Yaadghaar lamhe:
"تم نے عرشی سے پوچھا ؟" جاوید صاحب نے اپنی بیگم سے کہا
"جی !" انہوں نے جواب دیا
"کیا بولی وہ ؟ " انہوں نے انکی طرف دیکھا
"اسکی وہی ضد ہے کہ میں ابھی پڑھ رہی ہوں۔میں نے نہیں کرنی ابھی شادی۔" انہوں نے کہا
"لیکن مجھے لگتا ہے کہ عرشی کے لئے حسین بھائی کے گھر سے زیادہ اچھا رشتہ ہمیں کوئی بھی نہیں ملے گا۔"صفیہ بیگم نے کہا تو جاوید صاحب نے سوچتے ہوئے کہا
"جاو عرشی کو میرے پاس بھیجوتو وہ سر ہلاتی اٹھ گئیں ۔اور اسے جاکر کہا
"عرشی تمھارے بابا تمہیں بلا رہے ہیں۔"
وہ اچھا کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔تب ہی ضمیر اسکے کمرے میں آیا
"آپ کو میں پورے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا امی" ۔اسنے کہا
"کیوں کیا ہوا ؟" انہوں نے پوچھا
"چائے بنا دیں" ۔ضمیر نے کہا تو وہ اسکے لئے چائے بنانے چلی گئیں۔
۔،۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"بابا ! آپ نے بلایا تھا ؟" عرشی نے کہا
"جی !" انہوں نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ میں پکڑی کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔اور کہا
"آو بیٹھو !" تو وہ خاموشی سے انکے پاس بیٹھ گئی۔
"پیپرز کیسے ہو رہے ہیں ؟" انھوں نے بات کی شروعات کرتے ہوئےاس سے پوچھا
"اچھے ہو رہے ہیں۔" اسنے جواب دیا
"وہ بیٹا آپ کو امی نے بتایا ہوگا کہ آپکے حسین انکل نے علی کے لئے آپکا ہا تھ مانگا ہے۔" انہوں نے جیسے ہی کہا تو وہ سر جھکا گئی۔انہوں نے اسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھا اور پھربات کو وہی سے شروع کرتے ہوئے کہا
"مجھے آپکی امی نے بتایا ہے کہ آپ منع کر رہی ہیں " ۔انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
انکی بات پر وہ خاموش رہی تو انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
"وجہ انکا ر کی ؟ "
"میں ابھی پڑھ رہی ہو" ۔اسنے کہا
"تو ابھی تھوڑی رخصتی کرائیں گے۔" انہوں نےاسکے انکار کی وجہ کو ریجیکٹ کرتے ہوئے کہا
"اور کوئی وجہ ؟" انہوں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا
"میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔" اسنے بمشکل کہا
ت"و بیٹا ابھی تھوڑی شادی کروائیں گے" ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ دوبارہ سر جھکا گئی۔
"اسے لگا بابا نہیں مانیں گے " ۔یہ سوچ کر ہی اسکی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔
"ان وجوہات کے علاوہ اور کوئی وجہ تو نہیں ہے ؟" انہوں نے پوچھا
"نہیں ! " اسنے جواب دیا
"چلو ٹھیک ہے پھر!ایسا کرتے ہیں حسین کو کہہ دیتے ہیں کہ عرشی ابھی پڑھ رہی ہے اسلئے شادی دو سال بعد کریں گے۔"
انہوں نے اطمینان سے کہتے ہوئے اسکے سر پر بم پھاڑا
وہ کچھ لمحے شاک کی کیفیت میں بیٹھی رہی۔
اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے۔
"بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی" ۔اسنے پھر کمزور سااحتجاج کیا
