Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 2

Yaadghaar lamhe:


Yaadghaar lamhe

   قسط 2

"میرا فیورٹ ہیرو "نواز شریف "ہے۔"


اقصی نے آنکھیں بند کر کے کہا


"تمھاری طبیعت وبیعت ٹھیک ہے ناں اقصی" ؟فری نے کہا 


"ہاں کیوں؟ " اس نے جواب دیکر سوال پوچھا


"کیونکہ لگ نہیں رہی ہے۔۔"فری نے کہا 


"ویسے اقصی تم نواز شریف کی کس ادا پر مر مٹی ہو؟ "عرشی نے کہا 


"انکی ٹنڈ پر "۔اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا


جسے سن کر وہ دونوں ہنس ہنس کر بے حال ہو گئی۔


"تم لوگ ہنسو مت۔"اقصی نے ناراضگی سے کہا اور پھر کہنے لگی۔


"اب تم لوگ خود دیکھو۔اتنی حسین گول چمکدار ٹنڈ کسی کی ہو سکتی ہے ؟"


"نہیں ناں۔"اقصی نے بڑ ی سنجیدگی سے جواب دیا 


اسکا جواب سن کر عرشی اور فری کا برا حال تھا۔


"میری طرف سے یہ قبول کر۔"فری نے اقصی کو کہا 


"کیا قبول کرو؟"اسنے کہا 


"لعنت"۔فری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے لعنت دی۔


"بد تمیز"۔اقصی نے کہا 


"بہن لوگ ہینڈ سم لڑکوں کو ہیرو بناتے ہیں ۔تم نے بنایا بھی تو کسے۔


گنجے نواز کو"۔فری نے کہا 


ابھی وہ لوگ یہ باتیں کر ہی رہیں تھیں کہ سر عباس 


انکی کلاس میں آئے۔


اور عادت کے مطابق سلام کیا ۔


"آپ لوگوں کا یہ فری پیریڈ ہے ؟ "سر نے پوچھا 


"جی سر۔"انھوں نے جواب دیا


"تو میں آپکی کلاس لے لو "؟ انھوں  نے کہا


تو وہ لوگ سر ہلا گئیں۔


"اپنے اپنے پورٹ فولیو لاکر ٹیبل پر رکھیں"۔۔سر نے کہا 


تو سب نے اپنے اپنے پورٹ فولیو نکال کر ٹیبل پر رکھ 


دیئے۔


وہ ایک ایک کر کے سب کے پورٹ فولیو دیکھنے لگے کہ 


کس کس نے کام کیا ہے۔


"عرشی آپ نے کل کا کام نہیں کیا جو میں نے دیا 


تھا۔۔"انھوں نے کہا 


"نہیں سر۔"عرشی نے جواب دیا 


"کیوں؟" سر نے اسے دیکھا 


"وہ خاموش رہی"۔


تو انھوں نے کہا


"آپ لوگوں کے فائدے کے لئے ہم لوگ لکھوا رہے ہیں۔ورنہ 


آپکے کام کرنے یا نہ کرنے سے ہمیں کیا فائدہ پہنچنا ہے"۔


"کل یاد سے لکھ کر لگائیے گا۔انھو ں نے کہا تو اسنے جی 


کہہ دیا۔"


پورٹ فولیو چیک کرنے کے بعد انھوں  نے کہا 


"ون بائے ون ڈائس پہ آکر کل جو میں نے پڑھایا تھا اسے 


ڈیفائن کریں۔"


"یار "۔۔۔۔۔عرشی نے اقصی کو کہا 


"کیا ہوا"؟اقصی نے کہا


"یہ کیوں بلا رہے ہیں ڈائس پر ؟"عرشی نے کہا 


"حسین بہت ہیں ناں ہم۔بس اس لئے۔"اقصی نے کہا 


"اتنے میں سر نے فاطمہ کا نام لیا تو وہ اٹھ کر چلی گئی۔"


جب وہ پریزینٹیشن دیکر واپس آئی تو سر نے کہا 


"یہ میں آپکی پریکٹس کرا رہا ہوں۔تاکہ آپ لوگ سب کے 


سامنے بولنے کہ عادی ہو جائیں"۔انھوں نے مزید کہا 


ابھی آپ فاطمہ کو دیکھیں۔


"انھوں نے جو پریزینٹیشن دی  ہے اس سے صاف معلوم 


ہو رہا تھا کہ انکے کانسیپٹس کلئیر نہیں ہیں۔"


"کل میں دوبارہ یہ ٹاپک پڑھاوں گا۔تا کہ آپ لوگوں کو 


اچھے طریقے سے سمجھ میں آجاے"۔ 


اتنے میں چھٹی کی گھنٹی بجی تو وہ اٹھ کر چلے گئے۔


وہ لوگ بھی اپنے اپنے بیگ پیک کرنے لگیں۔


"یار سر نے جس طرح سے بات شروع کی تھی تو مجھے 


لگا کہ اسکی تعریف کریں گے۔لیکن انھوں نے تو ٹکا کر بے 


عزتی کی ہے۔"اقصی نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا 


"میں بھی یہی سمجھی تھی" ۔فری نے کہا 


"سر بے عزتی بھی اتنی عزت سے کرتے ہیں کہ سمجھ ہی 


نہیں آتا کہ عزت ہو رہی ہے کہ بے عزتی۔"عرشی نے کہا 


"اور ایک میں پورٹ فولیو سے تنگ ہوں"۔فری نے کہا


"کسی دن ہم بھی  فولیو بن جائیں گے پورٹ فولیو بناتے 


بناتے۔"اقصی نے کہا 


"سہی کہہ رہی تم۔"عرشی نے کہا


"تب تک وہ لوگ سیڑھیاں اتر کر گراونڈ فلور پر پہنچ 


چکی تھیں۔"


"اور مجھے تو ریفلیکشن لکھتے موت آنے لگتی ہے"۔


عرشی نے کہا 


"مجھے بھی"۔اقصی نے کہا 


"جس بندے نے یہ فولیو بنانے کا کام شرع کیا تھا بس وہ 


بندہ مجھے مل جائے۔میں نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر 


اسے قتل کر دینا ہے"۔۔اقصی نے کہا


"اس نیک کام میں ہم دونوں کو بھی بلانا"۔عرشی نے کہا 


تو وہ تینوں ہنس دیں۔


اینسے ہی باتیں کرتے وہ کالج گیٹ تک پہنچ چکی تھیں۔


جیسے ہی وہ گیٹ سے باہر نکلیں تو فری نے اپنے بابا کو دیکھا۔


"یار میں چلتی ہوں۔میرے بابا آئے ہوئے ہیں"۔


فری انکوخداحافظ کہتی اپنے بابا کی طرف چلدی۔


جبکہ وہ دونوں بھی اپنے گھر کی طرف چلدیں۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"یہ گملے کس نے توڑے ہیں؟ "وقار صاحب نے آکر اقصی 


سے پوچھا 


"وہ ابو خالہ آئی ہوئی ہیں تو ا کے بیٹے حسیب نے توڑے ہیں۔"


"اسلام علیکم دولہا بھائی۔"اتنے میں اقصی کی خالہ بھی وہیں آگئیں۔


"وعلیکم سلام۔"انہوں نے جواب دیا ۔


"اقصی بیٹے جو ٹوٹے گملے ہیں انکو باہر پھینک دو ۔اور مٹی سمیٹ دو۔"وقار صاحب نے کہا 


"جی ابو۔"اقصی نے کہا


"ہاں۔وہ میرے حسیب سے آپ لوگوں کے گملے ٹوٹ گئے ہیں۔"


"لیکن آپ لوگوں نے بھی تو سیڑھیوں پر گملے رکھے ہیں۔


ایسی جگہوں پر کون رکھتا ہے؟" اقصی کی خالہ نے کہا 


" ہمیں معلوم  نہیں تھا ناں کہ آپ لوگ آنے والے ہیں۔ورنہ 


لازمی جگہ تبدیل کرتے"۔وقار صاحب یہ کہ کر وہاں سے چل پڑے۔


"انکا اصل میں موڈ خراب ہے۔تم ناراض مت ہونا۔"اقصی 


کی امی نے کہا تو وہ خاموش ہو گئیں۔


"اقصی جاو تم صفائی کرو"۔انھوں نے اقصی سے کہا تو 


وہ اٹھ کر صفائی کرنے چل دی۔


"صفائی کرنے کے بعد وہ نہائی اور نہا کر اپنے کمرے میں 


جاکر بیٹھ گئی۔"


"یار ماہ نور پنکھا تیز کرو"۔بہڈ پر لیٹی ماہ نور سے 


اس نے کہا تو ماہ نور نے اٹھ کر پنکھا تیز کر دیا ۔


"مانو۔۔"اس  نے اپنی ایک سینڈل اسٹڈی ٹیبل کے پاس 


دیکھی تو ماہ نور کو آواز دی۔


"بولو"۔ماہ نور نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا


"یار یہ میری ایک سینڈل یہاں کیوں پڑی ہوئی ہے "؟


اقصی نے پوچھا 


"کہاں پر "؟ ماہ نور نے کہا


"اسٹڈی ٹیبل کے پاس"۔اسنے جواب دیا 


تو ماہ نور نے اٹھ کر دیکھا۔


"ہاں یار۔پتہ نہیں کس نے وہاں رکھی ہے۔"ماہ نور نے کہا 


"لیکن یہ صرف ایک ہے۔"اقصی نے کہا 


اتنے میں حسیب وہاں آیا ۔


"آپکو معلوم ہے میں نے آپکی چپل پھینکی ہے۔"حسیب نے کہا


"کدھر پھینکی ہے ؟"اس  نے پوچھا 


"وہ ادھر پھیینکی ہے"۔حسیب اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے 


کھڑکی پاس لے گیا جو پچھلی طرف کے ویران پلاٹ میں 


کھلتی تھی۔جہاں ہروقت چرسی بیٹھے ہو تے تھے۔


اس نے دیکھا اور پھرماہ نور کو  کہا 


"یار وہاں سے لائے گا کون؟"


"میں امی کو بتاتی ہوں۔ماہ نور اٹھ کر اپنی امی کو 


بتانے چلی گئی۔"


"آپ نے کیوں پھینکی حسیب؟"اقصی نے پوچھا 


"مجھے چپلیں پھینکنا اچھا لگتا ہے"۔اسنے جواب دیا 


"آپ کو پتہ ہے مجھے اسٹار بنانا بھی آتا ہے ۔آئیں میں 


آپکے بناتا ہوں"۔حسیب نے کہا 


"نہیں۔اور لاو یہ پینسل مجھے دو۔مانو آپی کی ہے۔"اس 


نے حسیب سے کہا 


"نہیں میں نہیں دونگا۔"اسنے کہا ۔


"اس  نے زور سے پینسل کھینچی جس پر وہ زور زور 


سے رونا شروع ہو گیا ۔"


اتنے میں اقصی کی امی وہاں آئیں۔


"کیا ہوا ہے ؟ حسیب کیوں رو رہے ہو ؟" انھوں نے پوچھا 


"یہ مجھے پینسل نہیں دے رہیں ہیں۔"۔حسیب نے کہا 


"اقصی دو اسے پینسل۔"انھوں نے اقصی کو کہا 


"امی اس نے میری چپل بھی باہر پھینک دی ہے"۔اس  نے کہا


"عبداللہ لا دے گا۔"انھوں نے کہا 


"آئیں میں آپ کا اسٹار بناو۔وہ ماہ نور کے پاس گیا۔"


"نہیں۔اقصی کے بناو۔"


"وہ نہیں بنوا رہیں ہیں"۔حسیب نے کہا


"یار اقصی اسے بہلاو۔مجھے نیند آرہی ہے"۔ماہ نور نے کہا


"ادھر آو حسیب۔میرے بناو اسٹار"۔اسنے حسیب سے کہا 


"تو وہ اسکے اسٹار بنانے لگا۔"


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


"یہ منہ پر کیا ہواہے "؟اچانک عرشی نے پوچھا 


"نہ پوچھ یار "۔۔اقصی نے کہا 


"بتاو تو۔ہوا کیا ہے۔"فری نے بھی کہا


"کل خالہ آئیں تھیں۔"


