Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghar lamhe epi 7

Yaadghar lamhe:


Yaadghar lamhe
 

 قسط 7

اور اسکی چھوٹی بہن اندر داخل ہوئی۔
اسے اسطرح زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا تو وہ پریشان سی اسکی طرف بڑھی۔


"کیا ہوا اسرا؟"


"سب ٹھیک ہے ناں؟ " فارحہ نے اسے ہلاتے ہوئے کہا تو اسنے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا


"کیا ہوا ہے؟" فارحہ نے اسکی لال آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"کس چیز کی کمی ہے مجھ میں ؟ "اسنے فارحہ کے ہاتھوں کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا


"اپنے آپکو سنبھالواسرا"  ۔اسنے اسرا کو کہا


"تم مجھے بتاو ناں فارحہ ۔وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ وہ مجھے کیوں ریجیکٹ کر رہا ہے؟ اسے میں کیوں نہیں نظر آتی؟" اسرا نے روتے ہوئے کہا


فارحہ نے ایک لمحہ اسے دیکھا اور پھر کہا


"تم یہ بات قبول کیوں نہیں کرتی اسرا کہ تم وہ لڑکی نہیں ہو جس سے وہ شادی کرے گا ۔ اسکی ترجیحات اور ہیں ۔ وہ اپنے مزاج اور اپنی روایات کے مطابق چلنے والی لڑکی سے شادی کرے گا ۔ اگر اسنے تم سے شادی کرنی ہوتی تو وہ بہت پہلے تمہیں پرپوز کر چکا ہوتا۔ "اسرا نے اسکی بات سن کر اسکے ہاتھ جھٹکے اور منہ پھیر لیا۔


"میری بات سنو اسرا !تم ایک اندھے خواب کے پیچھے بھاگ رہی ہو ۔ جسکے آخر میں سوائے خسارے کے تمھارے ہاتھ اور کچھ نہیں آئے گا۔ " فارحہ نےنرمی سے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا 


"مجھ میں کس چیز کی کمی ہے؟" وہ یک دم چیخی۔


"تم میں کمی کوئی نہیں ہے ۔ بس تم اسکے دل کو نہیں پہنچ سکی اور نہ پہنچوگی۔ کیونکہ اسکا دل تمھارے لئے راضی نہیں ہے ۔ اسلئے اپنی زندگی کو اپنی اس جھوٹی انا کے لئے ضائع نہ کرو "۔فارحہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا


"میں اسے حاصل کر کے رہونگی" ۔اسرا نے پھر اپنی بات دہرائی۔


"تم صرف اور صرف خود کو ضائع کر رہی ہو ۔ایک اچھی زندگی تمھاری منتظر ہے۔ لیکن تم ایک ایک کر کے سب دروازے خود پر بند کر رہی ہو اس انسان کے لئے جو کبھی نہ تمھارا تھا ،نہ ہے اور نہ ہوگا۔ تم کبھی اسکی محبت کو پا نہیں سکتی کیونکہ محبت انکو ملتی ہے جنکے دل مخلص ہوتے ہیں۔ اپنی انا کی تسکین کرنے والوں کے ہاتھ میں صرف خسارہ آتا ہے۔جو تمھارے ہاتھ میں آرہا ہے۔ "فارحہ نے کہا


"اور اگر میں اس انسان کے دل کے قریب ہوگئی جس سے وہ محبت کرتا ہے تو پھر "؟اسرا نے اسکو گھورتے ہوئے کہا


"مطلب؟"فارحہ نے کہا


"میں اگر اسکے پاپا کے قریب ہوگئی؟ اگر انھوں نے اس کو مجھ  سے شادی کر نے کا کہا تو ؟" اسرا نے پر اسراریت بھرے انداز میں کہا


ت"و پھر تم خود کو زبردستی اسکے سر پر تھونپوگی۔جبکہ وہ تمھاری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا"۔فارحہ نے کہا


"میں لازمی وہ تمام طریقے آزماونگی جن سے وہ میرا ہو سکتا ہے۔ " اسرا نے سختی سے کہا تو فارحہ اٹھ کھڑی ہوئی


"تمہیں میری باتیں نہیں سمجھ آرہی ہیں ۔ تم نے خود کو ایک جھوٹے خواب میں پھنسایا ہوا ہے ۔ جتنا جلدی ہو اس خواب سے چھٹکارا پاو ۔ ورنہ یہ ادھورا خواب تمھاری زندگی اجیرن کر دے گا ۔" فارحہ نے کہا


"میں اس سے دستبردار نہیں ہو سکتی ۔ نہیں ہو سکتی"۔۔وہ چیخی تو فارحہ نے ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھا اور اسکے کمرے سے نکل گئی۔


پیچھے وہ دوبارہ گھٹنوں میں منہ دیکر بیٹھ گئی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


اسے نیند میں اپنے موبائل کی  کال رنگ ٹون سنائی دی جسکی آواز  دور دور سے آرہی  تھی۔


اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھولیں تو تکیہ کے پاس پڑا موبائل زور و شور سے چیخ رہا تھا۔


اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا جس پر اسرا کالنگ لکھا آرہا تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعد موبائل خود بج بج کر بند ہوگیا تو اسنے موبائل سائلنٹ پر لگا دیا ۔


اور ساتھ ہی وال کلاک پر ٹائم دیکھا جہاں دن کے دو بج رہے تھے۔


"میں آج اتنی دیر سویا ہوں۔" اسنے حیرت سے سوچا ۔"پاپا نے آج اکیلے ناشتہ کیا ہوگا "۔یہ خیال آتے ہی نیند اسکی آنکھوں سے بھاگی۔اور وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔


آج سنڈے تھا اور ہر سنڈے کو وہ باپ بیٹا بہت سا وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے تھے ۔ خاص طور پر صبح کا ناشتہ وہ ساتھ کرتے تھے ۔ یہ انکا بہت سالوں سے معمول تھا ۔ لیکن گزشتہ رات وہ اپنے ایک دوست کی سالگرہ میں گیا تھا اور پھر گپ شپ کرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔رات کے آخری پہر وہ گھر واپس آیا تھا اور آتے ساتھ ہی بیڈ پر گر گیا تھا۔اور تب سے اب تک وہ سوتا رہا تھا۔اب بھی وہ اسرا کی کال پر اٹھا تھا۔


دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا ہوا وہ بیڈ سے اٹھا اور  اور وارڈ روب سے اپنے کپڑے لیکر فریش ہونے کےلئے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔


پچیس منٹ کے بعد وہ شاور لیکر واش روم سے نکلا اور پھر آرام سے نک سک سا تیار ہوکر نیچے چلا گیا ۔


وہ نیچے لاونج میں گیا تووہ  اسے  وہاں بیٹھے نظر نہیں آئے۔ اسنے ادھر ادھر دیکھا تو اسے رحیم دکھائی دیا جو لاونج کی صفائی کر رہا تھا۔ اسنے اسے آواز دی


رحیم سنو؟اس نے ملازم کو مخاطب کیا


"جی" ملازم نے جواب دیا


"پاپا کہاں ہیں ؟" اسنے پوچھا


"وہ صاحب جی آپ کی دوست کے ساتھ اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں" ۔ ملازم نے جواب دیا۔


"میری دوست؟" اسنے حیرت سے اپنی طرف اشارہ کیا


"جی جی آپ ہی کی دوست۔"رحیم نے بھی اسی کے انداز میں اسکو جواب دیا تو اسنے اسے گھورا۔


انکے گھر میں ملازموں سے بھی دوستانہ رویہ رکھا جاتا تھا۔اور رحیم تو تھا ہی انکا پرانا ملازم۔


"میری کون سی دوست ہو سکتی ہے؟" اچانک اسکے دماغ میں اسرا کا نام آیا تو اسنے کسی خیال کے تحت رحیم سے پوچھا


"نام کیا بتایا تھا اس نے ؟"


"اسرا " رحیم نے جواب دیا


تو وہ وہی صوفے پر بیٹھ گیا۔


"یہ تو گلے ہی پڑ گئی ہے ۔ پاپا کیا سوچیں گے؟ وہاں امریکہ میں بھی پاپا کو ہمیشہ شک رہا کہ میں اس سے شادی کرونگا ۔ اس سے ہی تو بھاگ کر یہاں آیا تھا اور یہ یہاں بھی میری جان کھانے آگئی ہے ۔ اگر یہ لڑکی ایسے ہی میرے گھر آتی رہی تو میں پاپا سے عرشی کے بارے میں بات کیسے کرونگا ؟" اسے ایک اور خوف نے گھیرا


"اور کیا پاپا پھر مجھ پر یقین کر کے عرشی کا ہا تھ مانگیں گے جسے وہ اپنی بیٹی کہتے ہیں" ۔اسنے پریشانی سے اپنے ماتھے کو چھوا۔


"کیا ضرورت تھی اسے اپنے گھر کا ایڈریس دینے کی" ۔اسنے ماتھے کو دباتے ہوئے سوچا اور خود کو کوسا


"اب کیا کروں؟" ابھی وہ دل میں سوچ ہی رہا تھا کہ رحیم نے اسے آواز دی۔


"چھوٹے صاحب آپ ناشتہ کریں گے یا ڈائریکٹ لنچ کریں گے؟"


"پاپا نے ناشتہ کیا تھا؟" اسنے تمام  خیالات کو دماغ سے جھٹکتے ہوئے پوچھا


"جی ! انھوں نے کہا تھا کہ لنچ میں کچھ اچھا بنا لینا تاکہ اسرا بی بی بھی کھا سکیں" ۔رحیم نے بتایا


"کیا مطلب ہے تمھارا"؟علی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا


"وہ اسرا بی بی بھی یہی لنچ کریں گی۔" رحیم نے اسے بتایا


"ایک تو پاپا ہر کسی کو بیٹی بنا لیتے ہیں" ۔اس نے کوفت سے سوچا اور پھر رحیم سے کہا


"میرا ناشتہ بنا کر اوپر لے آو۔اور ابھی کسی کو مت بتانا کہ میں جاگ گیا ہو ۔ اوکے ؟ "اسنے رحیم کو تاکید کی۔


"جی!" اسنے دانت نکالتے ہوئے اچھا کہا اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔


جبکہ وہ خود دو دو سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔


تھوڑی دیر کے بعد رحیم اسکے ناشتے کی ٹرے لیکر اسکے کمرے میں گیا۔


جب وہ جانے لگا تو علی نے اس سے کہا


"سنو؟"


"جی ؟ "  رحیم نے جواب دیا


"جب اسرا بی بی چلی جائیں تو آکر مجھے بتا دینا۔" اسنے اسے ایک اور ہدایت جاری کی۔


جسے سن کر رحیم نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکے کمرے سے نکل گیا۔اور وہ مطمئن ہو کر ناشتہ کرنے لگ گیا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"جی انکل!ہم سب علی کو اتنا یاد کرتے تھے۔اور جب بھی علی سے بات ہوتی تھی وہ بھی یہی کہتا تھا کہ وہ ہم سب کو یاد کرتا ہے۔ " اسرا نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا


"ویسے انکل آپ لوگ یہاں کیوں شفٹ ہوئے؟" اسرا نےبظاہر مسکراتے ہوئے طنزیہ انداز میں ان سے پوچھا


"ایسے ہی!علی یہاں شفٹ ہونا چاہتا تھا تو ہم آگئے" ۔انھوں نے بھی ہلکے پھکے لہجے میں جواب دیا


"میں اور علی اکثر وہاں ساتھ گھومنے جاتے تھے۔اب جب سے یہاں آئی ہو تو علی کے پاس میرے لئے وقت ہی نہیں ہے" ۔اسرا نے پھر انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ علی اس میں دلچسپی لیتا تھا۔


انھوں نے کچھ بھی کہنے کے بجائے مسکرانے پر اکتفا کیا۔


اتنے میں ملازم وہاں آیا۔


"صاحب جی! کھانا لگا دیا ہے۔" ملازم نے کہا

"اچھا ! ہم آتے ہیں۔" انھوں نے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

"آو بیٹا ! " انھوں نے اسرا کو کہا تو وہ بھی کھڑی ہو گئی اور انکے پیچھے چلتی ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔

"بیٹھو بیٹا !"  انھوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی کردی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔

علی اٹھا نہیں ابھی تک؟ انھوں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے ملازم سے پوچھا

"نہیں صاحب جی ! وہ سو رہے ہیں۔"  اسکی بات کے جواب میں انھوں نے ملازم کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گیا۔

"اچھا !"  انھوں نے کہا اور پھر اسرا سے کہا

"شروع کرو بیٹی ! " تو وہ مسکرادی۔

"اوہو قورمہ ۔میرا فیورٹ" ۔آپکو یقینا علی نے بتایا ہوگا کہ مجھے قورمہ پسند ہے۔اسرا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔

"نہیں میڈم جی ! قورمہ میں نے اپنی مرضی سے بنایا ہے۔" مجھے بڑے صاحب جی نے بس یہ کہا تھا کہ کھانا مزیدار بنانا۔

ملازم جو اسی وقت وہاں گلاس لیکر آیا تھا اسنے اسرا کی بات کا جواب دیا۔

اسکی بات سن کر اسرا نے غصے سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"اپنے کام سے کام رکھو ! انکل آپنے بہت ڈھیل دی ہوئی ہے اپنے ملازموں کو" ۔اسنے ان سے کہا تو وہ خاموشی سے اسے دیکھے گئے۔

"یہ پسند ہے علی کی؟" انھوں نے دل میں سوچا اور پھر اسرا سے کہا

"بیٹی یہ میرا ملازم نہیں بلکہ میرے لئے علی کی طرح ہے۔ اور یہ ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ مینیو ہمیشہ یہ اپنی مرضی سے ڈیسائیڈ کرتا ہے اور یہ خود مختاری میں نے اسے خود دی ہے۔ " انھوں نے نپے تلے انداز میں اپنی بات کہی 

اور شرمندہ کھڑے ملازم سے کہا

"جاو بیٹا تم ! مجھے اگر کچھ چاہیے ہوا تو آواز دے دونگا۔"

"جی صاحب جی ! اسنے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔" وہ بھی اسکے جانے کے بعد خود کو کھانا کھانے میں مصروف ظاہر کرنے لگے۔

"جیسا بیٹا مغرور ہے ویسا باپ بھی مغرور ہے ۔ شاید باپ سے ہی غرور لیا ہے اسنے ۔ لیکن خیر میرا نام بھی اسرا ہے۔بس ایک دفعہ علی ہاتھ آجائے ۔ تمام کس بس نکال دینے ہیں میں نے ان سب کے ۔ "
اسنے ناک چڑھاتے ہوئے سوچا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد بھی وہ کافی دیر تک بیٹھی رہی۔اس امید پر کہ علی آجائے گا لیکن اس نے نہ آنا تھا سو وہ نہ آیا۔

آخر تھک ہار کر وہ گھر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بس انکل میں چلتی ہوں۔ایک دو دن بعد پھر آونگی۔"

"ضرور بیٹا ! جب دل چاہے آو۔آپکا اپنا گھر ہے۔"

انھوں نے خوش دلی سے کہا تو اسنے  دل میں کہا۔

"ہاں ہے تو میرا ہی گھر ! " اور پھر انکو دیکھ کر مسکرا دی اور کہا 

خدا حافظ انکل ! "

"خداحافظ بیٹی !"  انھوں نے جوابن کہا اور پھر رحیم کو آواز دی

انکی آواز سن کر وہ فورن آیا اور کہا

"جی صاحب جی ؟ "

"بی بی کو انکی گاڑی تک چھوڑ کر واپس میرے پاس آو۔"
انھو ں نے اسے کہا تو وہ اسرا کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

کچھ دیر کے بعد وہ انکے پاس آیا

"صاحب جی ! آپ نے بلایا تھا۔"  اسنے کہا

"علی جاگ رہا ہے کہ نہیں ؟ " انھوں نے اسے گھورتے ہوئے کہا

"وہ سو رہے ہیں ۔"  اسنے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا

"میری طرف دیکھ کر میری بات کا جواب دو۔" انھوں نے ملازم سے کہا

تو وہ جواب دینے کے بجائے خاموش رہا۔

وہ کچھ لمحے اسے دیکھتے رہے اور پھر کہا

"تمھیں مجھ سے جھوٹ بولنے کا علی نے بولا ہے ناں ؟"" تو وہ پھر بھی خاموش رہا۔

"دیکھو ! مجھے علم ہے کہ تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو اسلئے سچ سچ بتاو کیا کہاں تھا اسنے تم سے؟ "

انھوں نے اس دفعہ غصے میں کہا

ملازم نے ایک نظر انھیں دیکھا اور پھر کہا

"وہ علی صاحب جاگ رہے تھے لیکن انھوں نے کہا تھا کہ میں کسی کو بتاو نہیں کہ وہ جاگ رہے ہیں۔"  اسنے جلدی جلدی بات ختم کی۔

"اور کیا کہا ہے اس نے تم سے ؟ " انھوں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا

"بس یہ کہ جب اسرا بی بی چلی جائیں تو مجھے بتا دینا۔۔" اسنے بتایا تو انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلا یا اور پھر کہا

"جاو ! اسے بتاو کہ اسرا چلی گئی ہے۔"  وہ جانے لگا تو انھوں نے اسے آواز دی۔

"رحیم ! "  

"جی ؟"  اسنے جواب دیا

"اسے یہ مت بتانا کہ تم نے مجھے سب بتا دیا ہے۔ " انھوں نے رحیم سے  کہا تو وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔

اسکے جانے کے بعد وہ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے سوچ میں پر گئے۔

"آخر یہ  علی کرنا کیا چاہ رہا ہے ؟ اسے لیکر گاڑی میں گھومتا ہے ۔ گھر کا ایڈریس تک دیا ہوا ہے ۔ اور جب وہ گھر آتی ہے تو اس سے چھپ رہا ہے ۔"

"کیا پتہ دونوں کی لڑائی ہوئی ہو؟ " انھوں نے مزید سوچا

" لیکن میں اس طرح کی بچی کو اپنی بہو کیسے بناونگا جو ملازموں کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہو ۔ خیر زندگی تو علی نے گزارنی ہے۔اگر اسے اسرا پسند ہے تو مجھے پھر کوئی حق نہیں اسے ناپسند کرنے کا" ۔۔

ابھی وہ سوچ میں ہی تھے کہ انھیں علی کی آواز سنائی دی۔

"آئی ایم سوری پاپا ! " وہ خیالوں سے باہر آئے اور اسے دیکھا جو انکے پاس صوفے پر بیٹھ رہا تھا۔

"اصل میں کل میں رات گئے گھر آیا تھا تو اسلئے صبح آپ کے ساتھ ناشتہ نہیں کر پایا "۔ اسنے کہا

"کوئی بات نہیں ! نیند ہو گئی پوری" ؟ انھوں نے پوچھا 

"جی ! "  اسنے سر جھکائے کہا 

"تمھاری دوست آئی ہوئی تھی کافی دیر بیٹھی رہی۔ابھی تھوڑی دیر پہلے گئی ہے " ۔انھوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا 

"اچھا ! "  اس نے کہا

اتنے میں ملازم چائے لیکر وہاں آیا تو وہ چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"چائے پیتے ہوئے وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچتے رہے کہ اس سے پوچھوں کہ یہ اسرا سے شادی کرنا چاہتا ہے کہ نہیں ؟"

جبکہ دوسری طرف علی دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیسے وہ انکو یہ بات کلئیر بتائے کہ اسکے دل و دماغ میں اسرا نہیں ہے ۔ " اتنے میں اسکا موبائل بجا تو دونوں ہی اپنے اپنے خیالوں سے باہر آئے۔

اسنے موبائل کی اسکرین دیکھی جہاں اسرا کالنگ لکھا آرہا تھا ۔

اسنے چونک کر اپنے برابر بیٹھے پاپا کو دیکھا۔

وہ بھی اس وقت اسکے موبائل کی طرف ہی دیکھ رہے تھے اور یقینی طور پر انھیں بھی علم ہو گیا تھا کہ اسرا کی کال ہے ۔ اتنے میں رحیم وہاں آیا اور علی سے کہا 

"عمر صاحب باہر کھڑے آپ کو بلا رہے ہیں ۔"

اسنے پیغام سن کر کال ریسیو کرنے کے بجائے کال ڈسکنیکٹ کی ۔
اور چائے کا کپ رکھ کر فورن کھڑا ہو گیا اور حسین صاحب سے کہا

"پاپا میں چلتا ہوں تو انھوں نے سر ہلا دیا۔"

"اسکے جانے کے بعد انھوں نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کی ۔وہ دعا کرتے رہے تھے کہ عرشی اسے پسند آجائے لیکن انکی دعائیں مستعجاب نہیں ہوئی تھیں۔اور آج  اسرا کی کال دیکھنے کے بعد انکا یقین مزید پکا ہو گیا کہ انکا بیٹا اسرا سے محبت کرتا ہے۔"

وہ خاموشی سے کھڑے ہوئے اور تھکے تھکے قدموں سے  اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"عرشی ؟"  فری نے اسے پکارا

"کیا ہوا ؟"  اسنے پچھلے دن کا لیکچر نوٹ کرتے ہوئے رک کر اسے دیکھا 

"یار تمھیں پتہ ہے کلاس روم مینیجمنٹ کی مس نے کیا کہا ہے " ؟ فری نے کہا

"کیا کہا ہے ؟ " عرشی نے بے زاریت سے پوچھا

"کہتی ہیں کل وہ سب کی لیکچر فائل چیک کریں گی" ۔فری نے روہانسے ہوتے ہوئے کہا

"ہاں تو کرنے دو ہم نے جو لیکچرز کلاس میں نوٹ کئے ہیں وہ لگا دیں گے " ۔عرشی نے لا پرواہی سے کہا

"یار سوچا تو میں نے بھی یہی تھا لیکن زکیہ کی وجہ سے مسئلہ ہو گیا ہے " ۔فری نے کہا

"کیا ہوا ہے؟" عرشی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا

تم جس دن نہہیں آئی تھی اس دن  اسنے پراپر ناٹس تیار کر کے انکو دکھائے تھے۔تب سے مس ہمارے پیچھے بھی پر گئی ہیں کہ سب پراپر ناٹس تیار کریں۔"فری نے بتایا

"یا اللہ !یار یہ زکیہ  یا تو پا گل ہے یا ہمیں کر کے رہے گی" ۔ عرشی نے کہا

"اور ہاں ! مس تحسین یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ جو فوٹو کاپی انھوں نے دی تھیں  اسکی بھی فوٹو کاپی کرا کر لگائیں"۔فری نے کہا

"انکا بس چلے تو ہمارے گلوں میں بھی کلاس روم منیجمنٹ کی فوٹو کاپیاں کرا کر لٹکادیں" ۔عرشی نے کہا

"ویسے سوچ عرشی ! تم کیسی لگو گی فوٹو کاپی گلے میں لٹکائی ہوئی؟"  فری نے اسے چھیڑا

تو اسنے جواب دینے کے بجائے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے  کہا

"یار یہ اقصی کیوں بھاگتی ہوئی آرہی ہے؟"