"ہاں تو یہی میں کہہ رہا ہونکہ میں حسین سے خود کہونگا کہ شادی دو سال کے بعد ہوگی" ۔انہوں نے کہا تو وہ گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔
اسے علم ہو گیا تھا کہ بابا ہر صورت انکو ہاں کرنا چاہتے ہیں۔اسلئے وہ لب بھینچے خاموش بیٹھی رہی۔
"بیٹے اسٹڈی ٹیبل سے بلو فائل اٹھا کر دینا " ۔انہوں نے اسے مخاطب کیا تو اسنے اٹھ کر فائل انہیں دی اور پھرکہا
"بابا میں جاو ؟"
ہاں جاو تو وہ انکے کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
"یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا !" علی نے کہا
"کیا سمجھ نہیں آرہا ؟ " عمر نے پوچھا
"یہی کہ پاپا کو کیسے کہو کہ وہ عرشی کے بابا سے بات کریں" ۔علی نے کہا
"اسی منہ سے بول ناں ۔" عمر نے کہا تو علی نے اسے گھورا
"میں اتنی سیریس بات کر رہا ہوں ۔اور تمھارا مزاح ہی ختم نہیں ہو رہا۔"
"اچھا اچھا ناراض نہ ہو۔بولو کیا بول رہے تھے۔" عمر نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا
"یہی کہ پاپا کو کیسے بولو ؟" علی نے کہا
"تم نے اب تک بات نہیں کی ؟ " عمر نے پوچھا
"یار میں گیا تھا انکے کمرے میں۔لیکن میں کنفیوز ہو گیا اور جو پوچھنا تھا اسکے بجائے کچھ اور پوچھ آیا۔" علی نے اپنی کارستانی بتائی۔
"کوئی حال نہیں ہے تمھارا علی " ۔عمر نے ہنستے ہوئے کہا تو علی خود بھی اسکے ساتھ ہنسنے لگ گیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"آج چھ دن ہو گئے ہیں جاوید کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
کیوں نہ میں اسے کال کر کے پوچھو ؟" انہوں نے دل میں سوچا اور اپنا موبائل اٹھا کر انہیں کال کرنے لگے۔
بیلز جا رہی تھیں لیکن وہ کال نہیں ریسیو کر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر کے بعد انہوں نے کال اٹھالی ۔
"ہیلو ! "
"اسلام و علیکم !" حسین صاحب نے کہا
"وعلیکم سلام! " جاوید صاحب نے جواب دیا
"کیسے ہو حسین ؟ " انہوں نے پوچھا
"میں ٹھیک !تم سناو؟" حسین صاحب نے کہا
"میں بھی ٹھیک !" انہوں نے جواب دیا
"وہ میں نے تم سے ایک بات کہی تھی۔تمھاری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے سوچا کہ خود کال کر لو۔" انہوں نے کہا
" آج میں تمہیں کال کرنے ہی والا تھا کہ تمھاری کال آگئی۔" انہوں نے کہا
"تو پھر تم نے بھابھی سے بات کی ؟" حسین صاحب نے پوچھا
"ہاں کی تھی ۔اور عرشی سے اسکی پسند بھی پوچھی ہے۔" انہوں نے بتایا
"تو پھر کیا کہا ؟ " حسین صاحب نے دھڑکتے دل کے ساتھ ان سے پوچھا۔انکو علم تھا کہ عرشی انکے بیٹے کی محبت ہے۔اور اگر نہ ہوئی تو انکا بیٹا بھی ٹوٹ جائے گا۔
"تم رسم کے لئے آجا وکسی بھی دن۔" انہوں نے کچھ پلوں کی خاموشی کے بعد کہا تو حسین صاحب کچھ لمحوں کے لئے تو خوشی سے گنگ رہ گئے۔
"جاوید !تم نے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دی ہے"۔انہوں نے خوشی سے بھر پور لہجے میں کہا تو وہ مسکرائے
"مجھے پتہ ہے عرشی تمھارے گھر بہت خوش رہے گی۔بس میری ایک چھوٹی سی عرض ہے" ۔انہوں نے کہا
"ہاں ہاں بولو !" حسین صاحب نے کہا
"عرشی کے آج کل پیپرز ہیں ۔تو اگر رسم اسکے پیپرز کے بعد رکھ لو تو زیادہ بہتر ہو گا" ۔انہوں نے جھجھکتے ہوئے کہا
"ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں۔لیکن میں چاہتا ہونکہ رسم کی جگہ نکاح کروا دیں؟" حسین صاحب نے کہا
انکی بات سن کر جاوید صاحب ایک لمحے کے لئے تو سوچ میں پر گئے اور پھر کہا
"لیکن رخصتی میں اسکی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہی کرونگا۔" جاوید صاحب نے کہا تو حسین صاحب نے بھی انکی بات سے اتفاق کیا۔
"چلو پھر میں کسی دن تمھاری طرف آتا ہوں تو مل کر باتیں کریں گے۔" حسین صاحب نے کہا
"ضرور ۔اور ویسے بھی میرا بدلہ بھی تو باقی رہتا ہے۔اس دفعہ شطرنج کی بازی میں جیتونگا۔" جاوید صاحب نے کہا تو حسین صاحب ہنس دئیے۔
"دیکھتے ہیں۔" حسین صاحب نے کہا
"چلو یار مجھے تمھاری بھابھی کھانا کھانے کے لئے بلا رہی ہے۔میں چلتا ہوں۔" جاوید صاحب نے خداحافظ کہا تو حسین صاحب نے بھی خداحافظ کہہ کر کال بند کر دی۔
تب ہی علی گلاس ڈور کھول کر گھر اندر داخل ہوا۔
انہیں لاونج میں بیٹھے دیکھا تو انکے پاس چلا آیا
"اسلام و علیکم !" اسنے سلام کیا
"وعلیکم سلام " ۔انہوں نے جواب دیا اور پھر کہا
"خیریت ؟ آج جلدی گھر کیسے آگئے تم ؟ " انہوں نے کہا
"کام جلدی ختم ہو گیا تو آگیا" ۔اسنے کہا
"اچھا جاو چینج کر کے آو !پھر کھانا کھاتے ہیں" ۔انہوں نے کہا تو وہ جی کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
ڈنر کرنے کے بعد انہوں نے اس سے کہا
"جب کھانا کھالو تو اسکے بعد میرے کمرے میں آنا۔مجھے تم سے کام ہے" ۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
"مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے " ؟ اسنے سوچا
"چلو دیکھتے ہیں" ۔وہ کہہ کر کھانے کی طرف متوجہ ہوا اور رحیم سے کہا
"کیا بات ہے یار!آج کھانا بے حد مزے کا بنایا ہے" ۔
"علی بھائی اب میں نے سوچا ہے کہ میں یو ٹیوب سے نیو نیو ریسیپیز ٹرائی کرونگا" رحیم نے کہا
"بہت اچھا سوچا ہے ۔ایسے ہی اچھا اچھا سوچا کرو اور میرے لئے مزے مزے کی ڈشز تیار کیا کرو"۔اسنے کہا تو رحیم اسکی بات سن کر خوش ہو گیا۔
"گرم سالن لاو ؟ " رحیم نے سالن کا ڈونگہ اٹھاتے ہوئے کہا
"نہیں بس" !علی نے کہا اور پھر نیکپن سے ہاتھ صاف کرکے کھڑے ہوتے ہوئے رحیم سے کہا
"چائے کا ایک کپ اگر مل جائے تو ؟ تمھارے صاحب کے پاس جانے سے پہلے مائنڈ تھوڑا فریش کرنا ہے۔"
اسکی بات سن کر وہ ہنسا اور کہا
"ضرور بھائی۔ابھی لایا" ۔وہ کہہ کر کچن کی طرف بڑھ گیا۔جبکہ وہ جاکر ٹی وی لاونج میں بیٹھ گیا ۔
اور چائے کا انتظار کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
چائے پینے کے بعد وہ اٹھا اور اسٹڈی روم کی طرف چل پڑا
"آو علی !" انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہا تو وہ انکے پاس جاکر کرسی پر بیٹھ گیا۔
"جاب کیسی جارہی ہے تمھاری "؟انہوں نے پوچھا
"ٹھیک"اسنے جواب دیا اور تھوڑا حیران بھی ہوا کہ پاپا اتنے فارمل کیوں ہو رہے ہیں۔تب ہی حسین صاحب نے اسے کہا
"میں نے جاوید سے تمھارے اور عرشی کے رشتے کی بات کی تھی۔" انہوں نے جیسے انکے سر پر بم پھوڑا
وو کچھ پل اسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے لئے رکے اور پھر اپنی بات کو دوبارہ وہی سے جاری کیا
"وہ راضی ہیں۔عرشی کے آج کل پیپرز ہیں پیپرز کے بعد ہم بڑے کوئی بھی تاریخ رکھ کر تم لوگوں کا نکاح پڑھوادیں گے۔تم اپنا دماغ بنالو" ۔انہوں نے اسکے چہرے پر پھیلتی چمک دیکھ کر دل ہی دل میں یہ چمک ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کرتے ہوئے اسے کہا تو وہ فورن انکے سینے سے لگ گیا۔
"تھینک یو پاپا !" وہ ایسے ہی انکے ساتھ لگے لگے بولا تو وہ ہنس دئیے۔
"یور ویلکم!" انہوں نے اسکے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو اسنے اپنی گرفت ان پر اور مضبوط کی تو وہ نم آنکھوں سے مسکرا دئیے۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
دن یوں ہی گزرتے جارہے تھے اور وہ بے دلی سے پیپرز دیتی جارہی تھی۔
اگر اسنے پیپرز کی تیاری پہلے سے ناں کی ہوتی تو شاید اسے پاس ہونے کی امید بھی نہ ہوتی ۔
لیکن اب اسے کم از کم اتنی امید تھی کہ وہ پاس ہو جائے گی۔
اور یوں پیپرز کے دن بھی آج ختم ہو گئے تھے۔کیونکہ آج انکا آخری پیپر تھا۔
"کیسی ہے تیاری ؟" فری نے عرشی سے پوچھا
"ٹھیک ہے۔" عرشی نے جواب دیا
"تمھاری کیسی ہے ؟" اقصی نے فری سے پوچھا
"اچھی ہے یار" ۔اسنے کہا
"چلو اندر چلتے ہیں۔" فری نے اسٹوڈنٹس کو اندر جاتے دیکھا تو کہا
"کہی ہم تینوں کو الگ الگ ہی نہ بیٹھنا پڑ جائے"۔اقصی نے کہا
تو تینوں ایکزیمینیشن ہال کی طرف بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
"شکر ہے جان چھوٹی۔" اقصی نے کہا
وہ لوگ ابھی پیپر دیکر باہر نکلی تھیں۔
"کیسا ہوا پیپر؟ " اقصی نے پوچھا
"ٹھیک ۔" عرشی نے جواب دیا
"میرااچھا ہوا ہے" ۔فری نے کہا
"میرا بھی" ۔اقصی نے جواب دیا
"چلو یار کچھ کھانے چلتے ہیں" ۔فری نے کہا
"نہیں کینٹین سے نہیں ۔آج ہم لوگ کہیں باہر سے کھائیں کچھ ؟" اقصی نے ان دونوں کی طرف دیکھا
"بھوک سے میری جان نکل رہی ہے۔ایسا کرتے ہیں کینٹین سے ابھی کچھ کھالیتے ہیں۔اور گھر جاتے ہوئے باہر سے آج فالودہ کھائیں گے " ۔فری نے کہا
"اوکے" !ان دونوں نے کہا
اور کینٹین کی طرف بڑھ گئیں۔
"ہاں تو اقصی !کب ہے تمھاری منگنی؟ کوئی دن طے ہوا ؟" فری نے اقصی سے پوچھا
منگنی کے نام پر عرشی کو لگا جیسے کسی نے پگلا ہوا سیسہ اسکے کانوں میں انڈیل دیا ہو ۔
"یار ! میں تم لوگوں سے یہ بات کافی ٹائم سے شئیر کرنا چاہ رہی تھی۔لیکن کر نہیں پا رہی تھی" ۔اقصی نے کہا
" تم میں زرا بھی مینرز نہیں کہ بغیر اجازت میرے روم میں منہ اٹھا کر چلی آئی۔"
جاری ہے
0 Comments