Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 13

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe epi



"تم نے عرشی سے پوچھا ؟" جاوید صاحب نے  اپنی بیگم سے کہا


"جی !" انہوں نے  جواب دیا 


"کیا بولی وہ ؟ " انہوں نے انکی طرف دیکھا


"اسکی وہی ضد ہے کہ میں ابھی پڑھ رہی ہوں۔میں نے نہیں کرنی ابھی شادی۔" انہوں نے کہا


"لیکن مجھے لگتا ہے کہ عرشی کے لئے حسین بھائی کے گھر سے زیادہ اچھا رشتہ ہمیں کوئی بھی نہیں ملے گا۔"صفیہ بیگم   نے کہا تو جاوید صاحب نے سوچتے ہوئے کہا


"جاو عرشی کو  میرے پاس بھیجوتو وہ سر ہلاتی اٹھ گئیں ۔اور اسے جاکر کہا


"عرشی تمھارے بابا تمہیں بلا رہے ہیں۔"


وہ اچھا کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔تب ہی ضمیر اسکے کمرے میں آیا


"آپ کو میں پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا امی" ۔اسنے کہا


"کیوں کیا ہوا ؟"  انہوں نے پوچھا 


"چائے بنا دیں" ۔ضمیر نے کہا تو وہ  اسکے لئے چائے بنانے چلی گئیں۔


۔،۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"بابا ! آپ نے بلایا تھا ؟"  عرشی نے کہا


"جی !" انہوں نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ میں پکڑی کتاب  سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔اور کہا


"آو بیٹھو !" تو وہ خاموشی سے انکے پاس بیٹھ گئی۔


"پیپرز کیسے ہو رہے ہیں ؟"  انھوں نے بات کی شروعات کرتے ہوئےاس سے پوچھا


"اچھے ہو رہے ہیں۔" اسنے جواب دیا


"وہ بیٹا آپ کو امی نے بتایا ہوگا کہ آپکے  حسین انکل  نے  علی کے لئے آپکا ہا تھ مانگا ہے۔" انہوں نے جیسے ہی کہا تو وہ سر جھکا گئی۔انہوں نے اسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھا اور پھربات کو وہی سے شروع کرتے ہوئے کہا


"مجھے آپکی امی نے بتایا ہے کہ آپ منع کر رہی ہیں " ۔انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا


انکی بات پر وہ خاموش رہی تو انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا


"وجہ انکا ر کی ؟ "


"میں ابھی پڑھ رہی ہو" ۔اسنے کہا 


"تو ابھی تھوڑی رخصتی کرائیں گے۔" انہوں نےاسکے انکار کی وجہ کو ریجیکٹ  کرتے ہوئے  کہا


"اور کوئی وجہ ؟"  انہوں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا


"میں ابھی شادی نہیں کرنا  چاہتی۔" اسنے بمشکل کہا


ت"و بیٹا ابھی تھوڑی شادی کروائیں گے" ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ دوبارہ سر جھکا گئی۔


"اسے لگا  بابا نہیں مانیں گے " ۔یہ سوچ کر ہی اسکی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔ 


"ان وجوہات کے علاوہ اور کوئی وجہ تو نہیں ہے ؟"  انہوں نے پوچھا


"نہیں ! " اسنے جواب دیا


"چلو ٹھیک ہے پھر!ایسا کرتے ہیں  حسین کو کہہ دیتے ہیں کہ عرشی  ابھی پڑھ رہی ہے اسلئے  شادی دو سال بعد کریں گے۔"


انہوں نے اطمینان سے کہتے ہوئے اسکے سر پر بم پھاڑا


وہ کچھ لمحے شاک کی کیفیت میں بیٹھی رہی۔


اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے۔


"بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی" ۔اسنے پھر کمزور سااحتجاج کیا 


"ہاں تو یہی میں کہہ رہا ہونکہ میں حسین سے خود  کہونگا کہ شادی  دو سال کے بعد ہوگی" ۔انہوں نے کہا تو وہ   گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔


اسے علم ہو گیا تھا کہ بابا ہر صورت انکو ہاں کرنا چاہتے ہیں۔اسلئے وہ لب بھینچے خاموش بیٹھی رہی۔


"بیٹے اسٹڈی ٹیبل سے بلو فائل اٹھا کر دینا " ۔انہوں نے اسے مخاطب کیا  تو اسنے اٹھ کر فائل  انہیں دی اور پھرکہا


"بابا میں جاو ؟"  


ہاں جاو تو وہ انکے کمرے سے نکل گئی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا !" علی نے کہا


"کیا سمجھ نہیں آرہا ؟ " عمر نے پوچھا 


"یہی کہ پاپا کو کیسے کہو کہ وہ عرشی کے بابا سے بات کریں" ۔علی نے کہا


"اسی منہ سے  بول ناں ۔" عمر نے کہا تو علی نے اسے گھورا


"میں اتنی سیریس بات کر رہا  ہوں ۔اور تمھارا مزاح ہی  ختم نہیں ہو رہا۔" 


"اچھا اچھا ناراض نہ ہو۔بولو کیا بول رہے تھے۔" عمر نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا


"یہی کہ  پاپا کو کیسے بولو ؟"  علی نے کہا


"تم نے اب تک بات نہیں کی ؟ " عمر نے پوچھا


"یار میں گیا تھا انکے کمرے میں۔لیکن میں کنفیوز ہو گیا اور جو پوچھنا تھا  اسکے بجائے کچھ اور پوچھ آیا۔" علی نے اپنی کارستانی بتائی۔


"کوئی حال نہیں ہے تمھارا علی " ۔عمر نے ہنستے ہوئے کہا تو علی خود بھی اسکے ساتھ ہنسنے لگ گیا۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"آج چھ دن ہو گئے ہیں جاوید کی طرف سے  کوئی جواب نہیں آیا۔


کیوں نہ میں اسے  کال کر کے پوچھو ؟"  انہوں نے دل میں سوچا  اور اپنا موبائل اٹھا کر انہیں کال کرنے لگے۔


بیلز جا رہی تھیں لیکن وہ کال نہیں ریسیو کر رہے تھے۔


کچھ ہی دیر کے بعد انہوں نے  کال اٹھالی ۔


"ہیلو ! " 


"اسلام و علیکم !" حسین صاحب نے کہا


"وعلیکم سلام! " جاوید صاحب نے جواب دیا


"کیسے ہو  حسین ؟ " انہوں نے پوچھا 


"میں ٹھیک !تم سناو؟"  حسین صاحب نے کہا


"میں بھی ٹھیک !" انہوں نے جواب دیا


"وہ  میں نے تم سے ایک بات کہی تھی۔تمھاری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے سوچا   کہ خود کال کر لو۔" انہوں نے کہا


" آج  میں تمہیں کال کرنے ہی والا تھا کہ تمھاری کال آگئی۔" انہوں نے کہا


"تو پھر تم نے بھابھی سے بات کی ؟"  حسین صاحب نے پوچھا 


"ہاں کی تھی ۔اور عرشی سے اسکی پسند بھی پوچھی ہے۔" انہوں نے بتایا


"تو پھر کیا کہا ؟ " حسین صاحب   نے دھڑکتے دل کے ساتھ ان سے پوچھا۔انکو علم تھا کہ عرشی انکے بیٹے کی محبت ہے۔اور اگر نہ ہوئی تو  انکا بیٹا بھی ٹوٹ جائے گا۔


"تم رسم کے لئے آجا وکسی بھی دن۔" انہوں نے کچھ پلوں  کی خاموشی کے بعد کہا تو حسین صاحب  کچھ لمحوں کے لئے تو خوشی سے گنگ رہ گئے۔


"جاوید !تم نے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دی ہے"۔انہوں نے خوشی سے بھر پور لہجے میں کہا تو وہ مسکرائے 


"مجھے پتہ ہے  عرشی تمھارے گھر بہت خوش رہے گی۔بس میری ایک چھوٹی سی عرض ہے" ۔انہوں نے کہا


"ہاں ہاں بولو !" حسین صاحب نے کہا


"عرشی کے آج کل پیپرز ہیں ۔تو اگر رسم اسکے پیپرز  کے بعد رکھ لو تو زیادہ  بہتر ہو گا" ۔انہوں نے جھجھکتے ہوئے کہا


"ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں۔لیکن میں چاہتا ہونکہ رسم کی جگہ نکاح کروا دیں؟" حسین صاحب نے کہا


انکی بات سن کر جاوید صاحب ایک لمحے کے لئے تو سوچ میں پر گئے اور پھر  کہا


"لیکن رخصتی  میں اسکی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہی کرونگا۔" جاوید صاحب نے کہا  تو حسین صاحب نے  بھی انکی بات سے اتفاق کیا۔


"چلو پھر میں کسی دن تمھاری طرف آتا ہوں تو مل کر باتیں کریں گے۔" حسین صاحب نے کہا


"ضرور ۔اور ویسے بھی  میرا بدلہ بھی  تو باقی رہتا ہے۔اس دفعہ شطرنج کی بازی میں جیتونگا۔" جاوید صاحب نے کہا  تو حسین صاحب ہنس  دئیے۔


"دیکھتے ہیں۔" حسین صاحب نے کہا


"چلو یار مجھے تمھاری بھابھی کھانا کھانے کے لئے بلا رہی ہے۔میں چلتا ہوں۔" جاوید صاحب نے خداحافظ کہا تو حسین صاحب نے بھی خداحافظ کہہ کر کال بند کر دی۔


تب ہی علی گلاس ڈور کھول کر گھر اندر داخل ہوا۔


انہیں لاونج میں بیٹھے دیکھا  تو انکے پاس چلا آیا 


"اسلام و علیکم !" اسنے سلام کیا


"وعلیکم سلام " ۔انہوں نے جواب دیا اور پھر کہا


"خیریت ؟ آج جلدی گھر کیسے آگئے  تم ؟ " انہوں نے کہا


"کام جلدی ختم ہو گیا تو آگیا" ۔اسنے کہا


"اچھا جاو چینج کر کے آو !پھر کھانا کھاتے ہیں" ۔انہوں نے کہا تو وہ جی کہتا  اٹھ کھڑا ہوا۔


ڈنر کرنے کے بعد انہوں نے اس سے کہا


"جب کھانا کھالو تو اسکے بعد میرے کمرے میں آنا۔مجھے تم سے کام ہے" ۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔


"مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے " ؟ اسنے سوچا


"چلو دیکھتے ہیں" ۔وہ کہہ کر کھانے کی طرف متوجہ ہوا اور رحیم سے کہا


"کیا بات ہے یار!آج کھانا بے حد مزے کا بنایا ہے" ۔


"علی بھائی اب میں نے سوچا ہے کہ میں یو ٹیوب سے نیو نیو ریسیپیز ٹرائی کرونگا" رحیم نے کہا


"بہت اچھا سوچا ہے ۔ایسے ہی اچھا اچھا سوچا کرو اور میرے لئے مزے مزے کی ڈشز تیار کیا کرو"۔اسنے کہا تو رحیم اسکی بات سن کر خوش ہو گیا۔


"گرم سالن لاو ؟ " رحیم نے سالن کا ڈونگہ اٹھاتے   ہوئے کہا


"نہیں بس" !علی نے کہا اور پھر نیکپن سے ہاتھ صاف کرکے کھڑے ہوتے ہوئے رحیم سے کہا


"چائے کا ایک کپ اگر مل جائے تو ؟ تمھارے صاحب کے پاس جانے سے پہلے مائنڈ تھوڑا فریش کرنا ہے۔" 


اسکی بات سن کر وہ ہنسا اور کہا 


"ضرور بھائی۔ابھی لایا" ۔وہ کہہ کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔جبکہ وہ  جاکر ٹی وی لاونج میں بیٹھ گیا ۔


اور چائے کا انتظار کرنے لگا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


چائے پینے کے بعد وہ اٹھا اور اسٹڈی روم کی طرف چل پڑا


"آو علی !" انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہا تو وہ انکے پاس جاکر  کرسی پر بیٹھ گیا۔


"جاب کیسی جارہی ہے تمھاری "؟انہوں نے پوچھا


"ٹھیک"اسنے جواب دیا اور تھوڑا حیران بھی ہوا کہ پاپا اتنے فارمل کیوں ہو رہے ہیں۔تب ہی حسین صاحب نے اسے کہا


"میں نے جاوید سے تمھارے اور عرشی کے رشتے کی بات کی تھی۔" انہوں نے جیسے انکے سر پر بم پھوڑا


وو کچھ پل اسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے لئے رکے اور پھر   اپنی بات  کو دوبارہ  وہی سے جاری کیا


"وہ راضی ہیں۔عرشی کے آج کل پیپرز ہیں پیپرز کے بعد ہم بڑے کوئی بھی تاریخ  رکھ کر تم لوگوں کا نکاح پڑھوادیں گے۔تم اپنا دماغ بنالو" ۔انہوں نے اسکے چہرے پر پھیلتی چمک دیکھ کر دل ہی دل میں  یہ چمک  ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرتے  ہوئے اسے کہا تو وہ فورن انکے  سینے سے لگ گیا۔


"تھینک یو پاپا !"  وہ ایسے ہی انکے ساتھ لگے  لگے بولا تو وہ ہنس دئیے۔


"یور ویلکم!"  انہوں نے  اسکے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا   تو اسنے اپنی گرفت ان پر اور مضبوط  کی تو وہ نم آنکھوں سے مسکرا دئیے۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


دن یوں ہی گزرتے جارہے تھے اور وہ بے دلی سے پیپرز دیتی جارہی تھی۔


اگر اسنے پیپرز کی تیاری پہلے سے ناں کی ہوتی تو شاید اسے پاس ہونے کی امید بھی نہ ہوتی ۔


لیکن اب اسے کم از کم  اتنی امید تھی کہ وہ پاس ہو جائے گی۔


اور یوں پیپرز کے دن بھی آج ختم ہو گئے تھے۔کیونکہ آج انکا آخری پیپر تھا۔


"کیسی ہے تیاری ؟"  فری نے عرشی سے پوچھا


"ٹھیک ہے۔" عرشی نے جواب دیا


"تمھاری کیسی ہے ؟"  اقصی نے فری سے پوچھا


"اچھی ہے یار" ۔اسنے کہا


"چلو اندر چلتے ہیں۔" فری نے اسٹوڈنٹس کو اندر جاتے دیکھا  تو کہا


"کہی ہم تینوں کو الگ الگ ہی نہ بیٹھنا پڑ جائے"۔اقصی نے کہا


تو تینوں ایکزیمینیشن ہال کی طرف  بڑھ گئیں۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"شکر ہے جان چھوٹی۔" اقصی نے کہا


وہ لوگ ابھی پیپر دیکر باہر نکلی تھیں۔


"کیسا ہوا پیپر؟ " اقصی نے پوچھا


"ٹھیک ۔" عرشی نے جواب دیا


"میرااچھا ہوا ہے" ۔فری نے کہا 


"میرا بھی"  ۔اقصی نے جواب دیا 


"چلو یار کچھ کھانے چلتے ہیں" ۔فری نے کہا


"نہیں کینٹین سے نہیں ۔آج ہم لوگ کہیں باہر سے کھائیں کچھ ؟"  اقصی نے  ان دونوں کی طرف دیکھا


"بھوک سے میری جان نکل رہی ہے۔ایسا کرتے ہیں کینٹین سے ابھی کچھ کھالیتے ہیں۔اور گھر جاتے ہوئے باہر  سے آج فالودہ کھائیں گے " ۔فری نے کہا


"اوکے"  !ان دونوں نے کہا


اور کینٹین کی طرف بڑھ گئیں۔


"ہاں تو اقصی !کب ہے تمھاری منگنی؟ کوئی دن طے ہوا ؟"  فری نے اقصی سے پوچھا


منگنی کے نام پر عرشی  کو لگا جیسے کسی نے  پگلا ہوا سیسہ اسکے کانوں میں انڈیل دیا ہو ۔


"یار ! میں تم لوگوں سے یہ بات کافی ٹائم سے شئیر کرنا چاہ رہی تھی۔لیکن کر نہیں پا رہی تھی" ۔اقصی نے کہا


"سب خیریت ہے ناں ؟ " فری نے کہا
"شیراز  نے میرا نمبر اپنی بہن سے لیا تھا۔اور  وہ مجھ سے  کال پر باتیں بھی کرتا ہے " ۔اقصی نے بتایا
"شیراز تمھارا ہونےوالا منگیتر " ؟عرشی نے کہا
"ہاں " ۔اقصی نے جواب دیا
"اچھا پھر ؟"  فری نے کہا
"پھر یہ کہ وہ مجھے بلاوجہ ٹینشن دے رہا ہے۔"اقصی نے جھنجھلاتے ہوئے کہا
"کیا کہتا ہے وہ ؟"  فری نے ہی پوچھا عرشی خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔اسے آج کل ہر کوئی اپنی طرح مجبور اور بے بس لگتا تھا۔
"پچھلے دنوں امی انکے گھر گئیں تھیں تو امی نے  انکی بہن کو کہہ دیا کہ آپکے یہاں سامان زیادہ ہے اور جگہ کم ہے۔" آخر اقصی نے بتایا
جسے سن کر فری اور عرشی ہنسنے لگ گئیں۔
"کمینیوں ہنسو تو مت۔" اقصی نے نوٹ بک عرشی کے کندھے پر ماری۔
"تو  اس میں ٹینشن کی کیا بات ہے؟" فری نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا
"یار اسکے بعد وہ کہتا ہے کہ تمھاری امی میری بہن کو باتیں سنا گئی ہیں۔انہیں میرے گھر سے مسئلہ ہے"  ۔اقصی نے بتایا
"تم نے اپنی امی کو یہ سب بتایا ؟ " عرشی نے پوچھا
"نہیں " ۔اقصی نے جواب دیا
"ٹھیک ہو جائے گا ۔تم  ٹینشن نہ لو۔" فری نے کہا
"اگر وہ تمھارے حق میں بہتر ہے تو تمھاری شادی اس سے ہو ورنہ نہ ہو" ۔عرشی نے لہا
جس پر اقصی اور فری دونوں ہی نے آمین  کہا۔
"میں نے بھی تم دونوں کو کچھ بتانا ہے۔" عرشی نے بہت مدہم آواز میں کہا
"ہاں ؟ "وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔
"میرا نکاح ہونے والا ہے۔" اسنے اپنے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے  آہستہ سے کہا
جبکہ یہ بات سن کر ان دونوں کی آنکھیں ابل کر باہر آگئیں۔
"بہن !طبیعت توٹھیک ہے ناں ؟ کیا اول فول بول رہی ہو عرشی۔" اقصی نے کہا
"میں سچ بول رہی ہوں۔" اسنے کہا
"یہ اچانک نکاح کہاں سے آیا  ؟ تمھاری  تو منگنی بھی نہیں ہوئی تھی" ۔فری نے الجھتے ہوئے کہا
"بابا کے فرینڈ ہیں۔انکا بیٹا ہے۔" عرشی نے بتایا
"کیا نام ہے ؟"  فری نے کہا
"علی !" اسنے آہستگکی سے نام لیا 
"اوئے ہوئے !یہ تو نام لیتے ہوئے بلش کر رہی ہے" ۔اقصی نے اسے دیکھتے ہوئے  فری سے کہا 
"کرتا کیا ہے ؟ تم ملی ہو اس سے ؟ "انہوں نے عرشی سے پوچھا
"انجینئیر ہے۔کسی کمپنی میں جاب کرتا ہے۔اور ہاں دو تین بار دیکھا ہے"۔اسنے لاپرواہی سے کہا
"سن رہی تم !ایک بار نہیں دو تین بار اسنے لڑکے کو دیکھا ہے اور ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دی۔" فری نے اقصی سے کہا
"اب مجھے کیا پتہ تھا  کہ انکل اسکے لئے مجھے مانگ لیں گے۔"عرشی نے کہا
"اچھا یہ بتاو دیکھنے میں کیسا ہے ؟"  فری نے پوچھا
"جیسے سب ہوتے ہیں ویسا ہی ہے" ۔اسنےپھر  لاپرواہی سے جواب دیا
"اب سب کی شکل ایک جیسی تو نہیں ہوتی ناں ۔" فری نے کہا
"ہاں ٹھیک ہے۔" عرشی نے کہا
"تمھارے پاس اسکی کوئی تصویر ہے ؟"  اقصی نے پوچھا
"اسکی تصویر اور میرے موبائل میں۔لاحول ولا قوہ  " ۔اسنے دل میں کہا اور پھر اقصی کو کہا 
"نہیں ۔" اور پھر ان دونوں سے کہا
"اب بس کر دو تم لوگ۔نکاح میں آو گی ناں تو تب دیکھ لینا اسے۔" عرشی نے کہا
"مطلب ہم اس امید پر گھر جائیں کہ عرشی صاحبہ ہمیں بلائیں گیں ؟ "
"بلکل جی"۔عرشی نے کہا
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
کرتے کرتے آج نکاح کا دن آپہنچا تھا۔
وہ ابھی اپنے کمرے  میں  تیار ہو ہی رہا تھا کہ اسکے کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور اسرا اندر آئی
"کیوں کیا تم نے ایسا میرے ساتھ ؟ ہاں ؟ " اسنے اسکے گریبان کو پکڑ لیا
"کیا کر رہی ہو تم ؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟ " اسنے اپنے گریبان کو اسکےہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے کہا
"کس چیز کی کمی ہے مجھ میں ؟اسرا نے اسکے گریبان پر مزید گرفر سخت کی لیکن اسنے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا اور خود دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔"کچھ لمحے وہ غصے سے اسے گھورتا رہا اور پھر اسنے اسرا کو کہا


" تم میں زرا بھی مینرز نہیں کہ بغیر اجازت میرے روم میں منہ اٹھا کر چلی آئی۔"  


"اور تم میں جیسے بہت مینرز ہیں کہ میرا دل دکھا کر اور مجھے چھوڑ کر تم اس عرشی سے نکاح رچا رہے۔کمی کیا ہے مجھ میں ؟"اسرا نے تلملاتے ہوئے کہا
"میں نے کبھی تمہیں امید نہیں دلائی تھی کہ میں بھی تمہیں پسند کرتا ہو۔اور دوسری بات خود کامقابلہ عرشی سے مت کرو۔کیونکہ  وہ ہیرا ہے اور تم پتھر" ۔علی نے کہا
"اوقات کیا ہے تمہاری اس عرشی کی ؟ " اسرا نے غصے سے چیختے ہوئے کہا
"اسکی اوقات یہ ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور اسکو اپنی عزت بنانے جارہا ہوں۔" اس دفعہ علی نے بھی غصے میں آتے ہوئے کہا
"اوئے علی تو ابھی تک تیار نہیں ہوا؟" عمر باہر سے ہی کہتا اسکے کمرے میں داخل ہوا 
سامنے اسرا   کو دیکھا  تو اسنے نظر گھماکر علی کو دیکھا 
"تم پچھتاوگے علی " ۔اسرا نے کہا اور باہر نکل گئی۔
"یہ کیا کہہ رہی تھی " ؟ عمر نے پوچھا
"اوقات پوچھ رہی تھی عرشی کی۔اور میں نے پھر آج اسے عرشی کی اور اسکی اوقات بتا دی" ۔علی نے کہتے ہوئے پرفیوم اٹھایا 
"رک میں آتا ہوں" ۔عمر کہتا ٹیرس کی طرف بھاگا
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا  تو تب تک علی خود پر پرفیوم اسپرے کر چکا تھا۔وکی نے عمر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جسے سمجھ کر عمر نے بتایا
"وہ  ناگن چلی گئی ہے" ۔
"اچھا ہے۔" علی نے کہا اور پھر اس سے پوچھا 
"کیسا لگ رہا ہوں؟"  
"بہت پیارا " ۔۔کہتے ہوئےوہ اسکے گلے لگا۔
"تم مجھ سے ایسے گلے مل رہے ہو جیسے اب کبھی تم مجھ سے گلے نہیں ملو گے۔" علی نے کہا
"آئندہ کے بعد تم پرائے ہو جاوگے۔" عمر نے جواب دیا
"کوئی نہیں" ۔کہتے  علی نے عمر کو دوبارہ سے  گلے لگالیا اور ایسے ہی گلے لگائے لگائے "تھینکس" کہا


عمر جب گلے مل کر پیچھے ہٹا تو پوچھا تھینکس کس لئے ؟
"ہمیشہ مجھے سپورٹ کرنے کے لئے۔" 
اسی وقت رحیم اندر آیا اور کہا
"صاحب کہہ رہے ہیں آپ اگر تیار ہو گئے ہیں تو نیچے آجائیں" ۔تو علی نے کہا
"چلو یار اسکے صاحب کی بھی سن لیں "  تو رحیم ہنستا ہوا  نیچے چلا گیا۔
اسکے پیچھے وہ لوگ بھی نیچے جانے کے لئے کمرے سے باہر نکلے ۔
"چل میرے بھائی !ہر لمحے کو انجوائے کر!یہ آخری بار کنوارے یہاں ان سیڑھیوں سے اتر رہے ہو تم ۔جب واپس آوگے تو کسی کے ناکح ہو گے " ۔عمر نے کہا جسے سن کر وہ ہنس دیا۔
یوں ہی باتیں کرتے وہ لوگ نیچے جاکر انکے پاس کھڑے ہو گئے۔
سفید لباس میں وہ بلکل شہزادہ  لگ رہا تھا۔انہوں نے دل ہی دل میں ماشااللہ کہا  اور پھر اسے کہا
"چلو  دیر ہو رہی  ہے۔گاڑیوں میں بیٹھو تو وہ   لوگ گاڑیوں میں جاکر بیٹھ گئے۔" 
اور گاڑیاں اپنے سفر پر گامزن ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
شاکنگ پنک کلر کے نازک سے کام والےسوٹ میںاور ساتھ خوبصورت سے میک اپ میں وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی۔
"اب مت رونا  عرشی" ۔فری نے اسکا ہاتھ پکڑا  جو برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
وہ لوگ اس وقت برائیڈل روم میں بیٹھی تھیں جب ایک چھوٹی بچی وہاں آئی  اور انکو بتایا
"لڑکے والے آگئے ہیں۔"
"ہم بھی دیکھیں گے" ۔کہتی ہوئی وہ لوگ بھی وہاں سے چلی گئیں۔
پیچھے وہ اکیلی وہاں رہ گئی۔
"اسکے ہاتھ پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔اسنے پانی کی بوتل اٹھا کر اس میں سے پانی پیا اور پھر خود کو ریلیکس کرنے لگی۔"
کچھ ہی دیر کے بعد  اقصی اور فری واپس آگئی تھیں۔
"ہیں تو ہینڈسم ۔اور تم کہہ رہی تھی ہاں ٹھیک ہیں بس" ۔انہوں نے عرشی سے کہا  
تب ہی اسکی والدہ اور کچھ دوسری رشتہ دار خواتین وہاں آئیں  اور انہیں کہا
ن"کاح خواں  آرہے ہیں۔اسکو یہ چادر اوڑھادو" ۔۔تو فری نے چادر لیکر اسے اڑادی۔
تب ہی نکاح خواں کے ساتھ اسکے بابا ،بھائی اور دوتین اور لوگ اندر داخل ہوئے۔
انکو دیکھ کر ہی  اسکے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
قاضی صاحب نے نکاح  پڑھاناشروع کر دیا تھا۔
"یااللہ جی !" وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ وہاں بیٹھی تھی۔
جب اسے  قاضی صاحب کی آواز آئی 
"آپ کو قبول ہے ؟  " تو اسنے بمشکل تین بار قبول ہے کہا
 اور دستخط کر دئیے۔
اسکے دستخط کرتے ہی اسکے بابا نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرا  اور قاضی صاحب کے پیچھے نکل گئے۔البتہ ضمیر وہی کھڑارہا۔
بابا کے بعد اسنے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ اسکے ساتھ ہی لگ کر رونے لگ گئی۔
وہ بمشکل اپنے آنسو چھپاتا وہاں سے نکلا ۔اور اسٹیج کی طرف بڑھا 
جہاں  اب علی نکاح نامے پر  دستخط کر رہا تھا۔ کچھ  دیر کے بعد نکاح کی کاروائی پوری ہو چکی تھی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"اگر آپ برا ناں مانیں تو عرشی کو باہر اسٹیج پر  لے آئیں " ؟ عمر کی والدہ  نے عرشی کی والدہ سے پوچھا
"جی جی " ۔انہوں نے کہا اور اندر جاکر فری سے کہا
"اسے باہر لیکر جاو۔" 
تو وہ دونوں اسے لئے اسٹیج کی طرف بڑھیں۔
جہاں پہلے سے علی براجمان تھا۔
وہ اسے دیکھتا مسکرائے گیا۔تو عمر نے اسکی طرف جھک کر کہا
"او بھائی لوگ تجھے  نوٹس کر رہے ہیں۔اتنا مت گھورو"  ۔اسکی بات پر علی نے اسکی طرف دیکھا اور کہا
"اپنی بندی کو گھور رہا ہوں۔کسی کو کوئی  مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔" 
"یار تو تو بدل گیا ہے۔ابھی نکاح ہوئے ایک گھنٹہ نہیں گزرا اور تو بدل گیا۔" عمر نے مصنوعی افسردگی سے کہا
"بس بھائی ! کیا کر سکتا ہوں ۔" کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اسٹیج پر چڑھتی عرشی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا
جسے ایک لمحے  کے لئے اسنے دیکھا اور پھر تھام کر اسٹیج پر چڑھ گئی۔
وہ اسکا ہاتھ یوں ہی تھام کر اسٹیج پر جاکر بیٹھ گیا۔اور بیٹھنے کے بعد بھی ہاتھ نہیں چھوڑا۔
کچھ لمحے تو وہ چپ رہی پھر عادت سے مجبور ہو کر کہا
"میرا ہاتھ ؟ " تو اسنے  سنی ان سنی کر دی۔
"سنیں میرا ہاتھ"  ۔ابکی بار اس نے تھوڑا زور سے بولا تو اسنے چونکنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اسے دیکھا اور کہا
"مجھ سے کچھ کہہ رہی ہو ؟ " 
"وہ میرا ہاتھ " ۔۔وہ اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر بس اتنا ہی کہہ پائی۔
"تمھارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے ؟ کوئی تکلیف ہے ؟"  اسنے پھر مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا
"میرا ہاتھ چھوڑ دیں" ۔آخر اسنے پورا جملہ کہا
"اووو۔۔تو یو کہو ناں۔" پھر مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کہا
"میں بھول گیا تھا ہاتھ چھوڑنا۔کہتے ہوئے اسنے اسکا ہاتھ  چھوڑ دیا تو وہ تھوڑی ریلیکس ہو کر بیٹھی۔" 
اور پھر فوٹو گرافر ،اقصی ،فری اور دوسرے بہت سے لوگ ان  یادگار لمحوں کی تصاویر  لینے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
وہ ریش ڈرائیو کرتی ہوئی گھر پہنچی اور  جا کر  خود کو  کمرے میں بند کر دیا۔کچھ لمحےوہ  بیڈ پر بیٹھی رہی  
پھراٹھ کرڈریسنگ ٹیبل  کے سامنےجاکر  کھڑی ہو گئی۔جہاں اسکا عکس واضح نظر آرہا تھا۔
آئینہ گوائی دے رہا تھا کہ وہ ایک مکمل خوبصورت لڑکی ہے۔
لیکن پھر  اسکے کانوں میں علی کی آواز گونجی۔
"اسکی اوقات یہ ہے کہ وہ میری محبت ہے اور میں اسے اپنی عزت بنا رہا  ہو۔" اسنے اپنے کانوں پر ایسے ہاتھ رکھے جیسے وہ یہ آواز سننا نہ چاہتی ہو۔
لیکن جب برداشت نہ ہوا تو اسنے پرفیوم اٹھا کر ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پردے  ماری ۔پھر اسکے بعد اسکے ہاتھ میں جو آتا گیا وہ شیشے پر مارتی چلی گئی۔
اسکی حالت جنونی ہو رہی تھی۔
اسنے کچھ ہی لمحوں میں   پورے کمرے کا نقشہ بگاڑ دیا تھا۔
تم میرے نہیں  ہوئے تو تمہیں میں کسی اور کا بھی نہیں رہنے دونگی علی۔۔۔۔وہ چیخی اور دیوانہ وار بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگی
باہر سے کوئی اسکے کمرے کا دروازہ بجا رہا تھا  
اور وہ بے نیاز بنی اپنے کام میں لگی ہوئی تھی۔تین منٹ کے بعد آخر اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئی  ۔۔یہ سلیپنگ پلز تھیں ۔
اسنے بہت سی گولیاں  نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھیں  اور پھر پانی کے ساتھ نگل لیں۔
کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ وہی گر گئی ۔
باہر سے اب دروازہ زور زور سے دھڑدھڑایا جارہا تھا۔اور مختلف آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
"اسرا اسرا ۔" اسکے نام کی پکار پر رہی تھی۔
لیکن  وہ سب  چیزوں سے بے فکر سو رہی تھی۔


"یہ دروازہ نہیں کھول رہی"فارحہ نے کہ
"توڑ دو دروازہ"۔۔۔۔کسی نے کہا
اور دروازہ توڑا جانے لگا
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments