Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghar lamhe epi 9

Yaadghar lamhe:


Yaadghar lamhe


قسط 9

 "میں کل نہیں آونگی "۔عرشی نے اقصی اور فری کو بتایا


"کیوں "؟ ان لوگوں نے پوچھا 


"میری بچپن کی دوست ہے اسکی شادی ہے۔"اسنے کہا


"ہائے خوش نصیب لڑکی ہے۔ایک ہم ہیں ابھی تک کنوارے گھوم رہے ہیں" ۔اقصی نے کہا جس پر عرشی نے فائل اٹھا کر اسے ماری۔


"سچ ہی تو بول رہی ہوں ظالموں! " اقصی نے دہائی دیتے ہوئے کہا 


"ہم اپنے گھروں میں ٹھیک ہیں بہن !تم ہی کرو شادی "۔عرشی نے کہا


"مطلب ابھی تم نے اپنی امی کو اور بھی پریشان کرنا  ہے ؟ "اقصی نے کہا


"ہاں ناں! "عرشی نے جواب دیا تو اقصی نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا


"کوئی حل نہیں ہے عرشی تمھارا "۔تو وہ ہنسنے لگ گئی جبکہ فری جو مسکراتے ہوئے ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی کچھ یاد آنے پر فورن کھڑی ہوئی تو ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا 


"کیا ہو گیا ہے فری ؟" اقصی نے کہا


"یار مجھے مس روبینہ سے پرسوں کی پریزینٹیشن کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا ہے" ۔فری نے اپنی فائل اٹھاتے ہوئے کہا تو اقصی نے کہا


"رکو ! میں بھی اپنے ٹاپک کے بارے میں پوچھونگی"۔وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی 


"عرشی تم نہیں جا رہی ؟" اچانک فری نے کہا


"نہیں یار ! میں اسائمنٹ بنا رہی ہوں تم لوگ جاو" ۔ اسنے ان دونوں کو کہا تو وہ لوگ کندھے اچکاتی چلدیں۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد وہ لوگ واپس آئیں۔


"ہو گیا تم لوگوں کا کام ؟ " عرشی نے  ان دونوں سے پوچھا


"ہاں ہو گیا ! " فری نے کہا 


" مس تمھارا بھی پوچھ رہی تھی کہ عرشی کیوں نہیں آئی ؟ " اقصی نے بتایا


"پھر ؟ تم لوگوں نے کیا کہا ؟ " اسنے پوچھا


"کیا کہتے ہم لوگ ؟ یہی بولے کہ مس وہ اسائمنٹ بنا رہی ہے اسلئے  نہیں آئی"  ۔اقصی نے کہا


"اور پھر آپکو علم ہے کہ مس نے کیا کہا ؟"  فری نے کہا


"نہیں کیا کہا مس نے ؟ " عرشی نے اسے سوالیہ انداز میں دیکھا


"یہی کہ عرشیہ کے لئے اسائمنٹ امپورٹنٹ ہے پریزینٹیشن امپورٹنٹ نہیں ہے کیا ؟" اقصی نے بتایا


تو وہ پریشان ہوتے ہوئے بولی


"پھر ؟ "


"پھر کچھ نہیں ! ہم لوگ خاموش رہے " ۔فری نے کہا اور پھر اسکی روہانسی شکل دیکھتے ہوئے کہا


"اسلئے ہم تمہیں کہتے ہیں کہ ٹیچروں کے زرا آگے پیچھے ہوا کرو"  جسے سن کر اقصی ہنسنے لگی۔اور عرشی خاموشی سے انھے دیکھتی رہی۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"امی یہ والا سوٹ پہنوں کہ یہ والا ؟ "عرشی دوسوٹ لئے کچن میں آئی


"یہ پہنو ! " انھوں نے پیلے کلر کی قمیض اور مہندی کلر کی شلوار والے سوٹ کی طرف اشارہ کیا 


"لیکن مجھے یہ پیارا لگ رہا ہے"  ۔اسنے دوسرا سوٹ آگے کیا تو انھوں نے کہا


"ہاں یہ بھی پیارا ہے یہ پہن لو " ۔وہ کہہ کر خود دوبارہ کھانا بنانے لگیں۔


"بتائیں ناں کون سا پہنوں ۔ "اسنے پھر کہا


"جو اچھا لگ رہا ہے وہی پہن لو لیکن جلدی تیار ہو جاو "۔ تو وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی اور پھر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


"امی عرشی کو بولیں آبھی جائے"  ۔ضمیر نے اکتاتے ہوئے کہا تو وہ اسکو بلانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔لیکن جیسے ہی وہ اسکے کمرے کے قریب پہنچیں تو وہ اچانک کمرے سے باہر نکلی ۔انھوں نے اسے دیکھا تو بے ساختہ دل میں ماشااللہ کہا 


وہ بلکل سمپل سے میک اپ میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔


"آجاو عرشی میں تمہیں ہی بلانے آرہی تھی۔ ضمیر کب سے تمھاراا نتظار کر رہا ہے۔" ا نھوں نے اسے کہا 


"یہ لاک بند کر دیں" ۔اسنے اپنی کلائی آگے کی تو وہ لاک بند کرنے لگیں۔


"چلو اب! "لاک بند کرنے کے بعد انھوں نے اسے کہا


"میں کیسی لگ رہی ہو " ؟ انکے ساتھ چلتے عرشی نے اچانک ان سے پوچھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتیں 


ضمیر کی آواز آئی 


"امی ! عرشی جلدی آئیں ناں " ۔اسکی پکار پر انھوں نے اسے دیکھا اور پھر کہا


"جلدی چلو ورنہ یہ سارا گھر سر پر اٹھا لے گا"  ۔ تو وہ انکے ساتھ جلدی جلدی چلنے لگی۔


۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


وہ  دونوں ضمیر کے پاس پہنچیں تو وہ ٹیبل پر سے گاڑی کی چابیاں اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا 


"امی دیکھیں ! اس پر تو میک اپ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا ۔ویسی ہی فقیرنی لگ رہی ہے " ۔اسنے کہا 


"جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہیں ناں امی " ؟عرشی نے اسے کہتے ہوئے اپنی امی کو  دیکھا 


"ہاں امی سچ سچ بتائیں بلکل فقیرنی لگ رہی ہے کہ نہیں ؟ " ضمیر نے شرارت سے کہا 


"امی دیکھیں ناں !" عرشی نے اپنا رخ اپنی والدہ کی طرف کیا


"ہاں ہاں دیکھیں امی کتنی عجیب سی لگ رہی ہے میک اپ میں"  ۔۔ضمیر نے عرشی کے بال کھینچتے ہوئے کہا 


اس سے پہلے کہ انکی لڑائی مزید جاری رہتی وہ فورن آگے بڑھیں  اور کہا


"بس کرو تم لوگ !


جاو ضمیر عرشی کو چھوڑ آو۔" 


تو وہ اسے آنے کا اشارہ  کرتا خود  لاونج سے نکل گیا ۔


"دھیان سے جانا ۔اور تم دونوں راستے میں لڑائی مت کرنا" ۔۔انھوں نے اسے تاکید کی تو وہ سر ہلاتی  رہ گئی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"کہاں ہو تم عرشی ؟" اسکے موبائل پر ہنزہ کی کال آئی ۔


"آرہی ہوں"  ۔اس نے جواب دیا 


"ہو کدھر ؟ گھر پر ہو ؟ " اسنے پوچھا 


"نہیں یار !راستے میں ہوں۔بس پہنچنے والی ہوں " ۔اسنے بتایا 


چلوٹھیک ہے پھر۔جلدی آو۔ہنزہ نے کہہ کر کال بند کر دی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

پندرہ منٹ کے بعد وہ لوگ ہنزہ کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔


وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔اور ضمیر سے کہا


"آپ جائیں بھائی ! "


"لیکن تم اکیلی کیسے واپس آو گی " ؟ ضمیر نے پریشانی سے کہا 


"میں رات یہی رکونگی۔کل مجھے آپ یا بابا لینے آجائیے گا" ۔اسنے کہا 


تو  ضمیر نے کہا 


"امی سے اجازت لی ہے رکنے کی ؟ "


"جی !" اسنے جواب دیا تو وہ مطمئن ہوا پھر کہا 


"اچھا چلو میں تمہیں گیٹ کے اندر تک  چھوڑ کر آتا ہو" ۔وہ کہہ کر خود گاڑی سے باہر نکلا  اور اسے لیکر گیٹ کی طرف بڑھا۔


"چلو اب جاو  اندر۔"اسنے گیٹ کے پاس پہنچ کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا یا


اس سے پہلے کہ وہ اندر جاتی اچانک  ہنزہ کے والد گیٹ سے باہر آئے۔ا سے گیٹ کے پاس کھڑے دیکھا تو اسکے پاس چلے آئے۔


"کیسی ہو بیٹا ؟"  انھوں نے پوچھا 


"میں ٹھیک ہوں انکل" ۔۔اسنے جواب دیا 


اتنے میں انکی نظر ضمیر پر پڑ چکی تھی تو وہ اسکی طرف بڑھے۔


"کیسے ہوضمیر ؟ " انھوں نے کہتے ہوئے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا 


جسے اسنے مسکرا کر تھام لیا  اور کہا 


"میں ٹھیک ہوں انکل ۔"


"آو بیٹا اندر آو"  ۔انھو ں نے ضمیر کو  کہا تو اسنے جواب دیا 


"نہیں بس عرشی کو چھوڑنے آیا تھا۔اب جا رہا ہو"۔۔تو انھوں نے سر ہلایا اور پھر اسکے ساتھ چلتے اسکی گاڑی تک گئے۔


"خداحافظ انکل !" اس نے کہا اور خود گاڑی آگے بڑ ھا لے گیا ۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


ابھی وہ گیٹ سے اندر ہی گئی تھی کہ ہنزہ کی پھر کال آنے لگی۔


اسنے جیسے ہی ریسیو کی تو اسنے چھوٹتے ہی کہا


"عرشی جاو مر جاو ! میں یہاں پاگلوں کی طرح تمھارا انتظار کر رہی  ہو اور تم نجانے کدھر ہو ؟" 


"سانس لے لو لڑکی ! آگئی ہوں میں ۔گیٹ کے اندر کھڑی ہوں۔" وہ راستے کے بیچوں بیچ کھڑی فون پر بات کر ہی رہی تھی کہ اسے ایکسکیوز می کی آواز سنائی دی۔


وہ جیسے ہی پیچھے مڑی تو سامنے اسے علی کھڑا دکھائی دیا۔


"یہ مغرور حضرت بھی ادھر ہیں۔" اسنے دل میں کہا  اتنے میں علی نے اسے کہا 


"محترمہ ! آپ فون پر  بات کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ بھی لیا کریں" ۔تو اسنے شرمندہ ہوتے ہوئے اسے سوری کہا تب تک دور سے آتے عمر نے ان دونوں کو بات کرتے دیکھ لیا تھا۔تو عمر نے علی  کو آواز دی ۔


"علی !اسکے پکارنے پر دونوں ہی  اسکی طرف  دیکھنے لگے تو وہ ہاتھ ہلاتا انکی طرف آیا اور آکر علی  سے گلے ملا  پھر اسنے عرشی کو سلام کیا ۔

جس پر عرشی پہلے تو ہونق ہوئی کہ یہ انجان بندہ مجھے کیوں سلام کر رہا ہے  ۔پھر سوچا 


"ایسے ہی کر رہا ہوگا " یہ سوچ کر اسنے عمر کو کچھ کہنے کے بجائے سر ہلا کر سلام کا جواب دے دیا  ۔


اتنے میں ہنزہ کی کزن  مبشرہ وہاں سے گزری تو اسنے عرشی کو دیکھا 


"شکر ہے عرشی باجی آپ  مجھے مل گئیں۔مجھے ہنزہ باجی نے آپکو لینے بھیجا ہے "۔اسنے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا  اور اپنے ساتھ لے گئی۔جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئی علی اسے دیکھتا رہا ۔


"بھائی چلی گئی ہے وہ ۔آجا خیالوں سے باہر" ۔اچانک عمر نے اسکا  بازو ہلایا تو اسنے اسکی طرف دیکھا  اور پھر شرمندہ ہو گیا۔


"واہ کیا بات ہے ؟ آج تو  اپنی ہونے والی وائف کو ساتھ لیکر مہندی میں شرکت کرنے آئے ہو" ،۔عمر نے کہا 


"نہیں ہم الگ الگ آئے  تھے۔" علی نے اسکی غلط فہمی دور کر نے کی کوشش کی۔


"میں  سمجھا تھا کہ تم انہیں اپنے ساتھ لائے ہو ۔" عمر نے کہا


"نہیں یار ۔" علی نے کہا 


"میرے خیال سے یہ ہنزہ بھابھی کی دوستوں میں سے ہیں ۔" عمر نے پر سوچ انداز میں کہا 


"ہو سکتا ہے" ۔علی نے کہا 


"چلو کوئی تو فائدہ ہوا اس ارینج مہندی کا۔کم از کم تم لوگ ملے تو سہی۔" عمر نے کہا تو علی نے اسکے کندھے پر مکا مارا۔


"فواد کدھر ہے ؟"  علی نے پوچھا 


"تمہارے پیچھے ۔" اسے اپنے پیچھے سے آواز آئی تو وہ فورن پیچھے مڑا 


سامنے ہی فواد کھڑا تھا ۔


علی اس سے گلے ملا ۔۔


"شکر ہے تم آگئے۔ورنہ مجھے لگتا تھا کہ تم نہیں آوگے" ۔فواد نے کہا


"ایسی بھی بات نہیں یار ! تم بلاو میں نہ آو  ۔ایسا ہو سکتا تھا بھلا " ۔علی نے کہا 


ا"وہو !! ڈائیلاگ ۔" فواد ہنسا 


"بس محبوبہ سے ملنے کے بعد کا کچھ یہ حال ہے ۔" عمر نے ہنستے ہوئے  لقمہ دیا  


"واقعی ؟ " فواد نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے پوچھا 


"نہیں یار !ایسے ہی بکواس کر رہا ہے یہ " ۔اس نے عمر کو گھورتے ہوئے کہا 


"مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے " ۔فواد نے کہا 


"پوری دال کالی ہے کیونکہ ملکہ مسوڑ ہے۔" اسنے کہا تو تینوں ہاتھ پر ہاتھ مار ہنس دئیے۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


مبشرہ اسے لیکر  ہنزہ کے کمرے میں پہنچی جہاں پہلے سے بہت سی لڑکیاں جمع تھیں۔


ہنزہ نےجیسے ہی  اسے دیکھا تو  فورن اٹھ کھڑی ہوئی اور  اسکی طرف بڑھی۔


"بڑی جلدی آئی تم ! " ہنزہ نے کہا تو وہ ہنس دی 


"شکر کرو آگئی میں " ۔عرشی نے جواب دیا  اور پھر کہا 


"پیاری لگ رہی ہو۔ "


" شکریہ !لیکن مجھے  بہت عجیب سا لگ رہا ہے ۔ " ہنزہ نے آہستہ سے کہا تو عرشی چونکی اور اسکا ہاتھ پکڑا 


"کیا ہوا ہے ؟ "  تو ہنزہ  نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر  اپنی ایک بڑی کزن کو کہا 


سب کو زرا باہر جانے کا کہہ دیں۔میں تھوڑی دیر بغیر شور کے بیٹھنا چاہتی ہوں تو انھوں نے اسکی کیفیت سمجھتے ہوئے سب لڑ کیوں کو باہر بھیج دیا ۔جب عرشی  بھی باہر جانے لگی تو  ہنزہ نے کہا 


"رکو عرشی !تم یہی رہو تو وہ وہی رک گئی۔" جب سب لڑکیاں باہر چلی گئیں تو اسنے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا اور پھر عرشی کا ہاتھ پکڑ  کر  بیٹھ گئی ۔


"مجھے بہت  گھٹن ہو رہی ہے عرشی !مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے  کہ میں نے ٹھیک کیا ہے کہ غلط"  ۔ہنزہ نے  بہرائ ہوئی آواز میں کہا 


"تم نے جو کیا ہے بلکل ٹھیک کیا ہے بس اب پریشان نہ ہو ۔ اور دیکھنا تم بہت خوش رہو گی۔بس اللہ پر یقین رکھو اور اپنے دل سے الٹے سیدھے وسوسے نکالو۔" عرشی نے اسکا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا  تو ہنزہ نے سر ہلایا 


ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ہنزہ کی والدہ کی آواز آئی ۔


" دروازہ کھولو ہنزہ !"  تو اسنے اٹھ کر دروازہ کھولا 


"تمھاری پھوپھو کہہ رہی ہیں کہ تمہیں رسم کے لئے نیچے لیکر آئیں" ۔پھر انھوں نے اسکے پیچھے کھڑی عرشی کو دیکھا  تو  آگے بڑھیں اور اسے اپنے ساتھ لگایا 


"تم کب آئی عرشی؟"  انھوں نے کہا 


"ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی ہے۔" اسنے جواب دیا  تو  وہ اچھا کہتی ہنزہ کی طرف مڑیں۔


"میں لڑکیوں کو اندر بھیج رہی ہوں" ۔انھوں نے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔


کچھ ہی دیر کے بعد  ہنزہ کو  وہ لوگ رسم کے لئے نیچے لے گئے۔


عرشی بھی اسکے ساتھ ساتھ ہی چل رہی تھی ۔لیکن جیسے ہی ہنزہ اسٹیج پر جاکر بیٹھی تو وہ چپکے سے وہاں سے نکل  گئی اور  تھوڑے اندھیرے میں جاکر بیٹھ گئی ۔


علی جو وہاں مدہم روشنی اور لوگوں کی بھیڑ نہ  ہونے کی وجہ سے سگریٹ پینے آیا تھا اسے  کچھ ہی فاصلے سے چوریوں کے کھنکنے کی آواز آئی  تو وہ چونکا  اور پھر اسنے  آواز کی سمت دیکھا توندہم سی دوشنی میں  اسے عرشی آتی دکھائی دی۔


اسے دیکھتے ہی اسنے اپنا رخ تھوڑا اوٹ میں کیا۔جب کہ وہ اپنے ہی دھیان میں اسکے پاس سے گزری تو  اس نے بے ساختہ لاشعوری کے عالم میں  سگریٹ والا ہاتھ ٹیبل کے نیچے کر دیا۔


وہ اسکے پاس سے گزر کردرخت کے پیچھے رکھے ٹیبل پر جاکر بیٹھ گئی تو وہ بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔


"یہ ہمیشہ اندھیرے میں کیوں بیٹھتی ہے " ؟ اس نے دل میں سوچا  ۔اب عرشی کے وہاں ہوتے ہوئے وہ  سگریٹ تو پی نہیں سکتا تھا اسلئے  ہاتھ میں پکڑا سگریٹ  زمین پر پھینک کر پاوں سے اسے مسل دیا اور پھر جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسے وہاں سگریٹ پیتا ہوا دیکھے ۔اسلئے خاموشی سے وہاں سے اٹھا اور جا کر عمر  کے پاس کھڑا ہو گیا ۔


"تم اتنی جلدی سگریٹ پی آئے ؟"  عمر نے اس سے پوچھا 


"نہیں بس وہ موڈ نہیں رہا  تو واپس آگیا " ۔علی نے جواب دیا تو عمر  نے اسے کہا 


"آو وہاں فواد کے پاس جاتے ہیں۔" اسنے اسٹیج کی طرف اشارہ کیا 


جہاں اب ہنزہ کی دوستیں رسم  کر رہی تھیں۔ اسنے ایک نظر اس طرف دیکھا جہاں مدہم روشنی  میں عرشی بیٹھی تھی ۔اور پھر سامنے کھلکھلاتی رسم کرتی لڑکیوں کو دیکھا 


"یہ ان کی طرح بی ہیو کیوں نہیں کرتی ؟ " علی نے سوچا 


"پاپا سہی کہتے ہیں یہ بہت گہری ہے ۔" اسنے دل ہی دل میں اپنے والد کی بات سے اتفاق کیا۔ 


"اور  جیب میں  موبائل نکالنے کے لئے ہاتھ ڈالا  تو اسے یاد آیا کہ وہ موبائل وہی بھول آیا ہے ۔" 


"تو اسنے عمر سے کہا میں اپنا موبائل وہاں بھول آیا ہوں۔تم فواد کے پاس جاو میں بھی موبائل لیکر  آتا ہوں" ۔تو وہ سر ہلاتا  فواد کی طرف بڑھ گیا۔


جبکہ وہ اس ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں وہ بیٹھا تھا ۔


اسنے وہاں جاکر ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا ۔ابھی وہ جانے ہی والا تھا کہ اسے عرشی کی آواز  آئی 


"میرا ہاتھ چھوڑیں" ۔


"یہ کسے کہہ رہی ہے ؟ " اس نے دل میں سوچا اور پھر تھوڑا آگے ہو کر دیکھا  تو وہ حیرت زدہ رہ گیا 


"یہ تو فواد کے بڑے بھائی فہد  تھے ۔جو مسلسل عرشی کا ہاتھ کھینچ رہے تھے۔"


"تم چلو میرے ساتھ! فہدنے  اسکا  ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا  جسکی وجہ سے بہت سی چوڑیاں ٹوٹ کر اسکی کلائی کو زخمی کر گئی ۔۔


"میں نہیں جاونگی۔آپ کون ہیں۔" وہ مسلسل روتے ہوئے اس سے اپنا  ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی  جب کہ وہ بندہ  مکروہ ہنسی ہنس رہا تھا


"تم چلو تو میرے ساتھ۔پھر بتاتا ہونکہ کون ہوں میں۔" 


اس سے زیادہ سننے کی علی میں برداشت نہیں تھی وہ فورن آگے بڑھا  اور فہد کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف اسکا رخ کیا  


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے چھونے کی ؟"  علی نے کہا 


"دیکھ علی بیٹھ کر بات کرتے ہیں " ۔فہد نے کہا 


تو اس نے فہد کے گریبان کو جھٹکا دیا  اور پھر کہا 


"بول !کیوں اسکا ہا تھ پکڑا ہوا تھا ؟ " 


"میں بس انھیں یہ کہہ رہا تھا کہ ہنزہ کے پاس جا کر بیٹھیں۔اور یہ نجانے کیا سمجھیں ۔مجھے نہیں علم تھا کہ یہ ہنزہ کی دوست نہیں ہیں بلکہ تمہارے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔" فہد نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے جھوٹ کہا 


جسے سن کر وہ ایک لمحے کے لئے دنگ رہ گئی  اور علی کو مزید طیش آگیا


"سالے تجھے میں بتاتا  ہوں کہ میں کون ہوں" ۔کہتے ہوئے اس نے فہد کو مکا مارا ۔جسکے جواب میں فہد نے بھی اسے مکہ مارا  اور پھر دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔


وہ سن سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اچانک علی نے کرسی اٹھا کر فہد کو ماری   اور پھر پے درپے مارتا  چلا گیا۔تو وہ علی کی طرف بھاگی۔


"علی چھوڑیں ! بس کریں۔"اسنے علی کی  شرٹ کو کمر سے پکڑکے کھینچتے ہوئے روتے ہوئے  کہا 


"تم ہٹو عرشی!" اسنے کہتے ہوئے  پھر  کرسی فہد کی ٹانگوں پر ماری 


عرشی نے ایک نظر اردگرد دیکھا خوش قسمتی سے اس طرف کوئی بھئ نہیں تھا اور باقی لوگ بھی اسٹیج پر ہوتی رسموں میں مصروف تھے ۔وہ دوبارہ علی کی طرف بڑھی۔


"خدا کے لئے علی بس کر دیں۔کوئی دیکھ لے گا۔یہ مر جائے گا۔شادی والا گھر ہے۔" اسنے منت کرتے ہوئے پھر اسکا ہاتھ پکڑا  تو وہ کرسی ایک طرف پھینک کر خود اسکا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔


"وہ اتنے غصہ میں تھا کہ اس میں اسے ناں کرنے کی  ہمت ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ بتانے کی ہمت ہوئی کہ وہ آج ہنزہ کے گھر رکنے والی تھی ۔وہ اسے اپنے ساتھ لئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا اور فرنٹ ڈور کھول کر اسے پھینکنے کے سے انداز میں سیٹ پر پھینکا  اور خود ڈرایئونگ سیٹ پر آکر  بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔"


جب  گاڑی اس جگہ سے دور ہوئی تو اسنے سڑک  کے کنارے گاڑی روکی اور اسکی طرف رخ کیا جو کونے میں دبکی بیٹھی مسلسل رو رہی  تھی۔


"تم خود بہت بڑی ہو گئی ہو جو  اکیلی شادیاں اٹینڈ کرنے نکل پڑی ہو ؟"  علی نے اسے کہا  


"امی بزی تھیں تو میں آگئی" ۔وہ  اسکی بات پرکچھ لمحے اپناغصہ ضبط کرتا رہا لیکن جب نہ برداشت ہوا تو  کہنے لگا 


"اگر آہی گئی تھی تو کونے میں اندھیرے میں بیٹھنے کی کیاضرورت تھی ؟ ہیں ؟ ایسا کون سا دکھ ہے تمہیں جو تم ہر وقت ہر کسی کے فنکشن میں کونوں میں چھپتی ہو ؟ " وہ چیخا  تو وہ مزید سر نیچے کرکے رونے لگی


" میری بات غور سے کان کھول کر سن لو ! آئندہ کے بعد تم کسی بھی حالت میں ہنزہ سے نہ ہی اسکے گھر میں ملو گی نہ ہی کہیں باہر۔ اگر وہ تمہارے گھر آتی ہے تو مل لینا۔ورنہ نہیں ۔سمجھ آئی میری بات " ؟ علی نے کہا


تو وہ جواب دینے کے بجائے خاموشی سے روتی رہی ۔جس  پر اسکو مزید غصہ آیا 


"تمہیں کہہ رہا ہوں میں کہ آئندہ کے بعد اگر تم ہنزہ سے ملی تو اچھا نہیں ہوگا ۔سمجھ آئی میری بات ؟ " اسنے غصہ میں کہتے ہوئے اسکی کلائیوں کو زور سے پکڑ کر دبایا 


"جو تھوڑی بہت چوڑیاں اسکی کلائیوں میں تھیں وہ بھی ٹوٹ کر اسلی کلائیوں میں کھب گئییں اور کچھ نے علی کی ہتھیلیوں کو زخمی کر دیا ۔" 


"لیکن وہ اس وقت ہر طرح کے درد سے لاپرواہ بے انتہا انتشار میں تھا۔اسکی نظروں کے سامنے پھر وہ منظر گھوما جب  فہد نے عرشی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا تو اسنے بے ساختہ اپنی ہاتھ کی گرفت اسکی کلائیوں پر مضبوط کی ۔جس کی وجہ سے عرشی کے منہ سے سسکی نکلی "


"سمجھ آئی ناں میری بات " ؟ علی نے کہا


"جی ! " اسنے اثبات میں سر ہلایا  تب ہی اسکا موبائل بجا تو اسنے ایک ہاتھ سے موبائل جیب سے نکالا اور  نمبر دیکھا 


"ہاں بولو عمر ؟"  اسنے کال ریسیو کر کے کہا


"یار تم کدھر ہو ؟"  عمر نے پوچھا 


"میری کچھ طبیعت نہیں ہے میں گھر کے لئے نکل گیا ہوں۔" علی نے بہانہ بنایا 


ی"ار ادھر فواد بھائی کے بھائی کی کسی نے بہت گندی والی پٹائی کی ہے ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس لڑکے کو نہیں جانتے " تو ایک طنزیہ مسکراہٹ علی کے چہرے پر آئی 


"اچھا۔۔تم ایسا کرو تم بھی گھر جاو۔" علی نے اسے کہا  تو  عمر نے کہا 


"ہاں یار تو بھی ریسٹ کر"  ۔۔کہہ کر کال بند کر دی 


عرشی  پر غصہ اتارنے کے بعد اسکا موڈ کچھ بہتر  ہو گیا تھا  ۔اسلئے وہ عمر سے نارمل انداز میں بات کر پایا تھا ۔


"موبائل دوبارہ جیب میں رکھ کر  علی نے اسے دیکھا  جسکا منہ رونے سے سرخ ہو رہا تھا   اور آنسو  مسلسل گالوں پر بہہ رہے تھے ۔اسنے ایک نظر اسے دیکھا  اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے اسکے ہاتھ کو دیکھا تو پہلے تو اس نے   اسکا ہاتھ چھوڑا اورپھر  ڈیش بورڈ سے ٹشو پیپر کا  ڈبہ اٹھا کر عرشی کے  آگے  پکڑا ۔"


"اس نے ٹشو لینے کے بجائے  منہ دوسری طرف کر لیا  کچھ  منٹ تک وہ اسکے آگے ٹشو کا ڈبہ پکڑے رہا  جب اسنے ناں لیا تو علی نے مسکراہٹ دبا تے ہوئے  ٹشو کا پیکٹ دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھا اور  خود گاڑی  اسٹارٹ کر دی۔


وہ ڈرائیو کرتے ہوئے کن اکھیوں سے اسے بھی دیکھ رہا تھا جو مسلس روئی جا رہی تھی۔


کچھ آگے جاکر  اسنے  گاڑی روکی ۔اور پانی کی بوتل لے  کر آیا۔


بیٹھنے کے بعد اسنے بوتل عرشی کی طرف بڑھائی  لیکن اس نے ٹشو کی طرح پانی کی بوتل بھی نہیں لی  تو جس پر اسے بے حد غصہ آیا اسنے بوتل اسکی گود میں رکھی اور کہا 


"میں نہ ہی تمھارا بھائی ہو جو تمھارے یہ نخرے برداشت کرونگا اور نہ  تمھارا  والد ہوں اور نہ میں اپنے پاپا کی طرح ہوں جو تمھارے ان نخروں کو  آرام سے برداشت کرونگا۔خاموشی سے پانی پیو اور اب مجھے تمھارے رونے کی آواز نہ آئے ۔مجھے رونا  سننا بلکل پسند نہیں" ۔کہہ کر اسنے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔


باقی کا تمام راستہ وہ اپنی سسکیاں منہ ہی منہ میں دباتی رہی۔۔جب گاڑی اسکے گھر  کے سامنے جاکر رکی تو  وہ کچھ کہے بغیر اتری اور بھاگنے کے سے انداز میں اپنے کی طرف بڑھ گئی۔دو تین منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور وہ اپنے گھر میں داخل ہو گئی۔


اسے اسکے گھر میں داخل ہوتا دیکھا تو مطمئن ہوتےہوئے  علی نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کی ۔لیکن اچانک اسکی نظر  فرنٹ سیٹ کے پاس گری بوتل پر پڑی جو اب بھی سیل تھی۔


"مطلب اسنے پانی نہیں پیا تھا۔۔"


"مطلب آپ ضدی بھی ہیں عرشی صاحبہ" ۔۔۔۔اسنے مسکراتے ہوئے سوچا اور گاڑی  آگے بڑھا دی۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments