Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamge epi 4

Yaadghaar lamhy:


Yaadghaar lamhy

  قسط 4

تین منٹ کے بعد وہ لوگ اپنے ٹیچنگ سینٹر کے سامنے کھڑی تھیں۔جہاں انھیں کلاسس لینی تھیں۔


"یہ ہے ؟" فری نے پوچھا


"ہاں۔غور سے دیکھ لے۔"اقصی نے کہا


"چل یار اندر قدم رنجہ فرماو۔"عرشی نے کہا


تو وہ لوگ بھی آگے پیچھے گیٹ کے اندر داخل ہوئیں۔


"یار اس وقت میرے دل کی ہر ہر دھڑکن کہہ رہی ہے کہ مس آج لیسن نہ لیں۔"عرشی نے بڑی ہی حسرت سے کہا


"بلی کے خواب چھچھڑے "۔اقصی نے کہا تو اسی وقت فری نے کہا


"مارے گئے۔جلدی چلو۔۔مس ہمارے پیچھے پیچھے ہی آرہی ہیں"۔فری نے کہا


اتنے میں مس نے انھیں دیکھ لیا۔


"اقصی"۔۔۔۔انھوں نے آواز دی۔



اور فری اور عرشی بھی رک گئیں۔


انھوں نے ہاتھ سے انھیں رکنے کا اشارہ کیا ۔


تھوڑی دیر کے بعد وہ ان لوگوں کے قریب پہنچ چکی تھیں۔


"اسلام و علیکم مس"۔ان تینوں نے سلام کیا


"وعلیکم سلام"۔انھوں نے جواب دیا


"تم لوگ ابھی آئے ہو "؟ انھوں نے پوچھا


"جی مس۔وہ اصل میں ان دونوں کو راستہ نہیں معلوم تھا تو ہم لوگ پہلے کالج گئے ہیں اور پھر یہاں آئے ہیں۔"اقصی نے تفصیل سے جواب دیا ۔


"اچھا چلو ٹھیک ہے"۔مس نے انکے ساتھ چلتے ہوئے کہا اور پھر پوچھا


"پہلا لیسن کون دے گا ؟"


"مس اقصی دے گی۔"فری نے کہا تو وہ سر ہلا دیں۔


تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ بھی مس کے ساتھ اسٹاف روم میں تھیں۔جہاں مس روبینہ ان لوگوں کا انتظار کر رہی تھیں۔


مس روبینہ انکی سپر وائزر تھیں۔جبکہ مس رضیہ سبجیکٹ ٹیچر تھیں۔


مس رضیہ نے چونکہ انھیں ٹیچنگ آف اردو پڑھائی تھی اسلئے آج وہ انھیں آبزروکر کرنے آئی تھیں کہ انھوں نےجو سکھایا ہے بچیوں کو آیا بھی ہے کہ نہیں۔


"میں نے آپ لوگوں کو کہا تھا کہ پونے نو بجے آپ لوگ یہاں موجود ہو۔"مس روبینہ نے کہا


"مس ہم لوگ پہلے کالج گئے تھے۔وہاں سے آئے ہیں۔یہاں کا راستہ معلوم نہیں تھا"۔فری نے کہا


"پہلا لیسن کون دے گا؟"مس روبینہ نے پوچھا


"اقصی دے گی"۔عرشی نے کہا تو انھوں نے کہا


"جائیں اقصی ۔آپ فورتھ کی کلاس ٹیچر سے بات کر لیں کہ آپ کو پیریڈ لینا ہے۔"انھوں نے کہا تو اقصی فورتھ کلاس کی ٹیچر سے بات کرنےچلدی۔


تھوڑی دیر کے بعد اقصی واپس آئی۔


"کیا کہا انھوں نے ؟ دیا اپنا فری پیریڈ؟ "مس رضیہ نے پوچھا


"جی مس "۔۔۔اسنےجواب دیا تو انھوں نے کہا


" چلیں اقصی ۔بلکہ آپ لوگ بھی آئیں" ۔انھوں نے فری اور عرشی کو کہا تو وہ لوگ بھی ساتھ چلدیں۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


مس کلاس میں جاکر سب سے آخری بینچ پر بیٹھ چکی تھیں ۔


جبکہ عرشی اور فری بھی بائیں طرف کی لاسٹ بینچ پر بیٹھیں تھیں۔


"شروع کریں"۔مس نے اقصی کو کہا


"تو اسنے بچوں کو " پرچم " کے نام کی نظم پڑھانے لگی۔


جیسے جیسے وہ پڑھاتی جا رہی تھی ۔کلاس میں بلکل سناٹا ہوتا جا رہا تھا۔"


"یار مجھے لگتا ہے اسکا یہ لیسن بہت اچھا گیا ہے۔"فری نے کہا


"شاید۔لیکن مس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھو۔"عرشی نے کہا تو فری بھی مس کو دیکھنے لگی۔


"نہیں یار ۔تمھیں ایویں لگ رہا ہے"۔فری نے کہا


آدھ گھنٹے کے بعد جب کلاس ختم ہوئی تو مس نے اقصی کو اپنے پاس بلایا اور کہا


"یہ کس قسم کی کلاس تھی جس میں موت کا سناٹا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں انسان نہ بستے ہوں۔"مس نے کہا


اقصی خاموش رہی۔انھوں نے مزید کہا


آپ کو اگر یہ"پرچم "نام کی نظم پڑھا نی تھی۔تو آپکو چاہیے تھا کہ آپ ایک ایک پرچم سب بچوں کو دیتیں۔اور جب بچے یہ نظم مل کر پڑھ رہے ہوتے تو ساتھ میں پرچم بھی ہلاتےتو وہ پڑھنے میں دلچسپی لیتے۔اور آپکو بھی پڑھاتے ہوئے مزہ آتا۔"مس نے کہا


وہ لوگ خاموشی سے سنتی رہیں۔


"آپ اپنی ان کمزوریوں پر قابو پائیں۔"انھوں نے اقصی کو کہا تو وہ سر ہلا دی۔


"اگلا لیسن کون دے گا ؟ "مس نے پوچھا


"مس فریحہ دے گی"۔اقصی نے کہا


"آپ کونسی کلاس میں لیسن دیں گیں ؟"مس نے پوچھا


" مس اسی کلاس میں۔"فری نے کہا تو انھوں نے کہا


"جائیے۔جاکر انکی کلاس ٹیچر سے بات کریں"۔مس نے کہا


تو فری پیریڈ لینے کی اجازت مانگنے چلی گئی۔


تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی۔


"مس وہ کہہ رہیں ہیں کہ بریک سے پہلے کا پیریڈ لے لو۔


سیکنڈ پیریڈ کا وہ منع کر رہی ہیں۔"فری نے کہا


"چلوٹھیک ہے۔تب تک میں دوسری بچیوں کی کلاسسز کو آبزرو کر تی ہوں"۔مس نے کہا اور اٹھ کر چلی گئیں۔


انکے جانے کے بعد اقصی نے کہا


"یار میرے اپنے گھر میں پرچم نہیں لگا ہوا تو میں اتنے پرچم کہاں سے لاتی"۔


اسکی بات سن کر وہ ہنسنے لگ گئیں۔


"اللہ کے ساتھ صبر کر "۔۔۔فری نے کہا


"ابھی دیکھنا میرے ساتھ کیا ہونا ہے۔"فری نے تسلی دینے کے انداز میں کہا


"پتہ نہیں یار کیوں آگئے ہم ادھر۔"عرشی نے کہا


"ہم نے کوئی گناہ کئے تھے جسکی سزا ہمیں یوں مل رہی ہے"۔اقصی نے کہا


"بعد میں رونا ۔۔ابھی اٹھو یہاں سے۔"فری نے کہا تو وہ لوگ گراونڈ میں جا کر بیٹھ گئیں۔


ابھی انکو وہاں بیٹھے پانچ ہی منٹ گزرے تھے کہ مس روبینہ وہاں سے گزریں۔


"آپ تینوں یہاں کیوں بیٹھی ہیں"؟ مس نے پوچھا


"مس وہ ہم لوگ ایکٹیویٹی بنا رہے ہیں"۔اتفاق سے عرشی اسی وقت کچھ لکھنے لگی تھی۔تو اسنے یہی بہانہ بنایا۔


"یہ کام گھر سے کر کے آیا کریں۔اورابھی آپ لوگ یہ کام ختم کر کے بچیوں کے لیسن آبزو کرنے آئیں۔"مس نے کہا


"جی مس "۔۔۔عرشی نے جواب دیا


"میں نے انکو کبھی نہیں معاف کرنا۔"فری نے کہا


"مت کر" ۔۔۔عرشی نے کہا


"میں بتا رہی ہونکہ میں مر بھی گئی تب بھی نہیں کرونگی"۔فری نے کہا


"کب مرو گی ویسے ؟" اقصی نے بڑے اشتیاق سے پوچھا


"اچھا جب بھی مرنے کا پروگرام ہونا تو اپنے تیسرے پر پلاو بنوانا۔"عرشی نے کہا


"اور ہاں سوپ بھی رکھوا دینا۔ٹھنڈ ہے ناں آج کل تو سائیڈ ڈش کے طور پر سوپ رکھوا لینا۔"اقصی نے کہا


" ویسے تو میٹھا ہمیں زیادہ پسند نہیں ہے ۔لیکن پھر بھی تم ایسا کرنا گاجر کا حلوہ میٹھے میں رکھنا۔"عرشی نے کہا


"بس۔۔زیادہ کی ہم فرمائش نہیں کرتے۔غریب لوگ ہیں۔چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہیں"۔اقصی نے کہا


"بے شرموں۔۔۔۔۔بجائے مجھے بولنے کے ناں یار ایسی باتیں نہیں کرتے۔۔میرے مرنے کی ساری پلاننگ کر دی ہے تم لوگوں نے"۔فری نے ہنستے ہوئے فائل اٹھا کر اقصی کو ماری۔


اتنے میں زکیہ وہاں آئی۔تم لوگوں کو مس روبینہ بلا رہی ہیں۔"اسنے کہا اور چلی گئی۔


"چل اٹھ جا یار۔وہ عورت آج آبزرو کروا کے رہے گی۔"فری نے کہا


"مجھے ایک دفعہ پاس آوٹ ہونے دو۔میں انکے مظالم پر کہانی لکھونگی۔یہ میرا خود سے وعدہ ہے۔"عرشی نے اٹھتے ہوئے کہا تو اقصی بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔


"اچھا سنو۔یہاں سے آف ہونے کے بعد سیدھا گھر جائیں گے۔"اقصی نے کہا


"نہیں ناں یار یہاں سے پہلے کالج جائیں گے ۔پھر گھر"۔فری نے کہا


"تم مس شمیم کا دیدار کل کر لینا۔آج مت جا کالج"۔۔اقصی نے کہا


"ابھی مس کے پاس چلو۔بعد میں دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔"عرشی نے کہا تو وہ لوگ بھی جلدی جلدی چلنے لگیں۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔


"سب نے ریفلیکشنز لکھ لئے "؟ مس روبینہ نے پوچھا


"وہ لوگ کلاسز لیکر فارغ ہو چکی تھیں۔اور کلاس لینے کے بعد جو انکا تجربہ رہا تھا ۔مس ان کو وہ لکھنے کا بول رہی تھیں۔ "


"جی مس"۔ان سب نے جواب دیا ۔


اتنے میں چھٹی کی بیل بجی تو مس نے کہا


"کل سب ٹائم پر آئیے گا"۔۔اور کہہ کر کلاس سے باہر چلی گئیں۔


"یہاں سے ہم کالج جائیں گے۔"فری نےکہا


چل ٹھیک ہے۔اقصی نے کہا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ کالج کے راستے پر گامزن تھیں۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"اگر آج تم کالج نہ جاتی تو نماز قضا نہ ہو جا تی تیری۔اقصی نے کہا تو فری ہنس دی۔


وہ لوگ کالج پہنچیں تو سر عباس گراونڈ فلور پر نان ٹیچنگ اسٹاف کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔


انھوں نے ان لوگوں کو کلاس کی طرف جاتے دیکھا تو تھوڑی دیر بعد سر نے بھی کلاس کا چکر لگایا۔


"کیسا رہا آپ لوگوں کا فرسٹ ڈے آف ٹیچنگ پریکٹس؟"سر نے پوچھا


"اچھا تھا سر"۔اقصی نے جواب دیا


کچھ دیر وہ انکی کلاس میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔اور پھر خود ہی اٹھ کر چلے گئے۔


انکے جانے کے بعد فری نےکہا


"یار چلو لائبریری سے کتابیں ایشو کرا کر لاتے ہیں۔"


ہاں مجھے بھی لینی ہیں"۔اقصی نے کہا


"چلو پھر"۔۔فری نےکہا تو وہ لوگ کتابیں لینے چل دیں ۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


شام میں جب وہ سو کر اٹھی تو اسے لاونج سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔


وہ منہ دھو کر باہر گئی تو سامنے صوفے پر اسکی بچپن کی دوست ہنزہ بیٹھی ہوئی تھی۔


اسے دیکھا تو اٹھ کھڑی ہوئی۔


"کب آئی تم ؟ "عرشی نے اس سے گلے ملتے ہوئے کہا


"جب آپ مری ہوئیں تھیں" ۔اسنے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دی۔


"اور سناو؟ کیا چل رہا ہے لائف میں ؟"عرشی نے پوچھا


"بس یار میں بہت الجھی ہوئی ہوں۔تبھی تو تمھا رے پاس آئی ہوں"۔اسنے کہا


"اٹھو ۔کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں"۔عرشی نے اٹھتے ہوئے اسے اشارہ کیا تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔


"ہاں اب بولو۔۔"عرشی نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا


"یار وہی بس۔پھوپھو نے رشتہ مانگا ہے۔بابا بلکل تیار ہیں۔مجھے مما بابا نے پرسوں تک جواب دینے کا کہا ہے"۔اسنے بتایا


"یہ تو اچھی بات ہے ناں"۔عرشی نے کہا


وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی اور پھر کہا


"میں اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی ہوں۔"


"تو تم نے اسے رشتہ کا بتایا ؟"عرشی نے کہا


"ہاں بتایا تھا۔کہتا ہے تم نہ کر دو"۔اسنے کہا


"تم اسے بولتی نا کہ وہ رشتہ بھیجے"۔۔عرشی نے کہا


"کہا تھا ۔کہتا ہے میں ابھی شادی نہیں کر سکتا ۔میں پہلے بہنوں کی کراونگا"۔۔اسنے بتایا


"تو تم بولو کم از کم رشتہ تو بھیجے ۔شادی بہلے بعد میں کر لے"۔عرشی نے کہا


"بولا تھا۔ لیکن وہ نہیں مانا"۔ہنزہ نے کہا


"میری ایک بات مانو گی ؟"عرشی نے کہا


"ہاں؟"اسنے کہا


"یار چھوڑ دو اس بندے کو ۔مجھے یہ تمھارے ساتھ سیریس نہیں لگتا"۔عرشی نے کہا


"عرشی وہ مجھے پسند کرتا ہے"۔ہنزہ نے کہا


" پسند کرنے میں اور گھر کی عزت بنانے میں فرق ہوتا ہے۔جسے پسند کیا جاتا ہے اسے اپنی عزت بنایا جاتا ہے۔ناکہ اسے کسی اور مرد کیلئے چھوڑا جاتا ہے"۔عرشی نے کہا


"تم تو سیریس ہی ہو گئی ہو"۔ہنزہ نے کہا

"نہیں میں بس یہ چاہ رہی ہونکہ تم اب اسکی باتوں کے جال میں نہ آو۔نہ اسکی کہی باتوں پر عمل کرو"۔عرشی نے کہا

"عرشی میں اس سے پیار کرتی ہوں۔وہ بات نہیں کرتا تو میں پریشان ہونے لگتی ہوں"۔ہنزہ نے کہا

"نہیں تم اس سے پیار نہیں کرتی ہو۔۔تم ہے اس سے بات کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔

تم نے اسے اتنا سوچا ہے کہ وہ تمھارے دماغ پر حاوی ہو گیا ہے۔اسلئے جب وہ تم سے بات نہیں کرتا تو تمہیں غصہ آنے لگتا ہے۔"عرشی نے کہا

"پتہ ہے وہ اچانک مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیتا ہے۔میں کال کرتی ہوں تو وہ ریسیو نہیں کرتا۔پھر کچھ دن کے بعد خود بات کرنے لگتا ہے"۔ہنزہ نے بتایا

وہ تمھارے ساتھ وقت گزاری کر رہا ہے۔اسلئے کہہ رہی ہونکہ اس سے دور رہو۔

تمھیں اسکی عادت ہو رہی ہے۔۔اور جب تم اسکی عادی ہو جاو گی تب وہ تمھیں چھوڑ دے گا۔

اور تمھیں پتہ ہے انسان کو جب اپنا عادی کر کے چھوڑا جاتا ہے تو وہ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتا ہے۔"عرشی نے کہا

"توتم کہہ رہی ہو کہ میں غلط ہوں "؟ ہنزہ نے کہا

"میں تمھیں غلط نہیں کہہ رہی ہنزہ ۔میں بس یہ کہہ رہی ہونکہ ہم لڑکیاں جس عمر میں ہیں اس عمر میں لڑکیوں کو لڑکوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔لیکن یہ ہمیں خود دیکھنا ہوتا ہے کہ کون ہمارے ساتھ کتنا ایماندار ہے۔"

"کیونکہ آپکی عزت کا خیال آپ کو خود رکھنا ہوتا ہے۔جیسے آپ کے پاس بہت سا پیسہ ہو تو آپ اسکی زمہ داری خود اٹھاتے ہیں نہ کہ آپ دوسروں سے امیدیں لگاتے ہیں۔بلکل اسی طرح ہم لڑکیوں کو بھی اپنے دل اور عزت کی حفاظت خود کرنی چاہئے"۔۔

"کیونکہ توڑنے والے توڑ کر چلے جاتے ہیں ۔اورپھر ہم اس نقطے سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتے۔"

"ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب بھول گئے ہیں۔لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ہم کسی کے چلے جانے سے مر نہیں جاتے۔کھاتے بھی ہیں۔پیتے بھی ہیں لیکن زندگی کو خوش ہو کر نہیں گزار پاتے۔"

"صرف ایک بات یاد آنے کے بعد سب کچھ دوبارہ سے یاد آنے لگتا ہے۔سارے منظر دوبارہ سے نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔"

"اور دکھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کھل کر نہ رو پاتے ہیں اور نہ ہنس پاتے ہیں۔اسلئے بعد میں رونے سے بہتر ہے انسان پہلے خود کا خیال کر لے"۔ عرشی نے کہا

"تو میں بابا کو ہاں کر دو؟ "ہنزہ نے کہا

"میرے خیال میں تو تمھیں ہاں کرنی چاہیے۔اور مجھے لگتا ہے کہ تم فواد بھائی کے ساتھ اچھی زندگی گزارو گی"۔۔عرشی نے کہا

"اور کیا میرا دل زندہ رہ پائے گا ؟" ہنزہ نے کہا

"بلکل۔۔تم بس خود پر قابو کر کے اسے بلاک کرو۔کوئی بات چیت نہ کرو۔تقریبا تین ماہ تک ۔۔

آہستہ آہستہ تمھارے دماغ سے وہ اتر جائے گا۔کم از کم یہ والا پاگل پن نہیں رہے گا۔"عرشی نے کہا

"میرے ساتھ غلط تو نہیں ہوگا ناں عرشی ؟"اسنے کہا

"تم نے کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کیا تو تمھارے ساتھ کیسے غلط ہو سکتا ہے ہنزہ؟ دیکھ نا ں تم سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

عرشی نے کہا تو ہنزہ اسے دیکھے گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ آج پھر لیٹ ہو گیا تھا ۔

"پتہ نہیں۔پاپا نے کھانا کھایا ہوگا کہ نہیں"۔اس نے سوچتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کی۔

آخر پندرہ منٹ کے بعد وہ اپنے گھر کے گیٹ کے سامنے کھڑا گاڑی کا ہارن بجا رہا تھا ۔

حسین صاحب اسکا انتظار کرتے کرتے لاونج کے صوفے پر ہی سو گئے تھے۔انھوں نے جیسے ہی اسکی گاڑی کا ہارن سنا تو فورن اٹھ کر بیٹھ گئے۔

وہ دبے قدموں چلتا گلاس ڈور کھول کر اندر داخل ہوا۔

لاونج کی لائٹس بھی آف تھیں۔ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

اسکی کوشش یہی تھی کہ وہ بغیر کوئی آواز پیدا کئے اپنے کمرے میں چلا جائے۔

"آگئے تم ؟" اچانک اسے حسین صاحب کی آواز سنائی دی۔اور ساتھ ہخ لاونج کی لائٹس آن ہوئیں۔

"پر گیا چھاپہ"۔۔اسنے سوچا اور پھو سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا۔

"وہ اصل میں پاپا میٹنگ میں دیر ہو گئی تھی"۔اسنے سر کھجاتے ہوئے انھیں بتایا

انھوں نے اسے دیکھا اور پھر کہا۔

"فریش ہو کر آو۔پھر کھانا کھاتے ہیں"۔انھوں نے کہا

"جی آتا ہوں۔"اسنے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ نیچے آیا تو وہ کھانا گرم کر چکے تھے۔اور میز پر رکھ کر اسکا انتظار کر رہے تھے۔

وہ آکر انکے برابر میں بیٹھ گیا۔

"آپ میرا انتظار کرنے کے بجائے کھا نا کھالیتے پاپا"۔۔اسنے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا

تو وہ خاموش رہے۔

"لگتا ہے ناراض ہیں"۔علی نے دل میں سوچا

"یہ رحیم تو دن بہ دن بد ذائقہ سے بے حد بد زائقہ کا سالن بنا نے لگا ہے۔ آپ اسے کچھ کہتے کیوں نہیں۔؟ "علی نے کہا

"جب گھر میں خاتون نہ ہو تو یہ سب ہوتا ہے۔"انھوں نے کہا

"آپ یہ سالن مت کھائیں۔۔اتنا تیل ہے اس میں۔اور آپ ہیں بھی دل کے مریض"۔۔اسنےکہا تو وہ ہنس دئیے ۔

"اتنی میری فکر ہے تو کھانا بنانے والی لے آو"۔انھوں نے کہا

"آپ کے لئے ؟اس عمر میں ؟اب اس عمر میں کہاں سے میں نئی امی ڈھونڈو"  علی نے شرارتی انداز میں کہا

"حالانکہ وہ انکا مطلب سمجھ چکا تھا ۔وہ اسکی شادی کی بات کر رہے تھے"۔

"بات کو گھماو مت۔میں تمھارا کہہ رہا ہوں"۔انھوں نے کہا

"کرے گی کون مجھ سے "؟اسنے ہنستے ہوئے کہا

"تمھارے لئے میری نظر میں ایک لڑکی ہے۔میں جب اسے دیکھتا ہوں مجھے لگتا ہے میری کوئی بیٹی ہوتی تو بلکل ایسی ہوتی۔

میں نے جس طرح کی لڑکی کو تمھارے لئے سوچا تھا وہ بلکل ایسی ہی ہے۔

حساس ، نرم دل اور معصوم۔"

"ویسے تم بتاو تم نے کسی سے عہد و پیماں تو نہیں کئے ہیں ؟"انھوں نے ہلکے پھلکے انداز میں اس کی پسند پوچھی۔

"نہیں پاپا۔میں محبت نام کی بلا سے دور ہوں۔"علی نے کہا اور پھر پوچھا

"ویسے ہے کون وہ لڑکی؟ حساس ،نرم دل اور معصوم"۔اسنے کہتے ہوئے پانی کے گلاس کو لبوں سے لگایا

"عرشیہ۔۔جاوید کی بیٹی عرشی مجھے بہت پسند ہے"۔

انکا کہنا تھا کہ پانی پیتے علی کو پھندا لگ گیا۔

"اسکی نظروں کے سامنے اس دن کا منظر گھوم گیا جب وہ فقیرنی سے پھول لے رہی تھی"۔اسنے نیکپن سے منہ صاف کیا اور کہا

"آپ جسے بہو بنانے کا سوچ رہے ہیں آپ کو علم ہے وہ کتنی غیر زمہ دار ہے؟ اور حساسیت تو اس میں ہے ہی نہیں"۔اس نے کہا

"تمھیں کیسے پتہ ہے کہ اس میں حساسیت نہیں ہے "؟ انھوں نے پوچھا

"بس مجھے علم ہے"۔علی نے کہا

"وہ بہت گھری بچی ہے۔اپنے دل کے رازوں پر پردہ رکھنے والی۔اپنا دکھ اپناڈر کسی کو نہ بتانے والی۔اور ایسے لوگ کم ہوتے ہیں علی۔"انھوں نے کہا

" اگر تمھیں وہ نہیں پسند تو کوئی بات نہیں ہے۔لیکن ایسے اسے جج مت کرو۔"۔انھوں نے کہا تو وہ انھیں دیکھے گیا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments