Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lmhe epi 5

Yaadghaar lamhy:


Yaadghaar lmhe

قسط 5

 "کیا ہوا؟خاموش کیوں ہو؟" اقصی نے فری کو گم صم دیکھا تو پوچھا 


"کچھ نہیں !بس ایسے ہی"۔فری نے جواب دیا


"کچھ تو ہوا ہے۔ورنہ خاموش اور تم ہوجاو۔ ناممکن بات ہے"۔اب کی بار عرشی نے کہا تو اقصی نے سر ہلا کر اسکی بات سے اتفاق کیا۔


فری نے کچھ لمحے انہیں دیکھا اور پھر کہا


"یار۔۔۔۔وہ اصل میں"۔۔۔وہ بولتے بولتے ہچکچانے لگی۔


"کیا ہوا؟" اقصی نے پوچھا


"کل میرے بہنوئی آئے تھے۔" اسنے کہا


"آگے بتاو ناں"۔۔عرشی نے کہا


"یار وہ کوئی رشتہ لائے تھے"۔اسنےآخر بات بتائی۔


"پھر؟" اقصی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا


"پھر کیا ہونا ہے؟مجھے نہیں پسند۔میں نہیں کرونگی۔"


فری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا


"پھر ٹینشن کیا ہے؟یہ بتانا"۔ عرشی نے کہا


"یار مجھے ٹینشن بابا کی ہے۔وہ کہیں ہاں ہی نہ کر دیں۔پچھلے دنوں امی سے کہہ رہے تھے کہ اب اسکی منگنی ہو جانی چاہئے"۔ فری نے پریشان ہوتے ہوئے بتایا


"پریشان نہ ہو یار۔کبھی نہ کبھی تو شادی ہونی ہے ناں۔اللہ بہتر کرے گا۔ "اقصی نے کہا تو عرشی اور فری نے بے ساختہ آمین کہا۔


"ویسے فری تمھیں کیسا لڑکا پسند ہے؟" اقصی نے پوچھا


"بس اچھا ہو۔پڑھا لکھا ہو۔ " اسنے بتایا


"اور اقصی تمھیں؟" عرشی نے اقصی سے پوچھا


"یار تم لوگوں کو علم ہے کہ مجھے زیادہ لوگوں سے ملنا ملانا پسند نہیں ہے۔میں پریشان ہو جاتی ہوں۔اسلئے مجھے یہی ہے کہ جو بھی ہو بس زیادہ بڑی فیملی نہ ہو"۔ اقصی نے کہا


آہاں۔۔۔اسکی بات سن کر وہ دونوں ہنسنے لگ گئیں۔


"آپ بتائیں عرشی صاحبہ ۔آپ کو کیسا بندہ پسند ہے؟" ان دونوں نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا


"جو مجھے سمجھے اور میرے احساسات کا خیال کرے"۔عرشی نے اپنی پسند بتائی۔


"ویسے یار اس قسم کے لڑکے ملنا مشکل ہیں۔کیا خیال ہے آرڈر پر بنوادیں؟" اقصی نے شرارتی لہجے میں پوچھا


"نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔پھر آرام سے ہمیں ربورٹ مل جائیں گے"۔عرشی نے بڑے ہی سنجیدہ انداز میں جواب دیا


جسے سن کر ان دونوں کا ہنس ہنس کر بڑا حال ہو گیا۔


"اچھا سنو۔۔تم لوگوں کو ایک بات بتاتی ہوں"۔اقصی نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا


"کیا بات؟ " فری نے ایک آبرو اٹھا کر پوچھا 


"ابو کے کوئی دوست ہیں۔انھوں نے میرا اور ماہ نور کا رشتہ مانگا ہے۔" اقصی نے بتایا


"یہ آج کل سب رشتے کیوں مانگ رہے ہیں "؟ عرشی نے اکتاتے ہوئے کہا


"میرے خیال سے ان لوگوں کا کوئی کام دھندا نہیں ہے۔تبھی بیٹھے بٹھائے ٹینشن دے جاتے ہیں۔"فری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا


"شکر ہے۔میرے ساتھ ایسا کوئی مسلئہ نہیں ہے"۔عرشی نے شکرانہ انداز میں کہا


"زیادہ خوش نہ ہو۔۔کیا پتہ مصیبت تمھارے لئے تیار ہو رہی ہو۔"اقصی نے کہا 


"اچھا اچھا بولو بہن"۔عرشی نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی اور پھر کہا


"تم شادی سے اتنا ڈرتی کیوں ہوعرشی؟"


"پتہ نہیں یار۔۔مجھے اپنا گھر چھوڑ نے سے ڈر لگتا ہے۔اور یہ ڈر بھی لگتا ہے کہ اگلا انسان پتہ نہیں کیسا ہو؟"عرشی نے کہا 


"فضول ٹینشنیں پالی ہوئی ہیں تم نے۔"اقصی نے اسے کہا تو وہ اسے دیکھے گئی۔۔


"شاید یہ ٹھیک کہتی ہے"۔۔۔عرشی نے دل میں سوچا ۔


"پتہ نہیں میں کب نارمل ہونگی۔نارمل لوگوں کی طرح رہونگی"۔وہ ابھی خیالوں میں ہی تھی کہ اتنے میں مس شمیم انکی کلاس میں داخل ہوئیں۔


"عرشی خیالوں سے باہر آ۔۔۔مس آگئی ہیں"۔اقصی نے اسکا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا


تو اسنے چونک کر اسے دیکھا اور گہرا سانس بھر مس کو دیکھنے لگی۔جو ڈائس کے سامنے کھڑی تھیں۔اور آج کے ٹاپک کے بارے میں بتا رہی تھیں۔وہ انھیں سننے لگی۔لیکن اسکا دماغ ابھی بھی کہی خیالوں میں ہی تھا۔۔وہ سر جھٹک کر لیکچر غور سے سننے لگی۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"چل یار۔اٹھ لنچ کرنے چلتے ہیں"۔عمر نے لنچ ٹائم میں اسکے آفس میں آکر کہا


"میں بھی یہی سوچ رہا تھا"۔علی نے کہتے ہوئے فائل بند کی اور اٹھ کھڑا ہوا


"تو میرے بھائی مجھ سے یہ اعلان کرانا ضروری تھا؟میں سوچتا ہوں وہ کون سا دن ہوگا جب تم بھی میرے آفس میں آکر کہو گے کہ چل عمر یار لنچ کرنے چلتے ہیں"۔ عمر نے مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا تو علی بے ساختہ ہنس دیا۔


"ویسے کہاں چلنے کا ارادہ ہے؟" علی نے کیبن سے نکلتے ہوئے اس سے پوچھا۔


"یہ پاس ہی ایک ریسٹورنٹ ہے۔آج وہی سے کھا آتے ہیں"۔عمر نے کہا تو اسنے بھی سر ہلا دیا۔


کچھ دیر کے بعد وہ لوگ ریسٹورنٹ میں بیٹھے اپنا لنچ انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے علی کو متوجہ کیا۔


"علی"۔۔۔۔۔اسکا نام کسی نے پکارا


وہ اپنا نام سن کر پیچھے مڑا تو سامنے اسے اسرا کھڑی نظر آئی۔


"کیسے ہو؟"اسنے مسکراتے ہوئے پوچھا


"میں ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو؟" اسنے جواب دیکر سوال پوچھا


"میں بھی ٹھیک ہوں۔تم تو پاکستان آکر ایسا بھولے کہ پھر کوئی رابطہ ہی نہیں رکھا" ۔اسرا نے شکوہ کیا۔


"بس یار۔آفس وغیرہ میں بزی رہتا ہوں"۔اسنے کہا اور عمر  کو اس سے متعارف کرایا ۔جو یک ٹک ان دونوں کو سن رہا تھا۔


"یہ عمر ہے۔میرا دوست"۔علی نے کہا تو عمر نے اسرا کو سلام کیا تو اسنے بھی  مسکرا کر اسکے سلام کا جواب دیا۔


"آو بیٹھو تم بھی"۔علی نے کہا


"نہیں۔ابھی تو کچھ دوستوں کے ساتھ آئی ہوں۔تمھیں دیکھا تو بات کر نے آگئی"۔اسرا نے جواب دیا۔


"انکل کیسے ہیں؟ "اسرا نے پوچھا


"وہ بھی ٹھیک ہیں۔" اسنے بتایا۔


"ایسا کرو ۔تم مجھے اپنا ایڈریس دو۔کسی دن تمھارے گھر آکر انکل سے بھی مل لونگی۔" اسرا نے کہا


"شیور۔" علی نے کہتے ہوئے اپنا ایڈریس لکھ کر اسے دے دیا۔


"بائے۔" اس سے ایڈریس لیکر وہ ہاتھ ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔


"یہ کون تھی؟ " اسکے جانےکے بعد عمر نے پوچھا


"یار امریکہ میں پڑھائی کے دوران اس سے دوستی ہوئی تھی۔" علی نے بتایا


"لگتا ہے تمھیں پسند کرتی ہے۔" عمر نے مسکراتے ہوئے کہا


"نہیں یار۔ایسی بات نہیں ہے۔ہم بس دوست ہیں۔"علی نے کہا


"میرے خیال سے وہ تمھیں دوست نہیں کچھ اور سمجھتی ہے۔"۔عمرنے پھر اپنی بات دہرائی۔


"میں کہ رہا ہو ناں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے"۔علی نے جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا


"اور سناو۔اگر یہ نہیں پسند تو پھر کوئی اور پسند ہے تمھیں ؟" عمر نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا


"بھائی میرے۔مجھے کوئی بھی پسند نہیں ہے۔ویلا نہیں ہوں میں۔جس کو دیکھو میری شادی کے پیچھے پڑا ہے"۔اب کی بار اسنے جھنجھلاتے ہوئے کہا


"اور کون تمھاری شادی کے پیچھے پڑا ہے "؟عمر نے ہنستے ہوئے پوچھا


"پاپا۔۔کل وہ بھی کہ رہے تھے کہ کوئی پسند ہے تو بتاو"۔اسنے اپنا دکھ اسے بتایا


"ہاہا۔۔پھر بتائی پسند؟"عمر نے ہنستے ہوئے کہا 


"جب ہے ہی کوئی نہیں تو بتاونگا کیسے ؟"علی نے اسے گھورتے ہوئے کہا


"پھر؟ "عمر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا


"پھر کیا یار۔ اپنے فرینڈ کی بیٹی کا بول رہے تھے کہ انھیں وہ پسند ہے۔اس سلسلے میں وہ مجھ سے میری رائے بھی پوچھ رہے تھے۔" علی نے مزید بتایا 


"پھر تم نے کیا رائے دی؟ ویسے تم نے دیکھا ہوا ہے میری ہونے والی بھابھی کو؟" عمر نے اشتیاق سے پوچھا


اسکی بات پر پہلے تو اسنے عمر کو گھورا اور پھر کہا 


"ہاں بھائی دیکھا ہوا ہے۔انتہائی غیر زمہ دار لڑکی ہے"۔کہتے ہوئے اسنے رسٹ واچ دیکھی۔اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔


"چل یار اٹھ دیر ہو رہی ہے۔"تو عمر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔


"ویسے تمھیں کیسے علم ہوا کہ وہ انتہائی غیر زمہ دار لڑکی ہے؟"اسنے علی کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا 


"او بھائی۔۔۔میں نے اسے خود اپنی آنکھوں سے فقیرنی سے پھول لیتے ہوئے دیکھا ہے۔" اسنے بتایا 


اسکی بات سن کر عمر نے کہا یہ ایسی بات تو نہیں ہے جسے بنیاد بنا کر تم نہ کرو۔


عمر کی بات سن کر اسنے رک کر اسکا چہرہ دیکھا اور پھر کہا


"ہمارے گھر آئی تھی وہ۔کسی کام سے کچن میں گئی اور چوہے کو دیکھ کر جگ توڑ دیا تھا۔"علی نے ایک اور کارنامہ عرشی کا عمر کو بتایا ۔


جسے سن کر عمر نے افسردگی سے سر ہلایا اور کہا 


"غلط کیا میرے بھائی بہت غلط کیا۔۔وہ اتنے بڑے بندر کو دیکھ کر نہ ڈری اور چھوٹے سے چوہے سے ڈر گئی۔۔بہت ناانصافی کی اسنے چوہے کے ساتھ"۔ عمر نے کہتے ہی دوڑ لگا دی۔


اور علی جو بڑے غور سے اسکی بات سن رہا تھا۔پہلے تو اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ بندر کسے کہہ رہا تھا اور جب سمجھ آئی تو  اسے مارنے اسکے پیچھے بھاگا۔لیکن عمر تو عمر تھا ۔وہ اسکے ہاتھ نہ لگا۔لیکن اسنے بھی ہمت نہ ہاری۔اور آخر گاڑی کے پاس پہنچ کر اسے جالیا۔۔


"اب بولو کیا بول رہے تھے؟" علی نے اسے گردن کے پچھلے حصے سے پکڑ کر پوچھا


"چھوڑ ظالم انسان"۔۔۔عمر نے کہا 


"ناں بقول تمھارے میں تو بندر ہوں ناں۔علی نے ہنستے ہوئے کہا اتنے میں اسے اسرا کی آواز سنائی دی۔


اسنے گردن موڑ کرآواز کی سمت دیکھا تو وہاں سے اسرا تیز قدموں سے چلتی اپنی طرف آتی دکھائی دی۔


اسکی توجہ اسرا کی طرف ہوئی تو عمر نے اپنے آپکو چھڑالیا۔اور کہا


میں کہہ رہا ہونکہ کر لو عرشی سے شادی۔اتنی اچھی لڑکی ہر کسی کو نہیں ملتی۔تمام زندگی ہنستے ہوئے گزرے گی۔اسکی بات سن کر علی نے اسے دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا تب تک وہ انکے قریب پہنچ چکی تھی۔


انکے قریب پہنچ کر پہلے اسنے اپنا سانس درست کیا اور پھر علی کو مخاطب کر کے کہا


"میری گاڑی میں کچھ پرابلم ہو گئی ہے۔تو ڈرائیور اسے ٹھیک کرانے لیکر گیا ہے۔تم مجھے گھر لے جاو گے علی؟"


"اصل میں ہم آفس سے لنچ کرنے آئے تھے"۔ علی نے کہا


"نہیں یار کوئی بات نہیں۔ابھی ویسے بھی وقت ہے۔ہم انہیں ڈراپ کر آتے ہیں۔" عمر نے علی سے کہا 


اگر تم نہیں لے جانا چاہتے تو کوئی بات نہیں۔اصل میں مجھے یہاں کے راستوں کی پہچان نہیں ہے تو اسلئے ٹیکسی نہیں کی۔ورنہ میں ٹیکسی سے چلی جاتی۔" اسنے کہا


"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔" یہ آفس کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔عمر نے صفائی دیتے ہوئے کہا اور فرنٹ ڈور کھول کر اسرا کو بیٹھنے کا کہا تو وہ تھینک یو کہتی بیٹھ گئی۔


عمر نے پچھلی طرف کا دروازہ کھول کر بیٹھتے ہوئے علی کو آنکھ ماری تو وہ  اسے گھور کر رہ گیا۔اور چارو ناچار ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔ 


سڑک پر ٹریفک معمول سے زیادہ تھی۔انھوں نے کوفت سے سامنے کھڑی گاڑیوں کی قطار کو دیکھا۔اور پھر دائیں طرف دیکھا ۔


انکے برابر میں کھڑی گاڑی علی کی تھی۔جسکا سائیڈ پوز وہ دیکھ چکے تھے۔اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اسکے برابر میں کوئی لڑکی بیٹھی تھی۔لیکن وہ اس لڑکی کا پورا چہرہ نہیں دیکھ پائے تھے۔اچانک علی نیچے جھکا تو انھوں نے اس کا پورا چہرہ دیکھا ۔جو ہنستے ہوئے علی کی طرف منہ کئے کچھ کہہ رہی تھی۔


"یہ بچی دیکھی بھالی لگ رہی ہے۔" انھوں نے سوچتے ہوئے دوبارہ اس طرف دیکھا۔۔لیکن تب تک وہ سیدھا ہو کے بیٹھ چکا تھا۔۔

ایک منٹ کے بعد سگنل بھی کھل چکا تھا تو وہ گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔


انھوں نے بھی قطار میں لگی پچھلی گاڑیوں کے ہارن سنتے ہوئے گاڑی آگے بڑھادی۔


"وہ ڈرائیو کرتے ہوئے مسلسل  سوچے جارہے تھے کہ انھوں نے اس بچی کو کہا ں دیکھا ہے؟

اچانک انکے دماغ میں جھماکا ہوا ۔اور انہیں یاد آیا کہ یہ تو علی کی یونی فرینڈ ہے جو امریکہ میں اسکی دوست بنی تھی۔"


"لیکن یہ پاکستان میں کیا کر رہی ہے؟ اسکا یہاں کوئی رشتہ دار تو ہے نہیں۔پھر یہ یہاں کیوں آئی ہے؟"


"انہیں شروع سے لگتا تھا کہ یہ لڑکی علی کو اپنا بوائے فرینڈ بنانے کے چکروں میں ہے۔اور تب انہیں یہی ڈر تھا کہیں علی اس سے محبت نہ کر بیٹھے۔"


"وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ اسرا غلط تھی۔بس بات یہ تھی کہ اسرا صرف کلمہ کی حد تک اسلام جانتی تھی۔۔باقی اس میں اور امریکن لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انکا بیٹا ایسی لڑکی سے شادی کرے۔۔کیونکہ انکی نسل انکے بیٹے سے آگے بڑھنی تھی۔اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انکے پوتی پوتیاں صرف نام کے مسلمان ہو۔"


"کیا  یہ علی کے پیچھے آئی ہے؟انکے دماغ نے اس بات کو سوچا تو ایک لمحے کے لئے انہیں اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔"


"وہ کیسے اپنی نسل کو جہنم رسید ہوتا دیکھ سکتے تھے۔"


"اگر علی میرے سامنے اسکے لئے تن کر کھڑا ہوگیا تو میں کیا کرونگا؟انھیں اپنے دل میں ہلکی سی ٹینس اٹھتی محسوس ہوئی۔"


تب تک وہ گھر کے قریب پہنچ چکے تھے۔انھوں نے تمام سوچوں کو دماغ سے جھٹکتے ہوئے گاڑی گھر کی سڑک پر ڈال دی۔"


"بس دائیں طرف موڑ لو۔" علی نے اسرا کے کہنے پر دائیں طرف والی سڑک پر گاڑی موڑ دی۔


،"بس بس ادھر روک دو"۔ایک خوبصورت سے بنگلے کے سامنے اسرا نے گاڑی رکوائی۔


"اور تھینک یو علی کہتی گاڑی سے اتر گئی۔"

اترنے کے بعد وہ اسکی طرف والے شیشے کے پاس آئی اور دو انگلیوں سے شیشے کو ناک کیا۔


علی نے اسکے روئیے کو ناسمجھتے ہو ئے شیشے کو نیچے کیا تو اسنے کھڑکی سے جھک کر سرگوشی میں کہا


"یہ میرا گھر ہے۔اور  تمھارے لئے ہر وقت کھلا ہے۔"


اور پھر اونچی آواز میں عمر کو مخاطب کر کے کہا 


"عمر کبھی ڈنر یا لنچ پر علی کے ساتھ آنا۔۔بلکہ اس کو تم ہی لیکر آنا۔میرے کہنے پر تو یہ نہیں آئے گا"۔تو عمر خوشدلی سے ہنس دیا۔اور پھر کہا


"جی ضرور۔۔"


علی نے اسکی بات کا جواب دینے کے بجائے گردن پیچھے کر کے عمر کو کہا 


"آگے آو"۔تو وہ آگے آکر بیٹھ گیا۔اسکے بیٹھتے ہی وہ گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

قسط 5

پیچھے وہ کھڑی اسکی گاڑی کو تب تک جاتا دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔


"کب تک بھاگو گے علی؟تمھارے پیچھے میں یہاں تک آئی ہوں۔اور اس یقین سے آئی ہونکہ تمہیں اپنا بنا کر ہی دم لونگی"۔اسنے سوچا اور مسکرا کر گھر کی طرف چلدی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments