ہو کہ مر گئی ہو یہ خبر سن کر۔"تو وہ بولی

"نہیں ابھی تھوڑی ناں مرونگی۔تمھارے مرنے کے بعد مرونگی۔اورچپ اسلئے ہوں کیونکہ میں کوئی بہانہ سوچ رہی ہوں۔"اسکی باتسن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر سوچتے ہوئے کہا
"امی تو کبھی نہیں مانیں گی یار۔انکی بات تو پتھر کی لکیر ہوتیہے"۔اسکی بات پر عنایہ نے اسےگھورا اور پھر اسکے پاس بیٹھتےہوئے بولی۔

 

"ایسا کرتے ہیں کہ ہم جاکر بی جان سے بات کرتے ہیں۔انکو کہتے ہیںکہ پھوپھو کو بولیں کہ پرسوں ہمارا ٹیسٹ ہے ۔وہ دونوں نہیںآسکتیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا
"آئیڈیا تو بہت اچھا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بی جان بھی
ہمیں ہی سمجھائیں گی کہ چلی جاو کچھ نہیں ہوتا۔کچھ گھنٹوںکی تو بات ہے"۔ہنزہ کی بات سن کر عنایہ بھی خاموش ہو گئی لیکنپھر تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا
"کوشش کر لینے میں کیا ہے یار۔آو گل جان سے بات کرتے ہیں"۔وہاسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی تو ہنزہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتےہوئے کہا
"ابھی نہیں۔کل بات کریں گے۔"تو وہ بولی
"نہیں۔ابھی چلتے ہیں۔ہم ابھی اپنی بات ان تک پہنچاآتے ہیں"۔اسکیبات سن کر آخر ہار مانتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

 

۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔
"بی جان سمجھا کریں ناں۔ہم نہیں جانا چاہتے ادھر۔"عنایہ نے انکیگود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے کہا تو مسکرا دیں۔
"لیکن میرا بچہ بار بار منع کرنا بھی تو برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھیتو تم لوگ نہیں گئے"۔اسکی بات سن کر وہ بولی
"آپ لڑکوں میں سے کسی کو بھیج دیں ۔یاں مما بابا چلے جائیں۔لیکن ہم دونوں کو بخش دیں۔پلیز۔بی جان۔آپ کو پتہ تو ہے سب۔ہمیں کسی اور کے گھر نیند نہیں آتی۔سکون نہیں ملتا۔آپ منع کردیں ۔پلیز پلیز۔ "اسکی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہنزہ نے کہا
"ہاں بی جان۔ہم ٹھیک ہیں ادھر۔آپ انکو بول دیں کہ ہمارے ٹیسٹ ہورہے ہیں۔"انکی بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر کہا


 

"اچھا چلو ٹھیک ہے۔لیکن یہ آخری دفعہ ہے۔اگلی دفعہ اگر اسنے بلایا تو تم دونوں کو جانا ہی پڑے گا۔"انکی ہاں سنتے ہی وہ دونوںکھلکھلا کر ہنس دیں تو وہ بھی مسکرادیں۔انکے گھر کی یہیدونوں تو رونق تھی۔وہ انکو دیکھتے سوچے جارہی تھیں کہ اچانکانہیں عنایہ کی آواز نے خیالا ت سے باہر نکالا۔

 

"آپ کب کریں گی پھوپھو سے بات ؟"اسکے پوچھنے پر وہ بولیں
"کچھ دیر کے بعد کرونگی۔تم لوگ پریشان ناں ہو۔"انکی تسلی دینےپر وہ اٹھ کر ان کے گلے سے لپٹ گئی۔
"یو آر گریٹ بی جان"۔اسکا یہ جملہ سن کر وہ ہنسیں اور پھر کہا
"اچھا چلو جاو تم دونوں۔میرے نوافل پڑھنے کا وقت ہو رہا ہے۔"تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکے جانے بعد وہ بھی اٹھ کر وضوکرنے چل دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

 

رحمانہ بیگم جو کہ شہام بخاری اور حسام بخاری کی بڑی بہن
تھیں انکی شادی بہت امیر کبیر خاندان میں ہوئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے شوہر نے مزید محنت کی تھی ۔کچھ قسمت بھ ساتھ تھی اور کچھ محنت بھی نہوں نے بہت کیتھی جسکا صلہ انہیں یہ ملا تھا کہ وہ اپنے شہر کے جانے مانےبزنس مین تھے۔جیسے جیسے رحمانہ بیگم کے پاس دولت آئی تھی ۔ویسے ویسے انکا لائف اسٹائل بھی بہت بدل گیا تھا۔کھاتہ پیتا گھرانہ شہام اور حسام بخاری کا بھی تھا لیکن انہوں نےاپنی روایات کو برقرار رکھا تھا۔تب ہی ہنزہ اور عنایہ کو رحمانہبیگم کے گھر میں بے چینی محسوس ہوتی تھی۔اسلئے وہ دونوںہی وہاں جانے سے کتراتی تھیں۔

 

رحمانہ بیگم کے صرف دو ہی بیٹے تھے۔وصی احمد اور ولی احمد۔وصی کچھ سنجیدہ طبیعت کا تھا۔اپنے کام سے کام رکھنے والا۔جبکہ ولی ہنس مکھ سا لڑکا تھا۔جو اپنی شوخ طبیعت کے بدولتسب کو بہت جلد اپنا دوست بنالیا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 شکر ہے جان بچ گئی۔ہنزہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو عنایہ نے

ب


ھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔ہاں بھئی۔اگر سوچو کتا کاٹ لیتا تو ؟اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہاآہستہ بولو !دروازہ بھی کھلا ہے اور دوسرا تمہارا والیم اتنا تیز ہوتاہے کہ مردہ بھی سن کر جاگ جائے۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ہنزہ کی والدہ خالدہ بیگم انکے کمرےمیں داخل ہوئیں اور کہاکس کا والیم اونچا ہوتا ہے ؟ انہوں نے چونکہ صرف آخری جملہ سناتھا اسلئے اندر آکر ان دونوں سے پوچھا تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہاکچھ نہیں امی آپ بتائیں کیا ہوا ؟تو وہ بولیںتمہاری پھوپھو کی کال آئی تھی ۔انہوں نے تمہید باندھتے ہوئے اندونوں کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہیتھیں۔انکے خاموش ہونے پر ہنزہ نے ہی کہاآگے تو بتائیں۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے بولیںکہ تمہاری پھوپھو چاہ رہی ہیں کہ کل کا جو فنکشن ہے

 اس میں تمدونوں بھی شریک ہو۔اپنی بات مکلمل کر کے انہوں نے ایک نظران دونوں کو دیکھا تو ہنزہ نے ہی جواب دیتے ہوئے کہاامی آپکو معلوم ہے ناں کہ ہم وہاں کتنا عجیب محسوس کرتے ہیں۔وہ لوگ ہماری طرح کے نہیں ہیں امی ۔ہمارا پہناوا الگ ہے ۔انکالائف اسٹائل ہمارے لائف اسٹائل سے مختلف ہے۔آپ کیوں نہیں ہمارامسئلہ سمجھتی۔ہم دونوں جب بھی وہاں جاتے ہیں

 اتنا عجیبسا محسوس کرتے ہیں۔ہم اپنے گھر میں ہی ٹھیک ہیں۔ہنزہ نےمنہ بسورتے ہوئے کہا تو عنایہ نے بھی اسکی بات کی تائید کرتےہوئے کہاہاں ناں تائی امی۔سمجھا کریں ۔آپ کوئی بھی بہانہ بنادیں ۔لیکنپلیز پھوپھو کو منع کردیں۔پلیز پلیزپلیز۔۔اسنے انکے ہاتھ پکڑتےہوئے کہا تو انہوں نے ان دونوں کو بغور دیکھا ۔دونوں کے چہروںسے ہی صاف لگ رہا تھا کہ وہ لوگ وہاں جانے پر راضی نہیں ہیں۔!تو وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولیںبیٹے بار بار منع کرنا برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھی تم لوگوں نے منعکروا دیا تھا۔وہ اتنی چاہ سے بلاتی ہیں اور تم دونوں اس طرح منعکر دیتی ہو۔اس دفعہ میں نے ہاں کر دی ہے۔اور میں یہی بتانے آئیتھی۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی وہ دونوں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔تھوڑی دیر کے بعد ہنزہ نے سر اٹھایا اور پھرکہا

ایک تو یار پتہ نہیں کیوں روز روز فنکشن رکھ لیتی ہیں۔اسکی


بات پر عنایہ نے اسے دیکھا اور پھر کہا

پیسہ میری جان پیسہ۔اسکی بات سن کر وہ بولی

یار میں کہ رہی کہ جو دل چاہیں کریں۔بس ہمیں ناں بلایا کریں۔اسکی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا ضرور۔لیکن بولی کچھ نہیں توہنزہ نے اپنی بات کے جواب میں کوئی جواب موصول ناں ہونے پرسر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہاتم کون سی دنیا میں ہو؟زندہ بھی ہو کہ مر گئی ہو یہ خبر سن کر۔تو وہ بولینہیں ابھی تھوڑی ناں مرونگی۔تمھارے مرنے کے بعد مرونگی۔اورچپ اسلئے ہوں کیونکہ میں کوئی بہانہ سوچ رہی ہوں۔اسکی باتسن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر سوچتے ہوئے کہاامی تو کبھی نہیں مانیں گی یار۔انکی بات تو پتھر کی لکیر ہوتیہے

۔اسکی بات پر عنایہ نے اسےگھورا اور پھر اسکے پاس بیٹھتےہوئے بولی۔ایسا کرتے ہیں کہ ہم جاکر بی جان سے بات کرتے ہیں۔انکو کہتے ہیںکہ پھوپھو کو بولیں کہ پرسوں ہمارا ٹیسٹ ہے ۔وہ دونوں نہیںآسکتیں۔اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہاآئیڈیا تو بہت اچھا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بی جان بھیہمیں ہی سمجھائیں گی کہ چلی جاو کچھ نہیں ہوتا۔کچھ گھنٹوںکی تو بات ہے۔ہنزہ کی بات سن کر عنایہ بھی خاموش ہو گئی لیکنپھر تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد کہا

کوشش کر لینے میں کیا ہے یار۔آو گل جان سے بات کرتے ہیں۔وہ


اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولی تو ہنزہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتےہوئے کہاابھی نہیں۔کل بات کریں گے۔تو وہ بولینہیں۔ابھی چلتے ہیں۔ہم ابھی اپنی بات ان تک پہنچاآتے ہیں۔اسکیبات سن کر آخر ہار مانتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔بی جان سمجھا کریں ناں۔ہم نہیں جانا چاہتے ادھر۔عنایہ نے انکیگود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے کہا تو مسکرا دیں۔لیکن میرا بچہ بار بار منع کرنا بھی تو برا لگتا ہے۔پچھلی دفعہ بھیتو تم لوگ نہیں گئے۔اسکی بات سن کر وہ بولیآپ لڑکوں میں سے کسی کو بھیج دیں ۔یاں مما بابا چلے جائیں۔لیکن ہم دونوں کو بخش دیں۔پلیز۔بی جان۔آپ کو پتہ تو ہے

 سب۔ہمیں کسی اور کے گھر نیند نہیں آتی۔سکون نہیں ملتا۔آپ منع کردیں ۔پلیز پلیز۔ اسکی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہنزہ نے کہاہاں بی جان۔ہم ٹھیک ہیں ادھر۔آپ انکو بول دیں کہ ہمارے ٹیسٹ ہورہے ہیں۔انکی بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر کہااچھا چلو ٹھیک ہے۔لیکن یہ آخری دفعہ ہے۔اگلی دفعہ اگر اسنےبلایا تو تم دونوں کو جانا ہی پڑے گا

۔انکی ہاں سنتے ہی وہ دونوںکھلکھلا کر ہنس دیں تو وہ بھی مسکرادیں۔انکے گھر کی یہیدونوں تو رونق تھی۔وہ انکو دیکھتے سوچے جارہی تھیں کہ اچانکانہیں عنایہ کی آواز نے خیالا ت سے باہر نکالا۔آپ کب کریں گی پھوپھو سے بات ؟اسکے پوچھنے پر وہ بولیںکچھ دیر کے بعد کرونگی۔تم لوگ پریشان ناں ہو۔انکی تسلی دینےپر وہ اٹھ کر ان کے گلے سے لپٹ گئی۔یو آر گریٹ بی جان۔اسکا یہ جملہ سن کر وہ ہنسیں اور پھر کہااچھا چلو جاو تم دونوں۔میرے نوافل پڑھنے کا وقت ہو رہا ہے۔تو وہ دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکے جانے بعد وہ بھی اٹھ کر وضوکرنے چل دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

رحمانہ بیگم جو کہ شہام بخاری اور حسام بخاری کی بڑی بہن


تھیں انکی شادی بہت امیر کبیر خاندان میں ہوئی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے شوہر نے مزید محنت کی تھی ۔کچھ قسمت بھ ساتھ تھی اور کچھ محنت بھی نہوں نے بہت کیتھی جسکا صلہ انہیں یہ ملا تھا کہ وہ اپنے شہر کے جانے مانےبزنس مین تھے۔جیسے جیسے رحمانہ بیگم کے پاس دولت آئی تھی ۔ویسے ویسے انکا لائف اسٹائل بھی بہت بدل گیا تھا۔کھاتہ پیتا گھرانہ شہام اور حسام بخاری کا بھی تھا لیکن انہوں نےاپنی روایات کو برقرار رکھا تھا۔تب ہی ہنزہ اور عنایہ کو رحمانہبیگم کے گھر میں بے چینی محسوس ہوتی تھی۔اسلئے وہ دونوںہی وہاں جانے سے کتراتی تھیں۔

رحمانہ بیگم کے صرف دو ہی بیٹے تھے۔وصی احمد اور ولی احمد۔


وصی کچھ سنجیدہ طبیعت کا تھا۔اپنے کام سے کام رکھنے والا۔


جبکہ ولی ہنس مکھ سا لڑکا تھا۔جو اپنی شوخ طبیعت کے بدولت


سب کو بہت جلد اپنا دوست بنالیا کرتا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 "ویسے بھابھی  ہنزہ لوگ صحیح کہہ رہی تھیں ۔انکے لائف اسٹائل اور ہمارے لائف اسٹائل میں بے حد فرق   ہے۔"حسینہ بیگم نے ٹائٹ جینس شرٹ میں دور کھڑی شزا  کو وصی  کے ساتھ کھڑے دیکھ کر کہا  تو خالدہ  بیگم  بولیں  

"یہ لڑکی ہر فنکشن میں وصی کے ساتھ ہوتی ہے۔تمھارے بھائی مجھے بتارہے  تھے کہ وصی آج کل   اکثر پارٹیز میں بھی  ایک لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔شاید یہی وہ لڑکی ہے " ۔تو حسینہ  بیگم نے کہا

"ہاں !یہی ہو گی۔مجھے لگتا ہے وہ اسکو پسند کرتا ہے"۔تو وہ بھی بولیں

"لگتا تو ایسا ہی ہے۔"انکی بات پر حسینہ بیگم نے کہا

"اللہ نصیب اچھا کرے ۔"تو  بے ساختہ خالدہ بیگم نے "آمین "کہا ۔

تب ہی انکے پاس مسز تنویر چلی آئیں تو وہ انکی طرف متوجہ ہو گئیں۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

" مما   امی !اب گھر چلیں ناں "۔حمزہ نے اکتاتے ہوئے  خالدہ بیگم کو سائیڈ پر لے جاکر کہا تو وہ بولیں

"ہاں بس چلتے ہیں۔"وہ یہ کہہ کر دوبارہ  خالدہ بیگم کے پاس جاکر کھڑی ہو گئیں  تو وہ جھنجھلا کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"شکر ہے یار ۔۔۔ادھر جانے سے جان بچ گئی ۔"ہنزہ نے  lays کہاتے ہوئے کہا 

"ہاں بھائی  !مجھے تو عجیب و غریب  فیشن دیکھ کر بہت ہی برا لگتا ہے۔" اسکی بات  سن کر عنایہ نے بے ساختہ قہقہہ لگایا  تو ہنزہ نے اسے سنجیدگی سے دیکھا اور پھر کہا

"زرا آپ بتانا پسند کریں گیں کہ یہ بتتیسی کیوں  دکھائی جارہی ہے ؟"تو عنایہ بولی

"مجھے تمھاری بات یاد آگئی تھی۔"اسکی بست سن کر ہنزہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"کونسی بات ؟"تو وہ بولی

"وہ لڑکی یاد ہے تمہیں جسے تم نے  پر کٹی کا نام دیا تھا "۔اسکی بات سن کر ہنزہ کی آنکھوں کے سامنے شزا کا سراپا گھوم گیا تو  بھی ہنس دی ۔اور پھر اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا

"یار ایسی باتیں مت یاد دلایا کرو۔قسم سے پھر مجھے بار بار اس لڑکی کا سراپا نظر آتا ہے اور میں ہنستی رہتی ہوں۔"

"اگر کوئی انجان انسان مجھے ایسے  بلاوجہ ہنس تا دیکھے تو کہے کہ  یہ لڑکی تو پاگل ہے۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا

"ویسے تم نے نام بلکل ٹھیک دیا تھا اسے۔"عنایہ کی بات پر وہ بولی

"تمہیں تو پتہ ہے میں جب جب جو  بھی بولتی ہوں ٹھیک ہی بولتی ہوں۔"اسکے شاہانہ انداز میں کہنے پر عنایہ نے اسے گھورا اور پھر کہا

"ویسے حیرت کی بات ہے یار کہ وصی بھائی کو اس میں کیا نظر آتا ہے ؟"تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہا

"وہ خود جیسے ہیں انکو ویسے ہی لوگ پسند ہیں۔خود پسند اور مغرور۔"تو عنایہ نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا

"سہی کہہ رہی ہو تم۔"تو ہنزہ بولی 

"دفع کرو ۔آو مووی دیکھتے ہیں"۔تو عنایہ نے کہا

"ہاں یار۔آج تو انجوائے کرنا ہے۔آخر کو پھوپھو کے گھر کے عجیب سے فنکشن میں جو نہیں گئے۔"اسکی بات پر صدا کی سست ہنزہ نے  سر اثبات میں  ہلاتے ہوئے کہا

"تو ایسا کرو وہ اندر کمرے سے لیپ ٹاپ اٹھا کر لے آو ۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے اسے گھورا تو وہ بولی

"یار میں نے ایک فلم ڈاون لوڈ کی تھی ۔بہت مزے کی ہے۔جاو شاباش لے آو۔"تو عنایہ نے کہا

"محترمہ !آپ کچھ ناں کریں۔سب کچھ بس باقی لوگ کریں۔"اسکی بات پر پہلے تو وہ ہنسی اور پھر کہا

"لوگ نہیں صرف  تم۔"تو عنایہ  بھی ہنستی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اور لیپ ٹاپ لینے چلدی۔

"شکر ہے بھئی آپ لوگ واپس جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھی تو سہی۔"حمزہ نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا تو خالدہ بیگم بولیں


"ایک تو تم سب کو نجانے کس بات کی جلدی  ہوتی ہے۔ہر کام تم لوگوں نے جلدی کرنا ہوتا ہے۔یہ جلد بازی ہی تم لوگوں کو نقصان پہنچارہی ہے  اور آگے بھی پہنچائے گی۔"انکی بات پر وہ ہنستے ہوئے بولا

"بھئی جلدی کام  کرنا چاہیے تاکہ ہم دوسرا کام شروع کر سکیں۔"اس بات پر انہوں نے خفگی سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"صبر بھی کسی چیز کا نام ہوتا ہے جو ہمیں تو کم از کم تم لوگوں میں نظر نہیں آتا۔

اب   تم لوگ وصی کو دیکھو  کتنا بردبار ہے۔سنجیدہ ہے۔"تم لوگوں کے تو ہمسی مزاح ہی ختم نہیں ہوتے۔انکی بات پر حسن آخر کار بول پڑا

"آپ وصی بھائی سے تو ہمیں بلکل بھی مت ملائیں ۔وہ اور طرح کے بندے ہیں۔"تب ہی خالدہ بیگم نے کہا

"کیسے اور طرح کا بندہ ہے ؟"انکے سوال پر حسن نے حمزہ کو دیکھا۔جو اسے آنکھوں کے اشارے سے کچھ بھی بولنے کو منع کر رہا تھا۔تو وہ بات بدلتے ہوئے بولا

"مطلب یہی کہ ہر انسان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔جو کہ اس انسان کی خاصیت ہوتی ہے۔جو خاصیت ان میں ہے وہ ہم میں نہیں۔اور جو ہم میں ہے وہ ان میں نہیں ہو گی۔"

اسکی بات کے جواب میں حسینہ بیگم نے کہا

"تو برخوردار بتانا پسند کریں گے کہ آپ میں کیا خاصیت ہے ؟"تو وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا

"بہت سی ہیں۔کوئی ایک ہوتی تو بتا بھی سکتا۔"اسکے  لاابالی انداز پر وہ دونوں بھی اپنی ہنسی پر قابو نییں رکھ پائیں۔اور ہنس  دیں۔انکو ہنستے دیکھا  تو وہ اور  حمزہ بھی ہنسنے لگ گئے۔تب ہی خالدہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا

"بس ہنسی مزاح کرالو تم لوگوں  سے۔"اسی وقت ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی تو حمزہ نے  کھڑکی  کے پار دیکھا۔جہاں وصی کی گاڑی کھڑی تھی اور صدا کا سنجیدہ وصی  ہنس رہا تھا۔اسنے گردن گھماکر آنکھوں کے اشارے سے حسن کو اس طرف دیکھنے کا کہا تو وہ   بھی  دیکھے گیا۔

اچانک ہی ٹریفک سگنل کھلا  تو وصی گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

ان دونوں کو ساتھ گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر حمزہ نے سرد آہ بھری اور دل میں سوچا

"واقعی ہم میں بہت فرق ہے۔شازمہ کبھی بھی میرے ساتھ اتنی رات کو گاڑی میں جا نہیں سکتی اور ناں میں لے جا سکتا ہوں۔کاش کہ میں بھی اسے وصی کی طرح اپنی گاڑی میں بٹھاکر لے جا سکتا۔"وہ اپنے ہی خیالات میں کھویا ڈرائیونگ کر رہا تھا کہ  سامنے سے آنے والی ٹیکسی نے بروقت ہارن دیا ۔اگر ٹیکسی ڈرائیور  ہارن ناں دیتا اور وہ  بروقت بریک ناں مارتا تو اب تک انکی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہوتا۔

جھٹکا لگنے پر خالدہ بیگم نے غصے سے کہا

"دیکھ کر چلاو حمزہ۔"تو وہ سوری کہتا ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

 "ارے ہاں ۔۔۔۔یاد آیا !" عنایہ نے اچانک  کچھ یاد آنے پر ہنزہ کے ہاتھ  پر ہاتھ مار کر کہا۔جس پر پہلے تو ہنزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا


"یہ ہاتھ زرا کم چلایا کرو۔اور ہاں بتاو کیا کہہ رہی تھی تم ؟" تو وہ بولی

"کل حمزہ   کہاں  گیا ہوا تھا؟ تائی  امی اور مما دونوں ہی  اسکا انتظار کر رہی تھیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا

"رمضان  کی امی طبیعت  خراب ہو گئی تھی تو وہ وہی گیا تھا۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا

"لیکن  یار تم نے نوٹ کیا ہے کہ آج کل حمزہ انکے یہاں بہت جانے لگا ہے ۔"اسکی بات پر ہنزہ نے اسکا پر سوچ چہرہ دیکھا اور دل میں سوچا

"اسے بھی علم ہو گیا ہے کیا" لیکن پھر بے فکرانداز اپناتے ہوئے کہا 

" وہ تو شروع سے ہی وہاں  جاتا ہے۔اس میں نئی بات کیا ہے ؟ "تو عنایہ نے سامنے دیوار  کی دیوار کو دیکھتے ہوئے کہا

"وہ انکی جو بہن ہے رمضان بھائی کی ۔مجھے زرا نہیں پسند۔آج آئی تھی ہمارے یہاں۔اپنی آپی کے ساتھ شکریہ ادا کرنے   کہ بروقت  حمزہ  انکی امی کو ہسپتال لے گیا تھا۔ورنہ نجامے کیا ہو جاتا ۔اور تب ہی  حمزہ  وہاں کسی کام سے  آیا تھا  تو وہ اسے دیکھ کر بھی مسکرائی تھی۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا

"تو پھر ؟ کیا ہوا ہے ؟" تو وہ بولی

"یار مجھے وہ لڑکی ہی عجیب لگی ہے۔اپنی طرف خود حمزہ  کو متوجہ کر رہی تھی۔"عنایہ کے بتانے پر  ہنزہ نے کہا

"ویسے یہ بات میں نے بھی بہت دفعہ نوٹس کی ہے۔وہ باتوں باتوں میں حمزہ کا  زکر کرنے لگتی ہے۔ لیکن خیر ہمیں کیا۔اگر حمزہ کو پسند ہے تو پھر ہمیں   بھی کوئی مسئلہ نہیں۔"ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ اسکے موبائل پر اسکی  دوست کی کال آنے لگی تو  موبائل اٹھاکر ٹیرس  پر چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

جبکہ پیچھے عنایہ اپنے بیڈ پر بیٹھی  اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔

"واقعی یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔کیا پتہ وہ بھی اسے پسند کرتا ہو۔یہ سوچ کر ہی اسے  ایسا محسوس ہوا جیسے اسکے دل میں چبھن ہوئی ہو۔"بے ساختہ اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔اور دل میں بے ساختہ کہا

"یا اللہ !ایسا کیوں ہوا؟میں نے تو کبھی اسطرح کے خیال  کو بھی دل میں آنے ناں دیا  کہ وہ کسی کو پسند بھی کر سکتا ہے۔اسکے دل میں کوئی اور بھی آسکتی ہے۔میں تو ہمیشہ  یہی سوچتی رہی کہ وہ میرا ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔" تب ہی ٹیرس کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی  تو اسنے  بے ساختہ  اپنے آنسو پونچھے اور پھر  جلدی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہنزہ کو اسکی دلی کیفیت کا علم ہو۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"یہ دیکھو پیزا۔" ہنزہ نے  پیزے کے دو پیکٹس لاکر  بیڈ پر رکھے تو عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"تمہاری لاٹری نکل آئی  ہے ؟" تو وہ بولی

"نہیں یار ! حمزہ کو بلیک میل کیا تھا  کہ اگر اسنے میری فرمائش پوری ناں کی تو  میں بی جان  اور امی کو اسکے رازوں  کا بتا دونگی۔اسکی بات سن کر عنایہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور پھر حیرت سے پوچھا

"کیسا راز؟  " تو وہ بولی

"یار یہ جو اپنا حمزہ ہے ناں یہ شازمہ کو پسند کرتا ہے۔وہی رمضان کی بہن جو ہے۔میں اس دن بھی تمہیں بتانے والی تھی لیکن پھر  کال آگئی تو میرے دماغ سے بات نکل گئی ۔"ہنزہ نے بتاتے جیسے ہی عنایہ کی طرف دیکھا تو اسے وہ  پیلی پیلی سی لگی۔وہ اپنی بات بھول کر اسکی طرف متوجہ ہو گئی۔

"تمہیں کیا ہوا ہے ؟ تم ٹھیک ہو ؟" ہنزہ نے فورن اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو وہ بولی

"ہاں میں  ٹھیک ہوں۔شاید بی پی لو ہو رہا ہے ۔اور میرا سر درد بھی کر رہا ہے۔"تو ہنزہ پریشانی سے بولی

"میں امی کو بتاتی ہوں۔"تو عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے کہا

"نہیں  یار ! میں ٹھیک ہوں۔آرام کرونگیں تو ٹھیک ہو جاونگی۔" اسکی بات پر ہمزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا

"فضول ناں بولو تم! بیٹھو تم۔میں نیم  گرم دودھ میں چینی ڈال کر لاتی ہوں۔اس سے سر درد تمھارا  ٹھیک ہو جائے گا۔"لاسٹ ٹائم امی نے مجھے دیا تھا تو میرا سر درد ٹھیک ہو گیا تھا۔

وہ اپنی بات کہہ کر کچن  کی طرف بڑ ھ گئی جبکہ عنایہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

دودھ  ابالتے ہوئے   اچانک اسے  عنایہ کی کہی بات یاد آئی۔اور پھر آج  حمزہ کی پسند بتانے پر عنایہ کی طبیعت خراب ہونا"۔۔۔۔

وہ  جتنا  ان نقطوں پر سوچ رہی تھی  اتنی ہی حیران ہو رہی تھی۔

"یعنی عنایہ حمزہ کو پسند کرتی ہے ؟ "اسنے دل  می سوچا اور پھر دوبارہ حیرت زدہ ہوئی

"کیا میں  عنایہ سے پوچھو اس بارے میں؟" اسنے ابلتے ہوئے دودھ کو دیکھ کر  سوچا اور پھر خود ہی اپنے ہی خیال کی ترتید کر دی۔

"نہیں مجھے  نہیں پوچھنا چاہیے۔جب اسے ٹھیک لگے گا  تب وہ خود بتا دے گی۔"جب تک وہ اپنے خیالات سے باہر آئی تب تک دودھ کو ابال آچکا تھا۔

اسنے دودھ کو گلاس میں ڈال کر چینی اس میں ملائی اور  پھر اپنے اور عنایہ  کے کمرے کی طرف چل دی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"یہ لو ! پہلے  پی لو۔"اسنے بیڈ پر لیٹی   عنایہ کو لیٹے دیکھ کر کہا تو وہ خاموشی سے اٹھ کر بیٹھ گئ۔اور پھر کہا

"یار !میں نے کہا  بھی تھا کہ میں ٹھیک ہوں۔مت لاو۔" اسکی بات پر ہنزہ  کہا

"ابھی مار کھانی ہے یا تھوڑی دیر کے بعد؟  کہہ کر اسنے دودھ کا گلاس اسکی طرف  بڑھایا  تو عنایہ نے مسکراتے ہوئے  گلاس تھامتے ہوئے کہا

"تم بھی ناں۔"کہہ کر وہ دودھ پینے لگی۔جبکہ ہنزہ خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھے گئی۔اور دل میں سوچا

"کاش عنایہ ۔۔تم  مجھ سے اپنا دکھ شئیر کرتی ۔میں جانتی ہونکہ تم اس وقت بہت برامحسوس کر رہی ہو اور  میری بد قسمتی یہ ہے کہ میں تمھارے دکھ کو کم نہیں کر سکتی۔"اسنے افسردگی سے سوچا  تب  ہی عنقیہ کی آواز اسے خیالات سے باہر لائی

"لو بی اماں۔پی لیا دودھ ۔اب آرام کرنے دو۔"تو ہنزہ نے ہنستے ہوئے گلاس اٹھایا اور پھر کہا

"ہاں سوجاو تم۔" کہہ کر وہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے لائٹ آف کر کے کمرے  سے باہر نکل کر دروازہ  بند کر دیا ۔دروازہ بند ہوتے ہی  عنایہ نے سر اٹھاکر دروازے کی سمت دیکھا اور پھر دوبارہ سر تکیہ پر رکھتے ہوئے کہا

"کاش میں اسے پسند ناں کرتی۔۔کاش ۔اے کاش"۔۔۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"ہنزہ  عنایہ کدھر ہے ؟" خالدہ بیگم نے  لاونج میں اکیلی بیٹھی ہنزہ سے پوچھا تو اسنے انکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"اسکی طبیعت خراب ہے۔"اسکے بتانے پر وہ حیرت زدہ ہوئیں  اور پھر کہا
"کیا ہوا اسے ؟" تو ہنزہ نے کہا
"سر درد ہو رہا ہے امی اور اسکا چہرہ بھی اتنا پیلا ہو رہا تھا۔"اسکے بتا نے پر انہوں نے پریشانی سے خود کلامی کی۔
"نجانے کیا ہوا ہے  بچی کو۔ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بلکل ٹھیک تھی۔"انکے کہنے پر ہنزہ نے خاموشی سے انہیں دیکھا اور پھر کہا

"ایک بات  پوچھو آپ سے ؟"   اسکے پوچھنے پر انہوں نے کہا
"کوئی فضول سوال ہی پوچھوگی تم۔"تو وہ بولی
"نہیں ناں !آپ ہاں تو کریں۔"اسنے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو انہوں نے اجازت دیتے ہوئے کہا
"ہاں ؟ کیا بات پوچھنی ہے ؟"تو وہ بولی 
"آپ کو عنایہ کیسی لگتی ہے ؟" اسکے پوچھنے پر انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے گھورا اور پھر کہا
"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ گھر کی  بچی ہے۔اور میرے تو ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے ۔جیسے تم ہو میرے لئے ویسے ہی وہ بھی ہے۔"انکے  خفگی سے کہنے پر ہنزہ نے نرمی سے انکا ہاتھ پکڑا اور پھر کہا
"اگر عنایہ آپکی بہو بن جائے پھر ؟"اسکی بات پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
"تمہارے بابا پہلے ہی یہ بات مجھ سے کر چکے ہیں۔بس حمزہ کا یہ سیمسٹر ختم ہونے کا انتظار ہے۔ورنہ ہم یہ بات بہت  پہلے  بھائی بھابھی سے کر چکے ہوتے۔"انکے یہ بتانے پر ہنزہ نے حیرت سے انہیں دیکھا  اور پھر کہا

"مطلب  بابا بھی یہ چاہتے ہیں ؟ "تو وہ اسکی بات پر مسکرائیں اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔تب ہی  حسینہ بیگم وہاں آئیں  تو خالدہ بیگم  ان سے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں۔جبکہ ٹی وی دیکھتی ہنزہ کے دل و دماغ میں عجیب سی کشمکش جاری تھی۔
ایک طرف اسکی  دوست ،اسکی بہنوں جیسی کزن  تھی اور دوسری  طرف اسکا جان  سے پیارا بھائی تھا۔وہ دونوں میں سے کسی کو بھی دکھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔لیکن وقت ان دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا تھا۔اب دیکھنا یہ تھا  کہ وقت نے کس  کے نصیب میں محبت میں مات رکھی تھی۔اسنے خاموشی سے سوچا اور چپکے سے ایک آنسو اسکی آنکھ سے  گر پڑا۔
"میں ایک  پاگل  سی لڑکی ہوں
،
جو اپنوں پر جان دیتی ہوں،
جو رکھتے ہیں اپنی  خوشی سے پہلے میری خوشی،
میں انکے لئے خود کو ہرا دیتی ہوں،
میں ایک پاگل سی لڑکی ہوں،
جو اپنوں پر جان دیتی ہوں،
جو کبھی ہوتے ہیں یہ پریشان ،
تو میں خون کے آنسو رو دیتی ہوں،

میں ایک پاگل سی لڑکی ہوں،
جو اپنوں پر جان دیتی ہوں،
مجھے نہیں معلوم محبت کسے کہتے ہیں،
لیکن میں محبت ان سے کرتی ہوں،
مجھے نہیں معلوم نصیبوں میں کیا لکھا ہے،
لیکن صدا خوش رہیں میرے اپنے،
  یہ دعا میں ہر پل کرتی ہوں،
میں ایک پاگل سی لڑکی ہوں،
جو اپنوں پر جان دیتی ہوں،"

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
سنا ہے لوگ  بیمار ہو گئے تھے ۔"حمزہ نے کافی دن کے بعد عنایہ  کو لاونج میں بیٹھے دیکھا تو اسکو چھیڑتے ہوئے کہا!
اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بولی
"جی! اب ٹھیک ہوں۔"اسکے سنجیدہ انداز  میں جواب دینے پر حمزہ نے حیرت سے عنایہ کو دیکھا تو پاس بیٹھی  ہنزہ نے بات سنبھالتے ہوئے  کہا
"ہاں! اب وہ ٹھیک ہے۔آپ کو اب  خیال آیا ہے اسکی خیر خیریت پوچھنے کا؟ جبکہ اب وہ بیمار ہو کر ٹھیک بھی ہو گئی ہے۔" اسکے کہنے پر   حمزہ نے اسکی طرف مڑ کر کہا
"تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ  تم ہر بات میں  اپنی چھوٹی سی ٹانگ کو مت لایا کرو۔" تو وہ بولی
"میری ٹانگ ہے۔میری مرضی میں  جو کرو " تب ہی گلاس ڈور کھلا اور رحمانہ بیگم  وصی کے ساتھ اندر داخل ہوئیں۔
انکو اندر آتے دیکھ کر سب اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"کیسی ہیں بی جان ؟ "وہ بی جان سے ملتے ہوئے بولیں تو بی جان ہولے سے ہنس دیں۔اور پھر کہا
"اللہ کا شکر ہے۔تم بتاو تم کیسی ہو ؟" انکے پوچھنے پر رحمانہ بیگم نے کہا
"الحمدللہ ۔میں ٹھیک ہوں۔انکو جواب دیکر وہ باقی سب سے ملنے لگیں ۔تب ہی انکی نظر  ہنزہ اور عنایہ پر پڑی تو انہوں نے  خفگی سے کہا

"تم سے تو میں نے بات ہی نہیں کرنی۔"انکے خفا خفا انداز پر ہنزہ نے پہلے عنایہ کی طرف دیکھا اور  پھر کہا
"لیکن پھوپھو میں نے کیا کیا ہے ؟"تو وہ بولیں
"تم لوگ اس دفعہ بھی فنکشن میں نہیں آئے۔میرا کتنا دل تھا کہ  میں تم لوگوں سے ملو۔لیکن  میں تم لوگوں کو پسند ہی نہیں ہوں۔" انکے بولنے پر ہنزہ نے فورن کہا
"نہیں نہیں  پھوپھو ۔وہ اصل میں۔۔۔۔۔اسکے منہ سے اصل بات نکلنے ہی والی تھی کہ عنایہ نے فورن  اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا
"ہمارا ٹیسٹ تھا پھوپھو اسلئے ہم نہیں آسکے۔اگلی دفعہ ضرور آئیں گے۔اسکے کہنے پر انہوں نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

"اچھا !لیکن اگلا فنکشن ہونے میں تو ابھی بہت وقت ہے۔تم لوگ آج ہی میرے ساتھ میرے گھر چلو۔کل واپس آجانا۔آج ویسے بھی ہفتہ ہے۔"رحمانہ بیگم نے اپنی بات مکمل کر کے خالدہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں بھابھی؟" تو وہ آہستگی سے مسکر دیں۔اورپھر کہا
"جی جی بلکل ۔" تو رحمانہ بیگم نے ان دونوں کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا
"جاو تم لوگوں نے اگر کپڑے چینج کرنے ہیں تو کرلو۔"انکے یہ کہنے پر عنایہ نے گڑبڑا کر ہنزہ کی طرف دیکھا  جو اس سے زیادہ گڑ بڑائی ہوئی تھی۔لیکن کچھ کہنے کے بجائے وہ اٹھ کھڑی ہوئی تو عنایہ بھی   اسکے پیچھے کمرے کی طرف  دی۔
 ۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"یار پھوپھو نے تو چھاپہ مارا ہے۔"ہنزہ  کے کہنے پر عنایہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"چلو اچھا ہے۔ہم بھی دو دن انکے گھر رہیں گے تو موڈ فریش ہو جائے گا۔"عنایہ کی بات پر ہنزہ نے اسے گھورا اور پھر کہا 
" انکے گھر میں کہاں مزا آنا ہے یار۔ادھر گھر میں ہم کتنا انجوائے کرتے ہیں۔کبھی بی جان کو تنگ کرتے ہیں ،کبھی حمزہ اور حسن کو ۔۔ادھر تو یار  سب اپنے اپنے کمرے میں رہتے ہیں۔خاموشی ہی خاموشی چھائی رہتی۔"اسکے کہنے پر عنایہ نے اسکی  طرف دیکھ کر کہا

"ہاں خاموشی اچھی ہوتی ہے۔کبھی کبھی خاموش ہو جانا چاہیے۔جب انسان کے اندر بہت سی آوازیں گونج رہی ہو  تو  انسان خاموشی ہی میں بیٹھنا پسند کرتا ہے۔عنایہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں اپنی بات مکمل کی تب تک ہنزہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی اور پھر کہا
وعدہ کرو ایک  بات بتاوگی؟" اسکے بولنے پر عنایہ نے اسکی طرف  دیکھا اور پھر کہا
"تم سے پہلے کبھی کوئی بات چھپائی ہے جو اب چھپاونگی۔تم  پوچھو جو پوچھنا ہے۔میں کسی شرط کے بغیر   بتاونگی۔"اسکے کہنے پر ہنزہ  نے ہنستے ہوئے کہا
"اتنا یقین  ہے ؟" تو عنایہ نے بغیر ہچکچائے کہا
"ہاں ۔" تو  وہ بولی

"تم حمزہ کو پسند کرتی ہو ؟"اسکے ڈائیریکٹ پوچھنے پر عنایہ پہلے تو حیرت  زدہ ہوئی ۔پھر اپنے چہرے پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے اپنے چہرے کے تاثرات مٹانا چاہتی ہو۔" اور پھر کہا
"تمہیں کیا ہو گیا ہے ہنزہ؟ وہ کزن ہے اور میں کزن کے طور پر اسے پسند کرتی ہو۔"اسکے کہنے پر ہنزہ نے کہا
"لیخن میں یہی تو پوچھ رہی ہونکہ تم اسے کزن کے طور پر پسند کرتی ہو یا اس سے زیادہ؟"اسکے پر یقین اندا ز پر عنایہ نے صرف خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھا  تو ہنزہ نے کہا
مجھے  عم ہے تم اسے پسند کرتی ہو۔مگر  کزن کے طور پر نہیں ۔بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ عنایہ نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر  کہا

"چپ کر جاو ہنزہ! کسی نے سن لیا تو اچھا نہیں ہوگا۔میری ہی غلطی ہے کہ میں نے اسے بہت سوچا ۔اور پھر سوچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ  وہ میرے لئے اہم ہوتا گیا۔لیکن میں اب اس سب سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔میں  زندگی جینا چاہتی ہوں۔مجھے نہیں رونا اسکے لئے۔" وہ بتے بولتے رو پڑی تو  ہمزہ نے اسے ساتھ لگا لیا۔
"چپ کر جاو عنایہ"وہ اسکی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولی ۔
جب  عنایہ رو رو کر دل ہلکا کر چکی تو  وہ  ہنزہ نے اسکے آنسو صاف  کرتے ہوئے کہا
"اگر وہ تمھارے نصیب میں ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے تم سے جدا نہیں کر سکتی۔اسکے کہنے پر وہ طنزیہ مسکرائی اور پھر کہا


"میرا نصیب ہی تو اچھا نہیں۔"اسکے کہنے  پر ہنزہ نے اسے گھورا اور اس سے پہلے کہ وہ عنایہ کو کچھ کہتی  تب ہی  کام والی نے دروازہ کھٹکھٹاکر اندر آنے کی اجازت لی۔اور اندر آکر کہا
"اگر آپ  لوگوں نے کپڑے تبدیل کر دئیے ہیں تو باہر آجائیں۔رحمانہ آنٹی بلا رہی ہیں۔اسکے بتانے پر عنایہ نے کہا
"ہاں  بس دس منٹ میں آتے ہیں۔"تو ملازمہ سر ہلاکر چلی گئی۔اسکے جاتے ہی عنایہ ہنزہ کی طرف مڑی اور اسے کہا
"چلو اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔تم پہلے کپڑے  تبدیل کر لو۔" یہ کہہ کر عنایہ نے الماری سے اسکا سوٹ نکال اسے پکڑایا تو  وہ منہ بناتی بگاڑتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"وصی بیٹا ! یہ مال کے پاس گاڑی روکنا۔مجھے  کچھ سامان لینا ہے۔" رحمانہ بیگم کے کہنے پر وصی نے اکتاتے ہوئے انکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"مما!آپ ڈرائیور کے ساتھ آجائیے گا۔ابھی گھر چلیں۔" تو وہ بولیں
" سیدھی  طرح گاڑی کو مال پر روکو۔ورنہ میں تمھارے پاپا کو شکایت لگا دونگی۔" انکے  بولنے پر  پیچھے بیٹھی ہنزہ کے چہرے پر بے ساختہ  مسکراہٹ آئی۔اسی وقت وصی نے فرنٹ  مرر  میں ہنزہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو  دل ہی دل میں بے زار ہوا ۔اور دل میں کہا!
"ایک  تو مما بھی بس!کسی کے  سامنے بھی کچھ بھی بول دیتی ہیں۔"اسنے سوچتے ہوئے دوبارہ فرنٹ مرر سے ہنزہ کو دیکھا۔تب ہی ہنزہ کی نظر اس پر پڑی ۔اسنے وصی کے چہرے کے بھنچے ہوئے تاثرات دیکھے تو بے ساختہ ہی اسکی مسکراہٹ سمٹی۔اور دل میں سوچا

"پھوپھو بھی بس!انکے بچوں کو ہمارا وہاں جانا پسند نہیں ہے۔اور پھوپھو زبردستی لے جانے پر تلی ہیں۔اسنے سوچتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔
اچانک گاڑی رکنے پر اسنے چونک کر  برابر میں بیٹھی عنایہ کو دیکھا جو اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔تب ہی رحمانہ بیگم نے  گردن موڑ کر ان دونوں سے کہا
" چلو آو تم  لوگ میرے ساتھ۔" انکی آفر پر عنایہ نے  خیالات سے باہر آتے ہوئے کہا
"نہیں پھوپھو!ہم یہاں  ٹھیک ہیں۔آپ وصی بھائی کے ساتھ  جاکر لے آئیں جو بھی لانا ہے۔"
تب تک وصی اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل چکا تھا ۔اسکی بات سن کر انہوں  نے ہنزہ سے پوچھا
"تمہیں بھی نہیں آنا؟" تو  وہ نفی میں سر ہلا دی۔جس پر انہوں نے ناراضگی سے ان دونوں کو دیکھا اور  پھر غصے سے کہا

" چلو اترو گاڑی سے دونوں۔میرے ساتھ فارمل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"انکے ناراضگی بھرے انداز پر ہنزہ نے انکی طرف دیکھا اور پھر کہا
"آپ تو ناراض ہو گئی ہیں پھوپھو۔" تو وہ بولیں
"اور کیا کرو پھر ؟ تم لوگ اتنے نخرے دکھا رہی ہو ۔" تو ہنزہ فورن بولی
"نہیں نہیں ہم نخرے تو نہیں دکھا رہے۔" تو انہوں نے کہا
چلو پھر اترو گاڑی سے اور شاپنگ کراو میرے ساتھ"۔" تو وہ دونوں گاڑی سے اتر کر انکے ساتھ مال میں چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔،۔
"ارے وصی!ایک زنانہ آواز پر ہنزہ نے بے ساختہ مڑ کر پیچھے دیکھا۔
"لال شرٹ اور بلو جینز میں ایک لڑکی چلتی انکی طرف آرہی تھی۔قریب آکر اسنے رحمانہ بیگم کو سلام کیا اور پھر حیرت سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔
"آنٹی یہ کون ہیں ؟" اسنے ان دونوں کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تو رحمآانہ بیگم نے بولیں
"میرے بھائی کی بیٹیاں ہیں۔یہ عنایہ ہے اور یہ ہنزہ۔" انہوں نے باری باری دونوں کا تعارف کرایا۔
شزا نے ناک چڑھاتے ہوئے  ان دونوں کو دیکھا اور پھر نخوت سے کہا

"اچھا آنٹی!اور آنٹی آج آئیں گی ناں آپ مسز احمر کے فنکشن میں۔" تو وہ بولیں
" نہیں بیٹے ! آج اتنے دنوں کے بعد تو یہ دونوں میرے گھر آئیں ہیں ۔آج میں اپنی بچیوں کے ساتھ وقت گزارونگیں۔"انکے  کہنے پر اسنے ایک نظر ان دونوں کو سر سے پاوں تک دیکھا اور پھر  کہا 
"اوہ اچھا " یہ   کہہ کر وہ وصی کی طرف مڑی 

" اچھا تم تو آو گے ناں" اسکے پوچھنے پر وصی نے بے ساختہ رحمانہ بیگم کو دیکھا اور پھر کہا
""آج نہیں !آج پاپا کے ایک کام سے جانا ہے۔اسکے منع کرنے پر شزا  ناراضگی سے بولی
"تم اتنے دنوں سے لنچ بھی  میرے ساتھ نہیں کر رہے۔"اسکے یہ بولنے پر وصی نے بے ساختہ مڑ کر رحمانہ بیگم کو دیکھا۔جنکے چہرے پر تھوڑے تھوڑے خفگی کے آثار نظر آرہے تھے۔انہیں وصی کا روز روز شزا کے ساتھ باہر جانا،اسکے ساتھ لنچ کرنا پسند نہیں تھا۔۔انکے ہی منع کرنے پر وصی نے اسکے ساتھ باہر گھومنا چھوڑا ہوا تھا۔تب ہی شزا نے وصی کو آواز دی تو وہ خیالات سے باہر آیا اور  اسے کہا
"آج کل بزی  ہوتاہوں۔" اسکے کہنے پر شزا نے ناراضگی سے اسے دیکھا اور پھر "اوکے بائے" کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

ٹچی ہونا۔" وہ اپنی بات کہہ کر دوبارہ ہنسی۔جبکہ ہنزہ نے اسکی طرف دیکھ کر کہا

"مجھے لگتا ہے کہ انہیں غصہ کسی اور بات پر تھا۔جو انہوں نے ایسے نکالا۔اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا

"فضول سوچ رہی ہو۔ایسا کچھ نہیں ہے۔"تو وہ بولی

" شاید" ۔تب ہی عنایہ نے کہا

"چلو میں فریش ہو کر آےتی ہوں۔" تو وہ سر ہلا دی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہنزہ نے رحمانہ رحمانہ بیگم سے گھر واپس بھجوانے کی بات کی تو وہ بولیں

"تم کونسا دوسرے شہر میں رہتی ہوں۔آرام سے شام میں چلی جانا۔تو اسنے گردن گھماکر اپنے برابر میں بیٹھی عنایہ کو دیکھا

"جو اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔" 

"ہاں یار !آرام سے جانا۔" ولی نے بھی رحمانہ بیگم کی بات کی تقلید کی ۔تب ہی وصی وہاں آیا

"گڈ مارننگ۔اسکے گڈ مارننگ کہنے پر رحمانہ بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر کہا

" آو ناشتہ کرو۔" تو وہ مسکراتا ہوا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔اسکے بیٹھنے پر ہنزہ نے چہرہ اٹھاکر اسے دیکھا ۔جو اب صبح کے برعکس پیکنٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔اسے دیکھتے ہی ہنزہ کو اسکی کہی ہوئی بات یاد آئی تو اسنے منہ بناکر ناشتہ کرناشروع کر دیا۔

وصی نے ناشتہ کرتے کرتے اچانک ہنزہ کی طرف دیکھا تو اسے اسکی صبح کی حرکت یاد آئی تو اسنے بے ساختہ لب بھینچ کر سر جھٹکا اور زیر لب"بد تمیز لڑکی" کہہ کر ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔

وہ ابھی ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ جب وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھی۔اسے اٹھتا دیکھ کر رحمانہ بیگم نے کہا

" ہنزہ بیٹے ناشتہ ٹھیک سے کرو۔تو وہ بولی

"پھوپھو کر لیا ہے ناشتہ" اسنے مسکرا کر انہیں تسلی دی اور وہاں سے چلی گئی۔اسکے جانے کے بعدباقی سب بھی دوبارہ سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

شام میں جب وہ گھر پہنچیں تو ان دونوں ہی نے گھر میں غیر معمولی خاموشی کو محسوس کیا۔وہ دونوں ہی دل ہی دل میں حیران ہوتی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

"عنایہ تمہیں عجیب سی خاموشی محسوس ہو رہی ہے ؟" ہنزہ نے عنایت سے پوچھا تو وہ بولی

"ہاں۔بی جان نے بھی ہم سے ٹھیک سے بات نہیں کی ۔" عنایہ نے بھی سوچتے ہوئے کہا تو ہنزہ نے کہا

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ کیا بات ہوئی ہو گی ؟" تو وہ بولی

" نو آئیڈیا بہن" تو ہنزہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا

"میں امی سے پوچھتی ہوں۔" تو عنایہ نے بیزاری سے کہا

تمہیں اتنا تجسس کیوں ہو رہا ہے ؟" تو وہ بولی

"یار پتہ تو چلے کہ آخر ہوا کیا ہے ۔جسکی وجہ سے گھر میں خاموشی ہے۔اسکی بات سن کر عنایہ نے اسے دیکھ کر کہا

"تمہارا کوئی حل نہیں ہے۔" تو اسنے مسکراکر کہا

" ہونا بھی نہیں چاہیے۔" یہ کہہ کر وہ چھپاک سے کمرے سے نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ جاکر بی جان کے تخت پر بیٹھ گئی اورانکے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے کگی۔انہوں نے سلام پھیر کر اسکی طرف دیکھ کر کہا

"کیا ہوا ہے ہنزہ ؟" تو وہ بولی

"آپ نے نماز پڑھ لی ؟تو وہ بولیں

"ہاں لیکن لڑکی تمھاری یہ کیا عادت ہے کہ سوال کچھ کرو جواب کچھ دیتی ہو۔" وہ انکی بات سن کر ہنسی اور پھر کہا

"بی جان مجھے ایک بات پتہ کرنی ہے۔"اسکی بات سن کر انہوں نے بغور اسے دیکھا اور پھر کہا

"کیا پوچھنا ہے ؟"تو وہ اٹھ کر انکے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔اور کہنے لگی۔

" گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے بی جان ؟کچھ ہوا ہے ؟" ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ حمزہ ادھر آیا اور آتے ساتھ ہی بولا

"بی جان آپ بابا کو سمجھائیں۔میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔عنایہ صرف میری کزن ہے۔اور کزن ہی رہے گی۔انہوں نے ایک نظر تپے ہوئے حمزہ کو دیکھا اور پھر ہنزہ کو۔تب ہی وہ دوبارہ بول پڑا۔

"ابھی بابا کے کمرے سے آرہا ہوں۔وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔اسنے تلخ لہجے میں کہا تو بی جان نے پہلے ہنزہ کو مخاطب کر کے کہا

"جاو ہنزہ جاکر آرام کرو۔تو وہ بحث کرنے کے بجائے اٹھ کھڑی ہوئی اور جاکر لاونج میں بیٹھ گئی۔اسکے جاتے ہی بی جان نے حمزہ کی طرف رخ کیا اور پھر بولیں

"تم باپ بیٹا اپنی اپنی ضد میں لگ چکے ہو تو وہ بولا

"بی جان بابا مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں۔تمام زندگی مما بابا بولتے رہے کہ جہاں تم لوگوں کی پسند ہو گی وہیں تم لوگوں کی شادیاں کریں گے۔اور اب یہ لوگ ایسے کر رہے ہیں۔انکی بات سن کر بی جان نے اسکی طرف جانچتی نظروں سےدیکھا اور پھر بولیں

"سچ سچ بتاو بات کیا ہے ؟کوئی اور پسند ہے تمہیں ؟" انہوں نے کہہ کر گہری نظروں سے اسکے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا۔وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر سر ہلا دیا۔اسکے سر ہلانے پر انہوں نے پو چھا

"کون ہے وہ؟" تو وہ بولا

" شازمہ ۔ مجھے وہ پسند ہے۔" انہوں نے نام سن کر بغیر حیرانی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا

"چلو میں تمھارے بابا سے بات کرتی ہوں۔"تو وہ انکا چہرہ دیکھے گیا اور پھر بولا

"بی جان پلیز۔آپ بابا کو منا لیں۔بابا میری شازمہ اور عنایہ کی زندگی کو برباد کر رہے ہیں۔انہو ں نے اسکی بات پر خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"میں بات کرونگی تمھارے بابا سے۔لیکن آج کل کی اولاد سنتی ہی کسی کی نہیں ہے ۔اسلئے میں وعدہ تو نہیں کر سکتی۔لیکن کوشش کرونگیں کہ تمھارا مسئلہ حل ہو جائے۔وہ انکی بات سن کر خاموشی سے اٹھ کر لاونج میں چلا گیا۔جبکہ بی جان بیٹھی اسکی پیٹھ کو تکتی رہ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ جیسے ہی لاونج میں جاکرصوفے پر بیٹھا تو پہلے سے وہاں بیٹھی ہنزہ نے اس سے پوچھا

"حمزہ کیا ہوا ؟ کیا بات ہے ؟" تو وہ جو آنکھیں بند کر کے صوفے کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اسنے چونک کر آنکھیں کھولیں اور پھر ہنزہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"مما بابا عنایہ سے میری بات طے کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ میں شازمہ خو پسند کرتا ہوں۔بابا نے مجھ سے پوچھنا تو درکنار بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔اور خود سے سب کر لیا۔یار ایسے بھی کوئی کرتا ہے ؟" تو وہ بولی

"لیکن حمزہ بابا نے بھی کچھ سوچ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔"تو وہ بولا

"نہیں انہیں بس اپنی منوانی ہے۔"تو وہ بولی

"لیکن حمزہ عنایہ میں کیا برائی ہے ؟"تو وہ بولا

"میں کب کہہ رہا ہونکہ اس میں برائی ہے ؟میں اسے کزن کے طور پر پسند کرتا ہوں۔اس سے زیادہ نہیں تو دہ بولی

"لیکن اگر دیکھا جائے تو عنایہ ہر چیز میں شازمہ سے بہتر ہے۔خاص طور پر کردار میں۔"وہ بولتے بولتے تلخ ہوئی ۔اسکے یہ بولتے ہی حمزہ نے اسے غصے سے دیکھا اور سخت لہجے میں بولا

"ہنزہ۔۔یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔"تو وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولی

"کم از کم کسی کو پسند کرنے سے پہلے انسان اسکے کردار کو دیکھ لیتا ہے۔لیکن افسوس صدا افسوس کہ"۔۔۔۔۔

ابھی وہ بول ہی رہی تھی اسکی نظر سامنے پڑی جہاں سے اسے عنایہ کے ڈوپٹہ کا پلو نظر آیا۔تو وہ اپنی بات پوری کئے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی طرف گئی۔

"اسے یہی ڈر تھا کہ کہیں عنایہ نے حمزہ کے انکار کا ناں سنا ہو۔"اسنے جیسے ہی دروازہ کھولا تو کمرہ خالی تھا۔

اسنے چاروں طرف دیکھا اور پھر واش روم کی طرف بڑھی۔جسکا دروازہ بند تھا۔اور لائٹ جل رہی تھی۔

اسنے دروازہ ناک کر کے عنایہ کو آواز دی۔لیکن کوئی جواب موصول ناں ہوا۔اسنے دوبارہ دروازہ ناک کیا۔

اندر واش بیسن کے سامنے کھڑی عنایہ منہ پر ہاتھ رکھے زارو قطار رو رہی تھی۔

یار عنایہ۔۔۔اسنے دوبارہ دروازے کو بجایا تو اب کی بار عنایہ نے ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر منہ پر پانی کے چھپاکے مارکر تولیہ سے منہ صاف کرتی باہر آئی۔

"تم ٹھیک ہو عنایہ ؟" ہنزہ نے اسکی لال آنکھیں دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ بولی

"ہا مجھے کیا ہونا ہے؟میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔اسکی بات سن کر ہمزہ نے بے ساختہ اسکا ہاتھ پکڑکر کہا

"حمزہ کی باتوں کا برا مت ماننا۔وہ پاگل ہے۔تمہیں پتہ ہے ناں ۔اسکی بات سن کر عنایہ نے زخمی مسکراہٹ لئے اسے دیکھا اور پھر بولی

"ہاں پتہ ہے۔تبھی تو دکھ ہے کہ پتہ کیوں ہے۔"اسکی بات پر ہنزہ نے شرمندگی سے سر جھکاکر کہا

"آئی ایم سوری ۔میں تمھارے لئے کچھ ناں کر سکی تو عنایہ نے اسکاہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

" تم معافی مت مانگو ہنزہ۔تمام بات ہی نصیب کی ہے۔شاید میرا نصیب ہی خراب ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کہا

"نصیب تمھارا نہیں۔اسکا خراب ہے۔" وہ اس با ت کے جواب میں کچھ بولے بنا بس اسے دیکھے گئی۔

۔۔۔۔*۔۔۔

دن اسی طرح گزرتے رہے ۔کسی نے بھی اس دن کے بعد حمزہ اور عنایہ کی شادی کے مسئلے کو نہیں اٹھایا تھا۔

ان ہی دنوں اچانک حسام بخاری کے بزنس پارٹنر کی بیوی نے عنایہ کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لئے مانگا تو گھر میں یہ مسئلہ دوبارہ اجاگر ہو گیا۔

اور جب عنایہ کے کانوں میں یہ خبر پڑی تو وہ کچھ لمحوں کے لئے سن رہ گئی۔یہ تو اسنے سوچا ہی ناں تھا۔ابھی تو وہ اپنی محبت کے اجڑنے پر کھل کے رو بھی ناں پائی تھی کہ منہ کھولے یہ مسئلہ بھی آگیا تھا۔ابھی بھی وہ لان میں بیٹھی یہ سب سوچ رہی تھی کہ اچانک ہنزہ نے آکر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ نرمی سے مسکرا دی۔

اور پھر اسکے ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹاتے ہوئے کہا

"مجھے پتہ ہے کہ یہ تم ہو۔"اسکی بات سن کر ہنزہ ہنسی اور ہنستے ہوئے سامنے والی چئیر پر آبیٹھی۔

"اور سناو محترمہ ! یہاں اکیلے اکیلے کیوں بیٹھی ہو؟" اسکے بولنے پر عنایہ نے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر کہا

"ایسے ہی" تب ہی ملازمہ نے آکر عنایہ سے کہا

" عنایہ باجی ! آپکو آپکی مما بلا رہی ہیں۔" وہ اپنی بات کہہ کر اندر چلی گئی تو عنایہ نے ہنزہ کی طرف دیکھا اور کہا

"چلو یار تم بھی آجاو اندر" تو وہ بولی

" نہیں میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھونگی۔تم جاو۔" اسکے بولنے پر وہ سر ہلاتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"مما !آپ نے بلایا تھا ؟"عنایہ نے اندر کمرے میں جاکر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ بولیں۔

"ہاں کچھ کام تھا بلکہ کچھ بات کرنی تھی تم سے۔" انکے اس طرح بولنے پر عنایہ نے حیرت سے انہیں دیکھا اور پھر بولی

"جی ؟" تو وہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئیں۔

"بیٹا وہ آپ سے ایک بات پوچھنی ہے؟" تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی

"جی ؟" اسکے ہاں کرتے ہی انہوں نے نرمی سے اسکا ہاتھپکڑتے ہوئے کہا

"تمہارے تایا ابو اور تائی امی نے تمھارا ہاتھ حمزہ کے لئے مانگا ہے۔"اسنے انکی بات سن کر حیرت سے انکی طرف دیکھا جبکہ وہ مزید بولیں

" مسز ہاشمی بھی حامد کے لئے تمھارا رشتہ لیکر آئی ہیں۔اب تم سوچ کر جواب دینا کہ کس کو ہاں کریں۔اگر میرے دل کی بات پوچھتی ہو تو ہمیں تو اپناحمزہ پسند ہے۔"وہ بغیر کچھ ری ایکٹ کئے انکی طرف دیکھتی رہی انہوں نے بات کرتے کرتے اسکی غائب دماغی نوٹس کی تو اسے پکارا ۔انکی آواز پر وہ خیالات سے باہر آتے ہوئے بولی

"مما آپ لوگ جو فیصلہ کریں گے ٹھیک کریں گے۔آپ لوگوں کو جو بہتےلر لگتا ہے آپ لوگ وہ کریں۔" تو وہ بولیں

"ہم تمھاری مرضی جاننا چاہتے ہیں۔سوچو اور پھر آرام سے جواب دینا۔" انہوں نے نرمی سے کہہ کر اسکا گال تھپتھپایا تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھے گئی۔تب ہی وہ بولیں

"اچھا عنایہ ایسا کرو اپنی تائی امی کو بلاکر لاو زرا۔انکے کہنے پر وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔اور جاکر انہیں اپنی مما کا پیغام دیا تو وہ بولیں

"آتی ہو بیٹے" وہ جیسے ہی انکے کمرے سے پیغام وصول کر کے باہر نکلی تو کوریڈور میں حمزہ اسے کھڑا دکھائی دیا ۔حمزہ نے جیسے ہی اسے دیکھا تو کہا

"عنایہ میری بات سننا" تو وہ خانوشی سے اسکے قریب جاکر کھڑی ہو گئی۔تب ہی وہ آہستہ سے بولا

"مجھے اکیلے میں تم سے بات کرنی ہے۔"تو وہ بولی

"اچھا آو لان میں جاکر بات کرتے ہیں۔"تو وہ بولا

پہلے تم جاو۔پھر میں آتا ہوں۔"اسنے اسکی بات سن کر غور سے اسکا چہرہ دیکھا اور پھر بولی

"ہم لوگ پہلے کزن ہیں حمزہ" تو وہ بولا

"ایسا ہمارا ماننا ہے۔گھر والے ایسا نہیں مانتے ۔" تو وہ خاموش ہو گئی۔تب ہی حمزہ نے کہا

"تم جاو لان میں۔میں آتا ہوں۔" تو وہ سر ہلاتی لان کی طرف بڑھ گئی۔کچھ ہی دیر کے بعد حمزہ بھی لان میں چلا آیا۔اور اس طرف بڑھ گیا جہاں وہ دونوں بیٹھی تھیں۔اسنے ادھر جاتے ہی ہنزہ سے کہا

" تم اندر جاو۔ہم نے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے دونوں کے چہرے کے تاثرات جانچے۔

دونوں ہی بہت سنجیدہ لگ رہے تھے۔تب ہی وہ "اچھا"کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔

اسکے جاتے ہی حمزہ نے عنایہ کی طرف دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔

اسنے پریشان سی عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"میرے خیال میں بات تم تک پہنچ چکی ہو گی یا پہنچنے والی ہو گی۔"تو عنایہ نے فورن کہا

"کون سی بات ؟" تو وہ بولا

"ہماری منگنی کی بات" تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولی

"جی مما نے آج ہی بتائی ہے۔" تو وہ بولا

"میں تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولنا چاہتا عنایہ ۔میں سچ بتاو تو مجھے شازمہ سے پیار ہے۔تم صرف اور صرف کزن ہو۔اسکی بات سن کر عنایہ نے کہا

"جی میں جانتی ہوں۔لیکن آپ کو مجھ سے کونسی ضروری بات کرنی تھی ؟ یہ بات تو آپ ہنزہ کے سامنے بھی کر سکتے تھے۔تو وہ اسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھتے ہوئے بولا

"تم ناں کر دو۔میں ناں خود خوش رہ پاونگا ناں تمہیں رکھ پاونگا۔۔تب ہی وہ بولی۔

"آپ خود کیوں نہیں کرلیتے ناں"تو وہ بولا

" میری کوئی بھی نہیں سن رہا "وہ اسکی بات سن کر خاموشی سے اسے دیکھتی رپی تو وہ بے چینی دے بولا

"پلیز عنایہ"تو اسنے سینے پر ہاتھ بامدھ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا

"میری طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اسکے بعدصبھی اگر ناں نہیں ہوئی تو پھر آپ کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔تو وہ بولا

"مجھے جو کرنا پڑا میں کرونگا"وہ خاموشی سے اسکے چہرے کو دیکھے گئی۔تب ہی حمزہ نے کہا

"تھینک یو ان ایڈوانس "تو وہ بولی

"مینشن نوٹ" وہ یہ کہہ کر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

جبکہ حمزہ نے وہیں چئیر کی بیک سے ٹیک لگاکرپر سکوں انداز میں آنکھیں موند لیں۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"میرے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟"عنایہ نے سوچا

"مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟"ایک اور سوچ نے اسکے دماغ میں سر اٹھایا

"جب سے وہ حمزہ سے بات کر کے آئی تھی تب سے مختلف باتوں کو سوچے جارہی تھی۔اچانک ہی ہنزہ دروازہ کھول کر اندر آئی اور اسکے پاس آکر کہا

"حمزہ نے کیا بات کرنی تھی ؟تو وہ بولی

"ایسے ہی نارمل بات کر رہا تھا۔"تو ہنزہ نے کہا

"اگر نارمل بات تھی تو مجھے جانے کا کیوں بولا تھا ؟"اسکی بات سن کر عنایہ نے خاموشی سے ادھر ادھر دیکھا تو ہنزہ نے کہا

"جو بھی بات ہے مجھے بتا دو عنایہ "تو وہ بولی

"جب کوئی بات ہے ہی نہیں تو کیا بتاو؟" تو ہنزہ نے دکھی لہجے میں کہا

"تم مجھے اپنا نہیں سمجھتی کیا؟"تو وہ بولی

"اس میں اب اپنوں کی کیا بات ہے ہنزہ ۔"تو ہنزہ نے کہا

"تو تم مجھے بتا کیوں نہیں رہی ؟"تو وہ بولی

"اگر کوئی بات ہو گی تو بتاونگی ناں۔اور وہ بس یہ پوچھ رہا تھا کہ ولی آج کل یونی جا تہا ہے کہ نہیں۔کوئی نوٹس لینے ہیں اسے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسے دیکھا اور پھر بولی

"سچی؟"تو عنایہ بولی

"ہاں ناں"اسکے یہ بولنے پر ہنزہ نے پھر کہا

"میں تمہیں ایک دفعہ پھر کہہ رہی ہوں عمایہ کہ جو بھی بات ہے مجھے بتا دو۔"تو عنایہ نے کہا

"مجھ پر یقین رکھو ۔جب مجھے کگا کہ میں چیزیں نہیں سنبھال پارہی تو تمہیں بتا دونگیں۔اسکے تسلی دینے پر ہنزہ نے اسکا ہاتھ تھپتھپایا تو عنایہ مسکرا دی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

"مما میں آجاو ؟وہ رات کا کھانا کھا نے کے بعد اپنی مما کے کمرے سے باہر کھڑی اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔انہوں نے اسکی آواز سن کر کہا

"آجاو عنایہ ۔"تو وہ دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔

"مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔اسنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تو کپڑوں کو تہہ کرتی نفیسہ بیگم نے فورن اسکی طرف دیکھا اور پھر بولیں

"ہاں بولو"تو وہ جھجھکتے ہوئے بولی

"مما مجھے آپکے سوال کا جواب دینا ہے تو وہ بولیں

"ہاں بتاو"انکی اجازت دینے پر وہ بولی

"مما میں چاہتی ہونکہ آپ مسز ہاشمی کو ہاں کر دیں۔"اسکی یہ بات کہتے ہی انہوں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا

"عنایہ"۔۔۔۔تو وہ بولی

"پلیز مما۔۔۔"تو انہوں نے کہا

"لیکن ہم لوگ چہ رہے تھے کہ حمزہ سے ہو"تو وہ بولی

"لیکن مما"۔تب ہی انہوں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا

"ایک منٹ۔کہی تم اس لڑکی کی وجہ سے تو انکار نہیں کر رہی ہو؟"تو وہ بولی

"نہیں۔"تو انہوں نے کہا

"میں مان ہی نہیں سکتی"۔تب ہی عنایہ نے نر می سے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

"مما پلیز میری بات کو سمجھیں۔آپ سب زبردستی حمزہ کی شادی مجھ سے کروا رہے ہیں۔یوں ناں وہ خوش رہے گا ناں میں۔"تو وہ بولیں

"شادی کے بعد لڑکے خود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔"تو اسنے کہا

"ہوتے ہونگے۔لیکن مجھے بٹا ہوا انسان نہیں چاہیے ۔وہ اسکی بات سن کر خاموشی سے اسکی طرر دیکھتی رہ گئیں۔جبکہ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر بیٹھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

یہ بھی ہونا تھا ؟مجھے اپنے منہ سے ناں کر نی تھی؟"اسنے دل ہی دل میں خود سے کہا

"اور ایک آنسو اسکے چہرے سے ٹپکا۔

"نہیں مجھے نہیں رونا۔مجھے اب کبھی نہیں رونا۔"اسنے خود کو باور کراتے ہوئے خود سے کہا

"جبکہ آنسو اب بہل بہل اسکے چہرے پر بکھر رہے تھے۔وہ خاموشی سے کھڑی چاند کو دیکھتی رہی۔

"کاش کہ ایسا ناں ہوتا

کہ مجھے تم سے محبت ناں ہوتی

کاش اے کاش کہ ایسا ناں ہوتا

میں نے تمہیں خیالوں میں ناں بسایا ہوتا

کاش اے کاش کہ ایسا ناں ہوتا

کہ میں نے تمہیں سوچا ناں ہوتا

کاش اے کاش ۔۔۔

کہ میں نے تمھارے خواب ناں دیکھے ہوتے

کاش اے کاش"

اسنے کہیں پڑھے ہوئے یہ اشعار سوچتے ہوئے بغیر آواز پیدا کئے روتی چلی گئی۔

نجانے ایسے روتے روتے کتنی دیر گزری تھی جب ہنزہ نے ٹیرس کا دروازہ کھول کر اسے وہاں دیکھ کر شکر کا سانس لیتے ہوئے کہا

"تم یہاں ہو۔اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں۔اسکی آواز سن کر اسنے پیٹھ پھیرے پھیرے ہی جلدہ جلدی آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

"ہاں"۔جب ہی ہنزہ نے کہا

"یار اندر کمرے میں آجاو۔وہاں سردی ہے۔"تب ہی وہ بولی

"نہیں اتنی نہیں ہے۔"اسکی ناں کرنے پر ہنزہ نے اندر آکر اسکا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی۔

"جاو پہلے کپڑے بدلو"۔ہ نزہ نے اسکے ہاتھ میں کپڑے تھماتے ہوئے اسے واشروم کی طرف دھکا دیا تو وہ خاموشی سے واشروم کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے مما؟"ہنزہ نے حیرت سے کہا

"یہ سچ ہے۔"انہوں نے افسردگی سے کہا تو وہ بے چینی سے بولی

"میں جاکر اس سے پوچھتی ہوں۔"کہہ وہ فورن اپنے اور اسکے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھی۔

اندر کمرے میں جاکر دیکھا تووہ وہاں کہیں نہیں تھی۔وہ وہاں سے نکل کر کچن کی طرف بڑھی۔لیکن اسے وہ وہاں بھی ناں نظر آئی تو اسنے کچن میں کام کرتی ملازمہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو 

وہ بولی

"وہ تو چھت پر گئی ہیں۔"مطلوبہ جواب ملنے پر وہ فورن چھت کی طرف بڑھی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

چھت پر پہنچتے ہی اسے وہ دیوار سے ٹیک لگائے نظر آئی تو وہ غصے سے لال پیلی ہوتی اسکے پاس گئی اور کہا

"یہ کیسا مزاق ہے عنایہ ؟"اسکی بات سن کر وہ اسکی طرف گھومی اور پھر کہا

"کس بارے میں بات کر رہی ہو ؟"تو وہ بولی

"تم نے حمزہ کے رشتے سے انکار کیوں کیا ہے ؟"تو اسنے کہا

"میرے پاس اس سے بہتر آپشن موجود تھا تو میں نے اسے سیلیکٹ کیا ہے۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا

"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تم تو حمزہ کو پسند کرتی تھی۔"تو وہ بولی

"وہ میری بے وقوفی تھی۔"اسکی بات سن کر تو ہنزہ کا دماغ ہی گھوم گیا۔اور پھر غصے سے کہا

"تمہارا دماغ ٹھیک ہے ناں ؟ تو وہ اسی پر سکون انداز میں بولی

"ہاں"۔تب ہی ہنزہ کے دماغ میں کچھ کلک ہوا تو اسنے عنایہ کا بازو سختی سے پکڑتے ہوئے کہا

"اس دن حمزہ نے تمہیں رشتے سے ناں کرنے کا کہا تھا ۔ہیں ناں؟"اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے گڑبڑائی اور پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولی

"وہ مجھے ناں کرنے کا کیوں بولے گا؟جبکہ اسکے پاس خود کی زبا ن ہے۔"تو ہنزہ نے سختی سے کہا

"یہ ڈرامہ کسی اور کے ساتھ کرنا۔مجھے سچی بات بتاو۔"تو عنایہ نے انجان بنتے ہوئے پوچھا

"کیسا ڈرامہ "۔تو ہنزہ نے صدمے سے اسے دیکھا 

"کم از کم مجھ سے تو سچ بولو"۔اسے دکھی دیکھ کر آخر وہ ہار مانتے ہوئے بولی

"اسکے ساتھ ناں میں خوش رہتی ناں وہ۔ایک بٹے ہوئے انسن کے ساتھ میں کیسے شادی کرسکتی ہوں؟جو مجھے خود منع کر رہا ہو کہ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی۔تم صرف کزن ہو۔اگر میں پھر بھی اس سے شادی کرتی تو یہ میری تو ہین ہوتی۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے اسے گلے سے لگا لیا۔وہ بھی مزید کچھ کہنے کے بجائے روتی چلی گئی۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

اسکے انکار کرنے سے حمزہ کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔شازمہ کے گھر مسز حسام اور مسٹر حسام رشتہ مامگنے گئے تھے۔اسکے گھر والوں نے بھی رسمی طور پر سوچنے کا ٹائم لیکر کچھ دنوں کے بعد ہاں کر دی تھی۔اور آج باقاعدہ طور پر حمزہ اور شامہ کی منگنی ہو گئی تھی۔

عنایہ نے اسکی منگنی میں بھر پور شرکت کی تھی تاکی کوئی اسکی دلی کیفیت ناں سمجھ سکے۔

وہ لوگ ابھی ہی ہال سے تھکے ہارے واپس آئے تھے۔سب تھکن سے بے حال تھے۔اسلئے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

وہ اور ہنزہ بھی اپنے کمرے میں آگئیں تھیں۔ہنزہ تو آتے ساتھ ہی چینچ کئے بغیر سو گئی۔

جبکہ وہ بیڈ پر لیٹے اپنے نصیب کو سوچ رہی تھی۔حیرت کی بات تھی کہ اسے رونا،نہیں آرہا تھا۔اسنے پورا وقت ان دونوں کو اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے ایک ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔پھر دونوں کو ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھیاں پہنتے دیکھا تھا۔

اسنے ایک دفعہ پھر تصور کی آنکھ سے اس منظر کو دیکھا اور پھر حیرت سے کہا

"مجھے لگتا تھا کہ یہ بندہ مجھے ناں ملا تو میں مر جاونگی یا یہ کسی اور کا ہو گیا تو پھر شاید مجھے سانس بھی ناں آئے "لیکن حیرت کی بات ہے کہ مجھے سانس بھی آرہی ہے اور میں زندہ بھی ہوں۔اسنے خود سے دل میں یہ کہا اور اسے ایک دفعہ پھر حیرت ہوئی۔کیونکہ اسے کوئی رونا نہیں آرہا تھا ناں دکھ ہو رہا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ سن ہوچکی ہے۔جس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔" تب ہی اسے ہلکی ہلکی سی ٹیسیں اپنے دل کی بائیں طرف اٹھتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔

"یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟شاید میں زہنی دباو کا شکار ہوں۔لیکن پھر مجھے رونا کیوں نہیں آرہا ؟" اسنے پھر حیرت سے خود سے کہا

اور پھر درد کو برداشت کرتے ہوئے ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر لیٹ گئی۔

کچھ دیر تک تو وہ درد برداشت کرتی رہی پھر وہ اٹھی اور جاکر پین کلر لیں۔جسکو لینے کے بعد درد میں تھوڑا ساافاقہ ہوا تو وہ سوگئی۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"اب تو حمزہ کی بھی منگنی ہو گئی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وصی کی بھی منگنی کرواو۔"رحمانہ بیگم نے تقریب سے واپسی پر گھر جاتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا

"وہ انکی بات سن کر ہلکا سا مسکرائے اور پھر کہا

"تو پھر اپنے بیٹے سے ہاں کروائیں اور پھر لگ جائیں کام پر"۔تو وہ افسردگی سے بولیں

"مجھے ایک ڈر ہے ۔تب ہی میں اس سے اس سلسلے میں بات نہیں کرتی۔"انکی بات سن کرانہوں نے ڈرائیو کرتے کرتے گردن موڑ کر اپنی زوجہ کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا

"کیا ڈر ہے آپکو ؟"تو وہ بولیں

"یہی کہ کہیں وہ شزا کا نام ناں لے لے۔بچی اچھی ہے لیکن اسکا مزاج ہماری طرح کا نہیں ہے۔وہ اور وصی کبھی بھی ایک کامیاب زندگی نہیں گزارسکتے۔"انکی بات سن کر انہوں نے کہا

"تو آپ کو لگتا ہے کہ وصی اس میں دلچسپی لیتا ہے ؟"تووہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولیں

"ہاں لگتا تو ایسا ہے۔"تو انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا

"آپ ایک دفعہ بات تو کریں ۔"تو وہ بولیں

"نہیں جب تک وصی خود بات نہیں کرے گا تب تک میں بھی نہیں کرونگیں۔"انکی بات سن کرانہوں نے خاموشی سے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"مزہ آگیا کل تو"۔حسن نے حمزہ کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا تو اسنے مسکراکر کہا

"وہ توآنا ہی تھا۔آخر منگنی کی تقریب کسکی تھی۔"اسکے یہ کہنے پر حسن نے اسے گھورا اور پھر کہا

"او بھائی تیری منگنی کی تقریب کو پروقار بنانے کے لئے ہم لوگوں نے بڑی محنت کی تھی۔"تو وہ بولا

"بھائی ہی بھائی کے کام آتا ہے۔"اسکی بات پر وہ ہنسا اور ابھی کچھ کہنے والا ہی تھا کہ ہنزہ اور عنایہ وہاں چلی آئیں۔انکو دیکھ کر حسن نے کہا

"مہارانی جی آپکی صبح ہو گئی ؟" تو اسنے کہا

"ہاں ہو گئی ہے۔تمہیں کوئی مسلئہ؟"تو وہ بولا

"نہیں ہمیں کیا مسلئہ ہوناہے۔ہم تو ایسے ہی پوچھ رہے ہیں۔"اسکے یہ بولنے پر ہنزہ نے کچھ بولنے کے بجائے خاموشی سے صرف اسے دیکھنے پر اکتفا کیا۔جبکہ عنایہ نے کہا

"تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا ہے یا کرنا ہے ؟"تو حسن بولا

"ہم لوگوں نے کر لیا ہے۔"اسکا جواب سن کر وہ سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔

جبکہ حمزہ خاموش بیٹھا دل ہی دل میں عنایہ کو شکریہ کہنے کا سوچ رہا تھا۔لیکن وہ اسکو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی۔اس دن کے بعد سے عنایہ اسے کم ہی کم سب میں بیٹھی دکھائی دی تھی۔اور وہ چاہنے کے باوجود اسے شکریہ نہیں کہہ پایا تھا۔اب بھی وہ دل میں کر رہا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اسے شکریہ کہنا ہے۔وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ جب حسن نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا تو وہ گڑبڑاکر بولا

"کیا ہوا؟"تو حسن نے اسے گھورتے ہوئے کہا

اتنی دیر سے میں پاگلوں کی طرح تم سے باتیں کئے جارہا ہوں۔اور تم نا ناں کر رہے ہو ناں ہاں"۔اسکے یہ کہنے پر وہ بولا

"بکواس ناں کر"تو حسن نے ہنستے ہوئے اسکا ہاتھ کھینچا

"اچھا چل اٹھ۔باہر چلتے ہیں۔"تو وہ بھی اسکے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

ناشتہ کرنے کے دوران ہنزہ کی نظریں برابر عنایہ کے چہرے کے تاثرات کا جاہزہ لے رہی تھیں۔جہاں اسے کوئی غم کوئی پریشانی نہیں نظر آرہی تھی۔جبکہ دوسری طرف عنایہ اپنے چہرے پراسکی نظروں کا ارتکاز محسوس کر رہی تھی۔اور اسکی کوشش یہی تھی کہ نارمل رہے ۔تب ہی ہنزہ نے اسے پکارا

"عنایہ "تو وہ بولی

"ہاں"اسکے کہنے پر ہنزہ نے اسکی طرف دیکھتے اس سے پوچھا

"سب ٹھیک ہے ؟"تو وہ بولی

"ہاں۔کیوں ؟ کیا ہوا؟" اسکے نارمل رویے پر ہنزہ کو ایک لمحے کے لئے تعجب ہوا اور پھر اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی

"ناشتہ کے بعد میں تم سے کچھ بات کرونگی۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے سر ہلادیا اور ہنزہ خاموشی سے اسکو دیکھتے ہوئے چائے پینے لگی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"ارے بھائی!میں کیا بتاو ۔کل کتنا مزہ آیا حمزہ بھائی کی منگنی کی تقریب میں۔"ولی نے کوئی تیسری دفعہ یہ جملہ دہرایا تھا۔

جبکہ برابر میں بیٹھے وصی نے لیپ ٹاپ پر کام کرتے کرتے سر اٹھاکر اسے دیکھا تو وہ بولا

"میں تو کہتا ہونکہ بھائی لگے ہاتھوں آپ بھی ایک عدد منگنی کر ہی دیں۔"اسکی بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولا

"اور کوئی حکم"۔تو ولی نے کہا

"نہیں فلحال تو کیلئے اتنا ہی ۔"تب ہی اچانک کچھ یاد آنے پر وہ بولا

"ویسے بھائی آپکی نظر میں ہے کوئی؟یا مما کو ہی یہ کام کرناپڑے گا۔"اسکی بات سن کر وصی ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑگیا۔"جبکہ ولی نے کہا

"بھائی پلیز شزا کا نام مت لیجئے گا۔ہمیں گھر میں جنگیں کرانے والی خاتون نہیں چاہیے"۔اسکی بات پر وہ بے ساختہ ہنسا اور پھر کہا

"کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ ایسی ہے ؟تو ولی نے کہا

"آپ کو آج تک انکی سوچ کے بسرے میں علم نہیں ہوا؟"اسکے حیرت سے یہ کہنے پر وہ بولا

"یار!سمجھداری نہیں ہے اس میں بس۔لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ لڑائیاں کرانے والی ہے ۔" تب ہی ولی نے اس سے پوچھا

"آپ کو وہ ایز آ لائف پارٹنر پسند ہیں ؟"تو وہ بولا

"میں نے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچا۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے۔"اسکی بات سن کر ولی نے کہا

"پتہ نہیں بھائی۔لیکن جہاں تک مجھے لگتا ہے وہ ہر چیز کو پیسوں میں تولتی ہیں۔انکی نظروں میں انسانیت کوئی چیز نہیں ہے۔"اسکے یہ کہنے پر وصی نے کچھ سوچتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا

"چلو جیسی بھی ہے۔ہمیں کیا کرنا ہے۔"تو ولی خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"وہ دونوں ناشتہ کے بعد اب ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھیں جہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ہنزہ نے اپنے برابر بیٹھی عنایہ کو دیکھا اور پھر اچانک کہا

"تم اپمے اندر کا غبار میرے سامنے نکال سکتی ہو۔"تو وہ بولی 

"یار میرے اندر کوئی غبار نہیں ہے۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔"تو ہنزہ نے کہا

"ہونا بھی نہیں چاہیے۔لیکن پھر بھی اگر کوئی بات شئیر کرنی ہے یا رونا ہے تو میرا کندھا حاضر ہے۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے مسکراتی نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا۔

جبکہ خود وہ دل ہی دل میں سوچے جارہی تھی کہ کیا واقعی میں ٹھیک ہوں ؟اسے خود کی حالت نہیں سمجھ آرہی تھی ۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ الجھی ہے۔لیکن الجھن کس بات کی تھی۔جبکہ اسنے خود ناں کی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ اسکا دل اب بھی ان سب باتوں کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔لیکن وہ چاہتی تھی کہ جلد سے جلد سب کچھ نارمل ہو جائے ۔اسے علم تھا کہ ہر چیز کو حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے لیکن سے یہ علم نہیں تھا کہ بلکل ایسے ہی صبر آنے میں اور زحم بھڑنے میں بھی وقت لگتا ہے۔یہ وقت سمجھنےکے لئے اسے وقت درکار تھا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"کیسے ہو وصی ؟" وہ اپنے آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب شزا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔اسنے اسکی آواز پر سر اٹھاکر اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر کہا

"ہاں میں ٹھیک۔آو بیٹھو۔"تو وہ بولی

"بیٹھنے نہیں آئی میں۔بلکہ تمہیں ساتھ لے جانے آئی ہوں۔اسکے یہ کہنے پر وصی نے اسکی طرف دیکھا تو وہ بولی

"چلو باہر لنچ کرنے چلتے ہیں۔میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔"تو وہ بولا

"یار میرا دل نہیں کر رہا باہر جانے کا۔یہی کچھ منگوالیتے ہیں۔"تب ہی وہ بولی

"وصی!میں بتا رہی ہونکہ میں نے کوئی بہانہ نہیں سننا۔چلو اٹھو۔ورنہ میں ناراض ہو جاونگی۔"ےو وہ فائل رکھتا اٹھ کھڑا ہوا 

"چلو آو"۔اسکے یہ کہنے پر شزا نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر کہا

"یہ ہوئی ناں بات"تو وہ مسکرادیا۔

یونہی چلتے چلتے وہ لوگ لفٹ کی طرف جا رہے تھے جب سلمان صاحب نے ان دونوں کو لفٹ کی طرف جاتے دیکھا ۔تب ہیوصی کی نظر ان پر پڑی تو وہ انکے پاس چلا گیا۔

"پاپا۔۔۔۔۔وہ شزا باہر کھانا کھانے کا کہہ رہی تھی تو میں اسے باہر لیکر جا رہا تھا۔اسکے یہ کہنے پر انہوں نے سر ہلادیا تو وہ مزید بولا

"جاوید بلڈرز سے میری بات ہو گئی ہے"۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ انکو اس بارے میں بتا ہی رہا تھا کہ شزا چلتی ہوئی انکے پاس آکھڑی ہوئی۔اور آتے ہی کہا

"چلو ناں وصی۔دیر ہو رہی ہے۔تم انکل کو یہ سب آکر بتا دینا"اسکے انداز پر قاسم صاحب نے صرف ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا

"ہاں جاو وصی۔"تو وہ شرمندہ سا چلتا اسکے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔

انکے وہاں سے جاتے ہی قاسم صاحب شزا کا حاوی رویہ سوچتے رہے۔انہیں رحمانہ بیگم کی بات یاد آرہی تھی کہ شزا اور وصی ایک کامیاب زندگی نہیں گزار سکتے۔اور اب انہیں بھی لگ رہا تھا کہ وہ واقعی میں صحیح کہہ رہی تھیں۔وہ اپنے ہی خیالوں میں گھرے اپنے آفس کی طرف بڑھے ۔تب ہی انکی سیکیٹری نے آکر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آدھے گھنٹے میں قیصر بلڈرز کے ساتھ انکی میٹنگ ہےتو وہ سر ہلاکر اندر کی طرف بڑھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ اس وقت بھی خاموش ٹیرس پر کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی۔اسکے دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔لیکن زبان خاموش تھی۔

"کبھی ایسا بھی یوتا ہے ناں کہ ہمارے اندر اتنی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں جن سے گھبراکر ہم یا تو بہت زیادہ بولنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر تنہا رہنا شروع کر دیتے ہیں۔"

عنایہ دوسری قسم کی کیٹیگری کے لوگوں میں سےتھی جو اپنے اندر کی آوازوں کو تنہائی میں سننا چاہتی تھی۔اور جب بھی اسکی یہ کیفیت ہوتی تھی تو وہ تنہائی میں رہنا شروع کر دیتی تھی۔ابھی بھی وہ ایسے ہی کھڑی اپنے اندر کی آوازوں کو سن رہی تھی کہ جب ہنزہ کافی کے دو کپ لئے وہاں آئی۔اور آکر کہا

"مجھے پتہ تھا کہ تم یہی ہوگی۔"یہ کہتے ہوئے اسنے کافی کا کپ اسے پکڑایا تو وہ دھیرے سے مسکرائی اور کپ اٹھاکر سپ لیا۔

تب تک ہنزہ بھی اسکے برابر میں آکھڑی ہوئی تھی۔کافی دیر دونوں ہی اپنے خیالوں میں گھری رہیں۔پھر ہنزہ نے ہی بات شروع کرتے ہوئے کہا

"کبھی کبھی وہ ہو جاتا ہے جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا ۔"تو عنایہ بولی

"زندگی بہت ان پریڈکٹیبل چیز ہے۔کب کیا ہو جائے ۔کچھ علم نہیں۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے تائیدی انداز میں سر ہلایا ۔

خاموشی ایک دفعہ پھر دونوں میں آموجود ہوئی تھی۔کافی دیر یونہی خاموش رہنے کے بعد آخر عنایہ نے اسے پکارا

"ہنزہ ؟"تو وہ بولی

"ہاں ؟"اسکے ہاں کہنے پر عنایہ نے اس سے پوچھا

"تم کیوں خاموش ہو ؟"تو وہ بولی

"بولنے کو کچھ ہے ہی نہیں تو کیا بولو؟"اسکی اس بات پر عنایہ نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر کہا

"کیا ہوا ہے ؟"تو وہ بولی

"ہوا تو کچھ بھی نہیں ہے۔"تو عنایہ نے کہا

"تو پھر چپ کیوں ہو؟"تو وہ بولی

"ایسے ہی۔"اسکے اس طرح سے بات کرنے پر عنایہ نے اسے کہا

"تم مجھ سے بدلہ لے رہی ہو ؟"تو ہنزہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا

"بدلہ کس بات کا؟اور خاموش اسلئے ہوں کیونکہ۔۔۔۔"وہ بولتے بولتے ٹہری۔

جبکہ عنایہ نے بے چینی سے اسکا چہرہ دیکھا تو وہ بولی


"کیونکہ نیچے مسٹر ہاشمی اور مسز ہاشمی کو ہاں کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔اور شاید کل وہ لوگ یہاں آئیں۔"اسکی بات سن کر عنایہ نے آنکھیں پھاڑ کر اسکی طرف دیکھا تو وہ بولی

"اتنی حیرت زدہ کیوں ہو رہی ہو؟ یہ سب تو ہونا ہی تھا آخر۔"ہنزہ کے کہنے پر عنایہ نے اسے دیکھ کر کہا

"اتنی جلدی؟"تو وہ بولی

"اچھا ہے جتنی جلدی یہ سب ہوگا اتنی ہی جکدی تم اس سب سے باہر نکلوگی۔"اسکے یہ کہنے عنایہ نے آنسو بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھا تو اسنے کہا

"خود پر قابو رکھو عنایہ۔اور یہ بات یاد رکھو کہ ایک بٹے ہوئے انسان کے ساتھ کیسے تم زندگی گزار سکتی تھی؟"اسکے یہ کہنے پر عنایہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔جبکہ ہنزہ وہی کھڑی نصیب کے ہیر پھیر کو دیکھتی رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔ 

پوری رات اسکی سوچتے ہوئے گزری تھی۔اسی وجہ سے صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی۔

آنکھ کھلتے ہی اسنے پہلے تو لیٹے لیٹے ہی گردن موڑ کر ہنزہ کی جگہ کی طرف دیکھا جہاں وہ نظر نہیں آرہی تھی۔پھر موبائل اٹھا کر وقت دیکھا۔

جہاں دن کے گیارہ بج رہے تھے۔

"میں اتنی دیر سوتی رہی؟"وہ یہ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

فریش ہونے کے بعد وہ باہر نکلی اور بالوں کو یونہی کیچر میں لپیٹ کر نیچے چلی آئی۔

ابھی وہ سیڑھیوں پر ہی تھی کہ جب سیڑھیوں سے اوپر آتی ہنزہ نے اسے نیچے آتا دیکھ کر آواز لگائی۔

"چاچی اٹھ گئی ہے عنایہ۔"یہ کہہ کر وہ خود تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتی اسکے پاس چلی آئی اور آکر کہا

"اتنی دیر سوتی رہی ہو۔چلو اب۔"تو وہ اسکےساتھ لونج کی طرف بڑھ گئی۔

"آج تو تم بہت سوئی۔"نفیسہ بیگم نے عنایہ کو کہا تو وہ بولی

"ہاں ۔رات کو دیر سے نیند آئی تھی۔"تب ہی خالدہ بیگم نے کہا

"اچھا جاو۔جاکر ناشتہ کر لو۔"تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ڈائننگ ٹیبل کی طرف چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ ناشتے سے فارغ ہو کر لان میں جاکر بیٹھ گئی ۔نجانے کیوں مسٹر اینڈ مسز ہاشمی کے آنے کا سن کر ہی اسکا دل ڈوب رہا تھا۔

"میں کیسے کسی اور سے محبت کر پاونگی؟"اسنے دل میں سوچا

اور پھر ایک سوچ کے بعد دوسری سوچ کا سفر جاری ہو گیا۔

وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی تھی جب باہر جاتے حمزہ نے اسے اکیلے بیٹھا تو شکریہ ادا کرنے کا سوچ کر اسکی طرف بڑھ گیا۔

اسکے قریب پہنچ کر اسنے اسکو آواز دی تو اسنے ہڑبڑاتے ہوئے اسکی طرف دیکھاتو وہ بولا

"میں نے شاید تمہیں ڈسٹرب کیا ہے۔"تو وہ بولی

"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔"اسکی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے بولا

"میں تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہ رہا تھاعنایہ۔"تو وہ بولی

"اسکی ضرورت نہیں۔میں نے جو کیا ہے اپنے لئے کیا۔کیونکہ ایک بٹے ہوئے شخص کے ساتھ میں زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ "تو وہ بولا

"تم مجھ سے بہتر انسان کو دیزرو کرتی ہو۔"اسکی اس بات لر اسنے کچھ بھی کہنے کے بجائے خاموشی سے اسکی طرف دیکھا۔

تب ہی حمزہ کے موبائل کی بیل بجی ۔اسنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو نظروں کے سامنے کیا اور پھر کال کرنے والے کا نام دیکھ کر مسکراتے ہوئے کال ریسیو کرکے کہا

"ہاں آرہا ہوں شازمہ"۔وہ بات کرتا ہوا تھوڑا آگے کی طرف گیا تو وہ چئیر سے اٹھ کر اندرچلی گئی۔

جبکہ وہ بات کرتے کرتے بے دھیانی میں جیسے ہی پلٹ کر واپس چئیر کے پاس آیا تو وہ وہاں نہیں تھی۔

"یہ کہاں گئی ؟"اسنے ایک لمحے کے لئے سوچا لیکن اگلے ہی پل شازمہ کی آواز اسے خیالات سے باہر لے آئی ۔

"میں تمہیں کہہ رہی ہو حمزہ۔جلدی آولینے"تو وہ ہنستے ہوئے بولا

"جو حکم آپکا"۔۔اسکی بات سن کر شازمہ نے ہلکا ساقہقہہ لگایا اور پھر کہا

"چلو میں کال بند کرتی ہوں۔کہہ کر اسنے کال کاٹ دی۔جبکہ وہ مسکراتا ہوا اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"تم ابھی تک ایسے ہی گھوم رہی ہو۔وہ لوگ آنے والے ہونگے۔"نفیسہ بیگم نے گھر کے عام کپڑوں میں ادھر ادھر گھومتی عنایہ کو کہا تو وہ بولی

"ہاں مما جا رہی ہوں۔"اسکے کہنے پر انہوں نے کہا

"جلدی آو۔"تو وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی جہاں ہنزہ بیڈ پر بیٹھی اپنے نوٹس بنا رہی تھی۔

عنایہ نے ایک نظر نوٹس بناتی ہنزہ کی طرف دیکھا اور پھر اپنے کپڑے لیکر واشروم میں چلی گئی۔

جب کپڑے تبدیل کر کے واپس آئی تو ہنزہ کمرے میں کہی نہیں تھی۔

ابھی اسے وہاں بیٹھے آدھا گھنٹہ گزرا تھا جب ملازمہ اسے بلانے آئی۔

"باجی آپکو نیچے بلا رہے ہیں۔"اسکی بات سن کر اسنے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا

"مہمان آگئے ؟"تو وہ بولی

"جی"جیسے ہی وہ جواب دیکر باہر نکلی تب ہی ہنزہ کمرے میں داخل ہوئی۔

"عنایہ چلو نیچے۔تمہیں سب بلارہے ہیں۔"اسکے یہ کہنے پر عنایہ نے اسے کہا

"مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے ہنزہ۔"اسنے کچھ کہنے کے بجائے اسکی پیٹھ تھپتھپائی۔اور ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے گئی۔

ابھی وہ لوگ ڈرائنگ روم کے قریب پہنچے ہی تھے جب عنایہ نے کہا

"مجھے نہیں جانا اندر۔"تب ہی خالدہ بیگم کسی کام سے ڈرائنگ روم سے باہر نکلیں اور ان دونوں کو وہاں کھڑے دیکھ کر کہا

"تم لوگ یہاں کھڑی باتیں کر رہی ہو۔اور وہاں وہ لوگ تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔"ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ انہیں کام والی چائے کےلوازمات لاتی دکھائی دی ۔تو انہوں نے اسے روک کر اسکے ہاتھ سے ٹرے عنایہ کو پکڑائی اور کہا

"چلو اندر"۔تو وہ بھی کپکپاتے ہاتھوں سے ڈش تھامے انکے پیچھے اندر داخل ہوئی۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی تو سب کی نظریں خود بخود اسکی طرف اٹھیں۔

اسنے بھی سب کی نظریں خود پر مرکوز دیکھ کر سلام کیا ۔جسکا جواب بڑی گرمجوشی سے دیا گیا۔

وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور ٹرے لے جاکر سینٹرل ٹیبل پر رکھ دی ۔اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چائے کپوں میں ڈالنے لگی۔

"انکل کتنی شوگر لیں گے؟

بیٹا ہاف اسپون شوگر ڈالنا۔"مسٹرہاشمی نے اسکے پوچھنے پر اسے جواب دیا تو اسنے اثبات میں سر ہلاکر انکے کپ میں ہاف اسپون شوگر ڈال کر انہیں دی۔اور یوں سب کو چائے کے کپ تھماکر وہ اپنی والدہ کے پاس جا بیٹھی۔

مسز ہاشمی نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔تب ہی مسز ہاشمی کی بڑی بہو کشمالہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

"تم کیا کرتی ہو؟"تو وہ بولی

"بی ایس کر رہی ہوں۔"اسکے جواب پر وہ ہلکا سا مسکرائی اور پھربات بڑھانے کے لئے مزید پوچھا

"اسکے علاوہ ؟" تو عنایہ نے کہا

"اور کچھ خاص نہیں"تو کشمالہ نے کہا

"آپ لوگ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں ؟"تو اسنے سر ہلاکر کہا

"جی۔"تو وہ بولیں

"پھر تو بہت مزہ آتا ہوگا۔"تو عنایہ نے کہا

"ہاں لیکن ہم دو ہی گرلز کزنز ہیں۔"تو کشمالہ نے ہنس کر کہا

"مطلب دوست پلس کزنز۔رائٹ؟"تو اسنے بھی مسکرا کر سر ہلایا۔

تب ہی کشمالہ کے موبائل پر کسی کی کال آنے لگی تواسنے مسکراکر نمبر دیکھا اور پھر بولی

"واسع کے بابا کا فون ہے۔"یہ کہہ کر اسنے کال ریسیو کر لی۔اسلی توجہ ہٹتے ہی وہ تیزی سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

باہر آکر اسنے گہرے گہرے سانس لئے ۔یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اتنی دیر سے اسخا سانس بند کئے رکھا ہو۔جب تھوڑا سانس بحال ہوا تو وہ یونہی تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

اپنے کمرے میں جاکر وہ بے جان سی بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسکی کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی۔لیکن کچھ دیر کے بعد  گھبراکر اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ مسلسل  اپنی زندگی کو سوچ رہی تھی۔اپنی آنے والی  زندگی کو سوچ رہی تھی۔۔جتنا وہ ان باتوں کو سوچ رہی تھی اتنی ہی اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔اسی  بے چینی کے حال میں وہ  جاکر بیڈ پر بیٹھی لیکن جب بے چینی ختم ناں ہوئی  تو اٹھ کر کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔لیکن بے چینی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اسے اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہوا  تو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا جگ  اٹھا کر  پانی گلاس ڈال کر پینے لگی۔

پانی پیکر وہ بیڈ پر جاکر لیٹ گئی  اور یوں ہی لیٹے لیٹے نجانے اسے کتنی دیر گزری تھی  کہ جب ہنزہ کمرے میں داخل ہوئی ۔

اسے یوں لیٹے دیکھ کر اسکی طبیعت پوچھ بیٹھی  تو اسنے اثبات میں سرہلاکر مہمانوں کے جانے کے بارے میں پوچھا  تو وہ بولی

"ہاں چلے گئے۔لیکن تمہیں کیا ہوا ہے ؟چلو اٹھو باہر چلتے ہیں۔"اسکے یہ بولنے پر عنایہ نے کہا

"نہیں ہنزہ میرا دل نہیں کر رہا۔تم چلی جاو۔میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔"کہہ کر اسنے آنکھیں موند لیں۔تو ہنزہ  کچھ پل وہی کھڑی اسکے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ دوسری چڑیل کہاں ہے ؟حسن نے اسے اکیلے لاونج میں آتے  دیکھا تو  عنایہ کے بارے میں پوچھ بیٹھا۔جس پر اسکے براطر میں بیٹھے حمزہ نے بھی سوالیہ نظروں  ہنزہ کو دیکھا تو وہ بولی

"وہ آرام کر رہی ہے۔"اسکی بات کے جواب میں حمزہ نے حیرانی  سے صرف اسکے چہرے کو دیکھنے پر اکتفا کیا۔جبکہ حسن پھر بول پڑا۔

"یہ آج کل اسے کچھ زیادہ نیند نہیں آنے لگی ؟"تو وہ اسکی سائیڈ لیتے ہوئے بولی

"تھکن ہو جاتی ہے۔"اسکی بات کے جواب میں وہ بولا

"بے شک ہوتی ہے لیکن انکو ہوتی ہے  جو کام کرتے ہیں اور جو کام ہی نہیں کرتے انکو کیسی تھکن۔اور تم دونوں نکمیاں کرتی کراتی تو کچھ ہو نہیں ۔پھر تھکن کیسی؟"

وہ اسکی بات کو سنتے ہوئے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہو ئے بولی

"جسمانی تھکن ہی سب کچھ نہیں ہو تی۔کبھی کبھی دماغی تھکن  جسمانی تھکن سے  زیادہ بری ہوتی ہے۔"اسکی بات  پر حمزہ نے چونک کر  اسے دیکھا جو کسی کو بھی نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ وہ بول کر اب خود کچھ سوچ رہی تھی۔اسےاسطرح دیکھ کر  وہ سوچ میں پڑگیا۔

"ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ اتنی افسردہ ہے ؟ کیا میں اس سے پوچھو ؟"اسنے دل میں سوچا اور پھر خود ہی اپنے خیالات کی تردید کر دی۔

تب ہی ملازمہ ان سب کو کھانے کے لئے بلانے آئی تو وہ  تینوں ہی اٹھ  کھڑے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"عنایہ کدھر ہے ؟"ڈائننگ ٹیبل پر اسکی غیر موجودگی کو بی جان نے محسوس کرتے ہوئے پوچھا   تو ہنزہ بولی

"بی جان وہ سوگئی ۔اصل میں ہم لوگ کل جاگتے رہے تھے اسلئے اسے جلدی نیند آگئی۔"اسکے بتانے پر انہوں نے  اسے گھورتے ہوئے کہا

"کتنی دفعہ کہا ہے کہ روٹین ٹھیک کرو۔یہ راتوں کو جاگناصبح سونا ٹھیک نہیں ہے۔رات اللہ نے آرام کے لئے بنائی ہے اور دن کام کے لئے۔لیکن آجکل کی نوجوان نسل اس بات کو سمجھتی ہی نہیں۔"انہوں  نے بڑ بڑاتے ہوئے  کہا اور کھانا کھانے لگیں۔

کھانا کھا کر انہوں نے شہام بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

"کھانے کے بعد تم دونوںاپنی بیویوں کے ساتھ میرے  کمرے میں آنا۔میں نے کچھ بات کرنی ہے۔"انکی بات سن کر وہ سر ہلا گئے۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"حسن تمہیں کیا لگتا ہے کہ اندر  کس بارے میں میٹنگ ہو رہی ہے ؟"تو وہ اسے گھورتے ہوئے بولا

"یار  ہنزہ میں انسان  ہوں اور انسان ہوتے ہوئے میں یہ کیسے بتا سکتا ہونکہ اندر  کیا باتیں ہو رہی ہیں۔"تب ہی وہ عاجزی سے بولی

"پھر بھی ۔بات کیا ہوسکتی ہے ؟اسنے  ایک نظر پریشان  سی ہنزہ کا چہرہ دیکھا  اور پھر تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے بولا

"عنایہ  کے رشتے کے بارے میں ہی بات ہو رہی ہو گی۔"اسکے   بتانے پر وہ بولی

"مطلب"؟ تو اسنے کہا

"مطلب کی بچی۔یعنی کہ گھر کے بڑے اپنی اپنی رائے دے رہے ہونگے۔"تو وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی

"کوئی اور بات بھی تو کر سکتے ہیں گھر کے بڑے۔"تو وہ بولا

"ہاں کر تو سکتے ہیں۔لیکن ابھی یہی بات ہو رہی ہے۔"وہ اسکے پر یقین لہجے  کو سن کر اس سے پوچھ بیٹھی   کہ 

"تمہیں اتنا یقین کیوں ہے  کہ یہی بات ہو رہی ہے ؟"تو وہ بولا

"کیونکہ میں جانتا ہوں۔"اسکے جواب پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور  بھر غصے سے بولی

"میں ہی پاگل ہوں۔جو تم سے پوچھ بیٹھی۔سیدھی طرح تو جواب ہی نہیں دیتے تم۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہو ئی تو عنایہ  اسے  کارپٹ پر خاموش  گٹھری بنی بیٹھی دکھائی دی۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے سر اٹھاکر اندر آنے والی شخصیت کو دیکھا اور پھر دوبارہ سر گھٹنوں پر گرالیا۔

دوسری طرف ہنزہ نے جب اسے ایسے  بیٹھے دیکھا تو فورن اسکی طرف بڑھی ۔

"عنایہ ؟طبیعت ٹھیک ہے؟ایسے کیوں بیٹھی ہو؟"وہ بولتے بولتے اسکے قریب بیٹھ گئی۔"تو عنایہ نے کچھ کہنے کے بجائے اسکے کندھے پر سر رکھا اور رونے لگ گئی۔

وہ اسکی کیفیت سمجھ رہی تھی اسلئے کچھ کہنے کے بجائے  اسے صرف رونے دیا۔جب وہ رو رو کر دل کا غبار نکال چکی  تو  خود ہی اسکے کندھے پر سے سر ہٹا کر آمکھیں پونچ لیں۔ہنزہ جو اسکو روتے دیکھ کر خود بھی رو رہی تھی اسنے بھی اپنے آنسو صاف کئے  اور پھر نارمل انداز میں بولی

"چلو یار کل کا ٹیسٹ یاد کرلیں۔ورنہ مس رخسانہ  نے بہت بے عزتی کرنی ہے اور سچ پوچھو تو میرا دل اب  اس بے عزتی کو سہہ نہیں سہہ سکتا۔"اسکے مزاحیہ انداز میں کہنے  پر وہ روئی روئی آنکھوں سے مسکرائی  اور پھر کہا

"اور تم ہمیشہ انکی نظر میں رہتی ہو۔"اسکی بات سن کر ہنزہ نے بے چارگی سے کہا

"پتہ نہیں یار۔کیسے میں انہیں یاد رہ جاتی ہوں۔شاید وہ میری فین ہیں۔"اسکی بات سن کر وہ ہنستی چلی گئی۔اور پھر کھڑے ہوتے ہوئے کہا

"چلو آو ۔ٹیسٹ یاد  کریں۔تو وہ بھی اسکی پیروی کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔

تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ وہ لوگ منگنی کے بجائے نکاح پر زور دے رہے ہیں۔"

بی جان اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی  اپنے بہووں  اور بیٹوں سے مشورہ  کر رہی تھیں۔انکی بات سن کر تقریبا سب ہی خاموش تھے ۔جہاں تک بات شہام بخاری کی تھی  تو انہیں عنایہ بلکل ہنزہ کی  جتنی پیاری تھی۔اور انکی خواہش تھی کہ عنایہ انکی ہی بہو بنے۔لیکن قسمت نے انکا ساتھ ناں دیا تھا۔وہ خاموش بیٹھے اپنے خیالوں میں گم تھے جب بی جان نے انہیں مخاطب کیا

"شہام  تم کیا کہتے ہو ؟ آخر تایا ہو اسکے۔"تو وہ بولے

"جو آپکو بہتر لگے بی جان۔آپ نے آج تک اس گھر کے لئے جو  بھی فیصلے کئے ہیں ٹھیک کئے ہیں۔"انکی بات سن کر انہوں نے اپنا سوال حسام بخاری سے  کیا  تو وہ بولے

"بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔جو آپ کو بہتر لگے۔وہی مناسب ہوگا۔"تب ہی انہوں نے نفیسہ بیگم   سے کہا

"نفیسہ تم اسکی ماں ہو۔تم کیا کہتی ہو ؟ تمھاری کیا رائے ہیں؟"تو وہ بولیں۔

"جو آپکی رائے ہے وہی  میری رائے ہے۔میں آپکی رائے کو دل و جان سے قبول کرتی ہوں۔"انکی بات سن  کر وہ ہلکا سا مسکرائیں اور  پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد بولیں

"میرے خیال میں نکاح کی تجویز جائز ہے۔اگر منگنی کے بجائے نکاح کرالیتے ہیں تو کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ان لوگوں نے ایسی خواہش نہیں کی جو ہم پوری ناں کر سکیں۔تو پھر ہم انہیں اپنی رضامندی کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔"انہوں نے اپنی بات مکمل کر کے سب کے چہروں کی طرف دیکھا جہاں اطمینان تھا ۔سکون تھا۔اور خوشی تھی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

جب  سے نکاح کا دن طے ہوا تھا تب  سے ایک گہری چپ  اسکے ہونٹوں پر لگ گئی تھی۔پہلے تو وہ اپنے کمرے میں بند ہو جایا کرتی تھی  لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں تھا  ۔اسے کوئی جو بھی کام کرنے کو کہتا وہ خاموشی سے کر دیتی۔

اور ہنزہ کو اسکا اتنا پرسکون رہنا ہی بے سکون کر رہا تھا۔اسے علم تھا کہ وہ ٹھیک نہیں  ہے لیکن خود کو ٹھیک  ظاہر کر رہی ہے۔وہ ابھی بھی ٹی وی پر نظریں جمائے عنایہ کے بارے  میں سوچ رہی تھی  جب بی جان آہستگی سے اسکے برابر میں آبیٹھیں۔وہ انکے بیٹھنے پر بھی متوجہ ناں ہوئی  تو انہوں نے اسکا بازو پکڑ کر  ہلاکر اسے پکارا  تو وہ چونک کر اپنے خیالات سے باہر آئی۔

انہوں نے  اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا

"کیا ہوا ہے ؟ طبیعت ٹھیک ہے ؟"تو وہ بےاختیار اثبات میں سر ہلاکر رہ گئی۔

جبکہ  بی جان  اسے گہری نظروں سے گھورتی رہیں اور پھر بولیں

"تم مجھ سے کچھ چھپارہی ہو۔"انکی بات  سن کر اسنے بے ساختہ کہا

"نہیں تو۔"اسکی بات کے جواب میں انہوں نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا

"پھر کیا مسئلہ ہے ؟خاموش رہنے لگی ہو۔"تو وہ بولی

"بی جان عنایہ اب پرائی ہو جائے گی ناں۔"اسکی بات سن کر پہلے تو وہ ہنسیں اور پھر کہا

"بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں ۔"پھر بات کا رخ بدلتے ہوئے بولیں

"تم لوگ شاپنگ پر کیوں نہیں جاتیں؟نکاح میں ویسے بھی صرف آج کا دن ہے۔کل تو نکاح ہو جانا ہے۔وہ انکی بات سن کر انکا چہرہ دیکھنے لگی  تو وہ بولیں

"جاو جاکر عنایہ سے کہو کہ اپنی مرضی کا سوٹ لے آئے۔بلکہ تم رہنے دو۔"انہوں نے سامنے سے گزرتی ملازمہ کو آواز  دیکر کہا

"جاو عنایہ کو کہو  شاپنگ پر جانا ہے ۔تیار ہو جائے۔"وہ جی اچھا  کہہ کر انکا پیغام عنایہ کو دینے چلی گئی۔اسکے جانے کے بعد وہ بھی اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئیں اور اسے  کہا

"گھر جلدی واپس آنا۔تو وہ  بولی

"جی اچھا۔"

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"عنایہ باجی۔۔۔بی جان کہہ رہی ہیں  کہ تیار ہو جائیں۔شاپنگ پر جانا ہے۔"اسکی بات سن کر  اسنے سر کو ہلایا  اور پھر کہا

"اچھا  جاو۔میں آتی ہوں۔"کہہ کر پہلے اسے وہاں سے روانہ کیا اور پھر  اٹھ کر  واشروم میں جاکر منہ دھویا اور باہر آکر وارڈ روب سے چادر نکال کر اوڑھ لی۔

پھر کچھ سوچ کر اپنا پرس اور موبائل اٹھایا  اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

راستے میں اسکی نظر ٹی وی لاونج کی طرف اٹھی جہاں اسے ہمزہ بیٹھی دکھائی دی ۔اب ہی وہ اس طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ  بی جان کے کمرے سے نفیسہ بیگم نکلیں اور  انکی نظر عنایہ پرپڑی تو وہ اسکے پاس چلی آئیں۔۔

"تمہیں تیار ہونے کو بولا تھا اور تم نے صرف  چادر اوڑھی ہے۔کپڑے بھی نہیں بدلے۔"انکی بات سن کر وہ بے زاری سے بولی

"میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔"انہوں نے اسکی بے زاری کو نوٹس تو کیا لیکن کچھ کہنے کے بجائے  ہنزہ کو آواز دی۔

کچھ دیر بعد وہ وہاں آموجود ہوئی تھی۔انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا

"جاو ہنزہ تم بھی جاکر چادر کر آو۔اور  اسکے ساتھ شاپنگ پر چلی جاو۔یہاں پہلے ہی بہت کام  ہیں۔ہم نے یہ سب سمیٹنا ہے۔انکی بات سن کر وہ سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔جبکہ عنایہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر اسکے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔

کچھ منٹوں کے بعد وہ بھی چادر اوڑھ کر آگئی تو عنایہ اسے دیکھتے اٹھ کھڑی  ہوئی۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔

تمام راستہ دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات ناں کی تھی۔اس وقت ان دونوں کو دیکھ کر کوئی  یہ کہ بھی نہیں سکتا تھا  یہ لوگ بغیر سانس لئے گھنٹوں سیک دوسرے سے باتیں کرتی  تھیں۔اسی خاموشی میں دونوں نے شاپنگ کی اور گھر چلی آئیں۔

ابھی وہ  گیٹ سے اندر داخل ہوئی ہی تھیں کہ انہیں  پورچ میں رحمانہ پھوپھو کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔

دونوں ہی آگے پیچھے چلتی لاونج میں  داخل ہوئیں  تو سب سے پہلی نظر خالدہ بیگم کی ہی ا ن پر پڑی۔

"آگئی بچیاں۔"انکے بولنے پر سب  نے گردن گھما  کر انکی طرف دیکھا ۔

تب تک وہ  بھی انکے پاس پہنچ چکیں تھیں۔

پھوپھو سے ملنے کے بعد عنایہ تو تھکن کا کہہ کر  اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ ہنزہ وہی بیٹھی رہی۔

"کیسی رہی شاپنگ ؟"اچانک بی جان نے  اس سے پوچھا تو  وہ  بولی

"اچھی رہی بی جان۔"تب ہی ولی نے کہا

"سب ہی خواتین شاپنگ کو اچھا بولتی ہیں۔بھلے ہی وہ کیسی  ہی بکواس شاپنگ کیوں ناں ہو۔"اسکی بات سن کر سب ہی مسکرائے۔جبکہ وہ بولی

"میں خواتین میں شمار نہیں ہوتی۔لڑکی ہوں میں لڑکی۔"اسنے ہر ایک لفظ چبا چبا کر کہنے پر  سب کے چہروں پر دوبارہ مسکراہٹ آئی ۔جبکہ سلمان صاحب بھی اسکے بچکانہ انداز پر مسکرائے۔

اچانک ہی انہیں شزا کا رویہ  یاد آیا۔اور دوسرے ہی لمحے ایک خیال سے انکی آنکھیں چمکنے لگیں۔

تب ہی ولی کی آواز  انہیں خیالات سے باہر لے آئی جو اب بھی ہنزہ کو چھیڑ رہ تھا۔انہوں نے دل ہی دل میں اپنے خیال کے بارے میں رحمانہ بیگم کو آگاہ کرنے کا سوچا اور  پھر دونارہ سب کی طرف متوجہ ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

رات جب سب اپنے اپنے کمروں میں  چلے گئے تو ہنزہ بھی اپنے کمرے میں چلی آئی۔

کمرے میں داخل ہومے کے بعد اسنے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا  تو اسے ٹیرس کا دروازہ کھلا نظر آیا۔وہ سمجھ گئی کہ عنایہ بھی وہی ہے۔

کچھ سوچ کر  وہ بھی ٹیرس کی طرف بڑھ گئی۔

کسی کے آنے کااحساس اسے ضرور  ہوا تھا اور اسے یہ بھی علم تھا کہ کون ہے تب ہی نارمل انداز میں کھڑی رہی اور پھر اچانک بولی

"ہنزہ  تم نے ایک دفعہ کہا تھا ناں کہ میں اگر چاہو تو  تمہارے  کندھے پر سر رکھ کر رو سکتی ہو ۔تم سے اپناغم شئیر کر سکتی ہوں۔اسکے سوال پر ہنزہ ساکت سی اسے دیکھتی رہی ۔جبکہ وہ اسکے جواب کا انتظار کئے بغیر بولی

"کچھ دنوں سے مجھے ایسا لگ رہا ہے میرے اندر  سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔حتی کہ زندہ رہنے کی خواہش بھی۔میں نہیں جی پاونگیں ہنزہ۔مجھے بچالو۔مجھے موت سے بچالو۔مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔ممم۔۔۔۔۔۔۔مجھے قبر سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن مریرے اندر سے زندگی دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہے۔مجھے بچالو۔"اسکے آہستہ آہستہ بولنے میں بھی جو درد تھا ہنزہ کا دل اس درد سے کٹ رہا تھا۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور اسے گلے لگا گئی۔

مجھ۔۔۔۔۔۔مجھ میں حوصلہ نہیں ہے ہنزہ ۔میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔میری مدد کرو۔اسکے منہ میں جو آرہا تھا وہ بولے جا رہی تھی۔جبکہ ہنزہ خاموشی سے اسے سنتے روئی جا رہی تھی۔

جب وہ بول بول تھک گئی تو خود ہی اس سے پیچھے ہٹی۔تب  ہی ہنزہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

"میں۔۔۔۔میں بابا سے بات کرتی ہوں۔وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔وہ بول کر جیسے ہی جانے لگی تو عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا

"مجھے پتہ ہے تایا ابو وہی کریں گے جو میری خواہش ہے۔لیکن میں۔۔۔۔وہ تزبزب کے عالم میں کھڑی سوچتی رہی اور  پھر بولی تو بس اتنا کہ 

"تم کسی کو کچھ نہیں بتاوگی۔وعدہ کرو۔اسکی اس بات پر ہنزہ نے غصہ اور حیرانگی بھری نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا  اور پھر کہا

"نہیں میں بتاونگی۔میں یہ سب نہیں ہونے دونگی۔"تو عنایہ نے دونوں ہاتھ اسکے آگے جوڑتے ہوئے کہا

"میں منت کرتی ہوں۔تمہیں میری قسم۔تم وعدہ کرو کہ تم کسی کو یہ بات نہیں بتاوگی۔وہ اسکی بات سن کر سکتے کے عالم میں کھڑی رہی اور پھر دھیرے سے بولی

"میں نہیں بتاونگی"۔اور پھر  اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

"عنایہ یہ ظلم مت کرو اپنے ساتھ۔"تو اسنے جواب دینے کے بجائے بس ایک زخمی مسکراہٹ لئے اسے دیکھا اور  پھر کہا

"میں کہاں کر رہی ہوں ظلم ۔میرا نصیب ہی ظالم ہے۔ہر دفعہ ایسا وار کرتا ہے کہ میں بلک اٹھتی ہوں۔وہ یہ کہہ کر اسکے کندھے لر سر رکھ کر پھر سے رونے لگ گئی۔

جبکہ وہ اسے چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگ گئی۔

رات دونوں کی یونہی بیٹھے بیٹھے گزری تھی۔

صبح ہو ئی تو  افراتفری میں سب لوگ اپنے اپنے زمے لگے کام کرنےلگ گئے تھے۔

تقریبا پانچ بجے کے قریب بیوٹیشن اسے گھر آکر تیار کر گئی تھی۔

اب اس وقت سوائے اسکے اور  عنایہ  کے کمرے میں کوئی  بھی نہیں تھا۔جب  بیوٹیشن نے اسکا پیلا پڑتاچہرہ دیکھا ۔اسکا دوپٹہ کو سیٹ کرتا ہا تھ وہی رک گیااور پھر اسنے فکر مندی سے اس سے پوچھا

"آپ ٹھیک ہیں؟"تو وہ بولی

"میرا دم گھٹ رہا ہے۔"بیوٹیشن اسکی حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی فورن کمرے سے باہر نکلی اور کوریڈور سے گزرتی ہنزہ کو دیکھا تو  فورن اسکے پاس گئی  اور جاکر کہا

"وہ آپکی کزن کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔"ہنزہ نے اسکی بات بھی پوری ناں سنی تھی  کہ فورن کمرے کی طرف ڈور لگا دی۔

جیسے ہی وہ کمرے میں پہنچی تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ سکتے میں آئی اور پھر تیزی سے آگے بڑھی۔

"عنایہ۔۔۔"اسنے کارپٹ پر بے جان  انداز میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی عنایہ کو پکارا 

اسکی آواز سن کر عنایہ نے اپنی نم آنکھیں کھولیں  اور پھر سوکھتے لبوں   سے  بمشکل  بولی

"میرا دم گھٹ رہا ہے ہنزہ۔۔۔۔مم ۔۔۔مجھ۔مجھے  اندھیرے سے خوف آتا ہے۔۔۔اسمے یہ کہہ کر اسکا ہاتھ ایسے پکڑا جیسے کوئی اپنے آخری سہارے کو پکڑتا ہو۔۔

ہنزہ کو اسکی کیفیت ڈرا رہی تھی۔وہ اٹھی اورکسی کو بلانے کے لئے بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔

بی جان۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔بابا۔۔۔۔عنایہ کی طبیعت خراب ہو رہی ہھ۔وہ ریلنگ سے نیچے جھکی سب کو آوازیں دے رہی تھی۔

گھر میں سب ہی مہمان موجود تھے۔انہوں نے  جب یہ آواز سنی  تو فورن سب اوپر کی طرف بھاگے۔

وہ دوبارہ پاگلوں کی طرح  اپنے کمرے میں گئی  جہاں عنایہ  تھی۔

اب وہ بیٹھے  سے زمیں پر جھک گئی تھی۔منہ کارپٹ پر لگا ہوا تھا۔ہمزہ نے اسکے پاس پہنچ کر اسکا  سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا اور پھر کچھ عجیب سا محسوس ہونے پر  فورن نیچے جھک  کر اسکے سینے پر سر رکھ کر اسکی دھڑکنوں کو سننے لگی۔

جو بلکل دھیمی ہو رہی تھیں۔اسمے گھبراکر اسکا ہاتھ پکڑا اور زور سے چیخی

عنایہ۔۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔۔عنایہ۔۔۔۔۔کوئی ہے اسے بچاو۔یہ مر رہی ہے۔وہ صرف یہ دو جملے بولے جارہی تھی۔اور کوئی دوسرا لفظ اسکے منہ سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔

کیا ہوا  کیا ہوا۔۔۔کی آوازیں ہر طرف گونج رہی تھیں۔تب ہی بی جان  نفیسہ بیگم اسکے کمرے میں آکر اسکے پاس بیٹھ گئے تھے۔

"عنایہ بچے"۔۔بی جان نے اسکسا پسینہ سے تر چہرہ کو تھپتھپایا  اور پھر اسکے چہرے کی رنگت دیکھ کر اندر آتے حسن کو  دیکھ کر زور سے بولیں۔

"حسن اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاو۔میری بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جاو۔۔۔وہ انکی بات سن کر گھبراتا ہوا آگے بڑھا اور پھر   بے ہوش ہوئی عنایہ کو اٹھاکر کمرے سے باہر نکل گیا۔

اسکے پیچھے روتی ہوئی نفیسہ اور خالدہ بیگم بھی تھیں۔جبکہ ہنزہ وہیبیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔

"میری بچی۔۔۔"بی جان منہ پر ڈوپٹہ ڈال کر رونے لگیںاور پھر اچانک انکے منہ سے نکلا

"یا میرے مولا مجھے اس عمر میں  دکھ ناں دکھانا۔کہہ کر وہ دوبارہ رونے لگیں۔

"یہ حسن کسے اٹھاکر لا رہا ہے ؟"گلاس ڈور کھول کر اندر آتے حمزہ نے سیڑھیوں سے اترتے حسن کو دیکھا اور ہھر اسکے پیچھے اپنی ماں اور تائی کو۔

ابھی وہ صورتحال سمجھ ہی رہا تھا کہ حسن اسکے پاس آکر بولا

"اسکی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔"کہہ کر وہ فورن اسے اٹھائے باہر کی طرف بھاگا تو اسنے بھی کچھ بات سمجھتے کچھ ناں سمجھتے اسکے پیچھے ڈور لگا دی۔

"تم یہی رہو نفیسہ۔میں جاتی ہوں۔تمھارا اپنا بی پی لو ہو رہا ہے۔"انہوں نے روتی ہوئی نفیسہ بیگم کو بولا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولیں

"میری بچی بھابھی"تب ہی کوئی ان کے پاس بھاگ کر آیا اور آکر بتایا کہ بی جان کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔"تو خالدہ بیگم انکو دیکھنے اندر کی طرف بھاگیں۔جبکہ نفیسہ بیگم عنایہ کو لیکر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

اسکا سر انکی گود میں تھااور ہاتھ انکے ہاتھ میں۔نجانے  کس احساس کے ساتھ   اچانک  اسکے سینے  پر رکھے ہاتھ کے نیچے  اپنے ہاتھ کو انہوں نےتعجب سے  دیکھا ۔انہیں ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اسکی دل کی ڈھرکنیں تھم گئیں ہو۔

انہوں نےبہت زور سے  ڈھرکتے دل کے ساتھ  اپنا کان اسکی دل کی جگہ پر رکھا  اور پھر کوئی آواز ناں سن کر وہ کچھ لمحوں کے لئے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

"مما آنے والا ہے ہسپتال۔"حسن نے بھرائی ہوئی آواز میں گردن موڑ کر انہیں تسلی دینی چاہی تب ہی  وہ جیسے سکتے میں بولیں

"یہ مر گئی ہے۔انکے  اس جملہ پر بے ساختہ حمزہ کا پاوں بریک پر پڑا اور حسن تو انکی بات پر تڑپ کر رہ گیا۔وہ ماں جایا تھا۔۔کیسے اس بات کو برداشت کرتا۔

"مما ۔۔۔ہسپتال۔۔۔ابھی وہ بول ہی رو رہا تھا کہ وہ زور سے چیخی

"تمہاری بہن مر گئی ہے۔مر گئی میری عنایہ۔۔مجھے لادو میری بچی۔۔۔"انکی بات سن کر تو حسن تو وہیں برف کی طرح جم گیا۔

تب ہی  حمزہ ہمت کرتے ہوئے دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر نکلا۔

یہ ایک کشادہ گلی تھی۔مصروف شاہراہ نہیں تھی۔اسلئے وہ آرام سے گاڑی روک گیا تھا۔

اسنے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور  پھر نیچے جھک کر اسکا نیچے گرا ہاتھ پکڑ کر نبض چیک کی۔اس دعا کے ساتھ کہ  ڈھرکنیں چل رہی ہوں۔لیکن  حقیقت کا ادراک ہوتے ہی اسنے ہاتھ سے اسکا ہاتھ چھوٹ کر نیچے گرپڑا۔۔اور اسنے بے یقینی سے عنایہ کا چہرہ دیکھا

اسکی یہ حالت دیکھ کر حسن نے اسے پکارا تو وہ  جیسے خواب سے باہر آیا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا  چلانے لگا۔راستے میں کتنے ہی جگہ انکا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔لیکن وہ اس سب سے لاپرواہ  گاڑی چلا رہا تھا۔

آنکھیں اسکی ہر دم لال ہوتی جارہی تھیں۔

وہ یہاں اپنے شک کی تصدیق کرانے آیا تھا۔وہ اب بھی دل میں دعا کر رہا تھا کہ یہ جھوٹ ہو۔

گاڑی جیسے ہی ہسپتال کے سامنے رکی  تو اسے اسٹریچر پر لٹاکر اندر لے جانے لگے۔

ابھی وہ ایمرجنسی کے قریب پہنچے ہی تھے  ایک ڈاکٹر  بھاگتا ہوا انکے پاس آیا ۔۔اسے دیکھتے ہی حسن نے عنایہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اسکی طبیعت ۔۔۔۔ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ اسنے ڈاکٹر کے چہرے پر عجیب سے تاثرات دیکھے ۔۔۔ڈاکٹر نے  اسکی بات پوری سنے بغیر اسکی نبض چیک کی ۔۔اسکا چیک اپ کیا اور پھر  مایوسی سے بولا

سوری۔شی از ڈیڈ۔۔۔۔

انکے اس جملہ کو وہاں ابھی پہنچے حسام بخاری اور شہام بخاری نے بھی سنا تھا۔۔۔اور ان دونوں کے قدم وہی بے جان ہو گئے تھے۔

انکے پیچھے آتی  بی جان چادر سے ڈھکا وجود دیکھ کر  گر پڑی تھیں۔

نفیسہ بیگم کے بین  وہاں ہر کوئی سن رہا تھا۔اور خالدہ بیگم  تو جیسے شاکڈ میں تھیں۔ہاتھوں پلی بچی انکے ہاتھ سے موت کے منہ میں چلی گئی تھیاور وہ کچھ نہیں کر پائی تھی۔

انہوں نے ساکت نگاہوں سے اسکے سفید چادر میں لپٹے وجود کو دیکھا اور انہیں اسکی پیدائش یاد آنے لگی۔

گلابی کمبل میں لپٹی وہ گلابی سی بچی جسے ڈاکٹر نے سب سے پہلے انہیں ہی لاکر دیا تھا۔۔۔

وہ پتھرائی ہوئی نگاہوں سے  اسکے وجود کو دیکھی جارہی تھیں۔

۔۔۔۔۔*۔ ۔۔۔۔۔

ہنزہ گھر میں بیٹھی ٹکر ٹکر سب لوگوں کی باتیں سنتی جارہی تھی۔جب ملازمہ اسلے پاس آئی اور آکر روتے ہوئے کہا

"باجی ہسپتال فون کریں۔۔پتہ کریںعنایہ باجی کا۔"اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھا  اور پھر بڑ بڑائی

"ہاں مجھے پتہ کرنا چاہیے۔"ابھی وہ بول ہی رہی تھی  کہ  گیٹ سے باہر گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی تو وہ فورن اپنا ہاتھ چھڑاتی گلاس ڈور کھول کر باہر نکلی

لیکن سامنے کے منظر کو دیکھ کر  وہ اپنی چیخ روکتی وہیں بیٹھتی چلی گئی۔

کسی کی لاش کو  کندھوں پر اٹھا کر لایا جا رہا تھا۔جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا تھا سب کی چیخیں نکل گئیں تھیں۔

ایک آہ و بکا تھی ۔۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔پھر اس لاش کو لاکر چارپائی پر رکھ دیا گیا تھا۔ پھر اسکی نظر بی جان پر پڑی  جنہیں حمزہ اندر لا رہا تھا۔وہ تو جیسے ہوش میں ہی ناں تھیں۔پھر اسنے نگاہیں گھماکر  سفید کپڑے سےڈھکے اس وجود کو ساکت نظروں سے  دیکھا  ۔

وہ قیامت تک نہیں چاہتی تھی کہ اسے یہ معلوم ہو کہ اس سفید کپڑے کے نیچے کسکا وجود ہے۔

مہمان آہستہ آہستہ لاش کے گرد جمع ہو نے لگے تھےبین کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں۔

پھر اسنے روتی دھوتی نفیسہ اور خالدہ بیگم کو آتے دیکھا۔اسنے دروازے کو تھام کر  خود کو کھڑا کیا  اور آہستہ آہستہ چلتی لاش کے قریب پہنچ گئی۔چہرہ اب بھی لاش کا ڈھکا تھا۔

پھر اسنے ہاتھ بڑھاکر لاش پر سے کپڑا ہٹا دیا۔سامنے ہی عنایہ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔

ہر وقت کے   بولتے ہونٹ اس وقت خاموش تھے۔ستارہ کی سی چمکتی  آنکھیں آج ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی  تھیں۔اسکا چہرہ دیکھتے ہی اسکا ہاتھ ڈھلک کر نیچے ہو گیا۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھی جا رہی تھی۔لوگ آگے بڑھ بڑھ کر عنایہ کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔

جبکہ اسکے کانوں میں عنایہ کی آواز گونج رہی تھی۔

"مجھے پسند نہیں کہ لوگ مجھے دیکھیں۔میں کوئی عجوبہ تھوڑی ہوں۔"جیسے ہی اسکی آواز اسکے کانوں میں گونجی 

اسنے  چونک کر  اپنے برابر میں دیکھا اور پھر نا امید ہوتے ہوئے سامنے پڑی عنایہ کو دیکھا تب ہی ایک اور آواز اسکے کانوں میں گونجی

"مجھ ۔۔۔مم۔مجھے بچالو  ہنزہ ۔۔۔مجھے موت سے ڈر لگتا ہے مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔وہ اس آواز کو سنتے ہی اسکی چارپائی کے پاس ڈھے گئی۔

"مجھے قبر سے ڈر لگتا ہے۔"ایک اور آواز اسکے کانوں میں گونجی تو آنسو اسکے چہرے کو بھگونے لگے ۔

"کچھ دنوں سے میرے اندر سے سب کچھ ختم ہو رہا ہے ہنزہ۔۔۔۔حتی کہ زندہ رہنے کی خواہش بھی۔۔۔۔"جیسے ہی یہ آواز اسکے کانوں میں گونجی  تو بے ساختہ اسکے منہ سے چیخ نکلی

"عنایہ۔۔۔۔۔"لیکن اس آواز کو سننے والی دور جا چکی تھی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

جنازے کو تو اٹھنا ہی تھا۔لیکن  جب جنازے کو اٹھانے کی صدا آئی تو ہر طرف آہ و بکا مچ گئی تھی۔

نفیسہ بیگم  تو جیسے غشی  کی حالت میں تھیں۔اور بی جان اب تک بے یقینی کی کیفیت میں گھری  عنایہ کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔

اور  جہاں تک بات ہنزہ کی تھی تو  وہ تو عنایہ کی چارپائی سے پیچھے ہٹی  ہی ناں تھی۔

آسان تھوڑی ہوتا ہے  جس انسان کے ساتھ ہنسی خوشی کے پل گزارے ہو اسکو چھوڑ دینا۔

اچانک  جنازے کو اٹھانے کا شور اٹھا تھا  اور پھر ہنزہ نے  حمزہ ،حسن اپنے چچا اور بابا کو آتے دیکھا ۔

دعا پڑھ کے وہ لوگ جھکے اور کلمہ شہادت پڑھتے  ہوئے اسکا جنازہ اٹھالیا گیا تھا۔

ہر طرف شور  تھا،آہ و بکا تھی۔لیکن وہ اس سب سے بے نیاز  اپنی بہنووں جیسی  دوست کو جاتا دیکھ رہی تھی۔

پھر اسکی آنکھوں نے  عنایہ کی میت کی ڈولی  کو لان سے گزر کر گھر سے باہر لے جاتے دیکھا۔

وہ بنا پلکیں جھپکے  تب تک اسکو دیکھتی رہی  جب تک اسکے جنازے میں شریک آخری بندہ گیٹ سے باہر ناں نکل گیا۔

وہ ساکت  و جامد نگاہوں سے سب دیکھتی جا رہی تھی۔اب اسے  اپن پاس ہوتے شور کی آوازیں بھی نہیں آرہی تھیں۔اچانک نفیسہ بیگم نے  اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنے  گلے سے لگایا تھا۔

عنایہ چلی گئی ہنزہ۔۔۔کوئی اسے میرے پاس لادو۔۔موت اتنی ارزاں کیوں ہو گئی ہے۔کوئی تو بتائے ۔کوئی لادو مجھے میری بچی کو۔۔۔وہ اسے گلے سے لگائے بے ربط بولتی روئے جارہی تھیں۔جبکہ اسکے اعصاب مزید برداشت ناں کر پائے تھے  اور وہ  بے ہوش ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

رات کا جانے کون سا پہر تھا  جب اسکی آنکھ کھلی ۔۔اسنے دکھتے سر کو ہاتھ سے دباتے ہوئے تھوڑا سا اوپر کھسک کر ٹیبل لیمپ جلایا۔لیکن  جیسے ہی اسکی نظر عنایہ کے بیڈ پر گئی  تو شام کا منظر اسکی نظروں  کے سامنے گھوم گیا۔

وہ چکراتے سر کے ساتھ اٹھی اور بھاگتی ہوئی اپنے  کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف گئی۔

ابھی وہ راستے میں ہی تھی  کہ جب  حمزہ نے اسے دوپٹے  سے بے نیاز پاگلوں کی  طرح بھاگتے دیکھا  تو وہ بھی  اسکی طرف لپکا۔

اسے وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔اسکے قریب پہنچ کر حمزہ نے اسکا  نام لیتے ہوئے اسکا  بازو پکڑ کر اسے روکا اور پھر  پوچھا

"کیا ہوا ہے ؟"جبکہ وہ خاموش کھڑی اسکا چہرہ دیکھتی رہی تو  حمزہ نے اسکا بازو پکڑ ا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔

پھر  اسے بیڈ پر بٹھاکر خود سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاکر اس میں پانی ڈالا  اور پھر گلاس لئے اسکی طرف چلا آیا ۔

"ہنزہ پانی پیو۔"اسنے گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  اسے کہا تو  اسنے بغیر کچھ کہے  گلاس اٹھاکر اس میں سے پانی پیا اور جب تھوڑی ریلکس ہوئی  تو  وہ بولا

"کیا ہوا ہے ؟بھاگ کیوں رہی تھی ؟طبیعت ٹھیک ہے ؟"کل کے واقعہ سے سب ہی بہت ڈرے ہوئے تھے اسلئے گھبرائے ہوئے لہجے میں  اسنے اس سے پوچھا  تو ہنزہ نے اسے کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی۔

جبکہ وہ کچھ لمحے اسکے بولنے کا انتظار کر تا رہا اور پھر بولا

"ہنزہ سنبھالو خود کو۔اگر اپنا نہیں سوچ رپی تو گھر والوں کا ہی سوچ لو۔سب پہلے ہی ٹوٹ کر بکھرے ہیں۔اب تم مزید سب کو پریشان کر رہی ہو۔اسکی اس  بات پر ہمزہ نے تلخ مسکراہٹ لئے اسکا چہرہ دیکھا اور پھر کہا

"کیوں کرو اپنوں کی فکر ؟ تم نے کی تھی ؟ تم۔۔۔۔۔ابھی لفظ اسکے منہ میں ہی تھے  جب وہ حیرت سے بولا

"کیا بول رہی ہو ؟دماغ ٹھیک ہے تمھارا ؟"تو وہ بولی

"کیوں برا لگ رہا ہے  اپنی اصلیت دیکھنا؟"اسکی بات پر وہ غصے میں بولا

"مجھے لگتا  ہے تمھارا دماغ  اپنی جگہ پر نہیں ہے۔لیکن اپنے اس دماغ کو  اسکی اصلی جگہ پر لے آو۔میں نہیں چاہتا  کہ گھر والے پریشان ہو۔"اسکی بات سن کر وہ زور سے ہنسی اور پھر تالی بجاتے ہوئے کہا

"حیرت کی بات ہے  جس انسان نے زندگی  سے پیار کرنے والی لڑکی کو نگل لیا ۔جو سب  کی خواہشوں کو کھا گیا  صرف ایک دو نمبر لڑکی کے پیچھے  وہ مجھے سبق سکھا رہا ہے  کہ مجھے کیسا رہنا ہے  اور کیا کرنا ہے۔"اسکی اس بات  پر وہ ہاتھاٹھاتے اٹھاتے رہ گیا۔اور پھر غصے سے بولا

"کیا بکواس کر رہی ہو؟"تو  وہ بولی

"تم قاتل  ہو عنایہ کے ۔تم نے میری بہن جیسی دوست کو قتل کیا ہے۔تم۔۔۔۔۔وہ بولے جارہی تھی جبکہ اسکے الزام سن کر حمزہ سن ہوتا جا رہا تھا۔جبکہ کمرے کے اندر آتے وصی کے قدم وہی جم گئے تھے۔

لیکن وہ کسی چیز پر دھیان دئیے بغیر بولتی جارہی تھی ۔

"تم نے  اسکی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا۔اسے اس قدر دکھ دیا کہ وہ اس بوجھ کو برداشت ہی ناں کر پائی۔پھر رک اسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر بولی

"تم تو گھر کے فرد تھے ۔تمہیں  پتہ تھا کہ عنایہ کا دل کتنا نازک ہے۔لیکن تم نے اسے مار دیا۔تم خود غرض انسان ہو۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرا بھائی ایسا ہوگا۔لوگ تو غیروں پر بھی ترس کھالیتے ہیں ۔کیا واقعی تمہیں اس ہر ترس نہیں آیا تھا  جب تم نے اسکے منہ سے ناں کرائی تھی ؟اس سے آگے مزید وصی سے سنا نہیں گیا تھا۔اور وہ وہاں سے پلٹ کر لان میں چلا گیا تھا۔

جبکہ وہ  دو قدم اٹھاتی مزید حمزہ کے قریب ہوئی اور پھر بولی

"تم قاتل ہو عنایہ کے۔اور میں تمہیں  کبھی معاف نہیں کرونگی۔یہ میرا تم سے ہی نہیں  بلکہ خود سے بھی وعدہ ہے۔"یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے کھڑا حمزہ  بے یقینی سے اسکی کہی باتوں  کو ذہن میں دہراتا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"اتنا بڑا دکھ کیسے اٹھالیا تم نے عنایہ؟حسن کو ناں سہی گھر والوں کو ناں سہی لیکن مجھے تو بتایا ہوتا۔دودھ شریک بہن تھی تم  میری۔ایک دفعہ صرف ایک دفعہ تم مجھے یا ولی کو بتا دیتی ۔ہم۔

مما  سے بات کر کے یہ سب ناں ہونے دیتے۔"اسنے تاسف سے سوچا  اور پھر تصور کی آنکھ سے عنایہ کو دیکھا

جسکی قبر کی مٹی سوکھے ابھی چوبیس گھنٹے بھی ناں گزرے تھے۔

"یہ ظلم کیا ہے تم نے  عنایہ۔خود پر  بھی اور ہم سب پر بھی۔"اسنے پھر جیسے  اس سے شکایت کی۔اور دوبارہ چکر کاٹنے لگا۔

"کاش مجھے علم ہو جاتا۔"اسنے تاسف سے سوچا اور پھر اسکے دماغ میں کچھ اسپارک ہوا  تو وہ سگریٹ  پھینک کر اسے جوتے سے مسلتا اندر آیا اور کسی کو ڈھونڈنے لگا۔

لاونج میں بھی جب وہ اسے ناں ملی تو  ٹی وی لاونج کی طرف  آگیا۔جہاں اسے وہ خاموش بیٹھی دکھائی دی۔وہ جاکر اسکے سامنے کھڑا ہو گیا۔

وہ جو اپنے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی  اسنے کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے جب سامنے دیکھا  تو  اسے وصی کھڑا سامنے نظر آیا۔اسکے متوجہ ہوتے ہی  وہ سخت لہجے میں بولا

"سکون مل گیا تمہیں عنایہ کو مار کے ؟"اسکی اس بات پر پہلے تو وہ سن ہو ئی اور پھر بولی

"میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔میں اسے بچانا چاہتی تھی۔لیکن۔۔۔"ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ جب وصی نے انگلی اسے دکھاتے ہوئے کہا

"بس۔۔۔۔فضول بکواس مت کرنا۔تم دونوں بہن بھائی  نے میری معصوم سی بہن کو قبر  کے دہانے پر پہنچا دیا۔

ایک نے اسکو اتنا دکھ دیا کہ زندگی بوجھ لگنے کگی۔اور بہن نے بجائے اس کے بوجھ کو بانٹنے کے   خود سے یہ فرض کر کے بیٹھ گئی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔وہ بہت آہستہ لیکن سخت لہجے میں بولتا چلا گیا۔

اور وہ تو الزام سن کر ہی اتنی شاکڈ تھی  کہ صفائی دینے کا اسے خیال ہی ناں آیا۔جبکہ وہ اسے روتا دیکھ کر بولا

"اب کیوں  یہ جھوٹا ناٹک کر رہی ہو؟ اگر تم اسکو بچانا چاہتی تو گھر والوں کو بتا تی۔"وہ اسکے زخموں کو ادھیڑتے ہوئے بولا

 تو وہ بولی

"میں۔۔۔۔"ابھی وہ اتنا ہی بول پائی تجی کہ وہ اسکی بات کاٹ گیا۔اور پھر تنے ہوئے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر بولا

"تم دونوں بہن ،بھائیوں کو تم لوگوں کو کئے کی سزا ملے گی۔"کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

صبح جب فجر کے قریب بی جان تہجد کے لئے اٹھیں  تو  لاونج سے گزرتے انہیں سوتی ہوئی ہنزہ  دکھائی دی۔وہ اسے دیکھ کر اسکے پاس چلی آئیں۔اور پھر نرمی سے اسے پکارا

"ہنزہ۔۔۔۔"ہنزہ اٹھو۔اپنے کمرے میں جاو۔"وہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی  بی جان کی آواز پر جھٹکے  سے اٹھ بیٹھی۔

اسے اٹھتا دیکھ کر وہ بولیں

"جاو اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو۔"تو وہ بولی

"بی جان مجھے وہاں سکون نہیں آتا۔میں آپکے روم میں چلی جاو ؟اسکی اجازت لینے پر وہ دھیرے سے مسکائی اور پھر کہا

"ہاں جاو سوجاو۔"تو وہ اٹھ کر انکے کمرے میں چلی گئی۔

جبکہ بی جان افسردگی سے اسے جاتا دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولیں

"میری ہستی کھیلتی بچیوں کی زنفگی میں کیا طوفان آیا کہ جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔

میری عنایہ مجھ سے چھن گئی۔اور میری ہنزہ تو خود اپنی بھی ناں رہی  تو میری کیا رہے گی۔"پھر ماضی کی کوئی بات  یاد آنے پر انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا

"عنایہ ہنزہ کہتی تھی ناں کہ کہیں اور جاکر دیکھنا۔میم کبھی تمہیں یاد نہیں کرونگیں۔

لیکن آج آکر دیکھو  وہ اپنی اور تمھاری یافوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے راتوں  کو میرے کمرے میں آکر سوجاتی ہے۔"کہہ کر انہوں نے آنکھوں میں آئی نمی کو ڈوپٹے کے  پلو سے صاف کیا اور وضو بنانے وش روم کی طرف چلی گئیں۔

ہر طرح کی موت دکھ دیتی ہے لیکن  اچانک ہوئی موت سے  گھر کے لوگ جلدی نکل نہیں پاتے۔اور یہی کچھ یہاں بھی ہو رہا تھا۔"

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"ہنزہ  چائے کا کپ پکڑانا"۔حسن نے ہنزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو اسنے خاموشی سے اسے کپ پکڑا دیا۔

تب ہی ولی دروازہ کھول کر وہاں آیا اور سب کو باآواز بلند سب کو سلام کیا۔

"تم کیسے آگئے آج ؟"خالدہ بیگم نے ولی سے پوچھا  تو وہ زور سے ہنسا اور پھر بولا

"قریب میں ایک دوست سے ملنے آیا تھا۔سوچا آپ لوگوں سے بھی مل لو۔"اسکا جواب سن کر نفیسہ بیگم بولیں

"بہت اچھا کیا بیٹے۔رحمانہ کیسی ہے ؟"تو وہ بولا

"ٹھیک ہیں وہ۔"بتاکر نفیسہ بیگم کے پکڑائے کپ سے چائے پینے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد جب سب بڑے اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے تو  اسنے خاموش بیٹھی ہنزہ کو دیکھا  اور پھر اسے چھیڑتے ہوئے بولا

"اوہو۔۔یہاں بھی ایک عدد بد روح بھی پائی جاتی ہے۔"اسکی اس بات پر  ہنزہ نے چونک کر  اسے دیکھا   اور پھر کچھ بولے بغیر  چائے پینے لگی۔

جب اسکی بات  کا کوئی جواب ناں آیا  تو وہ بولا

"کیا بات ہے ؟لوگ بہت خاموش رہنے لگےہیں۔کیا لوگوں کو ج

خاموش رہنے کے پیسے مل رہے ہیں کیا ؟ "تو وہ بولی

"ہاں  بولنے والے لوگوں کو  لوگ کھا جاتے ہیں ۔"کہہ کر اسنے ایک تیکھی نگاہ حمزہ پر ڈالی۔جونظریں چرا گیا تھا۔جبکہ ولی نے ہنزہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"تم نے  کب سے خاموش رہنا شروع کیا ؟"تو وہ ایک جھٹکے  سے کھڑے ہوتے ہوتے بولی

"جب سے عنایہ مری ہے۔کیونکہ بولنے کی عادت تو اسکے ساتھ ہی تھی۔"کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔جبکہ وہاں بیٹھے حسن اور ولی تاسف سے اسے جاتا دیکھتے رہ گئے۔

آج چھ ماہ ہو چکے تھے عنایہ کو  ان سے بچھڑے۔لیکن عنایہ  کے جانے کے بعد ہنزہ کوبھی چپ لگ گئی تھی۔کبھی یہ گھر انکی آوازوں سے گونجتا تھا۔اور اب وہ اتنا دھیرے بولتی تھی کہ پاس بیٹھے  انسان کو بھی بمشکل آوازسنائی دے۔

حمزہ یہ سب سوچتا ہوا حسن کی طرف مڑا  جو عنایہ کے زکر پر  آنکھوں میں آئی نموں کو چھپا رہا تھا۔

ایک بچپن ساتھ گزرا تھا۔ہر وقت کا چھیڑنا تو اسکی عادتوں میں شامل تھا۔کیا پتہ تھا کہ اسکی بہن کا ساتھ تو بہت کم ہے۔کاش میب اسکی خواہش کو پورا کر  پاتا۔وہ دل ہی دل میں سوچتا  ولی کی طرف متوجہ ہوا تب ہی  اسکے موبائل پر شازمہ کی کال آئی۔

تو وہ اٹھ کر لان میں چلا گیا اور پھر ٹہل ٹہل کر بات خرتے کرتے اچانک اسنے شازمہ  کی کسی بات کو سنتے گردن گھماکر لان چئیر  کی طرف  دیکھا تو اسکی نگاہوں کے سامنے چھ ماہ پہلے کا منظر گھوم گیا۔

وہ چئیر کو دیکھتے دیکھتے ماضی میں پہنچ گیا تھا۔اسے اب شازمہ کی آواز آنا بھی بند ہو چکی تھی۔

اسے عنایہ یاد آنے لگی تھی۔وہ اکثر شام میں یہاں بیٹھتی تھی۔یہ جگہ اسکے بیٹھنے کے لئے لازم و ملزوم تھی۔ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ جب اسے  شازمہ کی آواز آئی

"تم مجھے لینے آرہے ہو ناں۔"اسکا سوال سن کر اسے اپنا سوال یاد آگیا تھا جو اسنے عنایہ سے کیا تھا کہ

"کیا تم ایک بٹے ہوئے انسان کے ساتھ خوش رہ سکتی ہو؟"جسکے جواب میں وہ حیرت زدہ  سی اسکا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر ناں میں سر ہلایا تھا۔

ماضی کی ایک یاد دوبارہ اسکے دماغ   کے دریچوں میں آئی تھی۔وہ کھڑے کھڑے دوبارہ ماضی میں پہنچ چکا تھا۔

"حمزہ؟تم سے بول رہی ہوں۔ایک تو تم نجانے کہاں  گم ہوجاتے ہو؟"تب ہی اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا

"میں نہیں آونگا۔"اسکے جواب پر شازمہ کو تعجب ہوا تو وہ بولی

"تم نے ہی تو کہا تھا کہ آج باہر کھانا کھائیں گے اور اب خود منع کر رہے ہو۔"تب ہی وہ بے زاری سے بولا

"ہاں لیکن  اب میرا دل نہیں کر رہا۔"اسکی اس بات ہر شازمہ نے انتہائی غصے  سے ابھی کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا   جب وہ مزید بے زاریت سے بولا

"اوکے بائے۔"کہہ کر کال بند کر دی۔جبکہ شازمہ  نے حیرت سے  فون کو دیکھا۔

"اسے کیا ہوا ہے؟اتنی مشکل سے اسکو اپنی طرف راغب کیا تھا۔اور اب یہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟اب تو اسکی کزن عنایہ بھی مر گئی ہے۔جسے دیکھ کر اسکی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔اور یہ بے وقوف سمجھتا تھا کہ صرف کزن کی حد تک پسند کرتا ہے۔

"کتنی مشکل سے میں نے اسے اپنا گرویدہ کیا تھا کہ اسے میرے علاوہ اور کوئی نظر ناں آئے  لیکن اب کون ہے  اسکی زندگی میں ؟"وہ فون ہاتھ میں پکڑی سوچے جا رہی تھی۔

تب ہی اسکی بہن اسکے قریب چلی آئی ۔اسے یوں سوچوں میم گھرے دیکھا تو بولیں

"کیا ہوا ہے شازمہ ؟"تو وہ چونکتے ہو ئے بولی

"آپی آج کل حمزہ عجیب سا رویہ رکھ رہا ہے۔"اسکی بات سن کر وہ پوچھ بیٹھیں 

"جیسے کہ ؟"تو وہ بولی

"جیسے کہ وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔اچانک بات کرتے کرتے خاموش ہو جاتا ہے۔اور اگر پکارو تو وہ مجھ سے بھی اتنی اجنبیت سے بات کرتا ہے کہ بس۔"شازمہ نے انکو الجھتے ہوئے بتایا تو وہ بولیں

"کسی کو رلاکر کبھی خوش رہا ہے شازمہ جو تم خوش رہتی؟"اسکی بات سن کر  شازمہ حیرت سے بولی

"آپی آپ۔۔۔ آپ کیا بول رہی ہیں؟"تو  وہ مزید بولیں

"تم جانتی تھی کہ عنایہ حمزہ کو پسند کرتی تھی اور شاید حمزہ بھی۔لیکن اس بے وقوف کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ  صرف کزن کی حد تک نہیں بلکہ  محبت کرتا ہے عنایہ سے۔اسکے زکر پر اسکی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔گھر والے انکو بہت جلد رشتہ ازدواج میں باندھ دیتے کہ تم نے آہستہ آہستہ اسے  اپنی طرف متوجہ کیا۔وہ مرد زات تھا۔ہو گیاوہ بھی متوجہ ۔پھر تم نے اس پر دباو ڈالا اور اسنے اپنے گھر والوں کو زبردستی یہاں بھیجا۔لیکن تمہیں یہ  سب کر کے کیا ملا ؟

مشکل سے چھ مہینے  تم اپنا کھیل کھیلتی رہی۔"اور پھر دیکھو 

"اللہ نے  کیسی  تمہاری رسی کھینچی کہ اب تم سامنے بھی ہو تو تم اسے نظر نہیں آتی۔"انکی بات سن کر وہ غصے سے بولی

"آپی ۔۔۔آپ۔۔۔۔"تب ہی وہ مزید کرخت لہجے میں بولیں

"دوسروں کے ساتھ برا کرنے والے کبھی خوش نہیں رہ پاتے۔اور تم  ہمارے گھر میں اسکی زندہ مثال ہو۔میں شرمندہ ہونکہ میں تمھاری بہن ہوں۔اب  تمام زندگی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنسی رہو گی۔

حمزہ تمھارا ہو کر بھی تمھارا نہیں ہوگا۔اسکے خیالوں میں ،سوچوں میں،اسکے دل میں ہر جگہ عنایہ ہے ،تھی اور اب تو مرتے دم تک رہے گی۔اور تم اور تمہاری جگہ کہاں ہے ؟ تم خود یہ بات سوچو۔بلکہ رہنے دو۔جنکی کوئی جگہ ہو وہ سوچ سکتا ہے تم تو  اپنی ہوشیاری اور چالاکی  سے  کسی کی جگہ  کو حاصل کرمے کی کوشش کی تھی۔تمہاری مثال تو وہ ہے

"دھوبی کا کتا ناں گھر کا ناں گھاٹ کا۔"تب ہی وہ زور سے چیخیں 

"آپی بس۔اب اور نہیں۔"تو وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولیں

"اوہو۔۔۔برا لگ رہا ہے کیا ؟لیکن تم  نے خود کسی کو ریپلیس کر کے خود کو اس جگہ پر زبردستی فٹ کیا ہے ۔حالانکہ تمھاری کوئی جگہ نہیں  بنتی تھی۔"پھر تھوڑی اور اسکے قریب ہو کر بولیں

"جو کانچ تم نے  عنایہ  کے راستے میں بکھیرے تھے ناں۔اور جن پر وہ ننگے پاوں چل کر اپنی منزل پر پہنچ کر وہ سر خرو ہوئی تھی۔اب انہی کانچوں کو تمنے اپنے پلکوں سے اٹھانا ہوگا۔"

"تم ہر دن جئیوگی اور ہر دن مرو گی۔اور یہ ازیت تمہیں حمزہ دیگا۔تم نے جان بوجھ کر اسے اپنا شکار بنایا تھا  لیکن آہ اب دیکھو 

شکاری خود اپنے شکنجے میں پھنس گیا۔ابھی تو میری جان شروعات ہے ۔۔آگے آگے دیکھو۔ہوتا ہے کیا۔۔"

"دوسروں کو ازیت دینا زرا بھی مشکل نہیں ہوتا بس اسکے لئے ضمیر کو مارنا پڑتا ہے۔اور وہ تو تم میں تھا ہی نہیں زندہ۔لیکن حمزہ میں ہے زندہ۔اور پھر دھیرے دھیرے بولتیں وہ سختی سے بولیں

"مکافات عمل شروع ہو چکا ہے شازمہ۔اور یہ بات دماغ میں رکھنا کہ مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے لیکن   پیستی بہت باریک ہے۔اور تم پسو گی شازمہ۔۔۔"

"جس بندے کو تم نے اسکی محبت سے دور کیا  آج اگر تم غور سے دیکھو تو وہ اب عنایہ  سے محبت نہیں عشق کرتا ہے۔

جو جذبہ کسی  کے مرنے پر  ختم ہوجانے کے بجائے مزید تقویت پکڑ جائے اسے محبت نہیں عشق کہتے ہیں۔"وہ یہ کہہ کر اسے تیز نگاہوں سے گھورتی وہاں سے چلی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"بی جان آپکی طبیعت کا پوچھ رہی تھیں۔"رات کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک ولی نے رحمانہ بیگم کو کہا تو وہ چونک کر اسکی طرف دیکھنے لگیں۔
"لیکن انکا کوئی فون نہیں آیا تو تمہیں کیسے علم ہوا؟" انکی بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرایا اور پھر بولا
"میں آج وقاص سے ملنے گیا تھا تو واپسی پر بی جان سے ملنے ان کے یہاں چلا گیا۔"اسکے بتانے پر وہ وہاں کے لوگوں کا حال احوال پوچھنے لگیں تو وہ بھی نرمی سے انکے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے اچانک بولا
"باقی سب تو ٹھیک ہیں لیکن ہنزہ بہت ڈسٹرب لگ رہی تھی۔"اسکی بات سن کر رحمانہ بیگم نے تاسف سے سر ہلاکر کہا
"ہاں عنایہ کے بعد ہنزہ بہت خاموش رہ گئی ہے۔"انکی اس بات ڈش اٹھاتے وصی نے انکی طرف دیکھا اور پھر دل میں کہا
"ناٹک کر رہی ہے۔"یہ سوچ کر وہ سر جھٹک کر کھانا اپنی پلیٹ میں نکالنے لگا۔
تب ہی سلمان صاحب نے نیکپن سے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے وصی کو مخاطب کر کے کہا
"کھانا کھانے کے بعد میرے روم میں آنا۔کچھ بات کرنی ہے۔"وہ انکی بات سن کر سر ہلاکررہ گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
کھانا کھاکر جب وہ انکے روم میں گیا تو وہ کتاب ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہے تھے۔
انکو سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر اسنے زور سے انہیں پکارا تو انہوں نے خیالات سے باہر آتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر خوشدلی سے بولے
"آو بیٹھو۔کچھ بات کرنی تھی۔بلکہ رائے لینی تھی۔"انہوں نے کہہ کر اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے سنکے پاس بیٹھ گیا۔
"کچھ دیر تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیسے بات شروع کریں پھر اسے دیکھتے ہوئے وہ تمہید باندھتے ہوئے بولے
"اسٹڈی تم کمپلیٹ کر چکے ہو اور بزنس بہت اچھے طریقے سے سنبھال رہے ہو۔اب میرا دل کرتا ہے کہ ہمارے گھرمیں بھی بچوں کے قہقہے گونجے۔لہذا میں سوچ رہا ہونکہ کیوں ناں تمھاری شادی کر وا دی جائے۔"انہوں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ کر اسکی طرف دیکھا تو وہ جو ٹکٹکی باندھے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ایک دم گڑبڑا کر رہ گیا۔
تب ہی وہ اسکی کیفیت کو نوٹ کرتے ہوئے بولے
"تو پھر کوئی لڑکی پسند کی ہوئی ہے یا ہم اپنی پسند کی بچی سے شادی کرا دیں ؟" انکی اس بات پر اسکی نظروں کے سامنے شزا کا چہرہ آیا لیکن پھر اچانک اسنے سر جھٹکتے ہوئے ہنزہ کا نام لے لیا ۔
اسکے منہ سے ہنزہ کا نام سن کر وہ کچھ لمحے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھتے رہے۔انکی خواہش تھی کہ ہنزہ انکی بہو بنے لیکن انہیں یقین تھا کہ وہ شزا کا نام لے گا۔لیکن اسکے منہ سے ہنزہ کانام سن کر وہ کچھ لمحے حیرت زدہ رہ گئے ۔انہیں یہ گورکھ دھندا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسنے شزا کو چھوڑ کر ہنزہ کا نام کیوں لیا؟وہ اپنی سوچوں میں کھوئے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جب اسنے انہیں مخاطب کیا
"پاپا"تو انہوں نے خود کو سوچوں سے آزاد کراتے ہوئے کچھ لمحے اسکا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد بولے
"تم سنجیدہ ہو اپنے اس فیصلے پر ؟"تو وہ بولا
"پاپا ایسی باتوں کا مزاق کون کرتا ہے ؟اسکا جواب سن کر وہ مطمئن ہوتے ہوئے بولے
"تمہاری مما اور میری یہی خواہش تھی لیکن ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ تم کسی اور کو پسند کرتے ہو۔"انہوں نے اپنی سوچ کو زبان دی تو وہ نظریں دروازے پر جماتے ہوئے بولا
"شزا میری دوست ہے اور میں اسے ایک دوست کے طور پر پسند کرتا ہوں۔"اسکی اس چھوٹی سی وضاحت نے انکو بہت سے واہموں سے نکال دیا تھا۔
تب ہی رحمانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو وصی نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھ کر باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"پاپا میں جاو ؟"تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
اجازت ملتے ہی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔اسکے جاتے ہی رحمانہ بیگم نے بے تابی سےسلمان صاحب سے پوچھا
"پھر کیا کہا اسنے ؟"تو وہ مسکرا کر بولے
"وصی میرا مان ہے اور تمہیں پتہ ہے بغیر کچھ کہے اسنے ہماری خواہش پوری کر دی۔"انکی بات سن کر وہ بے تابی سے بولیں
"پوری بات بتائیں۔"انکا مطالبہ سن خر وہ مسکرائے اور پھر انہیں پوری بات بتانے لگے۔بات سن کر وہ بھی مسکرا اٹھیں تھیں۔آخر کو سنکی دلی خواہش جو پوری ہو گئی تھی۔
تب ہی وہ جزباتی ہوکر بولیں
"میں کل ہی جاونگیں"انکی بات کر سلمان صاحب نے مسکراکر تائیدی انداز میں سر ہلاکر کہا
"ضرور"تو وہ بھی انکا جواب سن کر مسکرا دیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"عنایہ ۔۔۔"وہ اسکے پیچھے بھاگتا جارہا تھا۔
"رکو میری بات سنو"اسنے تیزی سے بھاگتے ہوئے عنایہ کو زور سے آواز دی ۔اسکی پکار پر عنایہ نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر دوبارہ سے بھاگنے لگی۔
وہ اسکی سنی ان سنی کر کے بھاگنے لر دوبارہ سے اسکے پیچھے بھاگا تب ہی اسنے عنایہ کو ایک گاڑی سے ٹکر کھاتے دیکھا تو زور سے چیخا اور اسکے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔
آنکھ کھلنے کے بعد وہ کچھ دیر تک لیٹا گہرے گہرےسانس لیتا رہا اور پھر تھوڑا سا اوپر کھسک کر پہلے تو ٹیبل لیمپ جلایا اور پھر کچھ لمحوں کے بعد اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی پانی کی بوتل کو پانی پینے کے لئے اٹھا یا لیکن اس میں پانی ناں دیکھ کر وہ پانی لانے کے کئے اٹھ کھڑا ہوا۔
سیڑھیوں سے اتر کر وہ گراونڈ فلور پر آیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔
پانی پیکر وہ دوبارہ اوپر جانے کے بجائے لان میں چلا گیا۔
کچھ دیر یونہی ٹراوزر کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ گھاس پر ننگے پاوں چلتا رہا اور پھر جیسے تھک کر لان چئیر پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔
لیکن آنکھیں بند کرتے ہی عنایہ کا کفن میں لپٹا چہرہ اسکے سامنےتھا۔
حمزہ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور پھر نم آنکھوں سے اس ٹیرس کی طرف دیکھنے لگ گیا جہاں کبھی عنایہ اور ہنزہ گھنٹوں کھڑی ہو کر باتیں کیا کرتیں تھیں یا پھر وہاں کھڑی ہو کر کافی پیتی نظر آتی تھیں۔لیکن سب وہ ٹیرس خالی تھا بلکل اسکے دل کی طرح۔
ٹیرس کی طرف دیکھتے دیکھتے اسے کچھ پرانی باتیں یاد آنے لگی تھیں۔
"نہیں اب میری باری"عنایہ نے چیختے ہوئے کہا
"جی نہیں۔کوئی فضول چیز سنانی ہو گی۔"حسن نے حمزہ کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر عنایہ کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ بولی
"سنو تو کل ہی میں نے ایک اتنی اچھی نظم پڑھی ہے۔اور مجھے اتنی اچھی لگی کہ بس۔۔۔۔"ہنزہ تم بولو ناں ان لوگوں کو۔"عنایہ نے مونگ پھلی کھاتی ہنزہ سے کہا تو وہ بولی
"تم سنانا شروع کرو۔کوئی سنے یا ناں سنے میں سن رہی ہوں۔اسکی تجویز پر عنایہ نے تالی بجاکر کہا
"واہ زبردست۔۔"کہہ کر اپنی نظم سنانے لگی۔
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
چاندنی تو آنگن میں
آج بھی اترتی ہے
میں یوں تو زندہ ہوں
سانس ببی چلتی ہے
روز و شب گزرتے ہیں
عمر ڈھلتی رہتی ہے
ایک تیرے ناں ہونےسے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
کچھ کمی سی رہتی ہے
آنکھوں کے کناروں پر
کچھ نمی سی رہتی ہے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
ایک تیرے ناں ہونے سے
اور تو کچھ نہیں ہوتا
تشنگی سی رہتی ہے
یوں تو کچھ نہیں ہوتا
وہ جیسے ماضی کی یادوں کو یاد کرتے کرتےحل کو بھول چکا تھا۔
"واہ واہ زبردست"اچانک اسے اپنی ہی آواز اپنے کانوں میں سنائی دی تو وہ چونک کر خیالات سے باہر آیا۔
اچانک ایک آنسو اسکی آنکھ سے ٹپکا تو وہ بے ساختہ سسک اٹھا
"کیوں چلی گئی عنایہ۔اتنی یادیں ہیں۔میں کس کس یاد سے نظریں چراوں۔کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پھر لان سے ہو کر چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر جاکر نیم دراز انداز میں لیٹ کر دونوں ہاتھوں کی ہتہیلیوں کو باہم ملاکر سر کے پیچھے ٹکایا اور پھر آنکھیں موند لیں ۔لیکن اب کی دفعہ پھر عنایہ کا مسکراتا چہرہ اسکی نظروں کے سامنے تھا۔
بے ساختہ وہ چھ فٹ کا بندہ ہاتھوں میں منہ چھپاکر ر و پڑا تھا۔
یونہی روتے روتے اسنے تڑپتے ہوئے جیسے خدا کو پکارا تھا۔
"یا اللہ جی یہ دکھ بہت بڑا ہے۔میں نہیں سہہ پا رہا۔مجھے صبر عطا کر ۔"روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔تھوڑی دیر کے بعد خود ہی وہ چپ ہو کر آنکھیں بند کر گیا۔اب کی دفعہ پھر قبر میں عنایہ کو ڈالے جانے کا منظر اسکی نگاہوں کے سامنے تھا۔اسنے بے ساختہ آنکھیں میچیں
"یا اللہ پلیز ۔۔۔رحم۔۔۔۔"وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑایا تب ہی آہستہ آہستہ اسکا دماغ غافل ہونے لگا۔سکی نظروں کے سامنے سے عنایہ کا چہرہ ہٹا اور پھر تاریکی سامنے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"کیا کر رہی ہو ہنزہ "؟ خادلدہ بیگم نے ہنزہ سے پوچھا تو وہ جرنل بناتے ہوئے بولی
"مما یہ ڈائیگرام بنا رہی ہوں۔آپ کو کوئی کام تھا ؟"اسنے پنسل رکھ کر انسے پوچھا تو وہ کچھ پل کے لئے اسکا چہرہ دیکھتی رہیں ۔انہیں یاد آرہا تھا کہ وہ پڑھائی کے معاملے میں کتنی لاپرواہ تھی۔لیکن عنایہ کی موت کے بعد جیسے وہ بدل کر رہ گئی تھی۔اپنی طرف یک ٹک انکو تکتے پاکر اسنے انکا ہاتھ پکڑ کر دبایا تو وہ اپنے خیالات سے باہر آئیں اور کہا
"ہاں تم سے کچھ بات کرنی تھی۔"تو وہ بولی
"ہاں تو کریں ناں"اسکی بات پر وہ بے ساختہ مسکرائیں اور پھر اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولیں
"تمھاری پھوپھو آئی تھیں۔"انہوں نے بات شروع کرنے سے پہلے تمہید باندھی تو ہنزہ نے انہیں دیکھتے ہوئے ناسمجھی سے کہا
"وہ تو اکثر آتی ہیں مما"نرمی سے کہہ کر وہ دوبارہ پینسل اٹھاکر ڈائیگرام کی لیبلنگ کرنے لگی تو وہ بولیں
"لیکن اس دفعہ وہ ایک خاص مقصد کے لئے آئی تھیں۔انکی بات سن کر ہنزہ نے پر تجسس ہو کر اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ مزید بولیں
"تمہارا رشتہ وصی کے لئے مانگا ہے۔ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔گھر کا بچہ ہے۔آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ہم سب راضی ہیں۔تمھارے با با کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ تم سے تمھاری رائے لے لوں۔"
انہوں نے اپنی بات مکمل کر کے اسکا چہرہ دیکھا جو یک ٹک انہیں دیکھتی جا رہی تھی۔
انکی بات ختم ہوتے ہی وہ تیزی سے بولی
"مم مجھے نہیں کرنی وہاں شادی ۔آپ ناں کر دیں۔"اسکی باتسن کر پہلے تو انکے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے اور پھر کچھ لمحے غصے میں دیکھتے رہنے کے بعد ایک ایک لفظ چباچباکر بولیں
"تم دونوں بہن بھائی نے مجھے زلیل کرانے کا سوچ رکھا ہے۔پہلے عنایہ کا تمھارے بھائی نے منع کر دیا اور اب تم وصی کے لئے منع کر رہی ہو۔چلو حمزہ کو تو شازمہ پسند تھی۔تمہیں کون پسند ہے ؟ اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو ہم اسی سے دو بول پڑھوا کر رخصت کر دیں۔ہمارا کیا ہے ۔ہم تو زلیل ہونے کے لئے ہیں۔نفیسہ کے سامنے میں آج تک نظریں جھکائی رہتی ہوں۔کتنی امید تھی اسے کہ عنایہ میری بہو بنے لیکن حمزہ نے شازمہ کو پسند کر لیا۔اور اب تم وصی کے لئے ناں کر رہی ہو۔غصے سے بولتےبولتے آخر میں آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اورپھر اسکے برابر سے کھڑی ہو کر بولیں
"تمھارے باپ تک تمھارا جواب پہنچا دونگی۔وہ بھی اس غلط فہمی سے باہر آجائے گا کہ بہن نے بھائی کے نقش قدم پر پاوں نہیں دھرا ہے۔آخر کو ہمیں سزا تو ملنی چاہیے تم لوگوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی۔اور اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم ایک خاندان اور ایک گھر میں رہتے ہوئے کسی سے نظریں ناں ملا سکیں۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو ہنزہ جو اب تک سن بیٹھی تھی اچانک اٹھی اور اس سے پہلے کہ وہ دروازہ سے باہر نکلتیں وہ انکے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

انہوں نے اسے سامنے کھڑے دیکھا توغصے سے بولیں 

"کیا مسئلہ ہے ؟"انکے کہنے کی دیر تھی کہ وہ انکے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے بولی

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"اسکی بات سن کر وہ جیسے ٹھنڈی پڑ گئیں اور پھر نرمی سے اسے خود سے ہٹا کر اسکا چہرہ دیکھا جو پیلا لگ رہا تھا۔۔

تمام سوچوں کو جھٹک کر انہوں نے اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولیں

"تم اس پر سوچ لو ہنزہ۔میں اور تمھارے بابا اتنے بے حس نہیں ہیں کہ بچوں کی مرضی کے خلاف جائیں۔لیکن ہم بےبس ہیں۔"انہوں نے آہستگی سے کہہ کر اسے گلے سے لگایا تو وہ انکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی

"نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔"اسکی بات پر انہوں نے نرمی سے اپنی گرفت اس پر مضبوط کی اور پھر بولیں

"بہت شکریہ ہنزہ ۔بی جان کی بھی یہی خواہش تھی کہ تم وصی کی دلہن بنو اور مجھ میں اور تمھارے بابا میں اتنی ہمت نہیں کہ اب دوبارہ سے بی جان کی خواہش کو جان کر بھی پورا ناں کر سکیں۔اور سچ بتاو تو حمزہ نے عنایہ کے رشتے سے انکار کر کے میرا اور تمھارے بابا کا سر اتنا جھکا دیا ہے کہ ہم کبھی گھر ولوں کے سامنے اٹھا ہی نہیں سکتے۔"وہ بے بسی سے بولیںتو ہنزہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی

"وہ نصیب کا کھیل تھا ۔"اسکی بات سن کر انہوں نے آہستگی سے ہاں کہا اور پھر اسکا ماتھا چوم کر ہاں سے چلی گئیں۔جبکہ وہ بے جان ہوتی ٹانگوں سمیت بیڈپر بیٹھتی چلی گئی۔

اور پھر اچانک بڑبڑائی

"یہ ہے میرا نصیب۔جس جگہ جانے سے میں جتنا بھاگتی رہی قسمت مجھےآ خر وہی لے گئی۔"کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاکر رودی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

ہاں کرتے ہی دونوں طرف زور و شور سے منگنی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ایسے ہی ایک دن وصی اپنے پاپا کے ساتھ لاونج میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب رحمانہ بیگم شاپنگ سے تھکی ہاری واپس آئیں ۔اور صوفے پر سلمان صاحب کے برابر میں بیٹھ گئیں۔

"سکینہ۔۔۔۔پانی لو۔"انہوں نے تھکے تھکے انداز میں ملازمہ کو آواز دی ۔

تب ہی سلمان صاحب نے مسکراکر پوچھا 

"ہوگئی شاپنگ ؟"تو وہ بولیں

"ابھی کہاں۔۔۔۔"انکو جواب دیکر انہوں نے ملازمہ کا لایا یوا پانی پیا اور پھر گلاس اسے تھمادیا۔جب وہ وہاں سے چلی گئی تو وہ وصی کومخاطب کرتے ہوئے بولیں

"تمھاری منگنی کی تیاریوں نے مجھے اتنا تھکا دیا ہے تو شادی کے وقت کیا ہوگا۔اب واقعی بڑھاپا آگیا ہے۔"تب ہی وہ ہنستے ہوئے بولا

"تو آپکو کس نے کہا تھا کہ منگنی کا جھنجھٹ پالیں؟ڈائیریکٹ شادی کی بات کرتیں اور کرنے کی وجوہات بھی زیر غور لاتیں کہ آپ اکیلی ہے یہ وہ۔تو وہ کبھی بھی آپکی بات سے اختلاف ناں کر پاتیں۔"اسکی بات سن کر سلمان صاحب بولے

"کہہ تو ٹھیک رہا ہے۔"تو وہ سوچتے ہوئے بولیں

"اسطرف میرا دھیان کیوں ناں گیا پہلے؟میں بی جان سے بلکہ نہیں میں وہا ں جاکر بھسئی سے بات کرونگی۔"وہ زیر لب بڑبڑائیں اور دل میں معصم ارادہ کیا کہ وہ لازمی اس سلسلے میں بات کریں گی۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"تم ٹھیک کہتی ہورحمانہ ۔لیکن ہنزہ کی ابھی پڑھائی بھی تو مکمل نہیں ہوئی ۔"بی جان نے سوچتے ہوئے کہا تو وہ بولیں

"وہ سب تو ہے بی جان لیکن ہنزہ شادی کے بعد بھی توطپڑھ سکتی ہے۔میں کونسا منع کرونگی اور وصی بھی نہیں منع کریگا۔آپ میری مجوری کو سمجھیں۔میعی طبیعت سب کچھ وقتسے بہت خراب رہنے لگی ہے۔"وہ لجاجت سے بولیں تو شہام صاحب نے سب کے چہروں پر نظریں ڈوراتے ہوئے کہا

"میرے خیال میں اتنا ناجائز مطالبہ بھی نہیں ہے رحمانہ کا۔اس بے چاری کی بھی مجبوری ہے۔اور پھر ہنزہ شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی مکمل کر سکتی ہے۔شہام بخاری کی نیم رضامندی کر بی جان نے بھی تھوڑے سے اعتراض کے بعد انکی بات مان لی۔

"شکریہ بھائی۔۔۔میں آپکا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتی۔"انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تو جواب میں شہام صاحب نے جوابن کچھ بھی کہنے کے بجائے اٹھ کر انکے سر ہاتھ پھیر کر بولے

"عنایہ کے بعد زندگی اب قابل بھروسہ نہیں لگتی۔اسلئے جو کام جتناجلدی ہو اتنا ٹھیک ہے۔کہہ کر وہ نم آنکھوں سے وہاں چل دئیے۔جبکہ عنایہ کے زکر پر باقی سب بھی ملول سے بیٹھےتھے کہ اچانک نفیسہ بیگم کے منہ سے بے آواز نکلا

"میری پھول سی بچی۔۔"اورپھر ڈوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر رونے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جہاں پہلے منگنی کی تیاریاں ہو رہی تھیں وہاں اب شادی کی تیاریاں ہونے لگی تھیں۔

ہر چیز عمدہ سے عمدہ ترین تھی۔آخر کیوں ناں ہوتی۔

دونوں گھروں میں یہ پہلی شادی تھی۔تو سج دھج اور رونق تو ہونی ہی تھی۔

ان مصروفیت سے بھرےدنوں میں وہ خاموشی سےگھر میں ہونے والے ہنگامے کو دیکھتی رہتی اور پھر چادر میں منہ لپیٹ کر لیٹ جاتی۔

عجیب سی افسردگی تھی جسے وہ کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔شاید گھر چھوٹنے کا دکھ تھا یا کچھ اور ۔وہ یہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔لیکن جو بھی تھا اسکا دل کہتا تھا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔

یوں ہی زمدن گزرتے چلے گئے اور نکاح کا دن آپہنچا ۔

مہندی کا دن ناں صرف مہندی کا دن تھا بلکہ آج نکاح بھی تھا۔

ایک عجیب سی بےچینی اس پر طاری تھی۔

مہندی کا فنکشن شروع ہونے سے پہلے مولوی صاحب ،شہام صاحب اور دوتین لوگ اور اسکے کمرے میں آکر اس سے قول و ایجاب وغیرہ قبول کرا گئے تھے۔

اور کچھ دیر کے بعد وصی سے بھی قول وایجاب کو قبول کرولیا گیا تھا۔

مہندی کافنکشن چونکہ دونوں گھرانوں نے باہمی مشورے سے مشترکہ رکھا تھا۔جسکے نتیجے میں اسکی اور وصی کی رسم ایک ساتھ ہی ہونی تھی۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے اسکی کزنز اسے باہر لے جاکر وصی کے برابر مین بٹھا آئیں تھیںاور وہ جو پہلے ہی بے چینی کاشکار تھینکاح کے بعد عجیب بے حسی خود میں محسوس کر رہی تھی۔

اسے اپنا آپ ایک ربورٹ کی طرح محسوس ہو رہا تھا جو سب کے اشاروں پر چل رہا تھا۔

وہ خاموش بیٹھی اپنی کزنز کے قہقہوں کو سن رہی تھی کہ اچانک اسے وصی کی آواز سنائی دی جو اس سے مخاطب تھا۔وہ بے خیسلی میں اسکی باتوں کو دھیان سے سننے لگی۔

"بہت سکون میں تھی ناں تم۔۔۔۔اب تمہیں سمجھ آئے گا کہ بے چینی کسے کہتے ہیں۔"اسنے اپنی بات مکمل کر کے اسکے لمبے سے گھونگھٹ کو گھورا ۔

ابھی وہ اسکے گھونگھٹ کو گھور ہی رہا تھا کہ جب کیمرہ مین نے اسے اپنی طرف دیکھنے کا کہا تو وہ اسکی طرف دیکھنے لگ گیا۔جبکہ وہ حیرت سے اسکی باتوں کو سوچے جارہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

رات گئے جب فنکشن ختم ہوا تو وہ جان چھوٹنے پر شکر ادا کرتی کافی بناکر ٹیرس پر آکھڑی ہوئی۔

ٹیرس کی ریلنگ پر اپنا کپ رکھ کر وہ گزرے دنوں کو یاد کرنے لگی۔

کتنے ہی راتیں اسنے اور عنایہ نے کبھی یہاں کھڑے ہو کر باتیں کرتے گزاری تھیں ۔کتنی خوشیاں اور کتنے ہی غم انہوں نے ساتھ منائے تھے۔

عنایہ کی یاد آتے ہی بے ساختہ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

کتنی دور چلی گئی ہو عنایہ ۔۔میں چاہ کر بھی تم سے اپنا کو ئی دکھ سکھ نہیں بانٹ سکتی۔یہ سوچ کر کتنے ہی آنسو اسکے چہرے پر بہہ گئے۔

یوں ہی روتے روتے اسکی نظریں اپنے ہاتھوں کی مہندی پر پڑی تو اسے وصی کی بات یاد آئی۔کچھ دیر وہ اسکی بات کو سوچتی رہی اور پھر اچانک اسے کبھی کہی عنایہ کی بات یاد آئی جو اسنے ولی سے کہی تھی۔

"یار ولی یہ وصی بھائی اتنے عجیب سے کیوں ہیں ؟اسکی بات سن 

کر وہ بولا

"کیوں کچھ کہا ہے کیا انہوں نے ؟تمہیں تو خیر سے وہ اپنی بہن مانتے ہیں۔"اسکے حیرت زدہ ہوکر پوچھنے پر عنایہ بولی

"نہیں مجھے تو کچھ نہیں کہا لیکن عنایہ کو آج پھول توڑنے پر ڈانٹا تھا۔"اسکی بات سن کرولی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا 

"تم انکی باتوں کو سیریس مت لیا کرو۔وہ کسی کا بھی غصہ کسی پر بھی نکال دیتے ہیں۔کہہ کر وہ اور عنایہ اپنی باتیں کرنے لگے تھے۔"

یہ بات یاد آتے ہی وہ خود سے بولی

"شاید کسی اور کا غصہ مجھ پر اتار رہے ہو۔"سوچ کر وہ کندھے اچکا کر کافی پینے لگی۔

۔۔۔۔۔۔*۔ ۔۔۔۔۔

"تم۔۔۔۔تم شادی کر رہے ہو ؟"شزا نے تقریباچیختے ہوئے کہا تو وہ بولا

"ہاں تم آوٹ آف کنٹری تھی تب ہی تمہیں بتا نہیں سکا۔اور میں کچھ بزی تھا اسلئے تم سے خود کانٹیکٹ نہیں کیا۔"وہ اپنی بات کہ کر اسکی بات سننے لگا جو اب غم زدہ سی بول رہی تھی

""تمہیں علم تھا وصی کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔لیکن تم۔۔۔۔۔۔"وہ کہہ کر رونے لگی جبکہ وہ گہری سانس لیکر بولا

"آئی نو کہ تم میرے لئے دوست سے زیاد ہ کے جزبات رکھتی تھی لیکن میں کبھی حد سے آگے نہیں بڑھا۔جو کچھ ہوا اس میں میری کوئی بھی غلطی نہیں ہے۔لیکن پھر بھی میں معذرت کرتا ہوں۔اسکی بات سن کر وہ ہذیانی انداز میں ہنسی اور ہنستی چلی گئی۔پھر رک کر بولی

"تم ایک گھٹیا انسان ہو۔کہہ کر کال ڈراپ کر دی جبکہ وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔

۔۔۔*۔۔۔۔۔

آج اسکی زندگی سے اسکی , دوست بھی نکل چکی تھی۔
میں تمہیں چھوڑونگا نہیں ہنزہ۔تمہاری وجہ سے ایک ایک کر کے میری زندگی سے میرے پیارے لوگ نکل چکے ہیں۔وہ غصے سے دھیمے سے خودکلامی کر کے سگریٹ  کے کش لگانے لگا۔۔
۔۔۔**۔۔۔۔۔
اگلا دن نہایت مصروف تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پانچ بج گئے تو نفیسہ بیگم نے اسکی خالہ زاد کو اسکے ساتھ پارلر بھیج دیا تاکہ وہ تیار ہو سکے۔
وہ بوجھل دل لئے پارلر چلی گئی۔اور پھر کچھ ہی گھنٹوں میں بیوٹیشن نے اسکے حسین چہرے کو مزید حسین بنا دیا۔اسنے تیار ہونے کے بعد خود  کو دیکھا تو کچھ لمحوں تک وہ  خود کو پہچان نہیں پائی۔کیونکہ اسنے کبھی فل میک اپ کیا  ہی نہیں تھا  تب ہی علم ہی نہیں تھا کہ اسکا حسن نکھر کر کتنا حسین لگتا ہے۔
تب ہی اسکی خالہ زاد بہن اسکے قریب چلی آئی اور اسے دیکھتے ہی کہا
"یار تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔"اسکے اس جملے لر بیوٹیشن بھی سر ہلاکر بولی
"میں بھی یہی بولنے والی تھی۔"تو اسنے آہستہ سے اسے شکریہ کہہ کر اپنی خالہ زاد  کو مخاطب کر کے کہا
"گھر کال لرکے کسی کو بلالو لے جانے کے لئے۔"تب ہی حمنہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا
"یہی بتانے آئی تھی  کہ نیچے حمزہ آیا ہے لینے۔چلو چلتے ہیں۔"کہہ کر وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے باہر لے آئی۔
سامنے ہی حمزہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔وہ بھی تیز تیز چلتی گاڑی کے پاس چلی آئیاور گاڑی کا دروازہ کھول کربیٹھ گئی۔
دونوں کے بیٹھتے ہی اسنے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔اور کچھ ہی منٹوں میں وہ ہوٹل پہنچ چکے تھے۔
جیسے ہی نفیسہ بیگم کی نظر  اس پر پڑی تو بے ساختہ ماشااللہ نکلا۔
یوں ہی روش پر چلتے چلتے حمزہ  اور حمنہ اسے لیکر اسٹیج پر پہنچ گئے۔جہاں وصی پہلے سے بیٹھا تھا ۔
سب کی نظریں اس طرف ہونے پر وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔اور پھر ہنزہ کے بیٹھتے ہی وہ بھی اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔
رات گئے تقریب اختتام پزیر ہوئی تھی اور پھر رخصتی کا عمل  پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔
وہ جو اب تک بے حسی کی کیفیت میں تھی  رخصتی کے وقت بے حسی کا احساس یک دم ختم  ہو کر رہ گیا تھا۔
جو بھی تھا وہ اپنے ماں باپ  بھائی سے دور جا رہی تھی ۔یہ خیال آتے ہی وہ  ان سے ملتے ہوئے بلک بلک کر رونے کگی تھی۔۔
اور یوں روتے دھوتے وہ رخصت ہو کر وصی کے گھر آپہنچی تھی۔
بہت ساری رسومات کی ادائیگی کے بعد اسے اسکے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔
لڑکیوں نے کچھ دیر وہاں جمگھٹا کئے رکھا اور پھر رحمانہ بیگم  کے کہنے پر وہاں سے چلی گئیں۔
اسنے ان سب کے جاتے ہی اطمیناں  کا سانس لیتے ہوئے پہلے تو سر اٹھا کر کمرے کا نظارہ کیا۔
"ہاں اچھا ہے کمرہ۔"اسنے دل میں سوچا اورپھر وصی کاانتظار کرنے کگی۔
دیکھتے ہی دیکھتے چار بج چکے تھے۔لیکن وصی کا کوئی علم  نہیں تھا۔نجانے کب بیٹھے بیٹھے  اسکی آنکھ  لگ گئی۔اور وہ بیٹھے سے کب نیم دراز ہو کر سوئی اسے علم ہی ناں ہوا۔۔۔۔
صبح اسکی آنکھ تقریبا آٹھ بجے کھلی ۔پہلے تو اسے سمجھ ہی ناں آیا  کہ وہ کہاں ہے ؟لیکن پھر اسے یاد آیا  کہ  یہ کمرہ وصی کا ہے۔یہ خیال آتے ہی اسنے اپنے دائیں طرف دیکھا  جہاں اسے بیڈ پر کوئی شکن نہیں نظر آرہی تھی۔پھر اسنے واش روم کی طرف دیکھا جہاں کی لائٹ آف تھی۔
وہ حیرت زدہ ہوتی ہوئی  اٹھی اور پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر  پہلے  تو اپنے تمام زیورات اتارے۔اور پھر  الماری سے اپنے کپڑے لیکر واشروم میں چلی گئی۔نہانے کے بعد وہ جب کمرے سے باہر نکلی تب بھی وصی کے کوئی آثار کمرے میں ناں پائے جاتے تھے۔
اسنے جاکر پہلے ڈرائیر سے بال سکھائے اور پھر ڈھیلی ڈھالی چٹیا بنا کر ڈوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور پھر باہر جانے کا سوچنے لگی۔
کچھ دیر شش و پنج میں رہنے کے بعد اسنے نو بجے کا انتظارکیا۔اور پھرسوا نو ہوتے ہی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
باہر ہو کا عالم تھا۔یوں ہی چلتے چلتے وہ لاونج میں گئی جہاں رحمانہ بیگم اور  سلمان صاحب بیٹھے تھے اسے آتے دیکھا  تو مسکرا کر بولے
"آو بیٹا تو وہ بھی  جھجھکتی ہوئی  انکے پاس جاکر بیٹھ گئی۔
"جلدی اٹھ گئیں بیٹا آپ۔"سلمان صاحب نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ بولی
"شاید جگہ نئی ہے۔"وہ اسکی صاف گوئی پر مسکرائے بغیر ناں رہ سکے ۔اور پھر رحمانہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے بولے 
آپ ناشتہ تیار کرائیں۔میں چینج کر کے آتا ہوں۔"تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا کر  ملازمہ کو آواز دی۔
تھوڑی دیر کے بعد ملازمہ انکے سامنے کھڑی تھی۔
"صاحب کے لئے ناشتہ تیار کرو۔اور ہاں میرے لئے صرف دودھ لانا۔"وہ بولتے بولتے رکیں  اور پھر کہا
"عنایہ  بیٹے تم  کیا لوگی  ناشتہ میں ؟"وہ انکے سوال پر چونکی اور پھر بولیں
"چائے"اسکی بات پر انہوں نے  نرمی سے  اسے دیکھا  اور پھر بولیں
"صرف چائے"ہنزہ  نے سر ہلا دیا۔تب ہی  وہ اسے پیار سے دیکھتی رہیں اور پھر بولیں
"ہنزہ کے کئے سینڈوچ بنا دو۔"انکی بات سن کر ملازمہ اثباتمیں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ وہ خاموش بیٹھی ہنزہ کی طرف مڑیں۔
اس سے پہلے وہ اسے کچھ بولتیں لاونج کا دروازہ کھول کر وصی اندر داخل ہوا ۔اس سے پہلے وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھتا  رحمانہ بیگم  کی نظر اس پر پڑ چکی تھی ۔تب ہی انہوں نے  ایک نظر خاموش بیٹھی ہنزہ کی طرف دیکھا اور پھر وصی کو۔
"وصی ادھر آو۔"انکی آواز خودبخود سخت ہوئی۔ تو وہ بھی سر جھکائے انکے پاس چلا آیا۔
"کہاں سے آئے ہو تم ؟"انہوں  نے سختی سے پوچھا  لیکن اسنے کوئی جواب دینے  کے بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔
تب ہی وہ دوبارہ بولیں
"تم سے پوچھ رہی ہوں  کہاں سے آرہے ہو ؟تب ہی اسنے انگارہ ہوتیآمکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا  اور پھر دھیمے لہجے میں بولا
"باہر تھا  مما"۔۔۔اسنے بھی دھیمے مگر سخت لہجے میں جواب دیا ۔جواب سن کر وہ کچھ  پل چپ رہیں  اور پھر بولیں
"کب گئے تھے  رات میں ؟سوال سن کر وہ کچھ لمحے خاموش رہا اور پھر ہنزہ کو  دیکھتے ہوئے بولا
"تقریب ختم ہونے کے کچھ دیر کے بعد ۔"کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا  سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔وہ اسکی اس بد تہزیبی پر کھول کر رہ گئیں۔اور پھر انہیں پاس کھڑی ہنزہ کا خیال آیا  تو گھوم کر اسکا چہرہ دیکھا جو بلکل سپاٹ تھا۔
تب ہی وہ ہاتھ پکڑ کر اسے  ساتھ لئے قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
کچھ پل وہ سوچتی  رہی کہ اسے کیا بولیں۔وہ اپنے بیٹے کی حرکت سے پریشان بھی تھی ۔تب ہی انہوں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیا  اور پھر بولیں
"ہنزہ بچے۔۔ہمیں  اس بات کا علم نہیں تھا کہ  یہ رات گھر نہیں تھا۔میں سمجھی اپنے روم میں چلا گیا ہے۔تب ہی وہ نر می سے مسکرائی  اور پھر بولی
"پھوپھو آپ پریشان ناں ہو۔اسکی بات سن کر  انہوں نے جبری  مسکراہٹ لئے اسے دیکھا  جو انکا ہاتھ تھپتھپا رہی تھی۔تب ہی وہ حیرت زدہ  سی بولیں
"مجھے نہیں علم کہ یہ ایسا کیوں رویہ رکھ رہا ہے؟حلانکہ اسنے خود تمھارا نام لیا تھا شادی کے لئے۔تم اپنے  دل میں فضول خیال مت لانا۔"انہوں نے اسے نرمی سے نصیحت کی تو وہ سر ہلا گئی۔
تب ہی ملازمہ نے  انہیں کارڈ کیس دیکر کہا کہ نفیسہ بیگم  کی کال ہے۔
انہوں نے  مسکراتے ہوئے  کارڈ لیس تھاما اور کچھ دیر  بات کرنے کے بعد بولیں
"ہاں ہنزہ میرے پاس ہی بیٹھی ہے بات کر لو۔"کہہ کر کرڈ لیس اسے تھما دیا۔
اسنے جیسے ہی کارڈ لیس تھام کر کانوں سے لگایا تو اسے نفیسہ بیگم کی نرم سی آواز سنائی دی۔
"کیسی ہو ہنزہ ؟"تو وہ  بولی
"میں ٹھیک ہوں "کہہ کر وہ خاموش ہوئی  تو وہ بولیں
"بی پی تمھارا ٹھیک  ہو گیا تھا ؟" تو وہ اس دفعہ بھی صرف "جی "بولی
اسکے جواب پر انہوں نے بتایا کہ حمنہ اور حسن ناشتہ لیکر آرہے ہیں۔اسنے جوابن صرف  اچھا کہا اور پھر  بولی
"آپ  پھوپھو سے بات کر   لیں۔"کہہ کر اسنے کارڈ لیس رحمانہ بیگم کو تھما دیا۔
وہ کچھ دیر پھوپھو  اور اپنی امی کو  بات کرتا دیکھتی رہی  اور دل میں سوچا
"پتہ نہیں کیوں میں امی سے بات کیوں ناں کر پائی۔"وہ اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی  کہ رحمانہ بیگم کی آواز  پر وہ ہڑ بڑا کر رہ گئ۔"تو وہ ہنستے ہوئے بولیں
"زندگی میں اتنی  چھوٹی باتوں پر  ڈرنا نہیں چاہیےہنزہ۔ورنہ دنیا والے  ہمیں ڈراتے رہتے ہیں۔"کہہ کر انہوں نے اسکا سر تھپتھپایا۔اور پھر سنجیدگی سے بولیں
"گھر کی عزت رکھنے کا بے حد شکریہ۔تن نے وصی کی حرکت کے  بارے میں نہیں بتایا  ورنہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو لازمی بتاتی۔
تم نے نا صرف میرے بیٹے کا پردہ رکھا بلکہ تم نے مجھے میرے میکے  میں شرمندہ  ہونے سے بھی بچایا ہے۔"انکی بات سنتے ہوئے اسے اپنی  امی کے الفاظ یاد آئے ۔
"انہیں  سسرال میں شرمندہ  نہیں ہونا تھا اور انہیں میکہ میں۔عورتوں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔ایک پاوں یہاں اور ایک پاوں وہاں۔آدھا دل یہاں اور آدھا دل  وہاں۔"وہ سوچتے سوچتے خیالات میں کھوگئی۔
"ابھی وہ صرف اپنی امی اور پھوپھو کی  وجہ سے خاموش ہوئی تھی۔اسے نہیں معلوم تھا  کہ اسے خود کے لئے بھی اب خوش رہنا ہے۔زبان رکھ کر بھی گونگا رہنا کسے کہتے ہیں یہ اسے آگے علم ہونا تھا۔"
تب ہی ملازمہ نے  آکر  ناشتہ لگنے کا بتایا  تو  رحمانہ بیگم  اسکا ہاتھ تھامے  اسے ڈائننگ ٹیبل  کی طرف لیکر چلی گئی۔
ناشتے کے بعد سلمان صاحب تو اپنی فیکٹری چلے گئے ۔جبکہ وہ رحمانہ بیگم  کے پاس بیٹھی  ان سے باتیں کرتی رہی۔
گیارہ بجے کے بعد انہوں نے اے کہا کہ میں اب کچھ دیر سوونگی۔تم اوپر جاکر اپنے روم میں  آرام کر لو۔انکی اس بات پر اسنے خوفزدہ ہو کر انکا چہرہ دیکھا اور پھر بولی
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

"میں کیسے جاسکتی ہوں پھوپھو؟" تو وہ اسکی بات پر حیرت زدہ ہو کر اسکا چہرہ دیکھنے لگیں اور پھر اسی حیرت  کے زیر اثر بولیں
"تم کیوں  نہیں جانا چاہتی ؟"   تو وہ بولی
"مجھے ان  سے ڈر لگتا ہے ۔ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں نے کسی کا  قتل کیا ہو۔"کہہ کر وہ اپنے ہی الفاظ پر غور کرنے لگی۔
تب ہی اسے وصی کی مہندی  والے دن  کہی بات یاد آئی   اور منظر اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
"تم نے عنایہ کا قتل کیا ہے۔"وصی کے کہے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے  کہ اچانک اسے محسوس ہوا  جیسے کسی نے اسے اسکا ہاتھ پکڑا ہو۔۔
اس احساس کے ساتھ ہی وہ  اپنے خیالات سے باہر آئی تو رحمانہ  بیگم جو کہ اسے گم صم کھڑے دیکھ رہی تھیں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکے ساتھ اسکے روم کی طرف بڑھنے لگیں۔
تب ہی وہ انکے ساتھ  ساتھ چلتے چلتے نرمی سے بولی
"پھوپھو آپ نے انکا رویہ دیکھا تو ہے"۔تو وہ بولیں
"اسے جو بھی مسئلہ ہے وہی پوچھنے جارہی ہوں۔ تاکہ ہمیں بھی تو علم ہو کہ خود سے اپنی پسند بتا کرشادی کرنے والااس عہد سے کیسے منکر کیسے ہو سکتا ہے؟"کہہ کر وہ ایسے ہی اسکا ہاتھ تھامے وصی کے کمرے کے سامنے جا کھڑی ہوئیں اور زور سے دروازہ ناک کیا۔
تین چار  دفعہ بجانے کے بعد  آخر چوتھی دفعہ  اسنے دروازہ کھول دیا۔
سامنے رحمانہ بیگم کے ساتھ اسے کھڑا دیکھ کر اسکے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے  جسے نظر انداز کرتے ہوئے رحمانہ بیگم  ہنزہ کا ہاتھ تھامے ا ندر داخل ہو گئیں۔
اور پھر اسے اپنے ساتھ لئے کمرے میں   رکھے صوفے پر جاکر بیٹھ گئیں۔
کچھ دیر کمرے میں مکمل سکوت رہا۔اور پھر اس سکوت کو رحمانہ بیگم کی آواز نے ہی توڑا۔
"وصی کیا تماشہ ہے؟"انکے سوال پر وہ خاموشی سے سر جھکا گیا۔
 "تم نے مجھے میرے میکے  میں ایسے ذلیل کرانا تھا تب ہی اس سے شادی  کی تھی ؟"کہہ کر انہوں نے  اسکی طرف دیکھا  تب ہی وہ بولا
"آئی  ایم سوری مما !آئندہ  کے بعد آپکو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"اسکی بات سن کر وہ کھڑی ہوتے ہوئے بولیں
"میں امید کرتی ہونکہ  تم اپنی معذرت کی لاج رکھو گے اور دوبارہ اس طرح کی حرکت تم سے سر زد نہیں ہو گی جس پر مجھے شرمندگی ہو۔"کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔
انکے جانے کے بعد  وہ آہستہ آہستہ چلتا اسکے قریب آیا اور پھر اسے بالوں سے  پکڑ کر  گھسیٹتا ہوا بیڈ پر لایا اور زور سے دھکا دیا۔
"اسے سمجھ ہی نہیں آرہا  تھا کہ اسکے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ اور  کیوں ہو رہا ہے؟"لیکن آنسو تھے کہ روکنے کے باوجود رک نہیں پا رہے تھے۔
تب ہی وہ بیڈ کے پاس  کھڑا ہو کر زور سے بولا
"شکایت لگاوگی آئندہ ؟" تو وہ ڈرتے ہوئے سیدھی ہو کر پیچھے ہٹی اور پھربولی
"میں نے  نہیں لگائی شکایت ۔آپ کو  پھوپھو نے خود  باہر سے آتے دیکھا تو وہ آپکے حلیے سے پہچان گئیں۔"ڈرتے ڈرتے اسنے اپنی بات مکمل کی ۔
تب ہی وہ زور سے ڈھارا
"بس۔۔۔چپ۔۔۔۔۔مجھے نہیں  معلوم کہ تم نے بتایا ہے کہ نہیں لیکن  اگر مجھے  علم ہوا کہ اس سب میں تمھارا ہاتھ ہوا تو یقین کرو تمہیں قتل کرتے ہوئے مجھے زرا بھی رحم نہیں آئے گا۔"کہہ کر وہ زور سے واش رام کا دروازہ بند کرتا واش روم میں چلا گیا۔جبکہ وہ وہی بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔تب ہی اسے کمرے کے باہر سے ملازمہ کی آواز آئی۔
جو اسکے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے  اسے اسکے گھر والوں کے آجانے کی اطلاع دے رہی تھی۔
اسنے" آتی ہوں" کہہ کر ملازمہ کو   بھیجا  اور پھر آنسو صاف کرتی دروازہ کھول کر نیچے کی طرف بڑھ گئی۔
اسکے پاس اتنا بھی وقت نہیں تھا کہ اپنے نصیب پر بیٹھ کر چارآنسو بہاتی۔وہ اپنے نصیب پر شکوہ کناں ہوتی  ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی جہاں  سے سب کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔جیسے ہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی  تو ولی نے اسے دیکھتے ہی مزاح میں کہا
" جی دیکھیں آگئی ہیں مہارانی صاحبہ"اسکی بات سن کر وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور حمنہ  سے گلے مل کر اسکے برابر میں بیٹھ گئی۔تب ہیحسن نے وصی کے بارے میں پوچھا تو وہ متانت سے بولی
"وہ شاور لیکر آرہے ہیں"۔کہہ کر وہ خود حمنہ  کی طرف متوجہ ہوگئی۔
۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔
اگلے دن ولیمہ تھا۔رات گئے ولیمہ کی تقریب ختم ہوئی تو وہ تھکن سے بے حال اپنے کمرے میں سونے  چلی گئی۔
اسکا دل کر رہا تھا کہ بیڈ پر  لیٹتے ہی سوجائے لیکن اسنے دل کی بات پر کان ناں دھرتے ہوئے پہلے زیور اتارا اور پھر کپڑے تبدیل کر کے بیڈ پر لیٹ گئی۔
اور کچھ ہی دیر میں  وہ نیند کی گہرائیوں  میں کھو چکی تھی۔
وصی جب اندر آیا  اور اسے اپنے بیڈ پر سکون سے  سوتے ہوئے دیکھا  تو غصے  سے کھولتا ہوا اسکی طرف بڑھا اور زور سے اسکے بازو کو پکڑ کر کھینچا۔
اسکے جارحانہ انداز پر وہ جو گھڑی نیند سوئی ہوئی تھی وہ بھی ہڑ بڑا کر آنکھیں کھول گئی۔
نیند سے ہلکی گلابی ہوئی آنکھوں  کو آج وصی نے پہلی دفعہ اتنےبقریب سے دیکھا ۔کچھ سیکنڈز  کیلئے تو  وہ اسکے سحر سے ناں نکل سکا ۔لیکن پھر چونک کر اسکا بازو کھینچتے ہوئے بولا
"اٹھو یہاں سے"اور وہ جو ابھی بھی آدھی سوئی جاگی کیفیت میں بیٹھی تھی اسکی بات پر اسکا چہرہ دیکھنے کگی۔تب ہی وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا
"ایک دفعہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی؟ جاو صوفے پر سوجاو"کہہ کر اسے ہاتھ سے پکڑ کرکھڑا کر دیا۔
تو وہ اسکی بات کو سمجھتے ہوئے صوفے پر جاکر لیٹ گئی۔اسکی ہمت ہی ناں ہوئی کہ وہ اس سے تکیہ مانگ لے۔"رات یوں ہی سوتے جاگتے گزری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔
دن یوں ہی گزرتے جارہے تھے وہ کبھی کبھار اپنی پرانی زندگی کو یاد کر کے خاموش سی بیٹھی رہ جاتی۔
ابھی بھی وہ لاونج میں بیٹھی اپنے خیالات میں گم تھی جب اپنے کمرے میں جاتا  ولی اسے دیکھ کر اسکی طرف چلا آیا۔اور پھر اسکے سر پر ہلکا ساتھپڑ مارتے ہوئے  بولا
"کہاں گم ہو ؟" تو وہ اپنے خیالات سے باہر آتے ہوئے بولی
"کچھ نہیں یہیں ہوں۔تم یونی سے آگئے؟"تو وہ سر ہلاکر رہ گیا اور پھر اسے دیکھتے ہوئے بولا
"میں نے تو سوچا تھا  کہ تم یہاں آوگی تو ہم  دونوں بھابھی دیور مل کر خوب ہنسی مزاح کریں گے۔لیکن تم تو بلکل خاموش ہو گئی ہو۔"وہ اسکی بات سن کر کچھ لمحے خاموش رہی اور پھر بولی
"ہاں"۔اسکے ایک لفظی جواب پر  وہ کچھ سیکنڈز اسک چہرہ دیکھتا رہا اور پھر بولا
"ہنزہ میں مانتا ہونکہ عنایہ تمھاری زندگی میں بہت اہمیت خی حامل تھی لیکن تم یوں خود کوبرباد ناں کرو۔پہلے کی طرح خوش رہو۔"وہ کہتے کہتے اسکی طرف دیکھ کر رک گیا۔جسکی آنکھوں میں عنایہ کے زکر پر نمی سی آگئی تھی۔وہ اسے روتے دیکھ کر مزید بولا
"کسی کے مرجانے  سے ہم زندہ رہنا نہیں چھوڑ سکتے ۔تم اس بات کو خود کو سمجھالو ہنزہ۔اور نئی زندگی شروع کرو ۔
سمجھی میری بات۔"اپنی بات مکمل کر کے ولی نے اسے دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔اور پھر یوں ہی مسکراتے مسکراتے بولی
"مجھے نہیں پتہ تھا ولی کہ تم اتنی سنجیدہ باتیں بھی کر سکتے ہو۔
اسکی بات سن کر وہ مصنوعی غصے سے اسے گھورتا  ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور  پھر بولا
"جی بلکل مائی ڈئیر کزن کوئی شک؟"تو وہ  بولی
"بلکل نہیں۔" تو وہ سنجیدہ ہوتا ہوا بولا
"چلو میں جاتا ہوں اپنے روم میں ۔چائے بنواکر بھیج دو۔کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔تو وہ بھی اسکے لئے چائے بنانے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

اسکا چہرہ دوسری طرف ہونے کی وجہ سے وہ اسے دیکھ ناں سکا تھا۔تب ہی  اپنے دھیان میں  کچن میں داخل ہوتے ہوئے بولا
"سکینہ ایک کپ چائے بنا دو۔میں لاونج میں ہوں۔"وہ تو اپنی بات کہہ کر باہر  چلا گیا تھا۔جبکہ وہ  اس شش و پنج میں کھڑی تھی کہ چائے بنائے کہ نہیں  کیونکہ کچن میں اسکے علاوہ کوئی  اور موجود نہیں تھا۔
آخر اسنے کچھ سوچتے ہوئے چائے بنائی۔۔اور  پھر اسے لیکر لاونج کی  طرف بڑھ گئی۔
سامنے ہی صوفے پر وہ نیم دراز تھا۔آنکھیں بند کئے۔
وہ تھوڑا اور آگے بڑھی۔اسکا خیال یہی تھا کہ چائے رکھ کر وہ چلے جائے گی۔لیکن جیسے ہی وہ چائے رکھنے کے لئے جھکی تب ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس پر نظر پڑی تو فورن کہا
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"تو وہ جھجھکتے ہوئے بولی
"میں چائے رکھ رہی تھی"اسکے جواب پر وہ تیزلہجے میں بولا
"تمہیں تو نہیں کہا تھا چائے بنانے کا" تو وہ آنسو پیتے ہوئے بولی
وہ ملازمہ آج نہیں آئی اور پھوپھو سو رہی ہیں۔تو اسلئے میں بنالی۔۔"اسکی بات سن کر وہ مزید تلخ لہجے میں بولا
"تم سے کتنی دفعہ کہا  ہے اپنے کام سے کام رکھا کرو۔میرا کوئی بھی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"کہہ کر وہ اسے گھورتا وہاں سے چلا گیا۔جبکہ وہ وہی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
"ایسی زندگی کا تو ناں سوچا تھا۔"سوچتے ہوئے آنسو اسکے چہرے پر پگھل رہے تھے۔
"میری زات بے مایہ ہونے کے لئے تو نہیں تھی۔پھر ایک سوچ نے سر اٹھایا"۔وہ اپنی ہی سوچوں میں گری تھی جب  رحمانہ بیگم  کی آواز نے اسے چونکایا۔
"کیا ہوا ہے عنایہ ؟"انکے پوچھنے پر وہ خالی خالی نگاہوں سے  انہیں دیکھنے لگی۔تو وہ گھبراتے ہوے بولیں
"ہوا کیا ہے عنایہ ہے ؟"وہ انکے سوال پر عجیب نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔اور آہستہ سے بڑبڑائی
"میں قاتل ہوں"
اسکے دھیرے سے بولنے  کے باوجود رحمانہ بیگم نےاسکا جملہ سن لیا تھا۔۔
"ہنزہ؟" انہوں نے  اسکا نام پکارا تو  وہ خالی خالی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولی
"میں عنایہ کی قاتل ہوں پھوپھو۔میں نے اسے قتل کیا ہے۔میں نے اسے ماردیا۔وصی صحیح کہتے ہیں"اسکی بات سن کر وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولیں
"ہنزہ کیا اول فول بول رہی ہو؟ مجھے پوری بات بتاو۔وصی کہاں ہے ؟"وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے اس سے سوال پوچھ رہی تھیں کہ انہیں سیڑھیوں سے نیچے آتا دکھائی دیا۔
وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھی اور پھر نہایت غصے سے بولیں
"میں یہ نہیں پوچھونگی ک ہ کدھر جارہے ہو؟ مجھےبس اتنا بتا دو کہ میری بچی کو تم نے کیا کہا ہے ؟" انکی بات سن کر وہ خونخوار لہجے میں بولا
"میں نے آپکی لاڈلی کو کچھ نہیں کہا ہے۔"تو وہ بھی اسی کے لہجے میں بولیں
"تو پھر وہ خود کو عنایہ کا قاتل کیوں کہہ رہی ہے ؟انکی بات سن کر وہ طنزیہ مسکرایا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا اسکے پاس آکھڑا ہوا۔
"چلو اچھا ہوا تم نے آج مان لیا کہ تم نے  عنایہ کا قتل کیا ہے۔دیر سے ہی سہی چلو مانا تو سہی"تو اسکے پیچھے آتیں رحمانہ بیگم نے زور سے اسکا نام پکارا
"وصی "تو وہ بولا
"مما مجھے  بولنے دیں۔اسنے قتل کیا تھا ہماری عنایہ کو۔اسے سب علم تھا  لیکن یہ سب کچھ سب سے چھپاتی رہی۔میں تو اسے شروع سے قاتل سمجھتا تھا۔لیکن خیر آج آخر کار اسنے سب کچھ  آپکو خود بتا دیا۔۔اور ۔"ابھی وہ بول ہی رہا تھا  رحمانہ  نے زور سے اسے تھپڑ مارا
"تم اپنی حد سے آگے بڑھتے جارہے ہو۔"جبکہ وہ ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں کھڑا تھا۔اور پھر بغیر کچھ بولے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
"ہنزہ ۔۔۔۔میری بچی "انہوں نے خاموش بیٹھی ہنزہ کو پکڑ کر روتے ہوئے خود سے لگایا   لیکن کچھ ہی دیر کے بعد وہ انکے ہاتھوں میں ہوش و حواص سے بیگانہ ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
وہ ابھی  بھی دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی  جب کہ رحمانہ بیگم اسکے پاس بیڈ پر بیٹھیں روتے ہوئے  اسکا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
"وصی تم سے یہ امید نہیں تھی۔پہلے ہی وہ  عنایہ کے غم کو دل سے لگائے بیٹھی تھی اور تم اسے  ہی عنایہ کا قتل بولتے رہے ۔
ایک دفعہ تو مجھ سے اپنے خیالات شئیر کرتے۔مجھے پتہ ہوتا کہ اسے زہنی ٹارچر کرنے کے لئے تم اس سے شادی کر رہے ہو تو میں کبھی ہاں ناں کرتی۔میں کبھی اپنی پھول سی بچی کا ہاتھ تم جیسے جنگلی کو ناں دیتی۔"تب ہی وہ نیند میں بڑ بڑائی اور ساتھ میں ہوا  میں ہاتھ بھی اٹھایا جیسے کسی کو پکڑنا چاہ رہی ہو۔
"عنایہ۔۔۔۔نہیں۔۔اور اسکے ساتھ ہی وہ چیخ مار کر نیند سے جاگ گئی۔
"ہنزہ کیا ہوا ہے ؟ تم ٹھیک ہو ؟"رحمانہ بیگم نے فورن آگے بڑھ کر اس سے پوچھا تو وہ نرمی سے  جی بولتی دوبارہ لیٹ گئی۔
لیکن انکو دیکھتے ہی اسے سب کچھ  دوبارہ سے یاد آگیا تھا۔
آنسو ٹوٹ کر اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے۔۔
"پھوپھو۔۔۔وہ آہستہ سے اٹھ کر انکے گلے لگ کر روتے ہوئے دھیرے دھیرے سب بتاتی چلی گئی کہ کیسے وصی نے اسے عنایہ کا قاتل مانا،اسکا رویہ ایک ایک بات جو اب  تک وہ کسی کو نہیں بتائی تھی ۔
سب باتیں سن لینے کے بعد رحمانہ بیگم نے اسے چپ کرایا اور اسے کچھ بھی ناں سوچنے کی تلقین  کرتے ہوئے خود اٹھ کر اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
آج  کافی دنوں کے بعد اسے اپنی طبیعت  بہتر محسوس ہو رہی تھی۔
تب ہی رحمانہ بیگم  اسکے کمرے میں داخل ہوئیں۔تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرائی  تو اسکے پاس آکر بیٹھتے ہوئے بولیں
"اب کیسی طبیعت ہے؟ "تو وو بولی
"میں  بلکل ٹھیک ہوں۔"تو رحمانہ بیگم نے اسکا چہرہ دیکھتےہوئے کہا
"میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہو ں ہنزہ"تو  حیرت زدہ ہوتے ہوئے وہ  جی بول گئی۔
لیکن  انکی بات سن کر وہ سن بیٹھی رہ گئی تھی۔
۔۔۔،۔*۔۔۔۔
"لیکن پھوپھو"وہ کچھ بول ہی رہی تھی   جب انہوں نے اسکی بات کاٹی۔
"ہاں ہنزہ   تم یہاں سے چلی جاو۔اپنے ماں باپ کے پاس۔یہاں رہو گی تو یونہی زہنی طور ہر ٹارچر ہو گی۔"تو وہ  ہکلاتے ہوئے بولی
"لیکن پھوپھو میں نہیں جانا چاہتی۔لوگ کیا کہیں گے  ؟ ناراض ہو کر آگئی ماں کے گھر ۔"تو وہ  جبرن مسکراتے ہوئے بولیں
"کیوں ماں کا گھر تمھارا کچھ نہیں لگتا؟"تو وہ آہستہ سے بولی
"شاید میرا تو کوئی گھر ہی نہیں"۔تو  وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
"فضول باتیں مت کرو ہنزہ۔تم یہاں وصی کی نظروں کے سامنے گھر میں  رہو گی تو وہ تمہیں کچھ ناں کچھ بولتا رہے گا۔"تو وہ بولی
"کیا فرق پڑتا ہے پھوپھو؟ساری زندگی اب سننا ہی تو ہے ۔"تو رحمانہ بیگم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا
"لیکن میں چاہتی ہونکہ تم خوشحال زندگی جئیو۔تمہیں تمھارے باپ سے میں نے مانگا تھا اور اب اپنے بیٹے کو کس طریقے سے سیدھا کرنا ہے یہ بھی  مجھے ہی سوچنا ہے۔مجھ پر بھروسہ رکھو"تو  وہ  ڈرتے ہوئے بولی
"کچھ غلط ہو گیا تو ؟تو  وہ جوابن بولیں
"شاید زیادہ غلط تب ہوگا جب میں کچھ نہیں بولونگیں۔"انکی بات سن وہ خاموشی سے سر ہلاکر رہ  گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
 بی جان کافی دیر سے محسوس کر رہی تھیں کہ وہ جیسے کسی خیال میں غرق ہے۔اسکے چہرے پر انہیں بہت سی سوچیں نظر آرہی تھیں لیکن وہ کسی ایک سوچ کو بھی پڑھ نہیں پارہی تھیں۔تب ہی بے ساختہ اسے پکار بیٹھیں ۔۔
"کیا ہوا ہے ہنزہ ۔۔۔جب سے آئی ہو خاموش بیٹھی ہو ؟"تو وہ چونکتے ہوئے بولی
"نہیں کچھ نہیں ہوا۔"تو وہ مزید بولیں
"تمہیں کبھی اتنا خاموش نہیں دیکھا ہنزہ۔"تو وہ بس مسکرا کر رہ گئی۔تب ہی اسے خالدہ بیگم نے پکارا
"ہنزہ شاپنگ پر چلو گی ؟تو وہ نفی میں سرہلا گئی۔
جبکہ بی جان خاموشی سے اسکے رویے کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"کون ؟" کھٹکے کی آواز پر رحمانہ بیگم نے قرآن بند کر کے اندر آنے والی شخصیت کو دیکھا۔
ایک دو سیکنڈز اسے دیکھتے رہنے کے بعد پھر دوبارہ سے قرآن پڑھنے لگ گئیں تو وہ بھی خاموشی سے آکر انکے پاس بیٹھ گیا۔
کچھ لمحے یوں ہی گزر گئے۔آخر کار انہوں نے قرآن بند کر کے  دعا کے لئے ہاتھ اٹھالئے۔
دونوں ہاتھ منہ پر پھیر کر وہ قرآن پاک کو اسکی جگہ پر رکھنے کے لئے اٹھ گئیں۔
وہ خاموش نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔لیکن دور جاتے قدموں کی چاپ نے اسے سر اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
وہ تیزی سے اٹھ کر انکی طرف بڑھا
"مما پلیز میری بات سن لیں"وہ ملتجی انداز میں بولا تو وہ  کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر بولیں
"بولو کیا بولنا ہے ؟"وہ انکےٹھنڈے یخ  لہجے کو  محسوس کر کے بولا
"آپ مجھ سے ناراض کیوں ہیں؟مجھے جو ٹھیک لگا میں نے وہ کیا تھا۔"اسکی بات سن کر وہ خاموش سی  اسے دیکھتی رہیں اور پھر بولیں
"تمہیں اگر وہ قاتل لگ رہی تھی تو مجھ سے بات کرتے۔تم کون ہوتے ہو کسی کو  قاتل ثابت کرنے والے۔تمہیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ ایک لڑکی کو اپنے نکاح میں لیکر اسے زہنی ٹارچر کرتے ؟تو وہ سر جھکا گیا۔
وہ کچھ لمحے اسے تاسف سے دیکھتی رہیں اور پھر بولیں
"تم ا ب کیا چاہتے ہو ؟انکے پوچھنے پر وہ سر اٹھا کہ بغور انہیں دیکھنے لگ گیا۔جبکہ وہ جواب کے انتظار میں اسے تکتی رہیں
"میں ہنزہ کو گھر واپس لانا چاہتا ہوں۔"اسکی بات سن کر وہ طنزیہ مسکرائیں اور پھر بولیں
"کیوں ؟ تاکہ تم اسے پھر سے زہنی مریض بنا سکو ؟تو وہ بولا
"نہیں تاکہ ہم سب خوش رہ سکیں۔"تو وہ آہستگی سے بولیں
"کاش کہ وصی تم یہ سب ناں کرتے۔"تو وہ ملتجی انداز میں بولا
"مما مجھے ایک موقع دیں۔میں سب ٹھیک کر دونگا۔ پلیز مما پلیز۔"تو وہ اسکے الفاظ پر غور کرتی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔
آج کافی مہینوں کے بعد وہ دونوں بہن بھائی آمنے سامنے بیٹھے تھے لیکن دونوں خاموش تھے۔
کافی دیر کے بعد حمزہ نے ہی بات شروع کی۔
"کیسی ہو ہنزہ ؟"تو وہ بدقت مسکراتے ہوئے بولی
"جی ٹھیک"۔اسکے دو لفظی جواب پر  وہ خاموش بیٹھا رہ گیا۔پھر ہمت مجتمع  کرتے ہوئے بولا
"مینے بہت سوچا۔اور آخر میں نتیجہ یہی نکلا کہ میری غلطی تھی۔کاش کہ میں وقت پر سب کچھ سمجھ جاتا تو  آج عنایہ ہمارے بیچ ہوتی۔شاید میری ہی وجہ سے وہ مر گئی۔وہ مزید دکھ برداشت ناں کر پائی۔شاید میں اسکا قاتل ہوں۔اسکی خوشیوں کا قاتل ہوں۔تو وہ جو اب تک بے حس انداز میں اسکی باتیں سن رہی تھی قاتل کے لفظ پر چونکی اور پھر اسے ٹوکتےہوئے بولی
"نہیں حمزہ۔خود کو کسی کا قاتل مت سمجھو ۔اسکی زندگی ہی اتنی ہی تھی اسکو ایسے ہی جانا تھا۔تو وہ ایک ہاتھ کی انگکیوں کو دوسرے ہاتھ میں پھنساتے ہوئے بولا
"مجھے زندگی بوجھ لگتی ہے ہنزہ ۔ایسا لگتا ہے جیسے ساری خوشیاں ساری خواہشیں عنایہ  کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی ہیں۔
اب تو مجھے شازمہ  سے منگنی بھی بوجھ لگتی ہے ۔تو وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی
"تم خود کو عنایہ کا گناہگار سمجھناچھوڑ دو۔"تو وہ بے بس سا اسے دیکھتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
فون کی بار بار بجتی  بیل پر اسنے کوفت سے سر جھٹکا اور پھر فون ریسیو کر لیا۔
"ہاں کیسی ہو  شازمہ ؟تو وہ بولی
"میں ٹھیک ہوں۔مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"تو وہ بولا
ہاں ؟ تو  وہ آہستگی سے بولی
"مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے۔اپنے گناہ کو قبول کرنا  ہے ۔تو اسنے ناسمجھی کے عالم میں موبائل کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیا۔اور پھر بولا 
"کس گناہ کی بات کر رہی ہو ؟"تو وہ بولی
میں نے آپکو خود اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔تاکہ آپ عنایہ کے ناں ہو سکیں۔پھر جب وہ مر گئی تو میں بہت خوش تھی۔لیکن 
اب وہ مجھے خوابوں میں ڈراتی ہے۔مجھے سکون نہیں ہے  حمزہ اسے بولیں کہ وہ مجھے معاف کر دے ۔میں آپکو چھوڑ بھی رہی ہو۔بس مجھے سکون دلوا دیں۔"اسکی باتیں سن کر اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے سیسہ اسے کانوں میں ڈال دیا ہے۔
تب ہی وہ مزید بولی
"حمزہ۔"تو وہ حواسوں میں آتے ہوئے کال کاٹ گیا۔
تب سے اب تک وہ سن سی کیفیت میں بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
حمزہ ۔۔۔۔حمزہ۔۔۔۔۔شمامہ نے   موبائل کو دیکھا جہاں  کال کٹ چکی تھی۔اسنے دوبارہ کال ملائی۔لیکن کسی نے ریسیو نہیں  کی۔تو وہ گم صم بیٹھی رہ گئی۔
"تو کیا اب کبھی مجھے سکون نہیں ملے گا ؟"کیا میں کبھی اس احساس گناہ سے باہر آپاونگی؟اور کیا حمزہ مجھے معاف کر دے گا؟"
بہت سے سوال تھے  جو اسکے دماغ میں گونج رہے تھے۔لیکن جواب صرف وقت کو دینا تھا۔اور وہ جواب کیا تھا وہ کسی کو علم ناں تھا۔
۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے  کارپٹ پر بیٹھی کارپٹ کے ڈیزائن پر انگلی پھیر رہی  تھی  جب خالدہ بیگم کی آواز نے اسے چونکایا۔
"ہنزہ گھر کا خیال رکھنا۔میں اور بھابھی شازمہ کو دیکھنے جا رہے ہیں۔"انکی بات سن کر اسنے حیرت سے انکا چہرہ دیکھا تو وہ بولیں
"بے ہوشی کی دوائی کھائی ہے اسنے۔ابھی بھی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔"تو وہ اسی حیرانگی سے بولی
"آپ کو کس نے بتایا ہے ؟تو وہ بولیں
"کام والی نے  زکر کیا تھا۔پھر جب میں نے کال کی تو اسکی بہن نے تصدیق کر دی۔اچھا تم گھر کا خیال رکھنا۔"تو وہ انکی بات سن کر سر ہلا گئی۔
خالدہ اور نفیسہ بیگم کے جانے کے بعد  وہ بی جان کے کمرے میں چلی آئی۔جہاں وہ  جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تجیں۔اسے دیکھا تو بولیں
"آو میرا بچہ تو وہ جاکر انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔
"کیا ہوا ؟سب ٹھیک ہے ؟"انکے پوچھنے پر اسنے آنکھوں میں آئے آنسو کو پیتے ہوئے کہا
جی"تو وہ بولیں
"ادھر میری طرف دیکھو۔بتاو کیا بات ہے ؟"تو وہ جبرن مسکراتے ہوئے بولی
"میں ٹھیک ہو بی جان۔تو وہ بولیں
"لیکن لگتی نہیں ہو۔ناں پہلے والی شرارتیں ناں پہلے ہی طرح باتیں ۔"تو وہ بے ساختہ بولی
"زندگی بھی تو اب پہلے جیسی نہیں رہی۔"اسکی بات  سن کر وہ کچھ لمحے اسے گھورتی رہیں۔اور پھر دھیمی آواز میں پوچھ بیٹھی
"وصی کا رویہ کیساہےتمھارے ساتھ ؟وہ انکے اس سوال پر تھوڑا سا گھبرائی لیکن پھر خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
"اچھا ہے"تو  کچھ لمحے اسے دیکھتی رہیں۔تو وہ خود پر سے انکی توجہ ہٹانے کو بولی
"وصی بہت اچھے ہیں۔شاید اگر میں انکے لئے ہاں ناں کرتی تو میں بے وقوفی کرتی۔"تو وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں
"اللہ ہمیشہ خوش رکھے۔"تو وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
"کوئی نہیں جانتا تھا کہ دل پر کیسے عذاب اترے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
شام ڈھلے خالدہ بیگم اور نفیسہ بیگم واپس آئیں تھیں۔
"اب کیسی ہے طبیعت  شازمہ  کی؟"اسکے پوچھنے پر خالدہ بیگم  بولیں
"ٹھیک ہے۔ہوش میں بھی تھی ۔تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔
جبکہ وہ پھر  بولیں
"آج کل کی بچیوں کو نجانے کیا ہوگیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود کشی کرنے لگتی ہیں۔انکو یہ مزاح لگتا ہے لیکن انکے پیچھے جو ماں باپ بہن بھائی ہوتے ہیں انکو لوگوں کے سوالوں کے جواب دینا پڑجاتے ہیں۔اپنا نہیں تو ماں باپ کا ہی سوچ لو۔"پھر بی جان کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں
"ہم جب وہاں گئے تو دو تین عورتیں انکے محلے کی بھی آئی ہوئی تھیں۔
کرید کرید کر سوال پوچھ رہی تھیں اور شازمہ کی ماں بیچاری شرمندہ سی انکو جواب دے رہی تھی۔"تو بی جان آہستہ سے بولیں
"اللہ ہدایت دے"۔۔جبکہ وہ وہی بیٹھی اپنی آنے والی زندگی کو سوچنے لگی تھی۔
"اگر وصی طلاق دیگا تو پھر کیا ہوگا ؟"وہ خوفزدہ سی سوچتی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
اسے آئے  دوہفتے ہو چکے تھے۔لیکن وہاں کی کوئی خیر خبر نہیں تھی ۔
پھوپھو کی کال بھی آتی اس سے حال احوال پوچھتیں یہ ناں بتاتیں کہ انکے بیٹے نے اسکو رکھنے کا فیصلہ کیا ہے یا نکالنے کا۔
دن خاموشی سے گزرتے جارہے تھے ۔انہی خاموش اداس دنوں میں ولی اچانک وہاں سب سے ملنے آگیا۔
اسے دیکھا تو بے ساختہ بولا
"آپ تو گھر کا راستہ بھول گئی ہیں  محترمہ۔"وہ سن کر بے دلی سے مسکرا دی اور پھر بولی 
"تم آج یہاں کیسے آگئے ؟"تو وہ ہنستے ہوئے بولا
"یار گھر میں تو آج کل بہت خاموشی ہے۔بھائی تو لگتا ہے آسٹریلیا جاکر بیٹھ گئے ہیں۔اور مما رہتیں تو پہلے بھی خاموش تھیں اب تو بلکل ہی خاموش ہو گئی ہیں۔"جواب سن کر وہ کچھ گم صم کیفیت میں اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔جبکہ ولی اب اپنے ساتھ بیٹھے حمزہ سے باتیں کرنے لگ گیا تھا۔وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر لان میں جاکر بیٹھ گئی۔
"تو  وصی آخر آپنے مجھےاپنی زندگی سے نکالنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
بے یقینی کے سہارے پر کوئی رشتہ کب تک چل سکتا ہے۔مجھے آپ سے کوئئ شکوہ نہیں۔"کہتے ہوئے اسکی  آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گر پڑے۔
"محبت تو تھی ہی نہیں۔نجانے کیوں مجھے رونا آرہا ہے۔وہ ایک ہاتھ سےاپنے آنسو صاف کرتے ہوئے خود سے  بولی۔
"نہیں مجھے نہیں رونا۔مجھے نہیں رونا کسی بھی بات پر۔"لیکن اب  بھی آنسو اسکے چہرے پر بکھر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
حمزہ نے تیسری دفعہ شازمہ کی کال کو کاٹا تھا۔۔اگلی دفعہ فون آنے کے بجائے اسکا میسج آیا تھا۔
"آپ مجھے سزا  میں کیوں ڈال رہے ہیں ؟مجھے بیچ میں مت لٹکائیں۔مجھے کوئی تو جواب دیں۔"میسج پڑھ کر اسنے بے ساختہ ٹھنڈا سانس بھرا۔۔اور پھرٹائپ کرنا شروع کر دیا۔
"تم نے جو کیا وہ تمھارا عمل تھا جو کہ تمھارے سامنے آرہا ہے۔
میں کوئی نہیں ہوتا جو تمہیں سزادوں۔اور جہاں تک بات میرے معاف کر نے کی ہے  تو وہ میں اللہ کی رضا کی خاطرکر چکا ہوں۔
لیکن تم سے رشتہ اب صرف مجبوری اور سمجھوتے  کا ہوگا۔رشتہ توڑنا آسان نہیں ہے ورنہ توڑ دیتا۔
بہر حال شاید زندگی میں کبھی  میں تمھاری طرف لوٹ آوں ۔لیکن  اب میں تم سے محبت نہیں  کر تا۔اور شاید اب دوبارہ کبھی میں  تم سے محبت ناں کر پاوں۔اسکے لئے  معذرت۔۔
ٹائپ کر کے اسنے  میسج سینڈ کیا اور  خودآنکھیں موند کر کرسی سے ٹیک لگا گیا۔
جبکہ دوسری طرف شازمہ نے میسج پڑھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
"میرے حسد کی آگ نے آخر کار میری خوشیوں کو بھی چھین لیا۔۔
۔۔۔۔***۔۔۔۔۔
انہی اداس شاموں کی ایک شام وہ لان میں لگے جھولے پر بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔
یہ جھولا بھی عنایہ کی پسند پر لگوایا گیا تھا۔سب کچھ ویسا ہی تھا نہیں تھی تو عنایہ نہیں تھی۔
ناول کا اینڈ پڑھ کر بے ساختہ طنزیہ سی مسکراہٹ  اسکے چہرے پر آئی ۔اسنے ناول سائیڈ پر رکھ کر   ٹیک لگاکر آنکھیں موند لیں۔
"کاش کہ جیسے ناولز میں اینڈ میں سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے ویسا حقیقی زندگی میں بھی ہو۔بہت فرق ہے ناولز اور حقیقت کی دنیا میں۔"اسنے سوچا اور پھر وہ ایک سوچ سے دوسری سوچ کا فاصلہ طے کرنے لگی۔
وہ اپنے ہی خیالات کی دنیا میں غرق تھی جب گیٹ سے اندر آتے وصی نے اسے جھولے پر بیٹھے دیکھا۔
یہ وہ ہنزہ تو نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا۔یہ تو کوئی  ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا جس میں ہنزہ کی مشاہبت تھی۔آنکھوں کے گرد حلقے  لان  کے شکن زدہ کپڑوں میں ملبوس وہ ہنزہ تو نہیں تھی۔اسے بے ساختہ شرمندگی نے آگھیرا۔
"مما صحیح کہتی ہیں میں نے ایک لڑکی کی زندگی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔وہ آہستہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا  اسکے پاس آکھڑا ہوا۔


اور ہاتھ سے پکڑ کر جھولے کو روک دیا۔۔جھولا رکنے پر  اسنے آنکھیں کھولیں تو سامنے ہی وصی کھڑا تھا۔۔
وہ کچھ دیر تو  بے یقینی اور حیرانگی کے عالم میں اسے دیکھتی رہی جیسے یقین کر رہی ہو  کہ کیا یہ واقعی وصی ہے یا اسکا الوژن ہے۔
جبکہ وصی وہی کھڑا اسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھتا رہا۔اور پھر اسے الجھن سے نکالنے کے لئے اسنے  بولا
"میں یہاں  اسلئے آیا ہوں تاکہ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی  جملہ بھی پورا نہیں کر سکا تھا وہ بے ساختہ "نہیں بول گئی "جبکہ وہ حیرت سے گنگ اسے دیکھنے لگا۔
"آپ مجھے طلاق مت دیں۔بھلے دوسری شادی کر لیں لیکن مجھے طلاق ناں دیں۔مجھے یہ نام اچھا نہیں لگتا۔۔میں طلاق یافتہ نہیں کہلانا چاہتی۔میں آپکو لکھ کر بھی دونگی کہ میں خود اجازت دے رہی ہو۔ ۔۔۔"وہ سانس لئے بغیر  بولتی جارہی تھی جب وصی نے بے ساختہ اسکےہاتھ  پر ہلکا سا دباو ڈال کر اسے مزید بولنے سے روکا۔
"تمہیں کس نے کہا ہے کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں ؟وصی نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا  جہاں ڈر ،خوف کے سب ہی رنگ نمایاں تھے ۔وہ خاموش رہی  تو وہ پھر بولا
"بولو۔۔۔بتاو۔۔کیا بات ہے ؟"تو وہ آہستگی سے بولی
"کیونکہ  میری غلطی تھی مجھے سب کو بتانا چاہیے تھا لیکن عنایہ کے روکنے پر میں چپ رہی۔مجھے لگا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔لیکن ۔۔"وہ آنسو پینے کے لئے رکی اور پھر بولی
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا  اور وہ مر گئی۔"یہ کہتے ہوئے ایک آنسو اسکے چہرے پر سے پھسلتا چلا گیا 
وہ اپنی بات کہہ کر اب بلکل خاموش ہو چکی تھی ۔کچھ دیر خاموشی دونوں میں حائل رہی اور پھر وہ بولا
"میں معافی مانگتا ہوں کہ آج تک میں تمہیں اسکا قصوروار سمجھتا رہا ۔جبکہ حقیقت تو یہ بھی ہے جب تک وہ زندہ رہی میں نے کبھی اسکے  لاڈ نہیں  اٹھائے ۔تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ میں تمہیں ذہنی ازیت دوں۔"
وہ اسکی بات سن کر خاموش کھڑی تھی جب وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنےہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولا
"مجھے معاف کر دو۔۔۔"وہ اب بھی خاموش کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ دیرخاموش کھڑا اسکے جواب کا انتظار کرتا رہا اور پھر ناامید ہوتے ہوئے واپس جانے کے مڑ گیا۔
ناامیدی اور تھکن  اسکے قدموں سے لپٹ رہی تھی۔
تب ہی اسکا ہاتھ کسی کے ہاتھ کی نرم گرفت میں آیا۔جیسے ہی اسنے گردن موڑ کر دیکھا تو سامنے ہنزہ کھڑی تھی۔
"مجھے بھی ساتھ لیکر چلیں۔"وہ بولتےہوئے اسکے ہمقدم ہوئی تو کچھ سیکنڈز تک وہ بے یقینی سے کھڑا رہا اور پھر اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا
"تم نے مجھے معاف کر دیا؟" تو وہ نم آنکھوں سے کھل کر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دی۔اور پھر بولی
"آپ واپس پلٹ آئے آپ کے دل سے غلط فہمی ختم ہو گئی میرے لئے یہی بہت ہے۔آپ معافی مت مانگیں۔"یہ بولتے ہوئے اسکی آواز سے خوشی چھلک رہی تھی۔وہ مطمئن سا اسے دیکھتا رہ ا اور پھر تھوڑا سا جھک کر شوخی سے بولا
"اور محبت ؟ وہ بھی ہو گئی ہے  یا ابھی ہونی ہے ؟"اسکی بات سن کر وہ جھجھک کر رہ گئی اور پھر بات بدلنے کو بولی
"آپ بی جان سے نہیں ملے ؟کسی سے بھی نہیں ملے ؟"تو وہ اسکے جھجھکنے پر مسکراتا ہوا بولا
"ہاں چلو ان سب کو خدا حافظ کہہ آئیں۔"تو وہ بھی اسکے ساتھ اندر جانے کے لئے مڑ گئی۔
تب ہی وہ اسکے ساتھ چلتے ہوئے بولا
"تم نے جواب نہیں دیا ؟"تو وہ بولی
"کس بات کا"تب ہی وہ  ہنستے ہوئے بولا
"یہی کہ  مجھ سے محبت ہوئی کہ نہیں ؟ یہ اجاڑ کیفیت تم نے مجھ سے دور ہونے کی وجہ سے بنائی تھی ؟"ویسے میں نے سنا تھا مما سے کہ تم   نے انکو بتایا ہے  کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔"وہ اسکی بات سن کر وہ چلتے چلتے رک گئی اور پھر بولی
"میں نے تو  کسی کو بھی نہیں بتایا کہ میں آپ سے  پیار کرتی ہوں۔"اور پھر اپنی بات پر خود ہی غور کرتے ہوئے جھجھک کر رہ گئی۔جبکہ وہ اب ہنسا جارہا تھا۔اسے ہنستا دیکھ کر وہ چڑ کر بولی
"آپ بہت بدتمیز ہیں۔میں نے نہیں جانا آپکے ساتھ۔"کہہ کر جیسے ہی وہ آگے بڑھی تو  وصی نے لپک کر  اسکا ہاتھ پکڑا اور پھر کہا
"اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے ۔دیکھو میں بھی تو کرتا ہو تم سے پیار۔اور مجھے کہتے ہوئےبرا بھی نہیں لگ رہا ۔"وہ یہ کہہکر اسے ساتھ لئے گلاس ڈور کھول کر اندر بڑھا۔۔جبکہ وہ اسکے ہاتھ میں دبے اپنے ہاتھ کو دیکھ کر مسکرا اٹھی تھی ۔
زندگی کے اس موڑ تک آنے میں اسنے بہت کچھ برداشت کیا تھا۔کچھ رشتے چھوٹے تھے کچھ رشتے نئے بنے تھے۔لیکن سب سے بڑی چیز وہ سیکھی تھی وہ یہی تھی کہ اخلاص اور سچ پر قائم رشتے کبھی ناں کبھی اپنا آپ منوا لیتے ہیں۔
جیسے عنایہ  کی محبت نے حمزہ سے خود کو تسلیم کرا لیا تھا۔جیسے  اسکی محبت نے وصی کو پلٹا دیا تھا۔۔ 
اچانک عنایہ کی یاد نے اسکے دل کو بے چین کیا تھا اور چپکے سے ایک ٹیس اٹھی تھی۔
"کاش تم زندہ ہوتی عنایہ ۔تم اپنی آنکھوں سے دیکھتی کہ یقین رائیگاں نہیں جاتا۔"وہ اپنی سوچوں میں گم اسکے ساتھ کھنچی جارہی تھی جب وصی نے پلٹ کر اسکا چہرہ دیکھا۔اور پھر بے ساختہ بولا
"کیا ہوا؟"تو وہ نفی میں سر ہلا کر بولی
"مجھے واپسی میں عنایہ کی قبر پر لے جائیے گا"وہ کچھ دیر اسکے چہرے کے اتار چڑھاو کو دیکھتا رہا اور پھر اثبات میں سر ہلا کر آگے بڑ ھ گیا۔
جبکہ وہ اسکی پیٹھ کو دیکھتی سوچتی رہ گئی  کہ شاید زندگی اسی کو کہتے ہیں خوشیوں کے ساتھ ساتھ ہلکے ہلکے غم کو بھی محسوس کرتے رہنا ۔
اور پھر اپنے آگے چلتے وصی کو دیکھا تو بے ساختہ ایک جاندار مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔وہ دو قدم آگے بڑھ کر اسکے ہمقدم ہوئی اس یقین کے ساتھ کہ  محبتوں کا موسم اب دور نہیں۔اور زندگی کے تمام ہی موسم اس شخص کی سنگت میں خوبصورت گزریں گے۔
The  End


Post a Comment

1 Comments