" ہیں  ؟ کدھر ؟"  فری نے بھی آگے ہو کر کھڑکی سے جھانکا اور پھر کہا

"کہیں یہ کسی ٹیچر کے ہاتھ تو نہیں لگ گئی تھی ؟"

"شاید" ۔۔عرشی نے کہا

 تب تک اقصی کلاس میں پہنچ چکی تھی۔

اسے کلاس میں داخل ہوتے دیکھا تو فری نے اسے آواز لگائی

"اقصی ! " تو وہ آواز سن کر انکے پاس چلی آئی۔اور اپنا سانس درست کرنے لگی۔

"کیا ہوا؟ " فری نے پوچھا 

"یار میں نیچے کینٹین جا رہی تھی۔مس تحسین اپنی لیب میں بیٹھی تھیں انھوں نے مجھے دیکھ لیا" ۔
اسنے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ بتایا

"پھر؟"  فری نے پوچھا

"انھوں نے مجھے آواز دی تو چونکہ وہ مجھے دیکھ چکی تھیں اسلئے میں انکی لیب میں گئی۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا اگلا پیریڈ کسکا ہے؟ 

تو میرے منہ سے سچ نکل گیا کہ مس روبینہ کا ہے۔" اقصی نے کہا

"پھر ؟ " ان دونوں نے بے چینی سے پوچھا 

"یار کہتی ہیں کہ وہ تو آج آئی ہی نہیں۔ایسا کرو تم لوگ نیچے لیب میں آجانا ۔انکی جگہ میں کلاس لونگی" ۔اقصی نے آخر اپنی کہانی پوری کی۔

" نیچے لیب میں ؟ اتنی گرمی ہوتی ہے ادھر" ۔فری نے کہا

"یار ایک گھنٹے کی کلاس ہے۔میں انکو کیسے برداشت کرونگی؟"  عرشی نے کہا 

"تم پر تو وہ سب سے زیادہ مہربان ہیں" ۔فری نے عرشی کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دی۔

"یا اللہ ہمیں تڑپا تڑپا کر مت مار۔ایک ہی دفعہ مار دے" ۔اقصی نے کہا

"پتہ نہیں یار کس چیز کی سزا مل رہی ہے" ۔فری نے کہا

"ناکردہ گناہوں کی" ۔اقصی نے جواب دیا

"سنو ! جو انھوں نے منتھلی ٹیسٹ لیا تھا اس بارے میں کچھ بولی وہ ؟" عرشی نے پوچھا

"فکر مت کرو ! وہ یہ بم کلاس میں ہمارے سروں پر پھوڑیں گیں" ۔فری نے کہا

" چھوڑو یار ! ہم کیوں اپنا خون جلا رہے ہیں جبکہ وہ آج مس روبینہ کی جگہ کلاس لیکر رہیں گی۔ایسا کرتے ہیں آج چھٹی کے بعد دہی بڑے کھانے چلتے ہیں " ۔اقصی نے کہا

" ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ! مس تحسین کو بھگتنے کے بعد انجوائے کرنا ہماراحق ہے" ۔عرشی نے کہا

"چلو پھر آج چلیں گے۔" فری نے کہا تو ان دونوں نے سرہلا دیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"آج کی مس تحسین کی کلاس نے تو حالت ہی خراب کر دی تھی" ۔فری نے کہا تو ان دونوں نے بھی سر ہلایا

"پتہ نہیں وہ کون سا مبارک دن ہوگا جب اس یہ بڑے دن ختم ہونگے" ۔فری نے کہا

"میں تو یہ سال پڑھ کر کہیں رخصت ہو جاونگی" ۔اقصی نے کہا

"اچھا خیال ہے"  ۔۔عرشی نے سر ہلایا

"لیکن میرے خیال میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھنا چاہیے تاکہ اگر آئندہ زندگی میں کوئی مسئلہ ہو تو وہ اس سے خود نمٹ سکیں" ۔فری نے کہا

"ہاں ! کہتی تو تم ٹھیک ہو۔لیکن میری امی ابو چاہتے ہیں کہ میری اور ماہ نور کی جلد از جلد شادی ہو۔" اقصی نے بتایا

"تو تم آگے ایڈمیشن نہیں لو گی؟ " عرشی نے پوچھا

"پتہ نہیں شاید ! " اقصی نے کہا

" چلو یہ مسئلہ پھر کبھی ڈسکس کریں گے ۔ ابھی جلدی جلدی کھاو ۔ میں تب تک انکل کو دہی بڑوں کے پیسے دے آتی ہو ۔ " فری نے ٹائم دیکھتے ہوئے ان دونوں کو کہا تو وہ جلدی جلدی کھانے لگیں۔

کچھ دیر کے بعد وہ کھاکر فارغ ہو گئی تھیں۔خالی پلیٹس دہی بڑے والے کو دینے کے بعد وہ لوگ سڑک کنارے چلنے لگیں۔

انکی وینز جا چکی تھیں اور اب انکو لوکل ٹرانسپورٹ سے ہی جانا تھا۔

اچانک فری نے ایک رکشہ آتے دیکھا تو ان دونوں کو کہا

"چلو یار میں چلتی ہو ۔ "اسنے رکشےوالے  کو روکا  اور اسکو اپنے گھر کا ایڈریس بتانے کے بعد اس میں بیٹھ گئی۔

اس سے پہلے کہ عرشی اور اقصی بھی کوئی رکشہ روک کر اس میں بیٹھتیں اچانک عرشی کو فری نے آواز دی۔

"عرشی ؟ "

"ہاں ؟ " عرشی تھوڑا رکشہ کے قریب ہوئی۔

"آج جو مس تحسین نے لیکچر دیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔اسلئے براہ مہربانی اس ٹاپک کے ناٹس تیار کر لینا۔" فری نے کہا

"اگر موڈ بنا تو بناونگی" ۔عرشی نے کہا

"میں نے بتا دیا ہے ۔کل میں تم سے  ہر صورت میں نوٹس لونگی" ۔فری نے اسے کہا

"اسکی بات کے جواب میں عرشی ہنستے ہوئے آہستہ آہستہ نفی میں سر ہلانے لگی " ۔

"اللہ کا واسطہ ہے بس کرو تم لوگ۔ لوگ کہیں گے یہ لڑکیاں پاگل ہیں ۔ کچھ تو خیال کرو سڑک پر ہیں ہم لوگ ۔" اقصی نے کہا

اور علی جو ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے بیزار بیٹھا تھا  اس نے یہ سارا منظر مسکراتے ہوئے دیکھا۔

وہ دیکھتے ہوئے یہ بھی بھول گیا کہ ساتھ میں عمر بھی ہے۔

عمر نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں ایک نقاب پوش لڑکی رکشے سے سر باہر نکالے بغیر نقاب والی لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی ۔اور وہ لڑکی مسلسل ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی جبکہ تیسری لڑکی بھی نقاب میں تھی اور اس کے کچھ کہنے کے بعد رکشے والی لڑکی اندر ہو کر بیٹھ گئی تھی اور رکشہ چل پڑا تھا۔ 

"ایسا کرو بھابھی کو آفر کر و گھر تک چھوڑنے کی ۔ اس بہانے تم بھی کچھ دیر انکے دیدار سے فیضیاب ہوجانا " ۔
عمر نے اچانک کہا تو علی چونکا اور پھر کھسیا نا ہو گیا۔

"نہیں"۔۔کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔

عمر نے اسکی حرکت پر حیرانگی سے اسے دیکھا اور پھر کہا

"کیوں بھائی؟ "

"کیونکہ میں ابھی اسے اپنے احساسات کے بارے میں نہیں بتانا چاہتا" ۔اسنے جواب دیا تو عمر نے اسے دیکھا

"اور ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو تم ؟ " عمر نے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا 

"میں پہلے اس سلسلے میں پاپا سے بات کرنا چاہتا ہوں"۔علی 

نے گئیر بدلتے ہوئے اسے بتایا تو عمر  نے اسے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments