Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 8

Yaadghaar lamhe:


Yaadghaar lamhe

قسط 8

 "تم نے انکل کو اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا؟"  عمر نے حیرانگی سے کہا


"نہیں " اسنے جواب دیا


"وجہ؟" عمر نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا 


"میں نہیں بتا پایا۔" علی نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کرتے ہوئے کہا


"وہی پوچھ رہا ہونکہ کیوں نہیں بتا پائے؟ " تمھاری اور انکل کی تو بہت فرینڈشپ بھی ہے۔پھر کیا مسئلہ ہے؟ اسنے حیرت سے کہا


"اسرا" علی نے ایک لفظی جواب دیا


"کھل کے بتا بھائی۔" اب کی بار عمر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تو علی نے گاڑی ایک طرف روک دی اور اسکی طرف رخ کیا


"اسرا سنڈے کو میرے گھر آئی تھی ۔ کافی دیر پاپا کے پاس بیٹھی رہی ۔ لنچ بھی ہمارے یہاں کیا۔۔"علی نے بتایا


"تو ؟ "عمر نے کہا


"اور اب ہر دو دن کے بعد وہ ہمارے گھر آرہی ہے۔رات کا کھانا بھی ہمارے یہاں کھا رہی ہے۔"


"اور اس تمام عرصے  میں وہ پاپا کو یہ جتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں ۔ "  علی نے پریشانی سے ماتھے کو دبایا 


"اور انکل کا کیا خیال ہے اس سب کے بارے میں ؟ " عمر نے پریشانی سے پوچھا


"انھوں نے ابھی تک کھل کر اس سلسلے میں مجھ سے بات نہیں کی۔لیکن میرے خیال سے انکو بھی یہی لگتا ہے کہ میں اسرا سے محبت کرتا ہوں" ۔آخر کار اسنے پریشانی کی  اصل وجہ بتائی


"تم انکل سے کھل کر با ت کرو۔انکو بتاو کہ تم عرشی کو پسند کرتے ہو۔" عمر نے اسے مشورہ دیا


"پاپا پتا نہیں یقین کریں گے کہ نہیں؟ " علی نے سامنے  سیدھی سڑک کو گھورتے ہوئے کہا


"تم بات کر کے دیکھو ! کیا پتہ وہ محسوس کر لیں  تم عرشی کو پسند کرتے ہو" ۔عمر نے اسے کہا


"میرے بغیر بتائے انکو کیسے علم ہوگا کہ میں عرشی کو پسند کرتا ہوں۔؟ " علی نے اسکی بات سن کر کہا


"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔اس طریقے سے انکل کو بھی علم ہوجائے گا کہ تم عرشی میں دلچسپی رکھتے ہو اور اسرا کو بھی علم ہو جائے گا کہ وہ تمھارے لئے دوست سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔"عمر نے کہا


"کیا آئیڈیا ہے ؟"  علی نے اشتیاق سے پوچھا


تم سنڈے کو عرشی کو اپنے گھر لے جانا ۔ انکل کو حیرت ہو گی کہ تم کیسے خود اسے وہاں لے آئے اور وہ یقینا تم سے اس سلسلے میں پوچھیں گے۔اور پھر سنڈے کو اسرا بھی وہاں ہو گی ۔ تمہیں عرشی کے ساتھ دیکھ کر اسے علم ہو جائے گا کہ تم عرشی میں دلچسپی رکھتے ہو ناں  کہ اس میں۔پھر آگے تم خود سمجھدار ہو۔" عمر نے شرارت سے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا


"مطلب تم چاہتے ہو کہ ایک اپنے رویے سے پاپا کو اور اسرا کو  بتاو کہ میں عرشی کو پسند کرتا ہوں ؟ "علی نے کہا


"یس مائی فرینڈ ۔ " عمر نے کہا تو علی سوچ میں پر گیا


"اور اگر بات مزید بگڑ گئی تو ؟"  علی نے کہا


"کیوں بگڑے گی؟"  عمر نے ایک آبرو اٹھا کر اس سے پوچھا 


"پاپا مجھ سے پوچھیں گے کہ اسرا کس حق سے ہر دو دو دن بعد آتی رہی ہے ؟ انھیں پہلے سے یقین  ہے  کہ میں نے اسے امید دلا ئی ہوئی ہے تبھی وہ میرے پیچھے پاکستان آئی ہے۔" علی نے بتایا


"تو یہی میں چاہتا ہونکہ وہ تم سے سوال کریں اور اپنا شک ظاہر کریں تاکہ تم انکے شکوک و شہبات کو ختم کرو۔" عمر نے کہا تو علی سوچ میں پڑ گیا اور پھر کہا


 "اگر اسرا کو ہمارے گھر دیکھ کر عرشی کچھ اور سمجھ بیٹھی پھر؟" علی نے اپنا خدشہ ظاہر کیا


"اوئے ہوئے کیا بات ہے۔ہمارے علی صاحب بھی کسی کی ناراضگی سے ڈرنے لگے ہیں۔" عمر نے ہنستے ہوئے کہا


"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں بس بغیر مسئلہ پیدا کئے اس مسئلے کو ختم کرنا چاہتا ہو۔" علی نے جھینپتے ہوئے کہا لیکن عمر مسلسل ہنستا رہا۔


"کوئی بات نہیں۔ ہوتا ہے ایسا انسان کے ساتھ" ۔عمر نے ہنستے ہوئے  شرارت سے علی کو چھیڑا۔


"میں گاڑی سے باہر پھینک دونگا اب مزید اگر تم ہنسے"۔علی نے چڑتے ہوئے کہا


"اوکے جانی ! اب میں خاموش ہو۔۔" عمر نے پھر ہنستے ہوئے کہا تو وہ پہلے اسے دو سیکنڈ تک گھورتا رہا اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔


۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


عرشی جب اپنے  گھرکے دروازے پر پہنچی تو اسے ہنزہ کا سب سے چھوٹا بھائی کھڑا نظر آیا۔


وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اسکے قریب گئی ۔جو ایک دفعہ پھر انکے گھر کی بیل بجا رہا تھا۔


"عدیل گھنٹی خراب ہے" ۔اسنے اسکے پاس پہنچ کر کہا تو عدیل نے اسکی آواز پر گردن موڑ کر اسے دیکھا اور کہا


"شکر ہے باجی ! آپ آگئی ہیں۔میں کافی دیر سے یہاں کھڑا ہوں۔کوئی دروازہ ہی نہیں کھول رہا تھا" ۔اسنے کہا


"ہاں وہ گھنٹی خراب ہے۔" اسنے بتایا


"اتنے میں وہ گیٹ کے پاس گئی اور ہاتھ میں پکڑی چابی سے دروازہ کھولنے لگی۔" دروازہ کھولنے کے بعد اسنے کہا 


"آو اندر آو !"  


"نہیں باجی ! میں بس یہ کارڈ دینے آیا تھا۔ " اسنے ہاتھ میں پکڑا کارڈ اسکی طرف بڑھایا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر کارڈ لے لیا۔اور پھر کہا


"اندر تو آو ! پانی وغیرہ پی لو۔" 


"نہیں باجی ! ابھی کارڈز اور گھروں میں بھی دینے ہیں" ۔اسنے انکار کیا اور خداحافظ کہتا اپنی بائیک پر بیٹھ کر چلا گیا تو وہ بھی کندھے اچکا کر گھر میں داخل ہو گئی۔


جیسے ہی وہ گرل کھول کر لاونج میں آئی تو سامنے ہی اسکی والدہ صوفے پر  بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔


"کیا ہوا عرشی ؟ دیر کیوں ہوئی ؟"  انھوں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا


"میں فری اور اقصی کے ساتھ دہی بڑے کھانے چلی گئی تھی اسلئے دیر ہو گئی۔" عرشی نے بتایا


اچھا انھوں نے بات سن کر سکون کا سانس لیا اور پھر کہا 


"انسان فون کر کے بتا دیتا ہے" ۔انھوں نے کہا


"امی بس بھول گئی میں۔" عرشی نے کہا


انھوں نے اسکے لا پرواہ انداز کو دیکھا اور پھر کہا


"کھانا کھاوگی؟" 


"نہیں مجھے نیند آرہی ہے۔" اسنے جواب دیا اور کارڈ میز پر رکھا


"یہ کس کا کارڈ ہے؟"  انھوں نے حیرت سے کہا اور پھر کارڈ اٹھا کر دیکھنے لگیں۔


"وہ عدیل باہر دروازے پر کھڑا تھا۔۔وہی کارڈ دے کر گیا ہے۔" اسنے بتایا۔


"اچھا " ۔ انھوں نے سر ہلایا اور پھر اسے کہا


"جاو گی تم ہنزہ کی شادی میں ؟" انھوں نے میز سے کارڈ اٹھا کر دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا 


"کب ہے شادی ؟ " اسنے ان سے پوچھا اور پھر انکے ہاتھ سے کارڈ لے لیا


"تین دن کے بعد ہے۔" اس نے کارڈ دیکھتے ہوئے کہا


"یاں تو مہندی میں جاونگی یا پھر بارات میں" ۔اسنے سوچتے ہوئے کہا 


"تمھیں سب فنکشنز میں جانا چاہیے عرشی ۔تمھاری بچپن کی دوست ہے" ۔انھوں نے کہا


"میں مزید کالج کی چھٹیاں نہیں کر سکتی ناں " ۔ اسنے اپنی مجبوری بتائی۔


"اچھا خیر ابھی تو چھوڑیں اس بات کو ۔ میں سونے جا رہی ہوں۔"اسنے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔


جبکہ وہ وہی بیٹھ کر کوکنگ شو دیکھنے لگیں


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


رات کھانا کھانے کے بعد اسنے ہنزہ کو مبارکباد دینے کے لئے کال کی۔


دو بیلوں کے بعد اسنے کال اٹھالی اور ریسیو کرتے ہی کہا


"آگئی تمھیں میری یاد ! " ہنزہ نے کہا


"جی جی ۔"  اسنے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا


"بہت ہی ڈھیٹ ہو تم !"  ہنزہ نے ہنستے ہوئے کہا 


"بس غرور نہیں کرتی میں" ۔ اسنے بہت ہی عاجزانہ انداز میں کہا تو ہنزہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔


"پندرہ منٹ باتیں کرنے کے بعد جب عرشی کو فون رکھنے کا خیال آیا تو اسے یاد آیا کہ اسنے مبارکباد دینے کے لئے کال کی تھی" ۔تو اسنے ہنزہ سے کہا


وہ اصل میں میں نے تمھیں مبارکباد دینے کے لئے کال کی تھی۔


"ہاں تو دو پھر" ۔۔ہنزہ بھی اسی کی دوست تھی تو اسی کے انداز میں جواب دیا


"مبارک ہو"  ۔۔عرشی نے کہا


"خیر مبارک"۔۔ہنزہ نے  ہنستے ہوئے جواب دیا


"تم آو گی ناں ؟ " ہنزہ نے پوچھا 


"یار یا تو بارات میں آونگی یا پھر مہندی میں ۔"  اسنے بتایا


"کوئی ضرورت نہیں ہے پھر تمہیں آنے کی۔" ہنزہ نے خفگی سے کہا


"سمجھا کرو ناں ! میں پچھلے دنوں کالج کی بہت چھٹیاں کر چکی ہوں ۔"  عرشی نے کہا


"ہاں تو تین چار میری شادی کے لئے بھی کر لو۔"  ہنزہ نے کہا


"میں تو کر لو لیکن مڈ ٹرم ہونے والے ہیں اور جن کی شارٹ اٹینڈس ہوئی انکا مڈ ٹرم نہیں لیا جائے گا۔ "عرشی نے بے بسی سے مسئلہ بتایا


"اچھا لیکن تم مہندی میں ضرور آنا ۔ اور بارات میں بھی آنے کی کوشش کرنا۔"  ہنزہ نے کہا 


"تم دعا کرنا "۔ عرشی نے اسے کہا تو ہنزہ نے کہا


"ضرور ! "


"چلو پھر میں کال بند کرتی ہوں ۔کافی دیر ہو گئی ہے" ۔عرشی نے کہا 


"خداحافظ ۔ " ہنزہ نے کہا تو عرشی نے جوابن اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


اسے اپنا جسم درد کرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اسلئے آج وہ  جلدی آفس سے اٹھ گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا تو اسے اسرا کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔


وہ اس وقت اسے برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اسلئے وہ آرام سے لان کے پچھلے حصے کی طرف گیا اور کچن کے اس حصے کی طرف بنے دروازے کو چیک کیا جو کہ بند تھا۔


اسنے ایک لمحہ سوچا اور پھر جیب سے موبائل نکال کر گھر کے نمبر پر کال کی۔ جو اسکے اندازے کے مطابق رحیم نے ہی ریسیو کی۔


"ہیلو ! " رحیم نے جیسے ہی ہیلو کہا تو آگے سے علی نے کہا


"میں علی ہوں ۔ کچن کا پچھلا دروازہ کھولو ۔ اور گھر میں کسی کو مت بتانا کہ میں ہوں" ۔علی نے اسے تاکید کی اور کال بند کر دی۔


"یہ علی بھائی مجھے  مروا کر رہیں گے کسی دن صاحب سے" ۔رحیم نے کہا اور پھر دروازہ کھولنے کے لئے کچن کی طرف بڑھ گیا ۔


اگلے ہی منٹ وہ دروازہ کھول چکا تھا۔جیسے ہی دروازہ کھلا تو وہ اندر آیا ۔


"آپ سیدھے راستے سے کیوں نہیں آئے علی بھائی ؟"  رحیم نے کہا


ی"ار بس !وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا " ۔اور پھر اسے دیکھا 


"اسرا کہاں بیٹھی ہے ؟"  اسنے پوچھا تو رحیم اسکے چھپکے آنے کی وجہ سمجھ گیا۔


"وہ تو ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہیں ۔ اور آج انکے والد بھی انکے ساتھ آئے ہیں۔"  اسنے بتایا 


"اچھا ۔۔ والد کیوں آئے ہیں ؟ " اسنے حیرت سے پوچھا 


"پتہ نہیں !"  رحیم نے جواب دیا تو وہ خاموش ہو گیا۔


"میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔تم میرے لئے  چائے بنا کر لے آو  اور ساتھ میں بخار کی ٹیبلٹ بھی لے آنا۔ " علی نے  کہا اور پھر کچھ یاد آنے پر پیچھے مڑا اور کہا


"کسی کو مت بتانا کہ میں آگیا ہوں۔ "وہ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھڑتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


جب وہ اسرا اور اسکے والد کو سی آف کرنے پورچ میں گئے تو انھیں وہاں علی کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔


"اسکی گاڑی یہاں ہے تو یہ خود کہاں ہیں ؟ کیاگھر میں ہے ؟"  انھوں نے دل میں سوچا اتنے میں انھیں اسرا کی آواز آئی 


"یہ گاڑی تو علی کی ہے ۔ کیا وہ گھر پر ہے ؟ " اسنے خوش ہوتے ہو ئے کہا 


"نہیں صاحب جی گھر پر نہیں ہیں ۔ " اسکی بات کا جواب حسین صاحب کے پیچھے کھڑے رحیم نے دیا تو انھوں نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تو وہ سر جھکا گیا۔


"چلیں حسین صاحب اجازت دیں۔اور میں امید کرتا ہونکہ اگلی دفعہ آپ علی کے ساتھ ہمارے گھر آئیں گے۔"


"ضرور ضرور " ۔ انھوں نے خوش اخلاقی سے کہا تو وہ ان سے گلے مل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد انکی گاڑی وہاں سے روانہ ہو گئی۔


گیٹ سے انکی گاڑی نکلتے ہی حسین صاحب نے رحیم سے کہا


"کب آیا تھا علی ؟ " 


"ایک گھنٹہ پہلے  آئے ہیں انکی طبیعت خراب تھی ۔ مجھ سے چائے کے ساتھ بخار کی ٹیبلٹ منگوائیں تھیں۔ اور اسرا بی بی کے سامنے بتانے سے منع کیا تھا۔ " رحیم نے ایک ہی سانس میں پوری  تفصیل  سے  انہیں آگاہ کیا جسے سن کر انھوں نے سر ہلایا ۔


اور خود اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"اسکے والد ادھر کیوں آئے ہیں ؟ میں جتنا اس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں یہ اتنا ہی میرے گلے پڑ رہی ہے"۔

وہ سوچتے ہوئے اپنے ماتھے کو انگلیوں سے دبا رہا تھا  کہ اچانک اسکے کمرے کا دروازہ کھلا اور اسکے والد اندر داخل ہوئے اس نے انکو دیکھا تو فورن اٹھ بیٹھا


"آئیں پاپا ! " علی نے کہا تو وہ اسکی طرف بڑھے


"رحیم بتا رہا تھا کہ تمھاری طبیعت خراب ہے ۔ اب کیسی ہے طبیعت؟ "  انھوں نے اس سے پوچھا


"اب  ٹھیک ہے پاپا  !  میں نے ٹیبلیٹس لی تھیں" ۔اسنے کہا 


"آرام کرو ! " انھوں نے کہا اور اسکے کمرے سے باہر نکل گئے۔


"انکے جاتے ہی وہ دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسکا جسم درد سے ٹوٹ رہا ہے۔" 


کچھ دیر وہ ایسے ہی ڈھیلا ڈھالا سا لیٹا رہا اور پھر اس پر غنودگی طاری ہو گئ اور تھوڑی ہی دیر بعد  وہ ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو گیا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"صاحب جی ! کھانا لگا دیا ہے ۔" رحیم نے انکو بتایا 


"اچھا آتا ہوں !"  انھوں نے کہا اور  پھر پوچھا 


"علی کی طبیعت کیسی ہے اب ؟ " 


"صاحب جی میں دو دفعہ انکو جگانے کے لئے  گیا ہوں لیکن انھوں نے دروازہ نہیں کھولا "۔  رحیم نے بتا یا 


اسکے جواب  پر انھوں نے اسے دیکھا اور پریشانی  کے عالم میں  اپنے کمرے سے نکل گئے۔


"علی ! چل" انھوں نے اسکے کمرے کا دروازہ بجایا   لیکن کوئی جواب نہیں آیا 


"انھوں نے پھر دروازہ بجایا " ۔ لیکن پھر کوئی جواب نہیں آیا تو انھوں نے رحیم کو آواز دی۔


"رحیم ! رحیم " 


انکی آواز سن کر رحیم اوپر آیا  اور کہا 


"جی صاحب جی ! "


"جاو ! اسٹڈی روم میں جو میز رکھا  ہے اس کے دراز میں چابیوں کا گچھا ہے۔وہ لیکر آو۔ " انھوں نے اسے کہا اور خود دوبارہ  دروازہ بجانے لگے۔


تین منٹ کے بعد وہ  چابیاں لیکر آگیا تھا ۔ 


"یہ چابیاں  ! رحیم نے انھیں چابیاں دیں تو انھوں  نے فورن  اسکے ہاتھ سے  چابیاں لیں  اور لاک کھولنے لگے۔"


لیکن  کوئی چابی لگ ہی نہیں لگ رہی تھی ۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں تیسری چابی سے لاک لھولنے کی کوشش کی تو کلک کی آواز کے ساتھ ہی  لاک کھل گیا۔


انھوں نے شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ کھولا  اور جلدی سے   کمرے میں داخل ہوئے ۔ہر طرف  گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا ۔رحیم  نے  آگے بڑھ کر کمرے کی لائٹس آن کی۔ تو علی  انہیں سامنے  بیڈ پر بلکل سیدھا لیٹا نظر آیا تو وہ فورن اسکی طرف بڑھے 


"علی ! " انھوں نے اسکے پاس پہنچ کر اسے پکارا لیکن  اسکے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی ۔


وہ پریشانی کے عالم میں اس پر جھکے اور اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو ا نہیں ایسا لگا  جیسے جلتے  انگارے کو انھوں نے چھو لیا ہو۔


"علی ! " انھوں نے اسے جھنجھوڑا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا 


"رحیم  ! جاو  ڈاکٹر وسیم  کو فون کرو  اور انہیں یہاں آنے  کا کہو ۔ اور ہاں ٹھنڈا پانی  اور پٹیاں بھی  لیکر آو۔" 


انھوں نے رحیم کو کہا تو وہ فورن نیچے چلا گیا 


اور وہ خود اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔بٹن کھولنے کے بعد وہ اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے  اسے آوازیں دینے لگے


"علی آنکھیں کھولو بیٹے  !" وہ بے بسی سے کہتے  ہوئے اس پر جھکے


"پاپا  ! "  اسنے بہت ہلکی آواز میں مدہوشی کے عالم میں انھیں پکارا  تو وہ فورن چونکے۔


"علی  ! ہاں میں پاس ہوں بیٹا  !"  وہ اسکا  چہرہ  تھام کر بولے  


اتنے میں رحیم  پانی اور پٹیاں  لے آیا تھا ۔


"لاو میں رکھتا ہوں "  انھوں نے  رحیم کو کہا  اور  اسکے ماتھے پر پٹیاں رکھنے لگے۔


"ڈاکٹر کو فون کیا  ؟ " انھوں نے پوچھا


"جی صاحب جی وہ  آرہے ہیں۔" اسنے بتایا  تو انھوں نے سر ہلا دیا 


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


پندرہ منٹ کے بعد  ملازم  کے ساتھ ڈاکٹر  وسیم اسکے کمرے میں داخل ہوئے ۔انکو دیکھتے ہی  حسین صاحب  اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا 


"آو وسیم  ! اسکو دیکھو  پتہ نہیں  کیا ہو گیا  ہے  ؟ " 


"پریشان نہ ہو" ۔۔انھوں نے حسین صاحب کو تسلی دی اور  اسے چیک کرنے  لگے۔


چیک کرنے کے بعد وہ  حسین صاحب کی طرف مڑے اور کہا 


" موسمی بخار تھا لیکن زہنی دباو اور ٹینشن کی وجہ سے   اسکی طبیعت زیادہ بگڑی ہے" ۔ انھوں نے بتایا 


"اسکا بخار  کم  ہونے کے بجائے زیادہ ہوتا جا رہا   ہے وسیم  " ۔حسین صاحب نے کہا


"ہاں ! اسلئے میں انجیکشن  نہیں دے رہا۔ کچھ ٹیبلیٹ لکھ کے دے رہا  ہوں  وہ منگوالو۔ " 


اگر طبیعت  پھر بھی نہیں سنبھلتی  ہے تو اسے  میرے ہسپتال لیکر آو۔انھوں نے  ان کو مشورہ دیا 


"پریشانی کی تو کوئی بات نہیں ہے ناں ؟  " انھوں نے پوچھا 


"نہیں  نہیں ! ریلیکس رہو ! ٹھیک ہے وہ ۔ جوان لڑکا ہے تم تو ایسے پریشان ہو رہے ہو جیسے دو سال کا بچہ ہو" ۔انھوں نے ہنستے ہوئے حسین صاحب کو  کہا


"میرے لئے تو ابھی بھی چھوٹا  ہے ۔" انھوں نے کہا  تو وسیم صاحب نے انھیں  تسلی دینے کے انداز میں انکے کندھے پر  ہاتھ رکھا۔

وہ جانتے تھے کہ حسین صاحب علی کو لیکر بہت جذباتی تھے۔


"تم  یہی رہو " !انھوں نے پیچھے مڑ کر رحیم سے کہا اور خود  وسیم صاحب کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔


"آو بیٹھو ! " انھوں نے وسیم صاحب سے کہا 


"نہیں میں چلتا ہوں۔" وہ ان سے گلے ملے اور وہاں سے چلے گئے ۔تو وہ بھی پلٹ کر  علی کے کمرے کی طرف چلے گئے۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

یہ اسکے بیمار ہونے کے  ایک ہفتے بعد کی بات  تھی کہ وہ انکے ساتھ  بیٹھا  کوئی ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔انھوں نے اسے دیکھا  اور پھر سوچا 


"اسے کیا زہنی دباو   ہو سکتا ہے ؟  ایسی کیا بات ہے جو یہ مجھ سے شئیر نہیں کر پا رہا ہے ؟  " انھوں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے سوچا 


وہ کا فی دیر سے  خود  پر  انکی نظریں  محسوس کر رہا تھا ۔اچانک اسنے گردن موڑ کر انھیں دیکھا  اور کہا 


"کیا بات ہے پاپا ؟  ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ " علی نے پوچھا


اسکے  بولنے پر وہ چونکے ۔کچھ  لمحے اسے دیکھتے رہے اور پھر کہا 


"تمہیں میں نے ہمیشہ  دوستوں کی طرح ٹریٹ کیا ہے علی  ! اور پتا ہے ایسا رویہ کیوں رکھا تھا ؟"  وہ کچھ لمحے خاموش رہے اور پھر کہا 


"تا کہ تم ہر بات بغیر کسی جھجھک کے مجھ سے  شئیر کر سکو۔اور تمہیں اپنی  ماں کی کمی اتنی محسوس نہ ہو ۔لیکن میں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا " ۔انھوں نے کہا  تو وہ اٹھ کر انکے پاوں میں بیٹھ گیا۔ 


"پاپا ایسے نہیں بولیں۔آپ بیسٹ ہیں۔آپکے ہوتے ہوئے مجھے کبھی کسی  کو بیسٹ فرینڈ بنانے  کی ضرورت نہیں محسوس  ہوئی ۔" اسنے بھرائی ہوئی آواز میں کہا  تو  انہوں نے کہا


"تو پھر علی ایسی کیا بات  تھی جسکی ٹینشن کو تم  نے سر پر اتنا  سوار کیا کہ ذہنی دباو  کا شکار ہو گئے ؟"  انھوں نے پوچھا  تو وہ خاموش رہا  تو انھوں نے کہا


"آفس کی کوئی ٹینشن ہے ؟ " 


"نہیں ! " اسنے نفی میں سر ہلایا 


"پھر ؟ کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو ؟ "  انھوں نے اسکا چہرہ جو کہ جھکا ہوا تھا ۔دیکھتے ہو ئے پوچھا  تو  وہ  کچھ سیکنڈ خاموش رہا اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔


"کون ہے  وہ ؟ اسرا ؟ چ  انھوں نے پریقین لہجے میں  کہا تو اسنے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا 


"نہیں پاپا !" اسنے کہا  تو  انھوں نے حیرت سے اسے دیکھا  اور کہا 


"پھر کون ہے  ؟ " 


"عرشی ! "  اسنے جھجھکتے ہوئے اسکا نام لیا تو  وہ مزید حیرت زدہ ہوئے 


"لیکن تم  نے اس سے شادی کر نے سے منع کیا تھا ۔ہیں ناں ؟ " انھوں نے کہا 


"جی لیکن میں اب اس سے شادی کرنا  چاہتا ہوں" ۔اسنے جھجھکتے ہو ئے  کہا 


"اور اسرا  سے تم محبت نہیں کرتے ؟" انھوں نے اپنے شکوک ختم کرنے کے لئے اس سے پوچھا  


"پاپا وہ میری بس دوست ہے  ۔ میں اس سے محبت نہیں کرتا ۔" اسنے دوٹوک انداز میں کہا 


"ہممم ! "  وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچتے رہے ۔اور پھر کہا 


"اگر تم عرشی سے اسلئے شادی کرنا چاہتے ہو کہ مجھے وہ پسند ہے  تو  تم میری وجہ سے  اپنے دل کو نہ مارو"۔

انکی بات سن کر اسنے چونک کر سر اٹھایا  اور  اپنے دونوں ہاتھ انکے گھٹنوں پر رکھے 


"مجھے وہ اچھی لگتی ہے ۔ " اسنے ابکی بار صاف گوئی سے کہا تو انھوں نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا 


"اور اگر تم نے میری بچی کو غیر زمہ دار ہونے کے طعنے دئے پھر ؟ " 


"نہیں دونگا ! مجھ پر یقین رکھیں ۔" اسنے التجائیہ انداز میں کہتے ہوئے انکے ہاتھ پکڑے تو وہ زور سے ہنس دئیے تو وہ جھینپ گیا۔


"ویسے  یہ اتنی بڑی بات نہیں تھی  جتنی تم نے ٹینشن لی ہو ئی تھی"  ۔انھوں نے اسکا  خوشی سے لال چہرہ دیکھتے ہوئے کہا 


"میرے لئے تو بڑی بات تھی ۔ مجھے لگتا تھا کہ آپ  عرشی کے لئے آرام سے نہیں مانیں گے  " ۔اسنے سر جھکائے کہا تو وہ مسکرا دئے ۔پھر کچھ یاد آنے پر اسنے پوچھا


"آپ کو  کیسے پتہ چلا کہ مجھے ٹینشن تھی ؟  " 


"وسیم نے بتایا تھا کہ تم زہنی دباو کا شکار ہو ۔اور پھر تمھاری یہ بچپن کی عادت ہے کہ جب کسی بات کی ٹینشن لیتے ہو  تو تمہیں بخار ہو جاتا  ہے۔ا" نھوں نے مسکراتے ہوئے کہا  تو اسنے انکی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔


انہوں نے ایک نظر اپنے چھ فٹ کے بیٹے کو دیکھا  جو انکی گود میں  آنکھیں بند کئے لیٹا تھا   تو بے ساختہ مسکراہٹ انکے ہونٹوں پر آئی  اور وہ اسکے کالے گھنے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے ۔


یہ سچ تھا کہ وہ کافی دن سے ذہنی دباو کا شکار تھا لیکن آج پاپا کو سب بتانے کے بعد وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔

وہ اسی سکون کو محسوس کرتے ہوئے نیند میں جانے لگا  تو اچانک اسنے رحیم کی آواز سنی


"علی بھائی  !اٹھ جائیں ۔  آپ اگر سو گئے تو میں اور صاحب جی آپ جیسے چھ فٹ کے بندے کو  کیسے آپ کے روم میں لیکر جائیں گے ؟ " 


اسکی بات سنکر حسین صاحب بھی ہنسنے لگے ۔


"صحیح کہہ رہا ہے وہ۔ اب میرے ان بوڑھے بازووں میں اتنی جان نہیں رہی کہ تمہیں اٹھا کر تمھارے بیڈ روم میں لے جاو ۔"


تو وہ سیدھا ہو کر  بیٹھ گیا ۔


"ایسی بھی بات نہیں ہے۔ " اسنے کہا تو وہ ہنس دئے 


"جاو !اپنے کمرے میں جاکر سو جاو ۔ "  


تو وہ  انکو شب بخیر کہتا اپنے کمرے کی طرف چل دیا 


۔۔۔۔۔۔*۔۔ ۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments