Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke (epi 1)

Rishte chahat ke by Ayesha Saeed

Rishte chahat ke

 "ہاۓ ہاۓ !بیڑا غرق ہو اس زعیم کے بچے کا 

منحوس کہیں کا.جب آتا ہے گھر مے زلزلہ آجاتا ہے".وہ برتن دھوتے ہوے بڑبڑا رہی تھی.

"چا ے بن گئی ہے شفا "؟جَبین بیگم کی آواز اسے سنائی دی 

اسنے کوفت سے سر جھٹکا اور چاۓ کپوں میں ڈالی .

چاۓ لے کر وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی تو اسے کمرے سے باہر آتا زعیم دکھائی دیا.اسکے پیچھے جبیں بیگم بھی آرہی تھیں.

"بیٹا چاۓ پی لیتے تم.دیر نہیں ہو گی تمہیں."

"چچی آپ یقین کریں پھر کسی دن آوں گا اور رات کا کھانا کہاونگا ابھی مجھے کام کے سلسلے میں جانا ہے.لیٹ ہو جاؤنگا."وہ بولتے بولتے انکے آگے جھکا تو انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا .

"یہ چاۓ جو میں نے انتہائی گرمی میں کچن میں کھڑے ہو کر بنائی ہے وہ کون پئے گا" ؟ شفا نے اسے گھورتے ہو جَبین بیگم سے پوچھا 

"نہ تو تم نے اتنی دیر کیوں لگائی ؟ بچہ بیچارہ اتنی دیر بیٹھا رہا لیکن چاۓ نہ آ ئی. چاۓ تھی یا پائے جو بن ہی نہیں رہی تھی .اب یہ چاۓ کا کلر دیکھو تم.شکل سے ہی بد ذائقہ لگ رہی ہے.اور اوپر سے بے شرمی اور بے حیائی دیکھو اتنی کالی چاۓ نہ پینے پر غصّہ کیا جا رہا ہے."

جبیں بیگم نے بغیر لحاظ کئے اسے لتاڑا .

تو وہ اپنے دشمن اول کے سامنے ہونے والی اس بے عزتی پر تلملائی .لیکن خاموش رہی تو انھوں نے اسے کہا !

"بی بی !احسان عظیم ہے آپکا مجھ پر اور زعیم پر یہ کالی چاۓ بنانے کا .جاؤ کچن میں لے جاؤ اس عجیب سی سوغات کو".انہوں نے اسے گھورتے ہوئے کہا 

تو وہ پاؤں پٹختی کچن کی طرف چل دی

"آپ میرے ساتھ خان ولا چلیں ناں زعیم نے جبین بیگم سے کہا تہمارے چچا نہیں مانیں گے زعیم ".انھوں نے روتے ہوئے کہا

تو اس نے انكے شانے پر ہاتھ پھیلاتے هوے ساتھ لگایا "اچھا چلیں روئیں تو نہیں میں .............ابھی وہ بول ہی رہا تھا كه اس کا موبائل بجنے لگ گیا."

فون پر بات کرنے کے بعد وه انکی كی طرف مڑا .

" اچھا چچی میں چلتا ہوں".وہ کہتا ہوا ان کے آگے جھکا تو انہوں نےاس کے سر پر ہاتھ پھیرا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بوگن ویلیا کی بیل سے ڈھکا یہ بنگلہ خان ولا تھا جہاں کبھی جبین بیگم اوررحمان صاحب رہتے تھے لیکن شاہ صاحب کے صرف ایک فیصلے کی وجہ سے رحمان صاحب نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ تب زعیم صرف سات سال کا تھا اور شفا ایک سال کی.

تب سے آج تک انہوں نےدوبارہ ادھر قدم نہیں رکھا تھا.

شاہ خان صاحب کی چار اولادیں تھیں.جہاں زیب خان ، شاہ زیب خان, اور رحمان خان اور بیٹی ماہ خانم .

شاہ خان ماہ خانم کو یونیورسٹی میں پڑھانے کے حق میں بلکل نہیں تھے لیکن رحمان خان نے ماہ خانم کو سپورٹ کیا تھا .

