Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 6

Yaadghaar lamhe:


Yaadghaar lamhe

6قسط 

 "اٹھو عرشی تیار ہوجاو۔تمھارے بابا آکر اتنی جلدی مچائیں گے کہ تیار ہونے کا وقت نہیں ملے گا۔"

عرشی کی والدہ نے ٹی وی دیکھتی عرشی کو کوئی تیسری دفعہ کہا 


"ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ سالگرہ پر اتنا شور شرابا کرنے کی ضرورت کیا ہے؟خاموشی سے وسیم انکل اسکی سالگرہ کر دیتے۔لیکن ناں جی۔دکھاوا بھی تو کرنا ہے۔"عرشی نے ریموٹ رکھ کر اٹھتے ہوئے کہا


"یہ تو مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے۔"عرشی کی والدہ نے اسکی بربڑاہٹ کو سن کر کہا


ابھی وہ کوئی جواب دینے ہی والی تھی کہ انہیں جاوید صاحب کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔


"لو آگئے تمھارے بابا۔"

وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔جبکہ عرشی اپنے کمرے کی طرف چلدی۔


"آگئے آپ؟"جاوید صاحب کو گرل کھول کر اندر آتے دیکھا تو انھوں نے پوچھا


"جی"۔۔انھوں نے جواب دیا۔


"تم لوگ تیار ہوجاو۔تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں"۔وہ کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"یہ لڑکا ابھی تک نہیں آیا۔کہا بھی تھا کہ وسیم کی پوتی کی سالگرہ میں جانا ہے"۔انھوں نے گھڑی کو دیکھا جو آٹھ بجا رہی تھی۔


"لگتا ہے بھول گیا ہے۔کال کرتا ہوں"۔انھوں نے دل میں سوچا اور اسے کال ملائی۔


"ہیلو!" پہلی بیل پر ہی اسنے کال ریسیو کر لی۔


"کہاں ہو یار؟ بتایا بھی تھا کہ  آج وسیم کی پوتی کی سالگرہ ہے۔ادھر جانا ہے۔"انھوں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا


"مجھے یاد تھا پاپا۔آرہا ہو"۔۔اسنے ہنستے ہوئے کہا


"جلدی آو"۔۔انھوں نے کہہ کر کال بند کر دی۔


تقریبا تیس منٹ کے بعد وہ گھر پر موجود تھا۔انھوں نے ناراضگی سے اسے دیکھا


"او مائی لولی ڈیڈ"۔۔کہتے ہوئے علی نے انکے شانوں کے گرد اپنا ہاتھ پھیلایا۔


"اگر جانے کا موڈ نہیں تھا تو تم بتا دیتے"۔انھوں نے ناراضگی سے اسکے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا


"میں راستے میں تھا پاپا۔ٹریفک زیادہ تھا اسلئے لیٹ ہوگیا"۔اسنے لیٹ ہونے کی وجہ  بتائی۔


"انہی کپڑوں میں جاوگے"؟انھوں نے مزید ڈانٹنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اسے کہا


"نہیں!ابھی جاکرچینج کرتا ہوں"۔اسنے کہا


"تو جاو۔ جلدی کرو۔پہلے ہی لیٹ ہو گئے ہیں۔"انھوں نے کہا تووہ اٹھ کھڑا ہوا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔"

عرشی لان کی پچھلے حصے میں رکھی گئی ٹیبلوں میں سے ایک پر بیٹھی عادت کے مطابق منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔


یہ ٹیبلز تھوڑے اندھیرے میں تھیں۔اسلئے یہاں لوگ موجود نہیں تھے۔اسی وجہ سے وہ یہاں بیٹھی دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔اچانک اسکا موبائل بجا


اسنے نمبر دیکھا تو فری کی کال تھی۔


ک"یا کر رہی ہو پاگل؟ "فری نے کہا


"مچھڑ مار رہی"۔عرشی نے جلے ہوئے انداز میں جواب دیا


"کیا ہوا ہے؟" فری نے پوچھا


"دو سال کی بچی ہے۔اسے پتہ بھی نہیں ہوگا کہ سالگرہ کہتے کسے ہیں؟اور ادھر ارینجمنٹ دیکھو تو ایسا لگ رہا ہے کہ بچی کی سالگرہ نہیں ولیمہ ہے"۔عرشی نے جلے ہوئے لہجے میں کہا


علی جو سر درد ہونے کی وجہ سے یہاں خاموشی میں بیٹھا تھا اسنے اسکی بات سن کر بے ساختہ اپنی مسکراہٹ دبائی۔


"ہے کون یہ سنہرے اقوال بیان کرنے والی لڑکی؟"

اسنے دل میں سوچا اور گردن موڑ کر آواز کی سمت دیکھا تو اسے پچھلی ٹیبل پر عرشی بیٹھی نظر آئی۔


"یہ لوگ بھی آئے ہیں ؟"علی  نے سوچا


"کیا اول فول بک رہی ہو لڑکی؟" فری نے کہا


"بہن یہ اول فول نہیں ہیں۔میں سچ میں یہاں دو سال کی بچی کی سالگرہ میں زبردستی لائی گئی ہوں۔اور لگ رہا ہے ولیمہ میں آگئی ہوں۔"عرشی نے کہا تو فری ہنس دی۔


"تم تو ہو ہی لوگوں سے بے زار۔لوگوں میں بیٹھو۔انجوائے کرو"۔فری نے ہنستے ہوئے اسے مشورہ دیا


"مجھے معاف کرو بہن"۔عرشی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا


"کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنی آدم بیزار ہو رہی ہو؟"فری نے کہا


"دیکھ یار یہ لوگ بغیر دکھاوے کے بھی تو سالگرہ منا سکتے تھے ناں۔اگر یہی پیسہ یہ بچی کے صدقے کے طور پر کسی غریب کو دے دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔"عرشی نے کہا


"تو پیسہ کونسا تمھارا ہے۔چھوڑو۔تم انجوائے کرو اور پھر کھا پی کہ گھر آجاو۔"فری نے لا پرواہی سے جواب دیا تو وہ خاموش ہو گئی۔


"اچھا چلو خدا حافظ۔بیلنس ختم ہونے والا ہے"۔فری نے کہا تو عرشی نے بھی خداحافظ کہہ دیا۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


کال بند ہونے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔


"میں بابا سے کہتی ہونکہ گھر چلیں"۔اسنے عادت کے مطابق اٹھتے ہوئے خود سے خود ہی بات کی تو علی نے بے ساختہ اپنا رخ موڑ ا۔


"یہ کون بیٹھا ہے؟ "جاتے جاتے عرشی کی نظر اس پر پڑی لیکن اسکے ترچھا بیٹھنے کی وجہ سے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پائی۔


"ہائے !اس بندے نے کہی میری باتیں نہ سن لی ہو"۔ایک لمحے کے لئے اسنے دل میں سوچا


"جو بھی ہے۔دفع کرو۔کونسا میرے چاچا کا بیٹا ہے"۔وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے منہ ہی منہ میں باآواز بلند بڑبڑائی اور پھر  آگے بڑھ گئی۔


اسنے اسکی بڑبڑا ہٹ سنی اور بے ساختہ مسکرایا ۔


"ویسے پاپا کی چوائس ہے تو اچھی"۔اسنے مسکراتے ہوئے سوچا اور سگریٹ سلگائی۔


"پاپا کی آفر پر سوچا جا سکتاہے"۔اسنے اس راہ کو تکتے ہوئے سوچا جس راہ سے وہ گزر کر گئی تھی۔


۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"چلیں ناں ۔" وہ اپنی والدہ کے پاس کھڑی کہہ رہی تھی کہ وہاں جاوید صاحب  حسین صاحب  کے ساتھ آئے۔انھوں نے اسکا جملہ سن لیا تھا۔


"اسلام وعلیکم بھابھی"۔حسین صاحب نے سلام کیا 


"وعلیکم سلام"۔۔عرشی کی والدہ نے جواب دیا تو وہ عرشی کی طرف متوجہ ہوئے۔


"کیسی ہو بیٹا؟ "انھوں نے پوچھا 


"میں ٹھیک ہوں۔آپ کیسے ہیں ؟ "اسنے پوچھا


"میں بھی ٹھیک ہوں"۔انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔


"یہ کہاں جانے کی ضد کر رہی تھی"؟جاوید صاحب نے مسکراتے ہوئے عرشی کی والدہ سے پوچھا


"گھر جانے کی ضد کر رہی ہے"۔انھوں نے بتایا


"بابا گھر چلتے ہیں ناں اب"۔عرشی نے ایک دفعہ پھر اپنا رونا رویا۔


"ہاں بیٹے چلتے ہیں۔"انھوں نے اسے تسلی دی۔اتنے میں وہاں وسیم صاحب آئے۔


"تم لوگ جارہے ہو"؟انھوں نے پوچھا 


"ہاں یار! پہلے ہی دیر ہو گئی ہے اب گھر چلنا چاہیے"۔جاوید صاحب نے انکو جواب دیتے ہوئے کہا 


"چلو اب اجازت دو۔اور بھابھی کو میرا سلام کہنا" ۔وہ وسیم صاحب سے کہتے ہوئے ان سے گلے ملنے لگے۔


"پاپا پتہ نہیں کدھر ہیں؟ " علی نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا تو اسے وہ جاوید صاحب اور وسیم صاحب کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو وہ انکی طرف بڑھ گیا۔


حسین صاحب نے جانے کے لئے تیار کھڑی عرشی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا


"بیٹا آپ تو اس دن کے بعد ہمارے یہاں آئی ہی نہیں۔"


"مجھے کوئی لایا ہی نہیں۔" اسنے جاوید صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دئیے۔


اتنے میں وہ وہاں پہنچا۔


پاپا۔۔اسکی آواز پر وہ سب اسکی طرف متوجہ ہوئے۔


"تم کہاں غائب تھے؟"جاوید صاحب نے اسے دیکھتے ہی کہا 


"میں بس وہاں بیٹھا تھا"۔۔وہ کہتا ہوا ان سے گلے ملا


"چلوہمیں بھی اجازت دو وسیم"۔حسین صاحب نے وسیم صاحب سے اجازت طلب کی ۔


"تم تو بیٹھو"۔۔انھوں نے کہا


"کل آفس بھی جانا ہے۔اور یہ علی اٹھتا بھی لیٹ ہے"۔انھوں نے جانے کی وجوہات بتائیں تو وسیم صاحب نے متفق ہوتے ہوئے سر ہلادیا۔


"میری بیٹی کو میرے گھر لیکر آنا۔"


جاوید صاحب سے ملتے ہوئے حسین صاحب نے خصوصا انھیں تاکید کی جسکے جواب میں عرشی نے کہا


"آپ خود تو ہمارے یہاں آئے ہی نہیں"۔ عرشی نے اپنے ازلی منہ پھٹ انداز میں انھیں کہا تو وہ ہنس دئیے اور  بے ساختہ حسرت سے سوچا


"کاش علی میری بات مان جاتا۔" پھر انکی نظروں کے سامنے اسرا اور علی گھوم گئے تو وہ یک دم خیالوں سے باہر آئے۔


"چلو اس دفعہ میں آونگا" ۔۔حسین صاحب نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا 


"آپ کو ہی آنا  چاہیےانکل"۔ اسنے ہنستے ہوئے  کہا تو وہ بھی  ہنس دئیے جبکہ اس سب معاملے میں علی بغور اسے دیکھتا رہا۔


"چلو آو عرشی!"جاوید صاحب نے اسے کہا تو وہ اور اسکی والدہ انکے پیچھے چل دیں۔


"یہ عرشی بچپن میں بھی تم سے ہر بات بلا جھجھک کہتی تھی اور اب بھی یہی حال ہے"۔وسیم صاحب نے ہنستے ہوئے حسین صاحب سے کہا 


"ہاں! اگر میری کوئی بیٹی ہوتی تو بلکل ایسی ہوتی"۔حسین صاحب نے انکی بات کا جواب دیا اور پھر کہا


"چلو بھائی۔اب ہم چلتے ہیں۔"وہ کہتے ہوئے ان سے گلے ملنے لگے۔


۔۔۔۔*۔۔ ۔۔۔۔۔


گھر پہنچتے ہی وہ کپڑے تبدیل کئے بغیر سوگئی۔اسے اپنے پورے جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا۔


صبح اسکی والدہ اسے اٹھانے آئیں تو وہ انھیں گہری نیند میں ملی۔


"عرشی"۔۔۔۔انکے بار بار پکارنے پر اسنے آنکھیں کھول کر انھیں دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر گئی۔


"اٹھو!کالج نہیں جانا؟" انھوں نے اسے ہلاتے ہوئے کہا


"میرا دل نہیں کر رہا" ۔اسنے کہتے ہوئے منہ پر تکیہ رکھ لیا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔اور لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل گئیں۔


دس بجے کے قریب وہ سو کر اٹھی ۔پہلے تو وہ سستی سے بیڈ پر لیٹی رہی پھر اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔واپس آکر بال بنانے کے بجائے الٹے سیدھے لپیٹے اور کمرے سے باہر نکل گئی۔


اسکی والدہ جو لاونج میں بیٹھی تھیں انھوں نے اسے باہر آتا دیکھا تو کہا


"اٹھ گئی؟"


"جی !"اسنے جواب دیا


"چائے بنوادیں۔ناشتہ رہنے دیں"۔اسنے کہا اور ٹی وی کا ریموٹ لیکر بیٹھ گئی۔


تو وہ اسکے لئے چائے بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


تھوڑی دیر کے بعد وہ اسکے لئے چائے کے ساتھ سینڈوچ لیکر آئیں تو اسنے کہا


"میں صرف چائے پیوگی۔یہ نہیں کھاونگی۔"


"کیوں؟کھالو۔دو ہی تو ہیں"۔انھوں نے نرمی سے کہا


"نہیں!میرا دل نہیں کر رہا ہے۔"وہ کہہ کر اپنی چائے کا کپ لیکر اندر کمرے میں چلی گئی۔


۔۔۔۔*۔۔۔۔


وہ  اپنے آفس میں بیٹھا عمر کے ساتھ لنچ کر رہا تھا جب اچانک اسکا موبائل بجا۔


اسنے نمبر دیکھا اور کال کاٹ دی۔تھوڑی دیر کے بعد پھر کال آنے لگی۔


اسنے پھر کال کاٹ دی۔


عمر جو اسے بار بار کال کٹ کرتا دیکھ رہا تھا۔آخر اس نے تنگ آکر کہا


"مسئلہ کیا ہے یار؟کس کی کال ہے؟"


"اسرا کی" ۔اسنے جواب دیا


"بات کر لو۔کوئی ضروری بات ہو گی۔"عمر نے کہا


"میرے خیال سے تو نہیں۔" اس نے پر سوچ انداز میں کہا


"اووو"۔۔عمر نے کہا


"مطلب تم نے سوچ لیا ہے کہ تم نے اس سے دوستی سے آگے بات نہیں بڑھانی؟" عمر نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا


"ہاں!" اسنے مختصرا کہا


"وجہ پوچھ سکتا ہونکہ کیسے تم نے خود کو اپنے آپ کو اس کنفیوزن سے باہر نکالا؟"


"ہمم۔۔مجھے خود نہیں پتہ یار۔اسرا کو میں نے کبھی دوست سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا اور اب تو خیر یہ ممکن ہی نہیں"۔۔روانی میں کہتے ہوئے اسکے منہ سے نکلا


"کیوں ممکن نہیں ہے"؟ عمر نے اسکی بات کو پکڑا


"ایسے ہی۔۔لنچ کرو۔"علی نے اسکا دھیان بٹانے کو کہا


"مطلب تمھارے دل کو کوئی اچھی لگی ہے؟رائٹ؟ " عمر نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا


"کھانا کھاو"۔اسنے جواب دینے کے بجائے بات گھمائی۔


"آہاں۔۔مطلب دوست سے بھی رازداری" ۔عمر نے کہا تو وہ ہنس دیا


"ہاں" ۔۔۔اسنے جواب دیا


"کون ہے؟ " اسنے پوچھا


تو وہ جواب دینے کے بجائے مسکراتا رہا


"انکل کے فرینڈ کی بیٹی؟"عمر نے اچانک کہا تو وہ ہنس دیا


"اچانک کیسے پسند آگئی؟ کل تک تو تم ناں ناں کرتے پھر رہے تھے۔"عمر نے اسکی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا


"میں اسے پسند نہیں کرتا"۔اسکی بات سن کر عمر اسے حیرانگی سے گھورنے لگا


بلکہ میں اسکی معصومانہ باتوں سے محبت کرنے لگا "ہوں۔"عمر کو اپنی طرف گھورتا دیکھا تو اسنے اپنا جملہ مکمل کیا۔


"اوئے ہوئے"۔عمر نے کہتے ہوئے اسکے بازو پر مکا مارا۔


"اب لنچ کرنے دو مجھے"۔وہ کہتے ہوئے لنچ کی طرف متوجہ ہوا تو عمر بھی کھانا کھانے لگا۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


اسنے تیسری بار پھر نمبر ملایا تو آگے سے اسے نمبر سوئچ آف ملا تو وہ موبائل بیڈ پر پھینک کر خود کارپٹ پر بیٹھ گئی۔


"کیوں رلا رہے ہو مجھے علی؟"


"تمھیں میری محبت کیوں نہیں نظر آتی؟"


"کیوں بھاگتے ہو مجھ سے ؟"


"میں تمھارے پیچھے یہاں تک آگئی اور تم مجھے اپنے قریب ہی نہیں ہونے دے رہے۔"


"مت کرو ایسا"۔۔وہ آہستہ آہستہ بولتے بولتے سر گھٹنوں میں دیکر روتی چلی گئی۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


اسنے اسے پہلی دفعہ یونیورسٹی کی لائبریری میں دیکھا تھا۔


"اونچا،لمبا،ہینڈسم ۔سونے پر سہاگہ خود میں مگن لاپرواہ سا۔"


"وہ اسے پہلی نظر میں اچھا لگا تھا۔اور وہ پہلی دفعہ میں ہی اس پر دل ہار بیٹھی تھی۔"


پھراسکے قریب ہونے کے لئے اسکے گروپ سے دوستی کی۔شروع شروع میں وہ اس سے بلکل بات نہیں کرتا تھا۔


لیکن یہاں بھی اسرا نے اپنی عزت نفس کو بھول کر خود اس کو مخاطب کرنا شروع کیا ۔


کبھی بلاوجہ اسے کال کر لیتی ۔


اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس سے بیزار ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اس سے بات کئے جاتی ۔


اور یہ اسکی ایک سال کی محنت تھی کہ وہ اس سے دوستوں کی طرح بات کرنے لگ گیا تھا۔


اس تمام عرصے میں وہ اسکے والد سے بھی مل چکی تھی۔


اسے علی کے فرینڈز سے معلوم ہواتھا کہ علی کو مغربی طرز کی ڈریسنگ نہیں پسند تو اسنے بھی وہ ڈریسنگ کرنا چھوڑ دی۔


"علی کو بلیک کلر اچھا لگتا تھا تو اسنے اپنی ڈریسنگ میں بلیک کلر کا استعمال زیادہ کر دیا تھا۔


وہ کسی بھی طریقے سے اسکی نظروں میں آنا چاہتی تھی۔لیکن وہ پتھر ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔"


"اور پھر ایک دن اسنے کہا کہ وہ واپس جا رہا ہے۔"


"اسے لگا کہ اسکی دنیا تاریک ہو رہی ہے۔پہلے بھلے وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔لیکن کم از کم اسکے ملک میں تھا جہاں وہ رہتی تھی۔اور اب وہ اس سے دور جانا چا ہ رہا تھا بلکہ جا رہا تھا۔"


"تب وہ اسکے سامنے بہت روئی تھی ۔بہت گڑ گڑائی تھی کہ مت جاو۔پاکستان میں کیا رکھا ہے۔یہاں تمھارا بہتر مستقبل ہے۔ہم سب دوست ساتھ ہونگے۔"


"لیکن اسنے اسکی ایک نہ سنی اور اسکی گریہ زاری کے باوجود وہ  وہاں سے چلاآیا۔اور اپنے ساتھ اسکا سکون بھی لے آیا۔"


اسکے وہاں سے چلے آنے کے بعد اسرا کو کبھی سکون نہیں آیا۔۔


"علی نے  کبھی اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔لیکن وہ خود کی خوبصورتی اور دوستی پر یقین کئے ہوئے تھی کہ وہ اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی۔محبت کہی بہت پیچھے رہ گئی تھی۔اب صرف اوہ اپنی انا کو تسکین پہنچانا چاہتی تھی۔"


یہ ریجیکٹ ہونے کا احساس تھا جو اسے پرسکون  نہیں ہونے دیتا تھا۔۔اور جب وہ خود کا ریجیکٹ ہونا قبول نہ کر سکی تو اسکے پیچھے پاکستان آگئی۔لیکن اب بھی علی کی وہی روش تھی۔وہ بار بار اسے اپنے روئیے سے یہ باور کرا رہا تھا کہ وہ اسکے لئے ایک دوست سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔اور یہ بات اسرا کو سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔"


وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے روئے جا رہی تھی۔


اتنے میں اسکے کمرے کا دروازہ کھلا

۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments