Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 11

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe epi



 "مجھے تم لوگوں کو کچھ بتانا ہے "۔اقصی نے ان دونوں کو کہا 
"ہاں بولو!" وہ دونوں اسے دیکھنے لگیں۔
"کل مجھے کچھ لوگ دیکھنے آرہے ہیں" ۔۔آخر اقصی نے شرماتے شرماتے بتایا 
"اوہو !کیا بات ہے" ۔فری نے کہا جبکہ عرشی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔تب ہی اسمبلی کی گھنٹی بجی تو وہ لوگ بھی اسمبلی کے لئے کلاس سے باہر نکل گئیں۔اور تھرڈ فلور پر چلی گئیں۔
باتوں باتوں میں عرشی آج اپنا موبائل بھی بیگ سے نکالنا بھول گئی تھی۔
جب وہ لوگ اسمبلی کر کے واپس آئیں تو نمرہ کی ٹکر عرشی سے ہوئئ۔

"دیکھ کر جاو نمرہ !" وہ اسے کہتی نیچے اتر گئیں جبکہ نمرہ اوپر اپنی کلاس کی طرف چلی گئی۔
نمرہ فرسٹ سیمسٹر کی اسٹوڈنٹ تھی۔اور اسکی بس فری سے ہائے ہیلو تھی۔
عرشی کو وہ لڑکی کچھ خاص پسند نہیں تھی اسلئے نہ اسنے کبھی اس سے بات کی اور نہ نمرہ نے اس سے بات کی۔اقصی کو کسی سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں تھی اسلئے اسکی بھی نمرہ سے کوئی بات چیت نہیں تھی۔
"یہ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں تھی ؟" اقصی نے کہا 
"شاید دیر سے آنے پر گھبرائی ہوئی ہو " ۔فری نے کہا 

"جلدی چلو آج ویسے بھی فرائی ڈے ہے۔مس تبسم جلدی آجاتی ہیں کلاس میں ۔" عرشی نے کہا تو وہ لوگ تیز تیز چلتی اپنی کلاس میں جاکر بیٹھ گئیں۔
جیسے ہی وہ لوگ کلاس میں جاکر بیٹھیں تو انکے اندازے کے عین مطابق اگلے تین منٹ کے بعد مس تبسم انکی کلاس میں موجود تھیں۔
مس تبسم کی کلاس کے بعد انکی بیک ٹو بیک کلاسز ہوتی رہیں۔اور عرشی کو اتنا بھی ٹائم نہ ملا کہ وہ اپنے موبائل کو بیگ سے نکال سکے۔
ساڑھے گیارہ کے قریب فری نےآسیہ کو اسلامیات کا کام کرتے دیکھا تو عرشی اور اقصی سے کہا 
"مس شازیہ نے جو سوالات دئیے تھے اسکی بک تلاش کی تم لوگوں نے ؟" 
"یار ہم گئے تھے بک ایشو کرانے ۔لیکن وہاں وہ بک ملی ہی نہیں" اقصی نے کہا
"آسیہ تم یہ کام ابھی پورا لکھ لو گی ؟ " عرشی نے پوچھا 
"نہیں یار !" آسیہ نے کہا 

"اچھا ایسا کرو تم ہمیں تھوڑی دیر کے لئے بک دو۔ہم جوابات کی پکز لے لیں۔تاکہ کم از کم کل مس سے بے عزتی نہ ہو ۔" فری نے کہا تو آسیہ نے بک اپنے سامنے سے اٹھا کر ان لوگوں کو دے دی۔
"تھینک یو یار ! "عرشی نے کہا 
"یور موسٹ ویلکم مائی دئیر" ۔آسیہ نے کہا 
جب فری اور اقصی نے پکز لے لیں تو انھوں نے عرشی سے کہا 
"تم نہیں کرو گی کام ؟ " 

"کرونگی۔" عرشی نے جواب دیا 
"تو پھر پکز کیوں نہیں لے رہی؟ " اقصی نے کہا 
"فری مجھے بھیج دے گی یا تم بھیج دینا !" عرشی نے لاپرواہی سے کہا جسے سن کر فری نے کہا 
"میرے بھروسے پہ مت رہنا ۔میرا وائی فائی کل سے بند ہے اور نیٹ پیکج بھی آج صبح ہی ختم ہوا ہے "۔
فری نے کہا 
"اور میرے پاس نیٹ پیکج ہوتا ہی نہیں ہے۔اور وائی فائی بھی نہیں ہمارے گھر۔" اقصی نے کہا 
تو عرشی نے کہا 

"لاو دو !میں بھی لے لو پکز۔" عرشی نے کہتے ہوئے بیگ اٹھا کر گود میں رکھا اور موبائل نکالنے کے لئے زپ کھولی۔لیکن موبائل تو ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ۔
اسنے پریشان ہوتے ہوئے بیگ سے تمام چیزیں نکال کر بیگ کو کھنگالا لیکن موبائل کو نہ ملنا تھا وہ نہ ملا ۔
"کیا ہوا عرشی ؟" فری نے اسے پریشان دیکھتے ہوئے پوچھا 
"یار موبائل نہیں ہے۔" عرشی نے کہا 
"ٹھیک سے دیکھو !فری اسکے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔" 
"نہیں ہے یار۔" اسنے کہا 

"تم گھر سے لائی تھی ؟" سمیرا نے پوچھا جو کہ انکی کلاس فیلو تھی۔
"ہاں ! جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے بیگ میں رکھا تھا۔لیکن کیا پتہ میں ٹیبل پر ہی بھول گئی ہو ۔" عرشی نے سوچتے ہوئے کہا
"اللہ کرے گھر پرہی ہو ۔" اقصی نے کہا 
اتنے میں چھٹی کی بیل ہوئی تو وہ سب بھی اپنی اپنی چیزیں سمیٹنے لگیں۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"اللہ کرےموبائل گھر پر ہی ہو "عرشی تمام راستہ یہ دعا کرتی ہوئی آئی تھی۔
اور جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئی تو اسنے سلام کرنے کے بجائے اپنی والدہ سے پوچھا 
"میرا موبائل صبح گھر پر رہا ہے ناں ؟ " عرشی نے ایک امید سے ان سے پوچھا 
"نہیں !"انھوں نے جواب دیا۔
"تم نے میرے سامنے میز پر سے موبائل اٹھا کر بیگ میں رکھا تھا" ۔انہوں نے کہا
"آپ مزاح کر رہی ہیں ناں امی ؟" اسنےپھر امید سے کہا 
"نہیں ! کیوں کیا ہوا ہے ؟ " انہوں نے جواب دیکر سوال پوچھا 
"میرا موبائل چوری ہو گیا ہے۔" عرشی نے کہا 
"کیسے ؟ بیگ میں ٹھیک سے دیکھا ہے ؟" انھوں نے کہا اور پھر خود اسکے بیگ کو کھول کر چیک کرنے لگیں۔

لیکن موبائل تھا ہی نہیں تو ملتا کیسے ؟ "
"کیسے ہوا چوری ؟ تم کدھر تھی ؟ " انہوں نے کہا 
"مجھے نہیں پتہ !میں نے جب موبائل بیگ سے نکانا چاہا تو وہ نہیں تھا۔۔عرشی نے کہا تو انھوں نے غصہ سے اسکی طرف دیکھا پھر اس سے پوچھا 
"تم نے دھیان کیوں نہیں رکھا ؟ تم موبائل اپنے یونیفارم کی پاکٹ میں رکھتی۔"انہوں نے غصے سے کہا
"میری غلطی نہیں ہے۔میں روز جیب میں ہی رکھتی ہوں بس آج بھول گئی تھی۔" اسنے کہا
"تمہیں کسی پر شک ہے عرشی ؟ " اسکی والدہ نے پوچھا 
"نہیں ہماری کلاس کی تو کوئی بھی نہیں ہو سکتی" ۔ عرشی نے پر یقین لہجے میں کہا 
"پھر ؟ کہاں گیا موبائل ؟ "انہوں نے پوچھا 

"امی ریلیکس! ضمیر خو انکی باتیں سن رہا تھا اسنے اپنی والدہ کو کہا اور پھر عرشی سے کہا 
تم آرام سے سوچ کر جواب دو کہ تم نے کسی کو اپنی کلاس میں سے باہر آتے ہوئے دیکھا تھا؟ " ضمیر نے پوچھا
"اسکی بات سن کر عرشی سوچ میں پڑ گئی اور پھر اسکے دماغ میں جھماکا سا ہوا ۔وہ چونکی اور پھر کہا جی بھائی !وہ ایک لڑکی ہے فرسٹ سیمسٹر کی ۔ہم جب نیچے اتر رہے تھے تو وہ گھبرائی ہوئی اوپر آرہی تھی۔شاید اس نے لیا ہو ۔"عرشی نے کہا
تو ضمیر نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا 
"آپ کل خود اسکے ساتھ جائیں کالج۔اور پرنسپل سے بات کریں۔" تو اسکی بات سن کر انہوں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

اگلے دن وہ اسکے ساتھ کالج گئیں لیکن آج نہ ہی پرنسپل آئی تھیں اور نہ ہی وائس پرنسپل۔تو عرشی نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہماری کلاس ٹیچر سے مل لیں تو وہ جاکر اسکی کلاس ٹیچر سے ملیں اور انہیں سب مسئلہ بتایا ۔
انہوں نےان کو اپنی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی کہ وہ چور کو بر آمد کرنے کی بھر پور کوشش کریں گیں۔
پھر اسی چیز کی تفتیش کرنے کے لئے انہوں نے اپنی پوری کلاس کو اسٹاف روم میں بلوایا اور عرشی کی والدہ کے سامنے ہی سب سے تفتیش کرنے لگیں۔
ابھی وہ بچوں سے پوچھ گچھ کر ہی رہی تھیں کہ مس شمیم اسٹاف روم میں آئیں ۔
اور آکر سب بچیوں سے کہا 

"آپ لوگوں کو علم نہیں ہے کہ آج میرا پہلا پیریڈ ہے۔جلدی کلاس میں آئیں" ۔
انکی بات سن کر مس تبسم نے کہا 
"شمیم عرشیہ کا موبائل چوری ہو گیا ہے !" تو انھوں نے آگے سے کہا 
"ماں باپ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو موبائل لیکر دے دیتے ہیں۔یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ وہ کس سے بات کر رہی ہیں" ۔عرشی کی والدہ نے یہ سنا تو انھوں نے غصے میں کہا 

"ہمیں تو علم ہے کہ ہماری بچیاں کس سے بات کرتی ہیں کیونکہ ہم نے بچیوں کی تربیت کی ہوئی ہے لیکن آپ کی جو تربیت ہوئی ہے وہ بھی صاف نظر آرہی ہے۔" تو کچھ لمحے کے لئے تو مس شمیم شاکڈ ہوئیں کیونکہ انکی باتوں کو سن کر آج تک کالج میں سب ٹیچرز خاموش ہو جایا کرتے تھے۔کیونکہ جو بھی تھا مس شمیم اپنی زبان سے لوگوں کے کردار داغ دار کر دیا کرتی تھیں۔اسلئے لوگ ان کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے تھے۔
لیکن آج انہیں انکے منہ پر کرارا جواب سننے کو ملا تھا۔

وہ مزید عرشی کی والدہ کو کچھ بولے وہاں سے چلی گئیں ۔
"جاو عرشی آپ بھی جاو" ۔مس تبسم نے عرشی سے کہا تو وہ بھی کلاس لینے چلی گئی۔
جیسے ہی وہ جاکر کلاس میں بیٹھی تو مس شمیم نے عرشی سے کہا
"اب ماضی کو بھول جاو ! پتہ ہے میرا موبائل بھی کھویا تھا اور اس میں پچیس ہزار بھی تھے۔" تو عرشی خاموشی سے ا نہیں دیکھتی رہی ۔

"اسے وہ آج بے حد زہریلی لگ رہیں تھیں اور آج وہ آخری دن تھا کہ مس شمیم کے لئے جو عزت عرشی کے دل میں تھی سب ختم ہو گئی تھی۔
اسے یہ نہیں برا لگا تھا کہ انہوں نے عرشی کو ڈانٹا تھا۔اسے یہ برا لگا تھا کہ اسکی والدہ کے سامنے مس شمیم نے بغیر کسی ثبوت اور وجہ کے اسکا کردار داغ دار کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی نہیں بلکہ اسکی ماں کی تربیت پر بھی انگلی اٹھائی تھی۔"

وہ خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھی جب فری نے عرشی سے کہا 
"اسے اگنور مارو! اسکا مقصد ٹینشن دینا ہے"۔ تو عرشی نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"یار ساری باتیں چھوڑو ! میرا دل باغ باغ ہو گیا تھا جب عرشی کی والدہ نے مس شمیم کو انکی تربیت کا کہا
" ۔فری نے کہا تو وہ دونوں بھی ہنسنے لگیں۔
"اور میں نے پہلی دفعہ مس شمیم کو میدان چھوڑ کر بھاگتے دیکھا" ۔اقصی نے لقمہ دیا تو پھر وہ لوگ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسیں۔

"آج مس شمیم کو علم ہوا ہوگا کہ جب وہ ہماری کردار کشی کرتی ہیں یا ہماری تربیت پر انگلی اٹھاتی ہیں تو ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے" ۔فری نے کہا
عرشی جو ان لوگوں کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی اسے اقصی نے مسکراتے دیکھا تو کہا
"بہن کچھ تم بھی بول لو!" 
"کیا بولو ؟ " عرشی نے کہا 

"کچھ بھی ۔" فری نے کہا 
"مثلن ؟ " عرشی نے پوچھا 
"مثلن یہ کہ ہنزہ کی شادی میں ایسا کیا ہوا تھا کہ تم گم صم رہنے لگ گئی ہو ؟ " 
اسکی بات سن کر عرشی نے کہا 
"تم لوگوں کو فضول میں شک ہو رہا ہے ۔۔کچھ بھی نہیں ہوا تھا ادھر۔" عرشی نے کہا 
"سچ؟" فری نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا 

"مچ " ۔۔عرشی نے کہا
"چلو جیسے تمہاری مرضی ۔" فری نے کہا تو وہ خاموش رہی ۔
اس نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ وہ یہ بات خود سے کسی کو بھی نہیں بتائے گی ۔اگر علی نے وہ بات کسی کو بتائی تو تب وہ بولے گی ورنہ نہیں۔
"کیونکہ اسنے کہی پڑھا تھا کہ آپکا راز تب تک ہی آپکا راز رہتا ہے جب تک وہ آپکے سینے میں دفن ہوتا ہے جب آپ وہ راز کسی کو بتا دیتے ہیں تو وہ آپکا راز نہیں رہتا بلکہ کسی اور کا وعدہ بن جاتا ہے۔"
اور عرشی اسی بات پر پیرا عمل تھی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ اس وقت ایک سنسان سڑک سے گزر رہا تھا جب اسکے موبائل پر عمر کامیسج آیا
ک"دھر ہو علی ؟ " 
"آرہا ہو " ۔علی نے ڈرائیو کرتے ہوئے عمر کو جواب دیا 
اتنے میں اسکی گاڑی کو اور ٹیک کرتی ہوئی ایک گاڑی اسکی گاڑی کے بلکل سامنےآکھڑی ہوئی ۔اگر وہ بروقت بریک نہ مارتا تو لازمی اسکی گاڑی سامنے والی گاڑی سے ٹکرا جاتی۔
اسی وقت اس گاڑی میں سے تین لڑکے باہر نکلے اور اس کی طرف بڑھے ۔

اسنے ان تین لڑکوں میں سے ایک کو تو پہچان لیا تھا وہ فہد تھا۔ جسکی اس نے پٹائی کی تھی۔
علی نے ان لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ بھی سیلٹ بیلٹ کھول کر اپنی گاڑی سے باہر نکلا۔تب تک فہد اسکے قریب پہنچ چکا تھا۔وہ اسکی طرف بڑھا اور کہا 
"آخر آج اکیلے میں پکڑے گئے۔اس دن تو اپنی محبوبہ کے سامنے بہت جوش کھا رہے تھے۔آج دیکھتے ہیں کتنا دم ہے۔"

"ویسے کہاں ہے آج وہ حسینہ ؟ ہاں کیا نام تھا ؟ فہد نے سوچنے کی ایکٹنگ کی اور پھر کہا 
"ہاں یاد آیا عرشی !" فہد کہتے ہوئے اسکی طرف بڑھا 
ا"پنی گندی زبا ن سے اسکا نام مت لے!تمھاری مجھ سے لڑائی ہے مجھ سے بات کر ۔اس تک مت جا ! " علی نے کہا 
اسکے بولتے دیکھ کر فہد کے ساتھ آئے دو نوں لڑکوں نے اسکے بازووں کو پکڑا 
"کیوں کیا کر لے گا ؟ ہاں؟" فہد نے اسکے بال پکڑتے ہوئے کہا 
"تمھاری ہڈی پسلی ایک کر دونگا !" علی نے کہا تو فہد نے اسکے منہ پر مکہ مارا اور پھرپے درپے لاتوں مکوں کی بارش کرتا چلا گیا ۔

جب وہ اسے مار مار کر تھک گیا اور وہ بلکل نیم جان سا ہو گیا تو اس نے جیب میں سے پسٹل نکالی اور اسکی بٹ کو زور سے اسکے سر پر مارا ۔اسی طرح ادو اور وار اس سے کئے اور پھر ساتھ آئے لڑکوں سے کہا 
"چلو !چھوڑو اسے تو انھوں نے اسے وہی زمین پر پھینکا اور پھر اسے اپنے بوٹوں سے ٹھوکریں مارتے وہاں سے چلے گئے ۔"

وہ نیم بے ہوش خون میں لت پت اپنی گاڑی کے سامنے پڑا تھا ۔
اچانک ادھر سے دو لڑکے گزرے۔
"یار یہ کوئی پڑا ہوا ہے ۔" ایک لڑکے نے کہا جسکی عمر کوئی سولہ سال کی تھی
"ہاں !" دوسرے نے بھی کہا 
"آو اسے اٹھائیں۔" پہلے والے لڑکےنے کہا
"کوئی ٹھگ ہوا تو ؟" دوسرے لڑکے نے کہا

"اللہ مالک ہے" ۔پہلا لڑکا کہتا اسکے پاس پہنچا اور اسکے پاس بیٹھ کر اسے سیدھا کیا۔ اس کی حالت دیکھ کر اسنے بے ساختہ کہا 
"یہ تو بہت زخمی ہے ۔ایمبولینس کو کال کرو یار !"
"اور پولیس ہمیں لے گئی تو ؟" دوسرے لڑکے نے کہا 
اتنے میں انہیں موبائل بجنے کی آواز آئی ۔
انھوں نے آواز کی سمت دیکھا جو زخمی نوجوان کے جیب میں رکھے موبائل سے آرہی تھی۔
پہلے والے لڑکے نے اسکی جیب سے موبائل نکال کر کال ریسیو کی۔
"ہیلو یار علی کدھر رہ گیا ہے ؟ ادھر سب آگئے ہیں ۔بس تمھارا ہی انتظار کر رہے ہیں۔عمر نے عادت کے مطابق اسکی سننے کے بجائے اپنی ہی سنائی گیا "

ہیلو ! اس لڑکے نے کہا 
علی کے موبائل پر اجنبی آواز سن کر عمر پہلے تو حیران ہوا 
"یہ بندہ کون ہے ؟ " اسنے سوچا،اور پھر پوچھا
"آپ کون ؟ "
"ہم یہاں سے گزر رہے تھے یہ یہاں زخمی پڑے ہوئے ہمیں ملے ہیں۔" اس لڑکے نے کہا
"کون ۔۔زخمی ؟ " عمر نے کہا 
"یہ جنکے موبائل سے میں بات کر رہا ہو۔" اس لڑکے نے کہا 

"آپ لوگ کدھر ہو ؟" اسنے بے چینی سے پوچھا تو لڑکے نے علاقہ بتا دیا 
"میں بس دس منٹ میں آتا ہوں۔آپ کال پر ہی رہو۔اور اسکے پاس رہو ۔" عمر نے جلدی جلدی کہتے ہوئے کہا 
"تقریبا آٹھ منٹ کے بعد وہ وہاں پہنچ چکا تھا۔"
اسے دور سے ہی علی کی گاڑی سائیڈ پر کھڑی دکھائی دے گئی تھی۔
عمر نے اسکی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کھڑی کی اور تیزی سے اسکی طرف بڑھا
"علی !" وہ بولتا ہوا اسکے پاس بیٹھا اور اسکی حالت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
اتنے میں ان دو لڑکوں میں سے ایک لڑکے نے اسے مخاطب کیا 

"ان کو ہسپتال لے جائیں۔" تو وہ ضبط کرتا اٹھا اور ان دولڑکوں کی مدد سے اسے اسکی گاڑی میں ڈالا اور خود اپنی گاڑی کو وہی لاک کر کے علی کو لیکر ہسپتال کے لئے نکل گیا۔
راستے میں اس نے حسین صاحب کو کال کر کے علی کا بتایا تو انہوں نے اسے اپنے دوست وسیم صاحب کے کلینک لے جانے کا کہا تو اس نے گاڑی کا رخ ڈاکٹر وسیم کے کلینک کی طرف کر دیا۔
وہ یہاں بہت دفعہ علی کے ساتھ آچکا تھا۔

ہسپتال پہنچتے ہی اسنے علی کو گاڑی سے نکال کر اسٹریچر پر ڈالا اور اندر لے گیا
کوریڈور میں ہی انہیں ڈاکٹر وسیم مل گئے تھے جنکو پہلے ہی حسین صاحب نے کال کر کے علی کا بتا دیا تھا۔
انہوں نے علی کی حالت کو دیکھتے ہوئے فورن اسکے اسٹریچر کو ایمرجنسی وارڈ میں بھیجا اور عمر کو تسلی دیکر خود بھی ایمبرجنسی وارڈ کی طرف بڑھ گئے۔
انکے جاتے ہی وہ وہی بینچ پر بیٹھ گیا۔
عکی خو اندر لے جائے کافی وقت ہوگیا تھا۔اور تب سے اب تک کوئی باہر نہیں آیا تھا۔وہ پریشان سا بیٹھا تھا کہ اسے حسین صاحب آتے دکھائی دئے۔
تو وہ انہیں دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ جب وہ اسکے قریب پہنچے تو پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ پوچھا 
"علی کیسا ہے ؟ " 

"پتہ نہیں ۔" اسنے جواب دیا تو وہ بھی اسکے پاس نیم جان حالت میں بیٹھ گئے تب ہی ایمرجنسی کا دروازہ کھلا اور وسیم صاحب باہر نکلے۔تو وہ دونوں ہی بے تابی سے انکی طرف بڑھے 
"کیسا ہے علی ؟ " انہوں نے آنکھوں میں امید لئے ان سے پوچھا 
"پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔ٹھیک ہے وہ۔لیکن خون بہت بہہ گیا ہے اورسر پر شدید چوٹ آئی ہے
" ۔انہوں نے ان دونوں کو اسکی علی کی حالت سے آگاہ کیا
"میں اسے دیکھ سکتا ہو،؟ " حسین صاحب نے کہا
"ہاں !ابھی تھوڑی دیر میں اسے روم میں شفٹ کر دیں گے۔لیکن وہ ابھی بے ہوش ہے۔"انہوں نے بتایا تو حسین صاحب نے سر ہلایا۔
تب وسیم صاحب عمر سے مخاطب ہوئے
"اسکی کسی سے دشمنی تھی ؟ " 
"نہیں !" عمر نے جواب دیا 
"اچھا !" انہوں نے کہا اور آگے بڑھ کر حسین صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"پریشان نہ ہو۔رب کا شکر ادا کرو کہ بڑا نقصان نہیں ہوا۔اگر کنپٹی پر چوٹ لگ جاتی تو اسکا پچنا مشکل تھا" ۔انہوں نے کہا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرا دئے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"پاپا اب بس !آپ مجھے ڈسچارج کروادیں۔" علی نے لجاجت سے حسین صاحب کو کہا 
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے عمر جاوید صاحب اور انکی وائف کو لیکر اندر آیا 
"ارے جاوید تم !" حسین صاحب نے انہیں دیکھا تو فورن آگے بڑھ کر ان سے گلے ملے ۔ان سے ملنے کے بعد جاوید صاحب علی کی طرف بڑھے تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھنے لگا 
"نہیں نہیں بیٹا !بس لیٹے رہو۔" انھوں نے کہا تو وہ مسکرا دیا
"اب کیسی طبیعت ہے ؟" انہوں نے پو چھا 
"اب تو ٹھیک ہو گیا ہو" ۔اسنے کہا 

"یہ مسلسل مجھ سے ضد کر رہا ہے کہ ڈسچارج کراو" ۔حسین صاحب نے بتایا 
"ایک دن اور رہ لو علی ! "جاوید صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے کہا 
"انکل تین دن ہو گئے ہیں اور اب میں کافی ٹھیک ہوں " ۔اسنے کہا
"ماننی اسنے کسی کی بھی نہیں ہے " ۔حسین صاحب نے کہا جس پر جاویدصاحب مسکرائے 
تب ہی عمر علی کی طرف جھکا اور بلکل مدہم سی سرگوشی میں اسے کہا
"انکل کو میں مشورہ دونکہ عرشی سے کہلوائیں سر کے بل مانے گا۔"
اسکی بات پر علی نے اسے گھور کر دیکھا جسے نظر انداز کرتے ہوئے عمر نے مزید گوہر افشانی کرتے ہوئےکہا 

"ویسے کیسا محسوس ہو رہا ہے عرشی کو انکے ساتھ نہ دیکھ کر !"
"تم اپنی بکواس بند کر دو! " علی نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا
"اوہو !ہاں یار ۔اب میری بکواس کیوں اچھی لگے گی ۔اب تو آپ کو کسی اور کی بکواس اچھی لگتی ہے۔" عمر نے اسکی حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے کہا 
"عمر کے بچے ! " علی نے دانت کچکچائے ۔
"ہاں یار میں سمجھ سکتا ہوں تمھاری حالت کو۔جسکی خاطر اتنی مار کھائی وہی نہیں آئی۔دکھ ہے بھائی بہت بڑا دکھ۔" عمر نے اسکے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مصنوعی ہمدردی سے کہا 
جس پر علی نے اسکے ہاتھ کو جھٹکنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا لیکن تکلیف سے کراہ کر رہ گیا۔
"کیا ہوا ؟" اسکی کراہ سن کر عرشی کی والدہ نے اس سے پوچھا 

"نہیں آنٹی کچھ نہیں !" علی نے انکو مسکراتے ہوئے جواب دیا جس پر عمر نے پھر سرگوشی کی 
"چلوکوئی نہیں میرے بھائی !لڑکی نے ناں سہی لیکن ساس نے پوچھ لیا ہے ۔میرے خیال میں تمھارے لئےاتنا کافی ہے۔" عمر نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا 
اب کی بار علی نے عمر کو کچھ کہنے کے بجائے بس گھورنے پر اکتفا کیا تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا۔
کچھ دیر کے بعد وہ لوگ واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 
حسین صاحب سے گلے ملے ہوتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا
"اب انشااللہ گھر پر ملنے آونگا " ۔ جس پر حسین صاحب نے کہا
"میری بیٹی کو بھی لیکر آنا " ۔تو وہ ہنس دئیے اور پھر کہا 

"ضرور۔" 
"تمھارے دل کی آواز آخر انکل نے سن ہی لی " ۔عمر کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی۔
"تم۔۔۔۔" ابھی لفظ علی کے منہ ہی میں تھے جب جاوید صاحب نے اسے مخاطب کیا 
"ااپنا دھیان رکھنا علی !انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور خداحافظ کہتے وہاں سے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
جاری ہے

Post a Comment

0 Comments