انکی سپورٹ کی وجھہ سے ماہ خانم کو یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت مل گئی تھی لیکن ساتھ میں ہی شاہ خان صاحب نے ماہ خانم کو صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کے وہ اسے صرف پڑھنے کے لئے یونیورسٹی بھیج رہے ہیں.کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہونی چاہے .

اور ماہ خانم نے بھی انکی اس بات کو پلو سے باندھ لیا تھا کے کچھ بھی ہو جائے خاندان کی عزت پر بات نہیں آنے دیں گی.

--------------------------------------------------

مستقیم اور ارحم اپنے گروپ کے ساتھ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھے مسلسل بحث میں مصروف تھے .

"یار !ایسا نہیں ہے.ہر لڑکی ایک سی نہیں ہوتی.بات تربیت کی ہوتی ہے.بات اس شرم کی ہوتی ہے جو لڑکی کی نگاہ میں ہوتی ہے".ارحم نے کہا 

"میں بول رہا ہوں نا ں!سب لڑکیاں ایک سی ہوتی ہیں.صرف اوپر سے پاکیزہ بیبیاں بنتی ہیں." مستقیم نے کہا 

"نہیں یار !ایسا نہیں ہے. بات تربیت کی ہوتی ہے.بھلے لڑکی ہو یا لڑکا اگر کسی کی آنکھ میں شرم ہے تو بھلے وہ پردہ کرے یا نہ کرے وہ سیدھے راستے سے نہیں بھٹکے گا یا بھٹکے گی".ارحم نے اپنی بات پر زور دیتے ہوے کہا.

"یہ مذاق ہے اس صدی کا سب سے بڑا ".مستقیم نے طنزیہ لہجے میں کہا

"اچھا !تو ایسا کر وہ سامنے جو پنک اسکارف میں لڑکی بیٹھی ہے اس سے دوستی کر آ.ہم تجھے مان جا ئیں گے".احمد نے ان دونوں کی بحث سے تنگ آکر ٹاپک کو بدلنے کے لئے کہا 

"تو مجھے چیلنج کر رہا ہے" ؟ مستقیم نے ایک آبرو اٹھا کر پوچھا 


"تو مستقیم اٹھ کھڑا ہوا چلو پھر اس لڑکی سے کچھ دن تک میں تم لوگوں کو دوستی کر کے دکھادونگا" .مستقیم نے احمد کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوے کہا 

--------------------------------------------------

آج علیشا نہیں آئی تھی اسلئے ماہ خانم اکیلی بیٹھی تھی .

مستقیم نے اسے اکیلا بیٹھا دیکھا تو اسے اپنا چیلنج یاد آگیا تو وہ اسکے پاس چلا آیا 

"ایکسکیوز می مس "! مستقیم نے اسے مخاطب کیا 

ماہ خانم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟"اسنے ماہ خانم سے پوچھا

"ضرور ۔یہ یونیورسٹی کا گراونڈ میرے بابا کا نہیں ہے۔آپکا جہاںدل چاہے آپ بیٹھ اور کھڑےہوسکتےہیں۔"وہ بول کر دوبارہ اپنے نوٹس کی طرف متوجہ ہوگئ

تو مستقیم نے اسے کہا!"آپکی دوست نظر نہیں آرہی آج آپکے ساتھ؟"

"آئ تھنک یہ آپکا مسلئہ نھیں ہے۔آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔"ماہ خانم نے تیکھے لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑی ہوئ۔

"آپ کہاں جا رہی ہیں؟میں آپ سے باتیں کرنے آیا تھا"۔مستقیم نے مسکراتے ہوئےکہا

"میرا نہیں خیال کہ میں آپکو جانتی ہوں اور جنکو میں جانتی نہیں ہوں ان سے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی۔"وہ کہ کر جیسے ہی مڑی تو مستقیم نے اسکا ہاتھ پکڑلیا۔"لیکن میں آپ سے دوستی .........ابہی لفظ مستقیم کےمنہ ہی میں تھے کہ ماہ خانم نے ایک زوردار تھپڑ رسید کیا"

"آئندہ کے بعد میرا ہاتھ پکڑنے کی اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش مت کرنا"۔ماہ خانم نے غصے سے انگلی اٹکھا کر کہا

"مستقیم چند لمحوں تک شاک سی کیفیت میں کہڑا رہا۔ اور پھر غراتے ہوئے بولا ۔
تمہیں اس تھپڑ کو ماڑنے کی سزا بھگتنی ہو گی۔ تمنے مجھ پر یعنی مستقیم اعوان پر ہاتھ اٹھایا ہے۔اب تم خود نتائج کی ذمہ دا ر ہو گی"۔

دور مستقیم کے دوست بھی شاک میں کھڑے تھے۔ کیونکہ آج تک کسی نے مستقیم پر ھاتھ نہیں اٹھایا تھا۔اسکے پرسنالٹی ہی اتنی زبردست تھی۔

مستقیم غصے سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تو ارحم اور احمد بھی اسکے پیچھے بھاگے

"یار مستقیم سن!سن تو! وہ اسکے پیچھے بھاگتے ہوئے اسے پکار رہے تھے"

آخر کار انہوں نے اسے جالیا

"میں تم لوگوں سے بعد میں بات کرونگا ۔فلحال مجھے جانے دو"

۔مستقیم نے غصے سے کہا

"چل ٹھیک ہے ۔چلا جا لیکن آرام سے ڈرائیو کرنا۔"ارحم نے اسے کہا

اسنے سر ہلایا۔اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔احمد اور ارحم ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے

--------------------------------------------------

"زعیم !جبین اور شفا سے ملنے گئے تھے"؟وہ آج ہی گھر آیا تھا اور فریش ہو کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ زرگل بیگم اسکے کمرے میں آئی

"جی بی جان! میں گیا تھا"۔اسنے انکے جھریوں بھرے چہرے کو پیار سے دیکھتے ہوئے کھا

"میرے رحمان سے ملے تم"؟انکی آنکھوں میں یہ سوال پوچھتے ہوئے ایک عجیب سی چمک آئ۔

"وہ گھر پر نہیں تھے بی جان"۔اسنے انہیں دیکھتے ہوئے کہا

"تم اسکے آفس کیوں نہیں جاتے؟اسکو بتاتے کیوں نہیں کے بی جان اسے یاد کرتی ہیں"؟ 

"میں گیا تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھے۔وہ بولتے ہوئے نظریں چرا گیا وہ یہ نہیں بول سکا کہ وہ ہم لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے۔"

"شفا کیسی ہے؟اب تو بڑی ہوگئی ھوگی؟تم اپنی چچی سے کہکر اسے یہاں ںسب سے ملوانے کیوں نہیں لاتے؟"

انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے بڑی آس سے پوچھا

انکا یہ سوال سن کر اسے شفا کا رویہ یاد آگیا۔وہ ابھی اسکے رویے کے بارے میں سوچ ھی رہا تھا کہ بی جان نے اسے آواز دی۔"زعیم۔۔۔۔"

"جی بی جان!ہاں ٹھیک ہے وہ بھی"۔اسنے انکے دوسرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا

"تم انہیں یہاں کیوں نہیں لاتے ملوانے"؟بی جان نے حسرت سے کہا

اسنے انکے جھریوں بھرے ھاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کھا

"آپ کیوں نہیں چلتی میرے ساتھ وہاں؟خود لے آئیں ان دونوں کو یہاں؟ہاں؟"زرگل بیبی یہ سنتے ہی رونا شروع ہو گئیں۔

"تمھارے آغا جان کی قسم مجھے باندھے ہوئے ہے ورنہ میں کب کی چلی جاتی۔"

"رحمان اور شاہ صاحب ایک جیسی ضد کے مالک ہیں۔وہ بیٹے سے ضد لگا کر بیٹھے ہیں اور وہ باپ سے۔کوئی جھکنے کو تیار ہی نہیں"۔انہوں نے روتے ہوئے کہا تو وہ افسردگی سے انہیں دیکھتا رہا اور پھر انکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا۔

"اچھا چلیں روئیں نہیں۔اللہ ہر مشکل کا حل نکالنے والا ہے۔وہ کچھ راستہ ضرور پیدا کریگا۔آپ پریشان نہ ہو۔"تو انہوں نے خاموشی سے اسے دیکھا

وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں کالے گھنے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے انہوں نے بے ساختہ دل میں ما شااللہ کہا

اور اسے کہا !"زعیم تمہاری ماں تمہیں باہر بلا رہی تھی"۔

"میں اب سونے کے لئے لیٹنے لگا ہوں۔آپ انہیں بول دیں کہ وہ سونے لگا ہے"۔وہ ہنستے ہوئے بولا۔

تو وہ بھی ہنسنے لگ گئیں۔"اچھا چلو تم سو جاو۔میں چلتی ہو پھر۔"

"جی"!زعیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

--------------------------------------------------

"اسکی ہمت کیسے ہوئی؟"مجھ پر یعنی مستقیم اعوان پر ہاتھ اٹھانے کی۔

اسنے گلاس زمین پر مارا تو کانچ کے ٹکرے زمین پر ادھر ادھربکھر گئے۔

وہ دوپہر میں شدید غصے کے عالم میں گھر آیا تھااور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

ملازم اسے دو دفعہ بلانے گیا تھا۔

"اب اگر تم آئے تو اچھا نہیں ہوگا۔"

"جاو !نہیں کھانا میں نے کھانا"۔

اسنے بغیر دروازہ کھولے چیختے ہوئے کہاتو ملازم میں اسے دوبارہ بلانے کی ہمت نہیں ہوئی۔

مستقیم کے والد اور والدہ دونوں کراچی گئے ہوئے تھے۔مستقیم لوگ تین بھائی تھے۔مستقیم اعوان ،احسن اعوان،عالم زیب اعوان۔

احسن اعوان اور عالم زیب اعوان دونوں شادی شدہ تھےاور آج کل گھومنے گئے ہوئے تھے۔جبکہ مستقیم گھر میں اکیلا تھا۔

رات گئے اسنے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور باہر آیا۔

کچن میں جاکر خانساں ماں کو کھانا لگانے کو کہا

تھوڑی دیر کے بعد خانساں ماں نے کھانا اسکے سامنے لا کر چن دیا۔

تو وہ کھانا کھانے لگ گیا۔

"ایک کپ کافی بنادیں "۔اسنے کھانا کھانے کے بعد خانساں ماں کو آواز لگائی۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ کافی کا کپ لیکر باہر لان میں نکل آیا اور آج کے ہوئے واقعے کو سوچنے لگا۔

"اچانک اسکے دماغ میں میں کچھ اسپارک ہوا تو اسکی آنکھیں چمکنے لگیں"

"ہاں ارحم !میں مستقیم بات کر رہا ہوں"۔اسنے ارحم کو کال کی۔

"کیسے ہو؟کدھر تھے؟کال کیوں نہیں ریسیو کر رہے تھے؟میں اتنا پریشان تھا"۔ارحم نے پریشان ہو کر پوچھا

"دھیرج میرے بھائی دھیرج!کیا ہو گیا ہے"؟مستقیم نے ہنستے ہوئے کہا

"تو کمینہ ہے۔اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا۔"ارحم نے دانت پیستے ہوئے کہا

"یار میں ٹھیک ہوں۔بس اس وقت عجیب کیفیت میں تھا"۔مستقیم نے جواب دیا

"اچھا کال کیوں کی تھی؟میں تو تمہیں یاد آنہیں آسکتا۔ضرور کوئی کام ہوگا۔"ارحم نے پوچھا

"ہاہا !ویسے ہے تو ایسا ہی کچھ۔تمھارے پاپا کا فلیٹ خالی ہے؟"مستقیم نے پوچھا

"ہاں کیوں؟"ارحم نے حیرانی سے پوچھا

"چابی کس کے پاس ہے"؟مستقیم نے پوچھا

"میرے پاس ہے۔"ارحم نے جواب دیا

"چل !ٹھیک ہے۔کل وہ چابی مجھے دے دینا۔مجھے کچھ دن کے لئے وہ فلیٹ چاہئے"۔مستقیم نے اسے کہا

"لیکن کیوں؟"ارحم نے اچھنبے سے پوچھا

"بس یار کام ہے۔بعد میں بتاونگا کہ کیا کام ہے۔"مستقیم نے اسے کہا

"چل ٹھیک ہے۔لے لینا۔"ارحم نے کہا

"چلو خدا حافظ۔مستقیم نے کہا

تو گھٹیا ہے"۔کام نکلتے ہی خدا حافظ۔ارحم نے تپتے ہوئے کہا

"بائے!!!"مستقیم نے ہنستے ہوئے کہا 

"جا دفعہ ہو جا۔خدا حافظ"۔ارحم نے آگ بگولہ ہو کر کہا

"تونے بات کرنی ہے؟"مستقیم نے ہنستے ہوئے پوچھا

"ہاں بور ہو رہا ہوں اتنا ۔لیکن دوست میرے سارے کمینے ہیں"۔ارحم نے کہا

"اور تو کمینوں کا سردار ہے۔"مستقیم نے ہنستے ہوئے مزید ارحم کو تپایا

"بے غیرت۔دفعہ ہو جا۔بائے۔"ارحم نے کال کٹ کر دی۔

ناراض ہے؟مستقیم نے ارحم کو میسج کیا

"نہیں یار"!ارحم نے جواب دیا

"تو ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا ڈرامے بازی کی تھی "؟

مستقیم نے ہنستے ہوئے میسج ٹائپ کیا

" تیرا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے اول فول بول رہا تھا۔"

ارحم نے جواب دیا 

"اچھا چل پھر انجوائے کر کل ملتا ہوں میں تجھ سے"۔

مستقیم نے کہا 

ارحم نے بھی" اوکے" لکھ کر میسج سینڈ کر دیا۔

مستقیم نے موبائل رکھ کر آگے کی پلاننگ کرنا شروع کردی۔

" توما ہ خانم بیبی آپ تیارر ہیں اپنے نتائج بھگتنے کیلئے۔ "مستقیم نےدل میں اسے مخاطب کیا۔

اور کچھ سوچنے لگا اس کی ماتھے کی رگ بار بار پھڑک رہی تھی۔ جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کس قدر مشتعل ہے۔

لیکن اپنے آپ کو ٹھنڈا ظاہر کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" زعیم اٹھو بچے "!گل گل بی بی نے سوئے ہوئے زعیم کو ہلایا۔

اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر دیکھا کیا ہوا کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے اس کے گھنے سیاہ چمکدار بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا

" اٹھ جاو بچے رات کے کھانے کا ٹائم ہو رہا ہے۔"

" تمہارے اغاجان دو دفعہ پوچھ چکے ہیں۔"

" آتا ہوں بی جان بس تھوڑی دیر اور۔" زعیم نے آنکھیں بند کئے جواب دیا تو کچھ دیر اسے دیکھتی ر ہیں اور پھر ماشااللہ کہتی باہر چلی گئی۔ 

ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانے کے لئے سب موجود تھے سوائے زعیم کے

" اٹھا نہیں اب تک زعیم؟" شاہ خان صاحب نے پوچھا

" جی اٹھ گیا ہے "۔زرگل بیبی نے جواب دیا۔

" تو کھانا کھانے کیوں نہیں آیا؟" شاہ خان صاحب جن کو سب بچےآ غاجان بولتے تھے انہوں نے پوچھا 

"آغا جان آپ شروع کریں۔ آ رہا ہے وہ" ۔اس دفعہ گل بیبی نے جواب دیا ۔

اس گھر کی روایت تھی رات کا کھانا سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے ۔

"یار ہماری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے"۔ صارم نے معیز کے کان میں گھس کر کہا۔ 

"ہم سارا سال کھانا نہ کھائیں آغا جان کو ہم پر ترس نہیں آتا اور نہ ہی ہمارے بارے میں اتنی محبت سے پوچھا ہے ۔"

معیز نے ایک لمحہ اس کی بات سنی اور پھر اس کے پاؤں پر پاؤں مارا 

" آئی اوئی !آغاجان سمیت سب نے اس کی طرف دیکھا ۔کیا ہوا ہے "؟شاہ زیب خان نے اپنےسپوت سے پوچھا

"کچھ بھی تو نہیں ہوا۔معیز نے صارم کو چٹکی کاٹتے ہوئے اپنے والد کو جواب دیا"۔

"تو چیخے کیوں تھے؟"اب کے تایا جان نے پوچھا

"وہ وہ!"معیز اٹکتے ہوئے بولا

"میرا پاوں غلطی سے اسکے پاوں کے نیچے آگیاتھا۔"صارم نے اطمینان سے جواب دیا

"ابھی یہ گفتگو مزید چلتی کہ انہیں زعیم آتا دکھائی دیا"

"اسلام و علیکم "۔زعیم نے کرسی گھسیٹتے ہوئےکہا

"وعلیکم اسلام"۔آغا جان نے جواب دیا

"امی !!زرا یہ بریانی کی ڈش پکڑوائیں۔زعیم نے گل بیبی کو مخاطب کرکے کہا تو فوراآگے بڑہیں اور اسے بریانی کی ڈش دی۔"

وہ بریانی اپنی پلیٹ میں نکالنے لگا تو صارم نے زعیم سے سرگوشی کی

"آپکو یاد کیا جا رہا تھا۔زعیم نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر آغا جان کو دیکھا"

"کیوں؟کون؟"زعیم نے بھی آہستہ آواز میں سرگوشی کی

"آغا جان پوچھ رہے تھے۔"صارم نے اسے بتایا 

تو اسنے آہستگی سے سر ہلایا اور کھانے کی طرف متوجہ ہوا۔

آغا جان کھانا ختم کر کے کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے

"زعیم !زرا میرے کمرے میں میں آنا کھانا ختم کرنے کے بعد۔"

"جی آغا جان"۔زعیم نے جواب دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاںزیب خان کے چار بچے تھے۔معیز خان،رحمیہ خان،روزینہ خان،اور واسع خان۔واسع خان اور رحمیہ شادی شدہ تھے۔جبکہ معیز اور روزینہ ابھی زیر تعلیم تھے۔جبکہ شاہ زیب خان کے صرف دو بیٹے تھے۔صارم اور زعیم۔صارم کی بچپن میں ہی بات طے کر دی گئی تھی۔

رحمان صاحب کے صرف دو بچے تھے۔رضا اور شفا۔شفا بی ۔ایس ۔سی کی اسٹوڈنٹ تھی۔جبکہ رضا ابھی فرسٹ ائیر میں تھا۔

رحمان صاحب کے خان ولا چھوڑنے کے بعد کئی سالوں تک نہ کوئی ادھر سے ادھر گیا اور نہ کوئی ادھر سے ادھر آیا لیکن ابھی ایک سال پہلے ایک میٹنگ میں زعیم کا ٹکراو رحمان صاحب سے ہو گیا تھا۔

زعیم جب خود آگے بڑھ کر انکے گلے لگا تووہ اسکو پیچھے نہ ہٹا سکے تھے۔کچھ خون کی کشش تھی اور دوسرا زعیم سب سے زیادہ انکے اور جبیں بیگم کے قریب رہا تھا۔

کچھ بھی تھا وہ اسے آج بھی دل میں یاد کیا کرتے تھےاور جب انکا اتفاقیہ طور پر اس سے سامنا ہوا تو وہ اس سے منہ نہ پھیر سکے تھے۔

یہ شاید انکے دل میں چھپی ہوئی محبت ہی تھی کہ جب زعیم نے ان سے انکے گھر کا اڈریس مانگا تو انہوں نے خاموشی سے دے دیا تھا۔

اور تب سے اب تک وہ ہر دو مہینوں میں ایک دفعہ لازمی وہ رحمان صاحب اور جبیں بیگم سے مل کر آتا تھا۔

اسے یاد تھا کہ وہ بچپن میں جبیں بیگم کے پورشن میں زیادہ رہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بیٹا آج مت جاو!بی جان نے ماہ خانم کو یونیورسٹی کے لئے نکلتے دیکھا تو فورن کہا"

"بی جان!آج ضروری کلاس ہے۔ورنہ نہیں جاتی"۔ماہ خانم نے کہا

"پتہ نہیں کیوں ماہ خانم میرا دل اندر سے ڈر رہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہو ۔عجیب سا دل گھبرا رہا ہے ۔میری مانو تو نہ جاو۔"

بی جان نے ہولتے ہوئے کہا

"لیکن بی جان وہ"۔۔۔۔۔۔۔ابھی لفظ اسکے منہ ہی میں تھے کہ رحمان صاحب سیڑھیوں سے نیچے اترتے دکھائی دئے۔

"بھائی!بی جان پریشان ہو رہی ہیں۔"ماہ خانم نے رحمان صاحب کو بتایا

"کیوں بی جان؟کیا ہوا؟سب خیریت؟"رحمان خان نے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا

"بیٹا بس دل پریشان ہے اسلئےاسے کہ رہی تھی کہ آج مت جاو۔"

"آج کل میں خواب بھی عجیب سے دیکھتی ہوں۔سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہوتا ہے خواب میں"۔بی جان نے الجھے لہجے میں بتایا

"آپ ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں بی جان۔آغا جان کہاں ہیں؟"رحمان خان نے پوچھا

"کل ہی زمینوں سے آئیں ہیں۔ابھی سو رھے ہیں۔"بی جان نے جواب دیا

"اچھا ٹھیک ہے"۔رحمان خان نےکہا

"میں چلتی ہوں۔خدا حافظ بی جان۔"خدا حافظ بھائی۔

ماہ خانم ان دونوں کو خدا حافظ کہتی یونی کیلئے نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونی جاکر معلوم ہوا کہ علیشہ آج بھی نہیں آئی۔

وہ کوفت سے سر جھٹک کر رہ گئی۔

سر احسن کا لیکچر اٹینڈ کر کے جب وہ کلاس سے باہر نکلی تو اسے کلاس سے باہر مستقیم کھڑا دکھائی دیا

وہ اسے نظر انداز کرتی سیڑھیوں کی طرف بڑھی

"ایکسکیوز می!" مستقیم نے پیچھے سے کہا

وہ نہیں رکی۔

مس ماہ خانم کیا آپ دو منٹ مجھ سے بات کریں گیں؟اس نے کہا لیکن وہ اسے نظر انداز کرتی چلتی چلی گئی۔پیچھے مستقیم دنت پیس کر رہ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم انتہائی بے شرم ہو۔آئی کیوں نہیں آج"؟ماہ خانم نے گھر آکر علیشہ کو کال کی۔

"یار بس!!طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔"علیشہ نے جواب دیا

"کل آوگی؟"ماہ خانم نے پوچھا

"ہاں آوں گی۔"علیشہ نے جواب دیا

"چلو ٹھیک ہے پھر۔کل ملتے ہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسنے جیسے ہی کال بند کی اسے ایک انجان نمبر سے واٹس ایپ پر میسج آیا

اسنے جب میسج کھولا تو وہاں اسکی pics تھیں جنکو ایڈٹ کیا گیا تھا۔

"نیچے لکھا تھا کیسی لگیں تصاویرماہ خانم بی بی؟"ماہ خانم کانپتے ہوئے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔

"اگر تم چاہتی ہو کہ یہ تصاویر تمھارے باپ اور بھائیوں کو نہ ملے تو آرام سے کل یونی میں مجھ سے مل لینا۔میں مستقیم ہوں۔"

ماہ خانم سن ہوتے دماغ کے ساتھ وہی بیٹھتی چلی گئی۔

پوری رات اسنے یہی سوچتے گزاری کہ کیا کرے؟آخر کار اسنے سوچا پل پل مرنے سے بہتر ہے کہ وہ ایک دفعہ اس سے مل کر بات کلئیر کر لے۔

یہ سوچ کر اگلے دن وہ یونی چلی گئی۔علیشہ آج بھی نہیں آئی تھی۔

،وہ سر حمید کا لیکچر اٹینڈ کر کے کلاس سے باہر نکلی تو اسے مستقیم کلاس سے باہر کھڑا دکھائی دیا۔

ایک لمحے کے لئے اسکا دل چاہا کہ اسکا منہ توڑ دے لیکن پھر خاموشی سے اسکے پاس چلی گئی۔

"چلو!"مستقیم نے نخوت سے کہا

"لیکن آپ نے کہا تھا کہ یونی میں ملنا۔"ماہ خانم نے اسے کہا

"مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے۔لیکن چونکہ آپ ایک پردے دار خاتون ہیں تو مسلئہ آپ کے لئے بن جائےگا"۔مستقیم نے طنزیہ مسکراتے ہوئے جواب دیا

اسنے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولی "ٹھیک ہے لیکن میں زیادہ دیر باہر نہیں رکوگی۔"

"اوکے!جیسے آپکی مرضی!میں خود بھی زیادہ دیر نہیں رکونگا۔بس کچھ باتیں کلئیر کرنی ہیں"۔مستقیم نے عجیب سے انداز میں کہا

ایک لمحے کے لئے تو ماہ خانم کو خوف سا محسوس ہوالیکن پھر چپ ہو کر اسکو دیکھنے لگی۔

"چلیں؟"مستقیم نے اسے کہا

"جی!"وہ اسکے پیچھے پیچھے سر جھکا کر چل پڑی۔

ایسے ہی چلتے وہ دونوں گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔

اور گاڑی اسٹارٹ کی۔پندرہ منٹ کے بعد گاڑی ایک فلیٹ کے آگے رکی۔

"آو!ماہ خانم نے چونک کر بلڈنگ کو دیکھااور گاڑی سے باہر نکلنے میں ہچکچانے لگی۔"

"یہاں؟"ماہ خانم نے پوچھا

"ادھر ہی بات کریں گے"۔مستقیم نے اطمینان سے جواب دیا

"آپ گاڑی میں بھی تو بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں"۔ماہ خانم نے کہا

"آپکے والد کے کسی جاننے والے نے آپکو میرے ساتھ دیکھ لیا تو اندازہ ہے کہ کیا ہو سکتا ہے؟"مستقیم نے اطمینان سے جواب دیا

وہ لمحے بھر کے لئے چپ ہو گئی اور گاڑی سے باہر نکل گئی۔

"دل کہ رہا تھا ک ہ الٹے قدموں گاڑی میں جاکر بیٹھ جائے اور دماغ کہ رہا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا۔اور جیت آخر کار دماغ کی ہوئی تھی۔"

وہ اسکے پیچھے لفٹ میں داخل ہوئی۔

اور اب وہ دونوں اپنے مطلوبہ فلیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔اور مستقیم دروازے کو انلاک کر رہا تھا۔

"آو!"دروازہ کھول کر اسنے اسے اندر آنے کا کہا اور دروازہ کھللا چھوڑ کر اسے لیکر لاونج میں آگیا

"بیٹھو!لاونج میں رکھے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مستقیم نے ماہ خانم کو کہا

وہ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئی۔

"آپ نے جو بھی بولنا ہے جلدی جلدی بولیں۔مجھے گھر بھی جانا ہے"۔ماہ خانم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا

"چلو ٹھیک ہے پھر۔ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائےڈائریکٹ پوائنٹ پر آتے ہیں"۔مستقیم نے کہنا شروع کیا

"دراصل تمہیں یہاں اسلئے لایا ہوں تا کہ تم سے نکاح پڑھواسکوں۔اگر تمنے ناں کرنی ہے تو میں تمہیں اس بات کی پوری پوری گارنٹی دیتا ہونکہ تمہارے بابا اور تمہارے بھائیوں کو تمہاری تصاویر ابھی تمھارے جانے سے پہلے سینڈ کرونگا۔"مستقیم نے اطمینان سے کہا

"میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟کیوں پیچھے پر گئے ہیں آپ میرے۔"ماہ خانم نے کہا 
میں صرف تھپڑ کا بدلہ لے رہا ہوں۔مستقیم نے کہا
"دیکھیں میں معافی چاہتی ہو۔میں سب کے سامنے آپ سے معافی مانگ لونگی۔آپ میری تصاویر ڈیلیٹ کر دیں پلیز۔"ماہ خانم نے کہا

" معافی مانگنے کا وقت نکل چکا ہے۔اب سزا کا وقت ہے۔"مستقیم نے کہا

"تمھارا فیصلہ کیا ہے؟دس منٹ ہیں تمھارے پاس۔سوچ لو"۔

مستقیم نے ماہ خانم کو کہا

جاری ہے

You have to wait 15 seconds.

Download Timer

Post a Comment

0 Comments