"تو ؟ "عرشی اور فری نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا


" انکا بیٹا ہے حسیب۔تھوڑا ابنارمل سا ہے۔وہ ضد کرنے 


لگ گیا کہ مجھے اسٹار بنانے ہیں۔"اقصی نے بتایا 


"تو یہ اسٹار بنے تھے "؟عرشی نے پوچھا


"ہاں۔"اسنے سرہلایا 


"تو بہن اسے کوئی کاپی دیتی۔تیرا منہ کوئی کاپی 


تھوڑی ہے"۔فری نے کہا 


"ویسے کس چیز سے بنارہا تھا اسٹار؟"فری نے کہا 


"پہلے پینسل سے بنارہا تھا ۔پھر پین سے پکڑ لیا تھا۔


پینسل کی نوک کو اتنے زور سے میرے چہرے پر پھیر رہا 


تھا۔"


"اور تم لوگ یہ دیکھو۔میرے کچھ پمپلز بھی اسنے 


پینسل  کی نوک سے پھاڑے ہیں"۔اقصی نے مزید بتایا


"تم اسے کان کے نیچے دو رکھ کے دیتی۔"عرشی نے کہا 


"بس یار۔۔مہمان تھا ۔اور پھر خالہ برا مناتی ہیں۔تم 


لوگوں کو علم تو ہے"۔اسنے کہا 


"اتنے میں سر عباس کھڑکی کے سامنے سے گزرتے ہوئے 


فری کو دیکھ کر مسکرائے۔


"اقصی نے فری کو بھی سر کی طرف مسکراتے دیکھا تو کہا "


"باز آجا۔اس سے پہلے کہ مس شمیم تیرا نام کالج کی 


دیواروں پر سنہری حروف میں لکھیں۔"


"ویسے فری تصور کر۔ہم گرل سے اندر آئیں اور گراونڈ 


فلور سے لیکر تھرڈ فلور تک تیرا نام کالج کی دیواروں پر 


لکھا ہو تو تمھارا کیا ری ایکشن ہو گا ؟"


"میں اپنے آپ پر فخر کرونگی کہ میں اس قابل ہو نکہ 


لوگ مجھ سے ٹکر لے لے رہیں ہیں"۔اسنے کہا


"یہ مت بھول کہ پنگا لینے والی عورت کا نام ہے مس 


شمیم"۔اقصی نے کہا 


"اتنے میں مس شمیم کسی کام کے سلسلے میں انکی 


کلاس میں آئیں۔"


"انکو دیکھتے ہی اقصی نے عرشی کے کان میں سر 


گوشی کی۔


"بس یار میں تو انکی لپ اسٹک کی فین ہو گئی ہوں۔"


"عرشی جو پہلے ہی مس کی عجیب و غریب قسم کے 


رنگ کی لپ اسٹک کو غور غور سے دیکھ رہی تھی"۔


اسکی بات پر مسکرانے لگ گئی۔


"کیا ہوا؟ "فری نے تھوڑا آگے ہو کر عرشی سے پوچھا


"مس کی لپ اسٹک دیکھ"۔اقصی نے جواب دیا 


اس نے مس کو دیکھا اور پھر کہا


" یار بندہ ایسا فیشن ہی نہ کرے جو اسکا مزاق بنائے۔


وہ سر کو ایمپریس کرنے کی کوششوں میں ہیں۔"اقصی 


نے کہا 


تب تک مس باہر جا چکی تھیں۔


"اس لپ اسٹک سے وہ کبھی ایمپریس ہو ہی نہ جائیں"۔


عرشی نے کہا 


"ہاں ناں۔ایک تو لپ اسٹک ڈارک اورینج کلر کی  لگاتی 


ہیں۔اوپر سے لپ گلوس بہت کھلے دل سے لگاتی ہیں"۔


اقصی نے کہا


"انکو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ابھی لولی پاپ کھا کر 


آئی ہو۔عجیب چپچپے سے انکے ہونٹ دکھتے ہیں۔


جیسے بچپن میں لالی پاپ کھانے سے بچوں کے ہونٹ 


چپچپے ہو جاتے تھے۔"


عرشی کا یہ کہنا تھا کہ فری جو پانی پی رہی تھی اسے 


پھندا لگ گیا۔


"بے شرموں مت کیا کرو ایسی باتیں۔"اسنے کہا تو وہ 


تینوں ہنسنے لگیں۔


"ملکہ حسن سمجھتی ہیں وہ خود کو۔"


"کسی دن انھوں نے ہم لوگوں کی باتیں سن لیں تو 


چھوٹا موٹا ہارٹ اٹیک تو پکا انھیں آجانا ہے۔اقصی نے کہا 

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments