Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyar epi 1

Ajab pyar epi


  قسط
ابھی اسنے بلیک بورڈ پر کارٹون بنا یا ہی تھا  کہ مس عالیہ کلاس میں داخل ہوئیں۔
زری۔۔۔۔اسکی دوست زہرہ نے اسے آواز دی ۔۔
ہاں ہاں ! میں نے بولا تو ہے کہ میں کر کے دکھاونگی مس عالیہ کی ایکٹنگ۔اسنے بورڈ کی طرف ہی منہ کئے کئے بولا 
تو مس زرتاشہ صاحبہ  آپ کب کریں گیں میری ایکٹنگ؟ انکی آواز پر وہ اچھل کر پیچھے مڑی اور انکو دیکھ کر وہ سن ہو گئی۔
مس وہ۔۔۔۔۔۔وہ منمنائی
جائیں اپنی جگہ پر جاکر کھڑی ہوجائیں۔شرم تو بلکل نہیں آتیں  آپکو ٹیچروں کی نقل اتارتے ہوئے۔انہوں نے غصہ سے کہا
سوری مس۔،۔۔۔اسنے پھر کہا
ایک دفعہ کی بات آپکو سمجھ نہیں آتی ؟ وہ زور سے چیخیں تو وہ  اپنی سیٹ پر جاکر کھڑی ہو گئی۔
کچھ دیر تو کلاس میں ڈسٹربنس رہی لیکن انکے ڈائس بجانے پر سب سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔اور وہ آج کا لیکچر  دینے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
قسم سے یار!بہت ہی بے عزتی ہوئی آج تو۔تم لوگ مجھے آواز نہیں دے سکتی تھیں۔اسنے زری اور ورشہ  کو گھورتے ہوئے کہا
بیٹا ہم نے دی تھی۔لیکن تم نے کان بند کر لئے تھے ۔۔۔ورشہ نے جواب دیا
مس عالیہ مجھے پہلے ہی نالائق سمجھتی ہیں اور پھر اوپر سے  یہ ہی مجھے فضول حرکتیں کرتے ہوئے پکڑ لیتی ہیں۔اسنے کہا
تمھاری قسمت خراب ہے۔زہرہ  نے کہا
تمھاری کونسی اچھی ہے؟اس دن تو تمھاری  بھی تو سی آر سے عزت ہوئی تھی۔ز رتاشہ نے اسے جواب دیا
ایک تو یہ سائرہ مجھے زہر لگتی ہے۔ورشہ نے سامنے بیٹھی سائرہ کی طرف اشارہ کیا تو ان دونوں نے بھی گردن گھماکر اسے دیکھا
پیسہ کاغرور ہے۔زہرہ نے کہا
اچھا چھوڑو !ہمیں کیا۔اسکے باپ کا پیسہ ہے۔جیسے چاہے خرچ کرے۔زرتاشہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا
یہ بات بھی ہے۔زہرہ نے کہا   تبھی وہ اٹھ کر انکے پاس آئی 
کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہو؟ 
شیور!زرتاشہ نے ہی جواب دیا زہرہ اور ورشہ تو اسکو دیکھتے ہی ادھر ادھر دیکھنے لگی  تھیں۔انکے رویہ کو دیکھتے ہوئے سائرہ نے کہا
لگتا ہے آپ کو میرا یہاں بیٹھنا پسند نہیں آیا۔۔۔
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔"زرتاشہ نے جواب دیا
زری سر معین آنے والے ہونگے۔چلو ۔۔اس سے زیادہ ورشہ اسکو برداشت ناں کر سکی تھی تبھی ایک جھٹکے سے کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
سی یو۔۔۔۔پھر کبھی ملیں گے۔۔۔زرتاشہ  نے اسے کہا اور ان لوگوں کے ساتھ چل دی۔
کتنی بری بات  ہے ورشہ !ایسا تھوڑی ناں رویہ رکھتے  ہیں۔اسنے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا
تم ہے لوگوں کی پہچان نہیں ہےزری۔زہرہ نے لقمہ دیا
بن رہی ہے وکیل۔۔اور یہ حال ہے محترمہ کا۔ورشہ نے کہا
حد ہو گئی ہے میں نے بس  انسانوں کی طرح   اس سے بات کی ہے اور تم دونوں مجھے سنا رہی ہو۔وہ غصے سے کہتے ہوئے جیسے ہی کوریڈور  سے مڑی تو  سامنے  سے آتے  لڑکے سے اسکی ٹکر ہوتی ہوتی بچی۔زری نے سنبھل کر سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھااور پھر کہا
آپ اندھے ہیں ؟ 

نہیں۔لیکن لگتا ہے آپ ضرور ہیں۔میں تو بلکل ٹھیک چل رہا تھا لیکن  شاید آپ  بولتے ہوئے  آنکھوں کااستعمال کرنا بھول جاتی ہیں۔اس لڑکے نے طنزیہ کہا
دیکھیں آپ مسٹر اپنی حد میں رہیں۔آپ  مستقبل کی وکیل سے بات کر رہے ہیں۔زری نے  غصے سے کہا
اوووو!!تو یہ حال ہے ہمارے ملک کے وکالت کے ڈیپارٹمنٹ کا۔جب آپ جیسے اندھے وکیل ہونگے  تو یہ سب تو ہوگا۔اس لڑکے نے کہا
زری تو  اسکی بات سن کر ہی آگ بگولہ ہو گئی۔
مطلب کیا ہے اس بات کا۔وہ چیخی
بس یہ کہ آنکھوں کااستعمال کریں۔بٹن کی طرح چہرے پر ناں سجائیں۔وہ کہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
تم۔،۔۔۔۔وہ مٹھیاں بند کرتی واپس اپنی دوستوں کی طرف مڑی جو اپنی ہنسی چھپانے میں ناکام ہو رہی تھیں۔اس نے انہیں دیکھا تو کہا 
وہ لطیفہ سنا گیا ہے کیا؟ جو تمہاری ہنسی ہی  بند نہیں ہو رہی۔۔
نہیں بہن وہ تمھاری ٹھیک ٹھاک عزت کر گیا ہے۔ورشہ نے ہنستے ہوئے کہا
پتہ نہیں کون بد تمیز تھا یہ۔اگلی دفعہ یہ میرے ہاتھ لگا تو ضائع ہو جائے گا۔۔زرتاشہ نے چلتے چلتے غصے سے کہا

ہائے ناں کرو یار۔اتنا ہینڈسم ہے۔ورشہ نے کہا   تو اسکی بات سن کر زری نے اسے دیکھا اور پھر لفظ چباتے  ہوئے کہا
اگر تم   نے اسکی تعریف کرنا بند ناں کی تو میں یہاں  سیڑھیوں سے دھکا دیکر تمھارے سارے فنکشن  ناکارہ کر دونگی۔۔
اچھا اچھا نہیں کرتی تعریف۔تم جیلس ناں ہو۔اسنے   زری کو پچکارتے ہوئے کہا   تو وہ اسے پھر گھورنے لگی۔
تب تک وہ لوگ کینٹین تک پہنچ چکی تھیں۔
اس سے جیلس ہوتی ہے میری  جوتی۔کہہ کر وہ چئیر پر بیٹھی اور زہرہ سے کہا
میرے اندر لائن میں لگنے کی ہمت نہیں ہے۔پلیز میرے لئے بھی لے آنا تو وہ سر ہلاتی شاپ کی طرف بڑھ گئیں۔جہاں اسٹوڈنٹس کی ایک لمبی لائن تھی۔
۔۔۔،۔۔*۔۔۔۔۔۔

کیا لڑکی تھی یہ۔لمحوں میں دماغ کی دہی کر گئی تھی۔۔۔۔اسنے  اپنے آفس میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے سوچا 
تب ہی کانسٹیبل  اندر آیا۔اور سیلوٹ کرنے کے بعد کہا
سر وہ  آپ کے دوست توثیق صاحب آئیں ہیں۔"
"ہاں بھیجو اسے۔اسنے کہا تو کانسٹیبل سیلوٹ مار کر باہر چلا گیا۔
ہینڈ سم مین۔توثیق   کہتا ہوا اندر داخل ہوا تو وہ ایک دم ہنسا اور اٹھ کر گلے ملا۔
تم نہیں سدھرو گے۔زریاب نے کہا تو وہ  بھی ہنس دیا
ہم بنے ہی سدھارنے کے لئے ہیں۔توثیق نے کہتے ہوئے اسے آنکھ ماری تو زریاب نے زور سے قہقہہ لگایا جس میں توثیق نے بھی اسکا ساتھ دیا۔
اور سناو!کیسی گزر رہی زندگی؟اسنے پوچھا
بس  زندگی ہمیں گزار رہی۔توثیق نے  مصنوعی سرد آہ بھرتے ہوئے کہا  تو  وہ بولا
مطلب بھائی تم پر آج کل دباو ہے۔اسکی بات سنکر توثیق سر ہلاگیا اور پھر کہنے لگا
بے حد یار!بچوں کی اسمگلنگ کیس   کو جب سے میں نے آپریٹ کرنا  شروع کیا ہے تب سے اوپر کے کچھ لوگ ہاتھ ہلکا رکھنے کو کہہ رہے ہیں۔اسکی بات وہ خاموشی سے سنتا گیا۔

تم سناو!تم جو لڑکیوں اور بچوں کے ریپ کیس پر کام کر رہے تھے  وہ کہاں تک پہنچا؟کوئی سراغ ملا؟
وہی ہے ابھی۔کوئی سراغ نہیں ملا۔انکے ساتھ ہمارے کچھ لوگ ملے ہوئے ہیں جو ان پر ہاتھ پڑنے سے پہلے ہی انکو خطرے سے آگاہ کر دیتے ہیں۔اور وہ ہمارے ہاتھوں سے  گیلی مچھلی کی طرح پھسل جاتے ہیں۔اسنے ایک ہاتھ کا مکہ بناکر دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا

اس دفعہ کی توخبر پکی تھی۔ماجدہ  نے پورے اعتماد سے بتایا تھا کہ لائیر کالج میں انکا ایک گروہ کام کر رہا ہے جو نادان لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھسالیتا ہے۔تو تم وہاں کیوں نہیں گئے؟توثیق نے کہا
گیا ہوں۔اور اپنے کچھ بندوں کی ڈیوٹی وہی لگا آیا ہوں۔جیسے ہی کچھ عجیب نقل وحرکت ہوتی ہے وہ لوگ فورن رپورٹ کریں گے۔اس دفعہ یہ لوگ میرے ہاتھوں سے نہیں بچ پائیں گے۔
چلو آل دا بیسٹ۔توثیق نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور پھر گلے مل کر  اس کے آفس سے چلا گیا۔

اسکے جانے  کے بعد وہ سامنے پڑی فائل کا مطالعہ کر نے لگا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھا ڈنر کر رہاتھا جب  اسکی والدہ نے قریشی صاحب سے کہا
آپ  ہی اسے بولیں کچھ۔مجھے ساجدہ کی بیٹی  پسند ہے۔اگر یہ ہاں کر دے تو میں  اسکا  ہاتھ اسکے لئے  مانگ لو"۔شائستہ بیگم نے کہا
مام!اسکے ہاتھ کے ساتھ میں کیا کرونگا۔ زریاب نے لقمہ  منہ  میں  ڈال کر کہا جب کہ اسکی بات پر اسکے والد نے  بے ساختہ  اپنی مسکراہٹ  چھپائی۔
دیکھ رہے ہیں آپ اسے ؟ انہوں نے قریشی صاحب سے کہا
پچھلے چوبیس سالوں سے پاپا میری اس شکل کو دیکھ  رہے ہیں۔اور اب پاپا بور بھی ہو چکے ہیں۔اسکی بات سن کر دریاب نے قہقہہ لگایا تو انہوں نے ان دونوں کو گھورا
اسکی عمر کے لڑکے بال بچے دار ہو گئے ہیں۔اور یہ ابھی تک کنوارا گھوم رہا ہے۔انہوں نے  ابکی بار پھر قریشی صاحب سے شکایت لگائی تو انہوں نے اسے کہا
کیوں بھائی!کیوں ماں کو تنگ کر رہے ہوں؟

اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو میں اسکے گھر چلی جاونگی۔ انہوں نے اب کی بار اسے ڈائریکٹ کہا تو وہ منہ نیکپن سے صاف کرتا چئیر سےاٹھ  کھڑا ہوا  اور شائستہ بیگم سے کہا
ابھی کوئی نہیں پسند۔جب پسند ہوئی تو میں خود بتا دونگا۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلاگیا جبکہ پیچھے وہ بیٹھی کافی دیر تک بڑبڑاتی رہیں۔

آپ اسے کہتے کچھ نہیں ؟ انہوں نے قریشی صاحب سے کہا تو انہوں نے کہا
ابھی وہ نہیں کرنا چاہتا تو چھوڑ دو۔اسے وقت دو۔انکی بات سن کر وہ ناراضگی سے انہیں دیکھنے لگیں۔
مما!آ پ میرے لئے دیکھ لیں لڑکیاں۔میں ایک کیا دو کرنے کو تیار ہو۔بس آپ مان جائیں۔دریاب نے کہا  تو شائستہ بیگم نے کہا

رکو بتاتی ہو تمہیں۔
اس سے پہلے کہ اسے تھپڑ پڑتا وہ وہاں سے بھاگ گیا تو وہ مسکرانے لگیں۔
دو ہی تو بیٹے تھے انکے زریاب اور دریاب۔۔۔۔۔
دریاب ابھی پڑھائی کر رہا تھا جبکہ زریاب پڑھائی ختم کرنے کے بعد اور سی ایس ایس کا امتحان کلئیر کرنے کے بعد اب سینیئر پولیس آفیسر تھا۔۔

زمہ دار پوسٹ پر ہونے کے باوجود وہ آفس کی پریشانیوں کو آفس تک ہی محدود رکھتا تھا۔
قریشی صاحب  کی اپنی فیکٹری تھی جسکی دیکھ بحال وہ خود ہی کرتے تھے جبکہ شائستہ بیگم گھریلو خاتون تھیں۔اور اب جیسے جیسے انکی عمر بڑھ رہی تھیں وہ چاہتی تھیں کہ وہ زریاب کی شادی اپنی زندگی میں ہی کر دیں۔لیکن وہ تھا کہ وہ پٹھوں پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دے رہاتھا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

آگئی محترمہ۔۔۔۔اسے گھر آتا  دیکھا تو اسکی تائی نے طنزیہ کہا
نہیں تائی جی۔ابھی رستے میں ہوں۔زرتاشہ نے بھی انکے طنز کا جواب طنز میں ہی دیا۔
ہائے ہائے لڑکی۔گز بھر لمبی تو تمھاری زبان ہے۔تائی کے ساتھ بیٹھی تائی کی بہن نے کہا
جی بلکل ہے۔لیکن آپکی بیٹی سے کم ہی ہے۔وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
پتہ نہیں یہ کالج والے اسے  تمیز تو نہیں سکھاتے ہاں بد تمیزی ضرور سکھا کر بھیج رہے ہیں۔تائی نے تلملاتے ہوئے کہا

شکر ہے میں نے اپنی بچی کو نہیں پڑھایا ۔تائی کی بہن نے کہا
سہی کیا ہے۔میں نے بھی کومل کو  آگے ایڈمیشن نہیں لینے دیا۔پڑھ پڑھ کر ناں رنگ رہتا ہے ناں روپ اور شکل بلکل بے رو نق ہو جاتی ہے۔تائی  نے کہا تو انہوں نے اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔
باپ کی چھوٹ ہے ساری۔یہ باپ کے سر پر خاک اڑائے گی تو تب اسے پتہ چلے گا۔ہم نے تو بہت کہا تھا  اسکے باپ کو  راشدہ سے شادی کر لو۔لیکن وہ ناں مانا۔انہوں نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا
ہائے راشدہ بیچاری۔زندگی کے سخت دن گزار رہی ہے۔کیا تھا جو اسکا باپ مان جاتا تو آج تم دونوں بہنیں یہاں راج کر رہی ہو تیں۔انہوں نے آہ بھری  تو تائی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی
نظرانہ کیسی ہے؟ سسرال والے ٹھیک ہیں اسکے ؟تائی نے   اپنی  بھانجی کا پوچھا
ہائے بیچاری نظرانہ !چاند سی لڑکی کو تنگ کیا ہوا ہے ظالم لوگوں نے۔انہوں نے دوپٹے کے پلوں سے نادیدہ آنسو صاف کئیے۔

کیوں اب کیا ہوا ہے ؟ تائی نے پوچھا تو وہ اسکے سسرال کی برائیاں کر نےلگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
میں کہتی ہوں صابر  سمجھاو  اپنی بیٹی کو ۔۔گز بھر لمبی اسکی زبان ہے۔کوئی ایک جملہ کہتا ہے تو وہ آگے سے دس باتیں سناتی ہے۔اسکی دادی نے   اپنے بیٹے کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا  تو صابر صاحب نے کہا
بچی  ہے  اماں۔تو اونہہ کہہ کر وہ منہ موڑ گئیں۔
آج سلطانہ اپنی نند کے بیٹے کے لئے زرتاشہ کا رشتہ لیکر آئی تھی۔انہوں نے منہ میں پان رکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم غصے میں آئے
آپ نے انہیں کہا نہیں کہ میں اس جاہل لڑکے کو اپنی بچی نہیں دونگا۔تو  جہاں آراں بیگم نے چشمہ ناک  پر ٹکایا  اور کہا
ناں بھلا لڑکے میں کیا کمی ہے؟ اپنی دکان ہے۔بس پڑھا لکھا ہی نہیں ہے۔انکی بات سن کر صابر صاحب نے کہا
"جو بھی ہے ۔میری بچی مجھ پر بوجھ نہیں ہے۔آپ ناں کر دیں۔تو جہاں آراں بیگم نے  اونہہ کہہ کر اپنا منہ دوسری طرف کیا اور کہا
جب وہ تمھاری عزت کو بٹہ لگائے گی تب تمہیں سمجھ آئے گا۔تو صابر صاحب انکی بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے 

ایسا کبھی نہیں ہوگا۔وہ میری بیٹی ہے۔اگر ایسا کچھ ہوا تو میں اسے خود جان سے مار دونگا۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
اندر کمرے میں بیٹھی زرتاشہ ان ماں  بیٹی کی گفتگو سنتی رہی ۔اور پھر وہی چادر کر کے لیٹ گئی۔
اس گھر میں اسکے ابو ہی اسکے لئے سب کچھ تھے۔ورنہ باقی سب تو اسکے خون کے درپے تھے۔
اسکا قصور بس یہ تھا کہ وہ لڑکی تھی۔دادی کو پوتے کی خواہش تھی لیکن وہ انکے پوتے کی جگہ پیدا ہو گئی تو دادی نے اسے اپنادشمن سمجھ لیا اور تائی اسلئے ضد کرتی تھیں کیونکہ وہ اپنی بہن راشدہ کی شادی اسکے والد سے کرانا چاہتی تھیں۔لیکن چونکہ اسکے ابو کو اسکی امی پسند آگئیں تھیں   تو  انکی خواہش پوری ناں  ہو سکی۔
جب تک اسکی امی زندہ رہیں تائی نے طرح طرح کے طریقوں سے انکا جینا دوبھر کئے رکھا اور پھر اللہ کو ان پر رحم آگیا اور اسکی پیدائش پرڈاکٹر کی غلطی سے  وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
ماں کے مرنے کے بعد نانا نانی نے تو اسے پالنے سے صاف کر دیا تھا۔

تب ہی اسکے باپ نے اسکو پالنے کی زمہ داری اٹھائی تھی۔اس وقت بھی تائی نے بہت کوشش کی تھی کہ اسکا وجود انکے گھر میں ناں آئے ۔وہ چاہتی تھیں کہ اب اسکے والد انکی بہن سے شادی کر لیں ۔لیکن ایسا ناں ہوا۔اسکے باپ نے دوسری شادی سے صاف انکار کر دیا اور اپنی ساری توجہ اسکو پالنے پر لگا دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
اسکا باپ صبح کمانے جاتا تھا اور رات کو آتا تھا وہ تمام وقت گھر کے کسی کونے میں گندی پڑی رہتی۔
کبھی دادی کا دل کرتا یا اسکی کسی پھوپھو کو خیال آتا تو وہ اسے فیڈر دی دیتیں۔ورنہ کبھی کبھی تو تائی اسکا دودھ خود  پی لیتی تھیں۔اور اسکی جگہ  اسکو قہوہ بنا کر پلا دیتی تھیں۔
شروع شروع میں اسکی دادی اس سے بہت چڑتی  تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اس کے وجود کو قبول کر لیا لیکن وہ طنز کرنا کبھی بھی ناں بھولی تھیں۔
اب تو خیر وہ طنز کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ جس دن وہ طنز ناں کرتیں تو اسے لگتا کہ کوئی کام ادھورا رہ گیا ہے۔

زندگی یوں ہی گزرتی چلی گئی تھی۔
اسنے بی اے کرنے کے بعد جب وکالت کے کالج میں ایڈ میشن لینے  کی بات کی تھی تو گھر میں ایک طوفان اٹھ گیا تھا لیکن پھر اسنے اپنے والد کو قائل کر لیا  کہ وہ اس لئے وکیل بننا چاہتی ہے تاکہ وہ غریب لوگوں کو انصاف دلا سکے۔تاکہ کوئی اور زرتاشہ  اپنی ماں سے جدا نا  ں ہو۔اس کی بات سن کر وہ خاموش ہو گئے تھے۔
اور پھر ایک بہت بڑے جھگڑے کے بعد اسکا  لائیر کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تھا۔
گھر میں اسکو  سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ اب بھی کرنا پڑ تا تھا لیکن وہ اپنے  خواب سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔۔اب تو خیر اسکے آخری سیمسٹر  کے بھی کچھ دنوں میں پیپرز ہونے والے تھے۔اور وہ وکیل بننے والی تھی۔

اسے اتنی سختیاں سہنے لے بعد بھی اپنی دادی اور تائی سے نفرت نہیں ہوئی تھی لیکن اگر اسے نفرت تھی تو وہ تھی اسے لیڈی ڈاکٹرز سے۔"اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ  ان سے پوچھے کہ بتاو تمھاری غلطیوں کا خمیازہ  بچے  خاص طور پر لڑکیاں کیسے بھگتیں جنکی مائیں 
تمھاری غفلت سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔وہ بچیاں کیسے کیسے جئیں؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔،۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

Post a Comment

0 Comments