Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 15

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe epi 15


 قسط 15

"صاحب  کھانے میں کیا بناو ؟ "رحیم نےکچن کی طرف جاتے ہوئے حسین صاحب سے پوچھا

"کچھ بھی بنالو  " ۔پھر کچھ سوچ  کرعرشی سے بولے۔

"بیٹا ! ڈنر میں  کیا کھاوگی ؟ "

"کچھ  بھی انکل!مجھے کوئی خاص ڈش پسند نہیں ہے"۔اسنے جواب دیا  تو وہ رحیم کی طرف مڑے

"یار اپنی پسند سے بنا لو کچھ" ۔تو وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔ 


"صاحب  !شیرازی صاحب آئے ہیں۔"ملازم نے آکر انہیں بتایا

"جاو !انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاو!میں آتا ہوں"۔کہہ کر وہ  عرشی کی طرف مڑے۔

"بیٹے کچھ چاہیے ہو تو رحیم سے کہہ دینا۔۔اور اگر بور ہو جاو تو  لائبریری  چلی جانا۔ٹھیک ہے ؟"  انہوں نے عرشی سے جسے سن کر  اسنے اثبات میں سرہلادیا تو وہ اٹھ کر اپنے دوست سے ملنے چلے گئے۔

جبکہ وہ  کچھ دیر تو وہی بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہی۔لیکن جب ٹی وی  دیکھ دیکھ کر اسکا دل بھر گیا  تو  وہ لائبریری جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"سنو! " اسنے  ڈرائنگ روم کی طرف جاتے رحیم کو پکارا

"جی !آپ کو کچھ چاہیے عرشی بی بی ؟"  رحیم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا

"نہیں چاہیے تو کچھ بھی نہیں ۔مجھے لائبریری  جانا ہے ۔وہ کس  طرف ہے ؟ " اسنے پوچھا

"وہ آپ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں ۔ کورنر میں اسٹدی روم ہے۔" اسنے بتایا  

 وہ اچھاکہتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


وہ اوپر گئی تو   اسے  دائیں اور بائیں دونوں طرف  کے کارنر پر روم نظر آئے۔

یااللہ رحیم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ دائیں طرف کے  کارنر پر اسٹدی روم ہے یا بائیں طرف ۔

اسنے وہی کھڑے ہو کر سوچا  اور پھر بائیں طرف  کے  روم کی طرف بڑھی۔

"چلو دیکھتے ہیں۔اگر یہ نہیں ہوا تو دائیں طرف کے روم میں چلی جاونگی۔"

اسنے خود کو مطمئن کرتے ہوئےدل میں  کہا اور دروازہ کا ناب  گھماکر کمرے میں داخل ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


وہ جیسے ہی کمرے میں  داخل ہوئی تو اسکی نظر سامنے رکھے بیڈ پر گئی ۔جہاں آدھی سے زیادہ بیڈ شیٹ  بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی۔ایک تکیہ اوپر تھا دوسرا نیچے کارپٹ پر تھا۔

اسنے وہی کھڑے کھڑے پورے کمرے کا جائزہ لیا اور پھر بڑبڑائی۔

"یہ اس بدتمیز انسان کا کمرہ ہو گا"۔کہہ کر وہ  وہاں سے جانے کے لئے مڑی تو اسی وقت  کوئی واش روم کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔

"تم ! علی نے اسے اپنے روم میں دیکھ کر کہا 

اسکی آواز سن کر  اسکا  اوپر کا سانس اوپر اور نیچے  کا نیچے رہ گیا۔

"میں انہیں کیا جواب دونگی؟" اسنے پریشان ہوتے ہوئے دل  میں کہا

تب تک وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہو گیا تھا۔

"میرے  کمرے میں کیا کر رہی ہو ؟" اسنے حیرت سے   پوچھا

"میں لائبریری جا رہی تھی" ۔عرشی کے منہ سے نکلا

"تو   میرا روم تمہیں لائبریری لگا ہے ؟ " علی نے کہا

"نہیں وہ  مجھے رحیم نے کہا تھا کہ کارنر پر اسٹڈی روم ہے" ۔اس کے منہ سے بے ربط سے الفاظ نکلے۔

تو علی نے اس کی گھبراہٹ کو نوٹ کیا اور پھر  سوچا  

کیوں نہ اسے تنگ  کرکے اپنا بدلہ لیا جائے۔

یہ خیال آتے ہی اسنے عرشی کو دیکھا 

"میں جاو" ۔اسنے کہا


"نہیں اب آہی گئی ہو تو بیٹھ جاو!مجھے تم سے کچھ باتیں ڈسکس کرنی ہیں۔"علی نے کہا

"مجھ سے ؟ مجھ سے کیا باتیں ڈسکس کرنی ہیں ؟" عرشی نے اٹکتے ہوئے پوچھا

لیکن علی نے جواب دینے کے بجائے اسکی کلائی پکڑی اورصوفے کی طرف بڑھا۔

ابھی وہ صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ اسکے موبائل پر اسرا کی کال آنے لگی۔

اسنے جیب سے موبائل نکال کر نمبر دیکھا اور پھر عرشی کو دیکھا۔

وہ بھی  اسرا  نام کی کال دیکھ چکی تھی۔اور لڑکی کا نام دیکھ کر ہی اسکے چہرے  کے زاویے بگڑنے لگے تھے۔

"مطلب یہ جیلس ہو رہی ہے۔" علی نے خوشگوار حیرت سے اسکے چہرے کے بگڑے ہوئے زاویوں کو دیکھا اور پھر  بس اسے چڑانے کے کئے اس کی کال ریسیو کرلی۔

کال  ریسیو ہوتے ہی وہ بغیر رکے شروع  ہوگئی۔

"تم مجھے اگنور کیوں کر رہے ہو ؟آج  شاپنگ مال میں بھی تم نے بات نہیں کی۔ہم  دوست بھی تو ہیں" ۔اسرا نے کہا


"ساتھ بیٹھی  عرشی نے حرف بہ حرف اسکی  گفتگو سنی تو بے ساختہ لب بھینچے۔"

وہ کن اکھیوں سے اسے ہی دیکھ  رہا تھا۔اسکے ری ایکشن پر  اسنے  بڑی مشکل سے اپنی مسکڑاہٹ دبائی اور اسرا کو کہا

"ہاں یار ہم  اب بھی دوست ہیں۔تم پریشان نہ ہو۔کل پرسوں میں تم سے ملوں گا"۔

یہ سنتے ہی وہ بے ساختہ  جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔تو علی جو اسکے خیال میں اس سے غافل تھا اس  نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا  تو وہ بے دھیانی میں اسکے اوپر گرگئی۔

اس اچانک افتاد پر موبائل علی کے ہاتھ سے  نیچے جا گرا تھا ۔اور عرشی تو کچھ لمحے کے لئے  سکتے میں رہ گئی تھی۔پھر  جیسے ہی خیال آیا تو ایک دم اس سے دور  ہٹی تو وہ بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

اس نے عرشی کو کچھ کہنے کے بجائے اسکا ہاتھ پکڑا اور پھر جھک کر دوسرے ہاتھ سے  موبائل اٹھایا۔

جس میں سےاب بھی  اسرا کی آواز آرہی تھی۔اسنے مزید بات کئے بنا  موبائل اٹھا کر کال کٹ کی۔اور اسکی طرف مڑ کے کہا

"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ؟" 


"آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ جب چاہتے ہیں ڈانٹ دیتے ہیں۔"عرشی نے کہا تو وہ ایک لمحے کے لئے چپ  ہوا۔پھر اس سے پوچھا

"پاپا سے شکایت کیوں کی تھی ؟ "


"آپ مجھے میری مرضی کے بغیر یہاں  کیوں لیکر آئےتھے؟" عرشی نے  کہا جسے سن کر وہ لب بھینچ گیا۔

"دیکھو عرشی میں پہلی اور آخری دفعہ سمجھا رہا ہوں کہ  ہم دونوں کا کوئی بھی جھگڑا پاپا تک نہیں جانا چاہیے۔ورن"ہ  ۔۔۔۔ابھی اسکی بات ختم ہی نہیں ہوئی تھی  کہ عرشی نے اسکی بات کٹ کی۔

"ورنہ کیا  کریں گے آپ ؟ ہاں ؟ ڈانٹیں گے ؟ ماریں گے "؟وہ بول ہی رہی تھی کہ  وہ اسے اسکے شانوں سے پکڑ کر اسکے اوپر جھکا اور کہا

"جو میرا دل کرے گا میں کرونگا"۔تو عرشی نے اس کے  سینے پر  دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلا اور کہا

"اور میں بھی وہی کرونگی جو میرا دل کرے گا۔آپ یہ رعب اپنی اسرا پر ہی جھاڑیں۔:کہہ کر وہ صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بھاگنے کے سے انداز میں کمرے سے باہر نکل گئی۔

جبکہ وہ  وہی  بیٹھا مسکراتا رہ گیا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ اسے تو بول آئی تھی لیکن کمرے سے باہر نکلتے  ہی اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اسکی ٹانگوں میں جان نہیں رہی۔

آنسو تھے کہ  جو آنکھوں میں جمع ہوئے جا رہے تھے۔اسے اس وقت بہت سا رونا آرہا تھا۔وہ  نیچے جانے کے بجائے  اسٹڈی روم  میں چلی گئی۔

اور وہاں بیٹھ کر آنسو بہانے لگی۔

"باتیں اسرا سے کرتے ہیں نکاح مجھ سے کیا ہے۔شادی بھی اسی سے کرتے ناں ۔" اسنے غائبانہ علی کو کہا

"کل پرسوں ملونگا ۔تم پریشان نہ ہو۔ہونہہ"اسنے پھر باآواز بلند اسکی نقل اتاری۔

"اور پھر رونے لگی۔اسے سمجھ نہیں  آرہی تھی کہ وہ کیوں رہ رہی تھی۔اسے بس رونا آئے جا رہا تھا۔"

"وہ یہ بات قبول کرنے کو تیار ہی نہیں تھی کہ اسے  علی کا اسرا  سے  بات کرنا اچھا نہیں لگاتھا۔

وہ جو اسے ڈھونڈتا  وہاں آیا تھا  اسکی بات سن کر بغیر اسے کچھ کہے مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

"اچھا ہے ۔ہو  تھوڑی سی جیلس" ۔علی نے  دل میں کہا اور خود نیچے لاونج میں  چلا گیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


"صاحب کھانا لگا دو ؟" رحیم نے ٹی وی دیکھتے  حسین صاحب سے پوچھا 

"ہاں لگادو۔اور عرشی کو بھی بلا کر لے آو۔"انہوں نے کہا

تو وہ جی اچھا کہتا  اسے بلانے چلا گیا۔

کچھ دیر کے بعد وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔

"عرشی بیٹے ٹھیک سے کھاو"۔حسین صاحب نے کہا تو علی نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا 

جسکی ناک بلکل لال ہو رہی تھی اور آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھیں۔

"آہاں  رونے کاشغل کیا گیا ہے" ۔اسنے دل میں سوچا اور اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

کھانے کے بعد حسین صاحب اٹھ کھڑے ہوئے ۔اورعرشی سے کہا

"چلو میں تمہیں گھر چھوڑ آتا ہوں۔"

انکی بات  سن کر وہ دل مسوس کر کے رہ گیا۔

ابھی اسکا عرشی کو اور تنگ کرنے کا پلان تھا لیکن انہوں نے اسکے پلان پر پانی پھیر دیا تھا ۔۔

۔۔۔۔۔*۔  ۔۔۔۔۔


رات کو جب وہ سونے کے لئے لیٹا تو  اسے عرشی کا خیال آیا۔

تو بے ساختہ ایک خوبصورت مسکراہٹ  اسکے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔

"ایک دن میں ہی اتنی لڑائیاں ہماری ہوگئی ہیں۔جب ساتھ رہیں گے تو پھر نجانے کیا حال ہوگا؟"  اسنے دل میں سوچا اور آنکھیں  موند  لیں۔

"اسے عرشی سے  پہلی نظر کی محبت نہیں ہوئی تھی۔وہ اس سے آہستہ آہستہ محبت کرنے لگا تھا۔اور یہ آہستہ آہستہ ہونے والی محبت زیادہ خطرناک تھی۔یہ محبت موم بتی کی روشنی کی طرح تھی۔ جو آہستہ آہستہ جلتے ہوئے موم کو  پگھلا  دیتی ہے۔

وہ بھی اس کی محبت میں جل رہا تھا۔"


"وہ ایک آزاد خیال لڑکا تھا۔اسکی لڑکیوں سے دوستیاں بھی تھی ۔لیکن اسے عرشی سے پہلے کوئی اتنی اچھی نہ لگی تھی کہ وہ اس سے محبت یا شادی کرتا۔اور اب تو خیر وہ عرشی کے علاوہ اور  کسی کے بارے میں سوچنا بھی  نہیں چاہتا تھا"۔۔

"روز بستر پر لیٹنے کے بعد آخری خیال اسکے دماغ میں عرشی کا ہی ہوتا تھا۔۔اس سے زیادہ کوئی کسی سے کیا محبت کرسکتا تھا۔"

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


دوسری طرف جب وہ بستر پر لیٹی تو  اسے علی کا رویہ یاد آیا تو وہ نئے سرے سے رونے لگی۔

"ہاں مجھے علم ہے وہ اسرا سے محبت کرتے ہیں۔تب ہی مجھے ہروقت ڈانٹتے رہتے ہیں"۔اسنے روتے ہوئے سوچا اور پھر دل میں ارادہ کیا

"میں انکل کو بتاونگی"۔لیکن پھر اسے  اسکی تاکید  یاد آئی  تو وہ  جھنجھلا کر رہ گئی۔

"نہیں وہ کچھ نہیں  کہیں گے۔انکل سے تو ڈرتے بھی ہیں۔میں  انکل کو بتا دونگی کہ مجھےانہوں نے دھمکی دی ہے۔اور یہ اپنی کسی دوست سے پرسوں ملیں گے"۔اسنے دل میں سوچا

"لیکن  مجھے کیا؟ وہ کسی سے بھی ملیں۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔" اسنے پھر دل کے خیال کو رد کیا لیکن آنکھوں کے سامنے آج شاپنگ مال میں ملنے والی لڑکی  کا چہرہ آیا تو وہ اٹھ بیٹھی۔

"نہیں وہ میرے شوہر ہیں اور میں یوں انہیں کسی بھی لڑکی سے ملنے کی اجازت نہیں دے سکتی"۔اسکا دل پھر اپنی بات پر ڈٹا۔


"یا خدا میں کیا کرو ؟ ":وہ کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔پھر جیسے کچھ سوچ کر بیڈ پر بیٹھی۔

میں ان سے بات کرونگی  کہ اب اگر مجھ سے نکاح کر ہی لیا ہے تو   میرے ہوتے ہوئے اور لڑکیوں سے نہ ملیں"۔اسنے خود سے کہا اور بیڈ پر لیٹ گئی۔

"لیکن میں بولونگی کیسے؟ اگر انہوں نے کہہ دیا کہ میں تو تمہیں پسند ہی  نہیں کرتا پھر ؟ " اسکے دماغ میں ایک اور خیال آیا تو وہ دوبارہ اٹھ بیٹھی۔

پھر گھڑی کی طرف  دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے۔

"اللہ پوچھے آپ کو علی۔خود تو سو رہے ہونگے اور مجھے اس پریش"انی میں ڈالا ہوا ہے۔وہ دل برداشتہ ہو کر رونے بیٹھ گئی۔

جب رو رو کر تھک گئی تو تکیہ منہ پر رکھ کر سو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"عرشی آنکھیں لال کیوں ہو  رہی ہیں ؟" فری نے پوچھا 

"پتہ نہیں ۔" وہ جواب دیکر اسائمنٹ بنانے لگی۔تو فری اقصی کی طرف مڑی اور کہا

"تمہیں کیا ہوا ہے ؟ "

"کچھ نہیں یار"۔اسنے بے دلی سے جواب دیا

"مجھے کنفرم  پتہ ہے کہ کچھ ناں کچھ ہوا ہے" ۔فری نے کہا

"امی ابو نے ڈیسائیڈ  کیا ہے کہ وہ  منگنی نہیں کریں گے"۔۔اقصی  نے بتایا

"مطلب تمہارا بھی عرشی کی طرح ڈائریکٹ نکاح ہو گا ،؟ " فری نے پرجوش ہوتے ہوئے  کہا

"نہیں! امی کو لگتا ہے کہ یہ انسان ٹھیک نہیں ہے۔تو اسلئے وہ لوگ ناں کرنے کا سوچ رہے ہیں۔" ۔اقصی نے  سر جھکائے بتایا


"مطلب ؟" عرشی نے پوچھا

"یار  اسکے گھر والوں نے ڈیمانڈ کی ہے کہ منگنی پر لڑکے کو چین بھی دی جائے" ۔اقصی نے بتایا

"لالچی لوگ" ۔عرشی نے کہا اور پھر اقصی کو دیکھا جو نوٹ بک پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی۔

فری نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا لیکن عرشی نے اسکا ہاتھ دبا کر چپ کرا دیا۔

وہ جانتی تھی کہ اقصی بکھرنے کے عمل سے گزر رہی تھی۔اور اس وقت یہی بہتر تھا کہ اسے چھیڑا نہ جائے۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


وہ اس وقت اپنے ٹیرس پر کھڑی باہر دیکھ رہی تھی کہ فارحہ نے اسے آکر بابا کے  بلاوے کا بتایا

تو وہ اچھا کہتی  اسکے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلی۔

"بابا اپنے  روم میں ہیں ؟ " اسنے پوچھا

"نہیں۔ڈرائنگ روم میں ۔" فارحہ نے جواب دیا

تو وہ ڈرائنگ روم کی طرف چلی گئی۔


وہ اپنے دھیان میں چلتی ہوئی ڈرائنگ روم  میں داخل ہوئی  تو  صوفوں پر انجانے  لوگوں کو دیکھ کر اسے تھوڑی جھجھک ہوئی اور حیرت بھی ہوئی کہ بابا  نے انکے سامنے کیوں بلایا ہے۔

لیکن اب وہ آگئی تھی اور بغیر سلام کے واپس جانا مینرز کے خلاف تھا۔اسلئے اسنےسب کو مشترکہ سلام کیا  اور جاکر اپنے بابا کے برابر میں بیٹھ گئی۔

"یہ میری بیٹی ہے اسرا۔جسکا آپ پوچھ رہی تھیں"۔انہوں نے وہاں بیٹھی ایک ضعیف خاتون سے کہا تو انہوں نے کہا

"ماشااللہ بیت پیاری ہے۔"


"اور بیٹا آپ کیا کرتی ہو ؟" انکے ساتھ آئی ایک درمیانی عمر کی خاتون نے پوچھا

"میں پڑھائی۔" اسنے جواب دیا  اور دل میں کہا

یہ کس قسم کے سوال پوچھ رہی ہیں؟


"اچھی بات ہے۔" ان خاتون نے جوابن  کہا

اسے ان عورتوں کے دیکھنے کے سے انداز سے  الجھن ہو رہی تھی۔

تبھی ملازمہ  چائے وغیرہ لیکر آئی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی

"بابا میں چلتی ہو۔۔وہ فارحہ کو مجھ سے کچھ کام تھا" ۔اسنے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

اسکے جانے کے بعد وہاں آئی عورتوں میں سے ضعیف خاتون نے کہا

"آپ  ہماری درخواست پر غور کیجئے گا۔" تو  قادر صاحب نے سر ہلایا

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


ی"ار اقصی کیوں نہیں  آرہی ؟ " فری نے بے چین ہوتے ہوئے عرشی سے کہا

"کال کریں ؟ "عرشی نے فری کی طرف دیکھا  تو فری نے  بھی متفق ہوتے ہوئے سر ہلایا

"لیکن یہاں نہیں کریں گے۔چلو آو اٹھو" ۔وہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بھی اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ دونوں ساتھ چلتی گراونڈ  کے پچھلے حصے کی طرف جاکر بیٹھ گئیں۔

"میں کال کرتی ہوں۔" عرشی نے کہا اور کال ملانے  لگی۔

کچھ دیر کے بعد کال ریسیو کر لی گئی ۔

"ہیلو !اقصی  ۔" عرشی نے کہا  


"ہاں عرشی " ۔اقصی کی روئی روئی سی آواز سنائی دی

"کیا ہوا ہے ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ روئی کیوں ہے " ؟ فری نے بیتابی سے کہا

"ہاں میں ٹھیک ہوں۔" 

اسنے جواب دیا تو ان دونوں نے بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا

"کالج کیوں نہیں آرہی ہو ؟ " عرشی نے کہا

"یار ابو نے منع کر دیا ہے  کہ اب کالج مت جانا۔" اقصی نے آہستگی سے کہا

"کیا؟" دونوں کی چیخ نما آواز بلند ہوئی۔


"کیوں منع کیا ہے ؟ " عرشی نے پوچھا  تو اقصی رونے لگ گئی۔

"اقصی ؟ یار سن تو ۔" عرشی نے اسے آواز دی 

پہلے تو اسکی سسکیوں کی آواز آتی رہی اور پھر کال بند ہو گئی۔

"عرشی !" فری نے اسے مخاطب کیا 

"ہاں ؟"  اسنے فری کی طرف دیکھا

قسط 15


"مجھے  کچھ بڑا مسئلہ لگ رہا ہے"۔فری نے کہا

"مجھے بھی۔ میں دوبارہ کال کرتی ہوں "۔وہ کہہ کر دوبارہ کال ملانےلگی۔لیکن اقصی کا موبائل سوئچ آف ہو چکا تھا۔

"اسکے گھر چلیں ؟" عرشی نے موبائل گھاس پر رکھتے ہوئے  فری سے کہا

"کل چلیں گے"۔فری نے جواب دیا تو اس نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments