Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 12

Yaadghaar lamhe :

Yaadghaar lamhe epi


قسط  12


 "پیپرز کے بعد میری منگنی ہے"۔۔اقصی نے بتایا

"مبارک ہو۔" ان دونوں نے اسے کہا 

"خیر مبارک !" اقصی نے جواب دیا 


"یار بس اب سیریس ہونا ہے اور پیپرز کی تیاری کرنی ہے" ۔فری نے کہا 

"مجھے یار ایسسمنٹ کے پیپر کی ٹینشن ہے۔ایک تو مس شمیم سمجھا ٹھیک نہیں پاتیں اور پھر مجھ سے تو خیر انکو ہے ہی بیر۔" عرشی نے کہا

"ہاں یار !پتہ نہیں کیوں اس بیچاری کے پیچھے وہ لگی رہتی ہیں۔" اقصی نے فری سے کہا

"اگر وہ یہی سب کرتی رہیں تو میں نیکسٹ سیمسٹر میں ایڈمیشن نہیں لونگی۔" عرشی نے کہاتو فری جو کب سے عرشی کو دیکھ رہی تھی اسنے کہا


"میں بتا رہی ہوں کالج مت چھوڑنا " ۔تو عرشی نے آنکھوں میں آئے آنسو وں کو بڑی مشکل سے پیچھے دھکیلا

اتنے میں انکی کلاس میں مس نسرین داخل ہوئیں۔کلاس میں غیر معمولی خاموشی دیکھ کر انہوں نے کہا 

"کیا بات ہے ؟ آج سب بہت خاموش ہیں "۔تو فری نے ان سے کہا 

"مس آپ سے ایک بات کرنی تھی۔"

"کیا بات ؟" انہوں نے چشمے کے پیچھے سے انہیں دیکھا 


"وہ مس میم شمیم کا رویہ عرشی کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔وہ بلا وجہ اس پر طنز کرتی رہتی ہیں" ۔فری نے بتایا 

"اصل میں بیٹا یہ انکی عادت ہے ۔انکو اچھا لگتا ہے کہ بچے انکے آگے پیچھے گھومیں۔انکی تعریف کریں۔اور جوبچیاں نہیں کرتیں پھر وہ انہیں زہنی ٹینشن دیتی ہیں۔لاسٹ ائیر بھی کچھ بچیوں کو ان سے یہ شکایت ہوئی تھی " ۔انہوں نے بتایا اور پھر کہا 

"عرشی بیٹا ! آپ تھوڑا مس کے آگے پیچھے ہواکرو۔جب وہ کلاس میں داخل ہو تو کہہ دیا کرو کہ مس آپ پر تو یہ اسکارف آج بہت اچھا لگ رہا ہے۔اس طرح تم اسکے طنز سے بھی بچو گی" ۔۔انہوں نےسمجھایا اور پھر ان سے پوچھا

"اور کوئی مسئلہ ؟"

"نو مس ! " ان لوگوں نے کہا تو انہوں نےآج کا لیکچر دینا شروع کر دیا ۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


وہ کالج سے تھکی ہاری گھر گئی اور بغیر کھانا کھائے سو گئی۔

کل رات وہ تین بجے تک اسائمنٹ بناتی رہی تھی اسلئے اب وہ نیند سے پاگل ہو رہی تھی۔

مغرب کی آذانیں ہو رہی تھیں جب اسکی آنکھ کھلی۔ تو اسنے پہلے تو جاکر منہ دھویا اور پھر کمرے سے باہرآئی تو اسے لاونج میں ضمیر بیٹھا نظر آیا جو آج خلاف معمول گھر پر تھا ۔

ضمیر نے اسے دیکھا تو کہا 

"اوہو !لوگ سو کر اٹھ گئے تو وہ ہنستی ہوئی اسکے پاس بیٹھ گئی۔"

"ہاں لوگ اٹھ گئے ہیں۔ویسے آپ بتائیں آپ آج کیسے اتنی جلدی گھر آگئے ؟ " عرشی نے کہا 

"ہمارے اور تمھارے والد محترم کاحکم تھا بہنا !" اسنے ٹی وی کی آواز ریموٹ سے بند کرتے ہوئے کہا

"مطلب ؟ " عرشی نے پوچھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا 


جاوید صاحب بھی لاونج میں آگئے ۔

"بابا بھی گھر پر ہیں ؟" اسنے آہستہ سے ضمیر سے پوچھا 

"ہاں ! " اسنے جواب دیا

"کیوں سب گھر پر جمع ہیں ؟" عرشی نے پوچھا 

"کیونکہ دعوت میں جانا ہے " ۔ضمیر نے کہا

"کونسی دعوت ؟ کہاں کی دعوت ؟" اسنے پوچھا 


"یار حسین انکل کے گھر دعوت ہے۔علی کی صحتیابی کی خوشی میں انہوں نے دعوت رکھی ہے" ۔ضمیر نے ملازمہ کی لائی ہوئی ٹرے سے اپنا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا 

"جبکہ وہ انکے گھر جانے کا سن کر ہی پریشان ہو گئی" ۔اور دل ہی دل میں کوئی بہانہ سوچنے لگی۔

وہ کسی بھی صورت علی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔جبکہ دوسری طرف علی بے تابی سے اسکے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"چلو عرشی تیار ہو جاو" ۔انہوں نے اسے کہا 

"امی آپ لوگ جائیں ۔مجھے کچھ ضروری نوٹس تیار کرنے ہیں۔" عرشی نے انہیں جواب دیا

"بیٹا واپس آکر بنا لینا۔" جاوید صاحب نے اسکی بات سن کر اسے کہا 

"بابا پیپرز قریب ہیں۔میں اب لاپرواہی نہیں کر سکتی" ۔عرشی پریشانی سے بولی

"لیکن حسین بھائی نے اس دن ہسپتال میں بھی تمہیں لانے کا کہا تھا اورآج بھی وہ بار بار تمہیں لانے کا بول رہے تھے۔ان کو برا لگے گااگر تم نہیں جاوگی"۔اسکی والدہ نے کہا


"امی پلیز ! مجھے بہت کام کرنا ہے۔"اسنے مزید عاجزی سے کہا تو جاوید صاحب نے اسکی والدہ کو اشارے سے مزید کچھ کہنے سے منع کردیا تو وہ خاموش ہو گئیں۔

تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ لوگ اسے گھر پر چھوڑ کر خود دعوت میں چلے گئےتھے ۔

وہ انکے جانے کے بعد کچھ دیر تک غائب دماغی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی رہی ۔پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔


نوٹس بنانے کا اسکاکوئی دل نہیں کر رہا تھا اسلئے وہ خاموشی سے لیٹ گئی۔

"اسکا مطلب ہے ابھی علی نے کسی کو کچھ نہیں بتایا ۔ورنہ حسین انکل بابا کو بتادیتے

لیکن اسنے کیوں نہیں بتایا ؟" اسنے سوچا 

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


دعوت کا انتظام انہوں نے اپنے گھر کے لان میں ہی کیا تھا۔کچھ قریبی رشتے دار اور کچھ قریبی دوست احباب کو ہی مدعو کیاگیا تھا ۔لیکن پھر بھی اچھے خاصے لوگ جمع ہو گئے تھے۔

حسین صاحب نے جیسے ہی جاوید صاحب اور انکی فیملی کو آتے دیکھا تو فورن انکی طرف بڑھے ۔انکے ساتھ ہی انکے پاس کھڑا علی بھی انکے پیچھے چل پڑا 

ان سے سلام دعا کرنے کے بعد انہوں نے عرشی کے بارے میں پوچھا

"عرشی نہیں آئی ؟ "


"وہ اسکے پیپرز ہونے والے ہیں تو وہ انکی تیاری کر رہی تھی اسلئے وہ نہیں آئی۔ " عرشی کی والدہ نے بتایا توحسین صاحب نے مسکرا کر سر ہلایا اور پھر علی کو دیکھا

جس کے چہرے پر چھائی چمک عرشی کے نا ں آنے کا سن کر ماند پڑ گئی تھی۔ 

جب سے انہوں نے اسکی گاڑی میں سے بریسلیٹ اٹھایا تھا تب سے انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ان سے جھینپنے لگا ہے۔۔

وہ اسے وقت دے رہے تھے کہ وہ خود ان سے دوبارہ رشتہ مانگنے کا بولے۔

لیکن وہ تو چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔

ا نہوں نے اسے دیکھتے ہوئے دل میں سوچا اور پھر سامنےسے آتے اپنے ایک دوست کی طرف بڑھ گئے۔

جبکہ وہ وہی کھڑا رہ گیا۔



اسے اسکے نہ آنے کی وجہ مصروفیت نہیں لگ رہی تھی بلکہ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ عرشی کو اس دن اسکی باتیں زیادہ بری لگ گئی تھیں۔جسکی وجہ سے وہ یہاں نہیں آئی تھی۔

"مطلب اتنا غصہ ؟ " اس نے دل میں سوچا 

تب ہی اسے اسرا کی آواز آئی ۔جو بلیک کلر کی قمیض اور بلیک ہی کلر کے ٹراوزر میں ملبوس تھی ۔ہلکی سی نازک سی جیولری اور ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ کافی پیاری لگ رہی تھی۔

اسنے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر زبردستی مسکراہٹ ہونٹوں پر لایا

"کیسے ہو ؟" اسنے پوچھا

"الحمداللہ ! "علی نے جواب دیا


"کافی کمزور ہو گئے ہو" ۔اسرا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرایا

تو وہ کچھ لمحے اسکی دلکش مسکراہٹ کو دیکھتی رہ گئی۔

"عرشی نہیں آئی ؟ " اسرا نے پوچھا 

وہ بہت دل لگا کر تیار ہوئی تھی آخر کو وہ آج علی کی پسند سے ملنے والی تھی ۔اور اسے عرشی کو یہ بتانا تھا کہ علی صرف اور صرف اسرا قادر کا ہے۔

"ہاں وہ کچھ بزی ہے" ۔اسنے کہا اور ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے وہ لب بھینچ کررہ گئی ۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"عرشی نہیں آئی ؟ " عمر نے علی سے پوچھا 

"نہیں !" اسنے جواب دیا

"اوئے ہوئے تب ہی میرے یار کا موڈ آف ہو رہا ہے" ۔عمر نے ہنستے ہوئے کہا

"دیکھ عمر بکواس نہ کر۔ورنہ تیری یہ بتتیسی میرے ہاتھوں سے ٹوٹ جانی ہے" ۔علی نے کہا

"اسکے نہ آنے کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہا ہے ؟" عمر نے پھر ہنستے ہوئے کہا تو علی نے کوئی جواب نہ دیا ۔

اسے اس طرح خاموش دیکھ کر وہ بھی سنجیدہ ہو گیا اور پھر پوچھا 

"کیا بات ہے علی ؟ کچھ ہوا ہے ؟ وہ تم سے ناراض ہے ؟" اسکی بات پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا

"نہیں یار ! وہ کیوں ناراض ہو گی جب کہ ہماری کوئی بات ہو ئی ہی نہیں۔" علی نے کہا

"ہممم!" اسکی بات سن کر عمر سوچ میں پڑ گیا 


"پھر وہ بزی ہوگی۔"عمر نے کہا تو اسنے بھی سر ہلا یا۔

"چل اٹھ !موڈ ٹھیک کر !" عمر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے چئیر پر سے اٹھاتے ہو ئے کہا تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

اچانک عمر کو اسرا کا خیال آیا 

"اسرا نہیں آئی ؟" عمر نے پوچھا 

"آئی ہے۔" علی نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا 


"یہ بندی تیرا پیچھا آسانی سے نہیں چھوڑے گی"۔اس کی بات پر علی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر کہا

"فضول نہ بولا کرو یار ! " 

"میری مانو تو عرشی کے گھر جلد از جلد رشتہ بھیجو" ۔عمر نے اسے مشورہ دیا ۔

"میں بھی سوچ رہا ہونکہ پاپا سے دوبارہ اس سلسلے میں بات کرو۔" علی نے سوچتے ہوئے  اسے کہا

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"کچھ علم ہوا کس نے علی کو مارا تھا ؟ " جاید صاحب نے پوچھا 

"نہیں !" انہوں نے جواب دیا اور پھر کچھ سوچ کر اپنے ارد گرد دیکھا

وہاں وہ دونوں اس وقت تنہا تھے۔باقی سب اپنی اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

"ایک بات پوچھو ؟ " حسین صاحب نے آہستہ سے کہا

"ہاں ؟" انھوں نے کہتے ہوئے کولڈرنک کا سپ لیا

"عرشی کا رشتہ کہی دیا ہوا ہے ؟ یا کوئی رشتہ زیر غور ہے ؟ " حسین صاحب نے پوچھا

انکی بات سن کر جاوید صاحب تھوڑے حیرت زدہ ہوئے اور کہا

"وہ تو ابھی چھوٹی ہے " ۔تو وہ مسکرائے 


"لیکن دینی تو ہے ناں ایک ناں ایک دن" ۔حسین صاحب نے کہا اور پھر مزید بولے

"میں علی کے لئے عرشی کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں۔مجھے پتہ ہے اسطرح کی باتیں ایسے نہیں کی جاتیں لیکن میں تمھارے کان میں بات ڈالنا چاہتا تھا کہ اگر تم عرشی کا رشتہ کہی دینے کا سوچو تو علی کو مت بھولنا۔" انہوں نے کہا تو جاوید صاحب مسکرائے۔

"میں تمھاری بھابھی سے اس سلسلے میں بات کرونگا" 

انکا جواب سن کر حسین صاحب نے کہا ۔

"میں جواب کا انتظار کرونگا " ۔ تو جاوید صاحب سرچہلا کر رہ گئے۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


رات گئے جب سب مہمان اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو حسین صاحب نے کام میں مصروف رحیم کوآواز دی اور کہا

"سب چئیرز کو ایک سائیڈ پر رکھوا دو۔باقی کام صبح کر لینا۔" 

وہ کہہ کر گھر کے اندر چلے گئے۔تو رحیم باقی ملازموں کے ساتھ مل کر کرسیاں ا ٹھا کر سائیڈ پر رکھنے لگا ۔

"رحیم پاپا کو کہی دیکھا ہے ؟ "علی جو عمر کوابھی  سی آف کر کے آیا تھا اسنے کام میں مصروف رحیم سے پوچھا 


"ہاں !وہ ابھی اندر گئے ہیں " ۔وہ جواب دیکر دوبارہ کام میں مصروف ہو گیا تو وہ بھی اندر کی طرف بڑھ گیا

"یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے" ۔اسنے خالی لاونج کو دیکھ کر خود سے کہا 

"شاید بیڈ روم میں ہیں" ۔اسنے دل میں کہا اور انکے بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا۔

"پاپا !" اسنے انکے کمرے کا دروازہ ناک کیا 

"کم ان۔" انھوں نے جواب دیا

تو وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا ۔سامنے ہی بیڈ پر وہ بیٹھے تھے۔اور نظریں ٹی وی پر تھیں جہاں نیوز چل رہی تھیں۔

"وہ مجھے آپ سے بات کرنی تھی" ۔اسنے کہا

"ہاں کرو!" انھوں نے جواب دیا 


انکا جواب سن کر وہ تھوڑا کنفیوز ہوا لیکن پھر خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا

"وہ پاپا !" وہ بولتے بولتے پھر کنفیوز ہونے لگا 

"ہاں ؟" انہوں نے کہا 

"وہ پاپا آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟" اسنے پوچھنا کچھ اور تھا اور پوچھ کچھ اور گیا۔

"نہیں۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

"اچھا پھر میں چلتا ہوں۔" وہ کہہ کر انکے کمرے سے باہر نکل گیا۔

یااللہ میں کیوں نہیں کہہ پایا پاپا سے کہ عرشی کے بابا سے بات کریں۔اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اسنے خود کو کوسا۔

۔۔۔۔*۔۔۔ ۔۔۔


وہ جب سے دعوت سے واپس آئے تھے تب سے  مسلسل حسین صاحب کی کہی ہوئی بات کو سوچے جا رہے تھے۔

عرشی کی والدہ جو کافی دیر سے انہیں سوچ میں گم دیکھ رہی تھیں آخر انہوں نے پوچھا

"کیا بات ہے ؟ " 

انکی آواز پر انہوں نے اپنی شریک حیات کو دیکھا اور پھر کہا

"بچے ایک دم سے بڑے ہو گئے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب انکا بچپن گزرا۔" انہوں نے کہا

"ہاں ! وقت جلدی بیت گیا۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیاتو جاویدصاحب نے کہا 

"تمہیں علی کیسا لگتا ہے ؟ "


"پیارا بچہ ہے ۔" انہوں نے بیڈ کی چادر درست کرتے ہوئے کہا

"حسین نے اسکے لئے عرشی کا رشتہ مانگا ہے۔" انہوں نے بتایا تو صفیہ بیگم کے ہاتھ ایک لمحے کے لئے چادر درست کرتے ہوئے رکے اور پھر انہوں نے کہا

"آپ نے کیا جواب دیا؟ "

"یہی کہ تم سے پوچھ کر بتاونگا۔" جاوید صاحب نے کہا

"آپ کو کیسا لگتا ہے علی ؟" اب کی بار صفیہ بیگم نے ان سے پوچھا

"مجھے تو اچھا لگتا ہے۔ڈیسنٹ ہے۔پیارا ہے۔اور پھر سب سے بڑی بات کہ وہ حسین کا بیٹا ہے۔اور پھر حسین عرشی کو اپنی بیٹی کی طرح پیار کرتا ہے تو میں تو اس رشتے کے حق میں ہوں" ۔جاوید صاحب نے کہا

"ہاں صحیح کہہ رہے ہیں آپ" ۔صفیہ بیگم نے کہا


"تم عرشی سے ایک دفعہ پوچھ لو ! " انہوں نے سوچتے ہوئے کہا

"اچھا !" انہوں نے جواب دیا 

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


اگلے دن کھانا کھانے کے بعد وہ عرشی کے کمرے میں گئیں ۔جہاں وہ بیڈ پر بیٹھی کچھ نوٹس بنا رہی تھی۔

انہیں دیکھا تو کہا

"آئیں امی ! "تو وہ مسکراتی ہوئی اسکے پاس بیٹھ گئیں۔

"کیسی تیاری ہے پیپرز کی ؟" انہوں نے پوچھا

"اچھی ہے " ۔اسنے جواب دیا

"کب ہیں پیپرز؟ " ا نہوں نے پوچھا

"پرسوں سے شروع ہیں" ۔اسنے جواب دیا 

"تم سے ایک بات کرنی تھی۔تمہارے بابا نے کہا تھا کہ تم سے پوچھو" ۔انہوں نے کہا

"جی !" اسنے جواب دیا


"تمھارے حسین انکل نے تمھارا رشتہ اپنے بیٹے کے لئے مانگا ہے" ۔انہوں نے بتایا 

"جی ؟ " اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلیں 

"تمھاری کیا رائے ہے ؟ " انہوں نے کہا

"امی میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔"اس نے کہا

"لیکن شادی تو نبیوں کی بیٹیوں کی بھی ہوئی ہے۔ہر لڑکی کو اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ایک نا ایک دن جانا ہوتا ہے" ۔انہوں نے کہا

"میں ابھی پڑھ رہی ہوں ۔" اسنے کہا


"ہاں تو پڑھائی سے کون منع کر رہا ہے؟ ابھی تو بس رشتہ مانگا ہے انہوں نے ۔" صفیہ بیگم نے کہا

وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی ۔تو اسکی والدہ نے کہا

"تمہارے بابا اور میں تو اس رشتے پر راضی ہیں۔تم ایک دو دن تک سوچ لو اس بارے میں۔"انہوں نے کہا اور اٹھ کر چلی گئیں۔

پیچھے وہ اپنے خیالات کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔

"میں کیسے کر سکتی ہوں اس سے شادی ؟ وہ اتنے غصہ والا ہے" ۔اسنے دل میں سوچا اور بیڈ سے اٹھ کھڑی ہو گئی اور پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر چکر لگانے لگی۔

"میں کیسے ناں کرو؟ بابا اور امی اگر راضی ہیں تو ان دونوں کو انکے فیصلے سے ہٹانا بہت مشکل ہے"۔اسنے پریشان ہوتے ہوئے سوچا اور دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔


"میں کیا کرو ؟ "اسنے اپنے ہاتھوں پر سر گرایا 

"کیا میں فری اور اقصی سے مشورہ لو ؟ " اسنے دل میں سوچا 

"نہیں !ان کو پھر پوری بات بتا نی ہو گئی" ۔دماغ نے کہا

"تو کیا ہوا دوست ہیں وہ میری !" دل نے دماغ کی رائے کو رد کر دیا 

"اور اگر وہ اس بات پر ناراض ہو گئیں کہ پہلے کیوں نہیں بتایا پھر ؟" دماغ نے کہا 

اسکا دل اور دماغ کسی ایک بات پر متفق نہیں ہو رہے تھے اور وہ دل اور دماغ کی اس جنگ سے تنگ آگئی تھی۔

اسنےدوبارہ  پریشانی سے سر اپنے ہاتھوں پر گرادیا

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔ 


"میں نے آج عرشی سے بات کی تھی۔" صفیہ بیگم نے جاوید صاحب کو بتایا

ا"چھا پھر ؟ کیا جواب دیا اس نے ؟ " انہوں نے کہا

"کہہ رہی ہے کہ میں پڑھ رہی ہو۔میں نے نہیں کرنی شادی۔" وہ اسکے بچکانہ جواب سن کر مسکرائے۔

"اور کچھ کہا ؟ ":انہوں نے پوچھا 

"نہیں!" انہوں نے بتایا


"اسے سمجھاو کہ علی اسکے لئے بہتر ہے۔" انہوں نے کہاتو صفیہ بیگم نے کہا

"میں نے اسے سوچنے کا کہا ہے۔": تو اس بات پر جاوید صاحب خاموشی سے انہیں دیکھے گئے

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"پھر کیا سوچا تم نے ؟" تین دن کے بعد اسکی والدہ نے پھر اس سے پوچھا 

"مجھے نہیں کرنی شادی" ۔اسنے کہا

"وجہ ؟" انہوں نے کہا

"میں ابھی پڑھ رہی ہوں" ۔اسنے جواب دیا

"لیکن عرشی !" انہوں نے کچھ کہنا چاہا

"میں نے کہا ناں کہ میں نے نہیں کرنی شادی" ۔اسنے اب تیز لہجے میں کہا

تو وہ مزید کچھ کہے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments