Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 10

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe  epi

قسط 10

 جیسے ہی وہ دروازہ سے اندرداخل ہوئی تو اسکی والدہ نے اسے دیکھتے ہی کہا 


"کیا ہوا ہے عرشی؟ تم تو وہاں رکنے والی تھی ناں ؟ " 


"میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی امی اسلئے آگئی۔" اسنے روتے ہوئے کہا


"چلو اندر آو !" وہ اسے لئے اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔


"بیٹھو ادھر !" انھوں نے اسے اسکے بیڈ پر بٹھایا اور پھر کہا 


"کیا ہوا ہے طبیعت کو ؟ اور یہ کلائیوں پر کیا ہوا ہے ؟"  انھوں نے پریشان ہو تے ہوئے اسکی کلائیوں کو دیکھا جہاں خون جما ہوا تھا 


"یہ ؟" اسنے ایک نظر اپنی کلائیوں کو دیکھا اور پھر کہا 


"یہ میں گر گئی تھی ! "


"توجہ کہاں تھی تمہاری ؟ "انھوں نے غصہ سے اسے دیکھا اور پھر میڈیکل با کس لینے چلی گئیں۔


کچھ دیر کے بعد وہ میڈیکل باکس لیکر آئیں اور روئی سے اسکی کلائیوں کےزخم صاف  کرنے لگیں۔


"میرے خیال سے کانچ اندر ہیں"  ۔انھوں نے اسکے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا 


"اور پھر آرام آرام سے کانچ کے چھوٹے چھوٹے زرے نکالنے لگیں۔جب وہ تمام زرات نکال چکیں تو  انھوں نے  زخموں پر سنی پلاسٹ  لگا دیا ۔"


اس کام سے فارغ ہو کر  انھوں نے اسے دیکھا جو دونوں ہاتھ گود میں رکھ کے بیٹھی تھی۔


"تم گھر کس کے ساتھ آئی ہو ؟" انھوں نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو اسنے بے ساختہ لب بھینچے اور کہا 


"حسین انکل کے بیٹے کے ساتھ۔"


"علی کے ساتھ ؟  وہ لوگ بھی تھے وہاں ؟"  انھوں نے حیرت سے پوچھا 


"جی !" اسنے جواب دیا  


"تمہاری  طبیعت کو اچانک کیا ہوا ہے ؟ گھر سے تو  تم ٹھیک ٹھاک گئی تھی ۔" انھوں نے کہا 


"مجھے چکر آرہے تھے " ۔اسنے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے جھوٹ کہا


"اچھا !  ایسا کرو تم سو جاو۔" انھوں نے اسے کہا اور جانے کے لئے کھڑی ہوئیں۔


"امی !مجھے سکون کی کوئی گولی دے دیں۔ مجھے نیند نہیں آ ئے  گی ۔" اسنے کہا  تو وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہیں اور پھر میڈیکل باکس سے ایک ٹیبلٹ نکال کر اسے دیکر پانی کا  گلاس اسکی طرف بڑھایا جسے اسنے تھام لیا۔


جب وہ  ٹیبلٹ  کھا چکی تو  وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔اور  اسکے روم کی لائٹ آف کرتی کمرے سے باہر چلی گئیں۔


جبکہ وہ خاموشی سے  انہیں جاتا دیکھتی رہی ۔


"میں امی کو کیسے بتاو سب ؟ " اسنے دل میں سوچا ۔سوچتے ہوئے آنسو اسکے  گالوں پر بہہ رہے تھے۔


کچھ لمحے وہ ایسے ہی روتی رہی اور پھر وہ نیند میں چلی گئی ۔


شاید یہ گولی کا اثر تھا جو وہ زیادہ دیر جاگ نہیں سکی تھی ۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


وہ ابھی ہی گھر پہنچا تھا۔


اور اسکے خیال کے عین مطابق  پاپا سو رہے تھے۔۔وہ دبے قدموں چلتا اپنے کمرے کی طرف  چلا گیا۔


کمرے میں پہنچ کر اسنے سب سے پہلے اپنے جوتے اتار کر ریک میں رکھے ۔اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر کلائی سے رسٹ واچ اتارنے  لگا۔


اچانک اسکی نظر اپنی ہتھیلی پر پڑی  جس پر جابجا چھوٹے چھوٹے کٹ لگے تھے۔


اسے دیکھتے ہی یادآیا کہ  عرشی کی کلائیوں  کو جب اسنے زور سے دبایا تھا  تب اسکی بہت سی چوڑیاں  ٹوٹی تھیں۔شاید یہ  کٹ اسی کی چوڑیوں کے تھے۔مجھے اس سے سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔اسنے دل میں سوچا  اور پھر سر جھٹکتا  اٹھا ا اور ننگے پاوں چلتا الماری کی طرف بڑھ گیا۔


اسی وقت رحیم دروازہ کھول کر اندر آیا۔


"علی بھائی ! آپ آگئے ؟" ارحیم نے کہا


"ہاں ! " علی نے جواب دیا 


"کچھ چاہیئے تو نہیں آپ کو  ؟"  رحیم نے کہا 


"نہیں ! تم جاکر سوجاو! " علی نے کہا تو وہ سر ہلاتا چلا گیا۔


رحیم کے جانے کے بعد اسنے وارڈ روب سے اپنی نائٹ  ٹی شرٹ اور  ٹراوزر  نکالا اور  چینج کرنے کے لئے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔


شاور لیکر وہ باہر نکلا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش  کرنے لگا۔۔وہ  مسلسل آج کے ہوئے واقعہ کو سوچ رہا تھا۔کچھ دیر کے بعد اسنے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے برش رکھا اور سوئچ آف کرتا بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔


۔۔۔۔*۔۔۔


صبح وہ اور حسین صاحب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے  جب  انھوں نے اسے مخاطب کیا  


"میری گاڑی کچھ پرابلم کر رہی تھی اسلئے میں کل اسےورک شاپ پر دے آیا تھا تو تم مجھے آج ڈراپ کر دوگے ؟"  انھوں نے اس سے پوچھا 


"پوچھنے کی کیا بات ہے پاپا !" اسنے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا تو انہوں نے سر ہلا دیا ۔


کچھ دیر کے بعد وہ اٹھا تو وہ بھی  اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باپ بیٹا  آگے پیچھے چلتے ہوئے گاڑی میں جاکر بیٹھ گئے ۔


حسین صاحب کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔


اور  گاڑی گھر سے باہر نکال لایا۔


ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ اچانک انہیں محسوس ہوا کہ انکے جوتے کے نیچے کچھ چیز ہے۔وہ نیچے جھکے اور پاوں ہٹایا تو سامنے ہی  کچھ  چوڑیوں کے ٹکڑے  گرے ہوئے تھے۔وہ تھوڑا سا اور نیچے جھکے تو انھیں سیٹ کے نیچے کچھ  چمکتی ہوئی شے نظر آئی ۔


انھوں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا تو وہ سلور کلر کا   چھوٹے چھوٹے نگوں والا بریسلیٹ تھا۔


اتنے میں علی نے انھیں مخاطب کیا 


"کیا ہوا پاپا ؟ " 


"ہوا تو کچھ نہیں ! " انھوں نے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا  تو وہ سامنے دیکھتا ڈرائیو کر نے لگا۔


جب گاڑی انکے آفس کے سامنے رکی تو انھوں نے بہت اطمینان سے  اسکا ہاتھ پکڑ کر بریسلیٹ اسکے ہاتھ میں پکڑایا۔


تو وہ کچھ لمحے کے لئے دنگ رہ گیا۔


"یہ کس کا ہے ؟"  انھوں نے اسے دیکھتے  ہوئے کڑے تیوروں سے پوچھا  تو وہ  خاموش رہا 


پھر وہ دوبارہ نیچے جھکے اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اسکی آنکھوں کے آگے لہرایا  


"بولو  علی ! کل رات تمھارے ساتھ گاڑی میں کون تھا؟"  انہوں نے سختی سے پوچھا  تو اسنے  جھینپتے ہوئے کہا 


"عرشی ! "


وہ نام سن کر تھوڑے سے حیرت زدہ ہوئے ۔اور پھر کہا


" کیا بکواس ہے یہ ؟ تمھارے دوست کی شادی میں وہ کیسے گئی ؟ " 


"میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں پاپا ! آپ چاہیں تو آنٹی سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔اسکی فرینڈ تھیں  ہنزہ بھابھی اسلئے وہ شادی میں آئی تھی۔" وہ اسے دیکھتے رہے تو وہ سر جھکائے بولا


"اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو واپسی  میں اسے  میں اس کے گھر چھوڑ کر آیا تھا۔" اسنے وضاحت دی تو وہ کچھ لمحے اسے دیکھتے رہے اور پھر  سیٹ بیلٹ کھول کر گاڑی سے باہر نکل گئے ۔


انکے جاتے ہی اس نے سر سیٹ سے ٹکایا  اور آنکھیں بند کیں۔


"عرشی صاحبہ ! آپ کی وجہ سے اب مجھے صفائیاں بھی دینی پڑ رہی ہیں۔ " اسنے دل میں کہتے ہوئے  ا آنکھیں کھول کر ہاتھ میں پکڑے بریسلیٹ کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے مٹھی بند کر دی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"عرشی نہیں آج ؟ " مس شمیم  نے اٹینڈس لینے کے بعد   ان دونوں سے پوچھا 


"نہیں مس !"  اقصی نے جواب دیا 


"وجہ ؟"  مس نے  ایک آبرو اٹھا کر پوچھا 


تو  فری نے درخواست  انکی طرف بڑھا دی۔


انھوں نے درخواست پڑھنے کے بعد کہا 


اسے بول دینا کہ اگر اسکی شارٹ اٹینڈس ہوئی  تو میں اسے مڈ ٹرم میں نہیں بیٹھنے دونگی تو وہ دونوں سر ہلا کر رہ گئیں۔


جب وہ  کلاس لیکر چلی گئیں  تو فری نے رجسٹر بند کرتے ہوئے پوچھا 


"نیکسٹ پیریڈ فری ہے ناں ؟ " 


"ہاں ! " اقصی نے جواب دیا  


"یار آج مزہ نہیں آرہا ہے ۔" اقصی  نے کچھ دیر کے بعد کہا جس پر  فری نے اسے دیکھا اور  پھر اپنے موبائل پر  کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی۔


"کسے فون کر رہی ہو ؟"اقصی نے اسے کہا 


"عرشی کو " ۔فری نے شرارت سے جواب دیا 


کافی دیر بیلز ہوتی رہیں لیکن  کسی نے بھی کال ریسیو نہیں کی ۔


"یہ فون کیوں نہیں ریسیو کر رہی ہے ؟"  فری نے اقصی کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ کال کرنے لگی ۔


"اب کی بار بھی اس نے کال ریسیو نہیں  کی تو وہ مزید حیرت زدہ ہوئیں۔" پھر فری نے ہی کہا


"کیا پتہ رات کو لیٹ آئی ہو اور ابھی سو رہی ہو" ۔۔تو اقصی نے اسکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلایا۔لیکن دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حیرت زدہ تھیں۔


کیونکہ  اس ایک سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عرشی نے ان دونوں میں سے کسی کی کال مسڈ کی  ہو۔۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"یہ ابھی تک نہیں اٹھی ؟ "عرشی کی والدہ نے گھڑی کی طرف دیکھا  جہاں  سوا گیارہ ہو رہے تھے۔وہ اٹھیں اور اسکے کمرے کی طرف بڑھیں۔


"عرشی !  اٹھو بیٹا"  ا نہوں نے اسے آواز دیتے ہوئے  اسکے کمرے کی لائٹس آن کیں۔


  "پہلی آواز پر تو وہ نہیں  اٹھی تو انھوں نے اسکے منہ پر سے تکیہ ہٹاتے ہوئے دوبارہ  آواز دی۔


"عرشی ! " تواس دفعہ  اسنے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا 


"اٹھ جاو !سوا گیارہ ہو رہے ہیں۔" انہوں نے کہا 


"اچھا وہ اچھا کہہ کر دوبارہ  آنکھیں بند کر گئی تو انھوں نے  پھر اسے آواز دی۔"


"اٹھو فورن  ! جاو منہ دھو کر آو !میں ناشتہ بناتی ہوں۔" تو وہ کسلمندی  سے  اٹھ کر بیٹھ گئی ۔اور موبائل اٹھا کر دیکھا  


جہاں فری کی دو مسڈ کالز تھیں ۔اسنے موبائل چیک کرکے موبائل کو بیڈ پر رکھا  اور کچھ دیر یوں ہی بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔


۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


منہ دھوکر وہ وا پس آئی تو اسکی والدہ نے تب تک  اسکے بیڈ کی حالت ٹھیک کر دی تھی۔اسےآتے  دیکھا تو کہا 


"چلو آو  باہر !میں ناشتہ بنا کر دیتی  ہوں۔ " تو  وہ کوئی بحث کئے بغیر  اپنا موبائل اٹھا کر انکے ساتھ باہر چلی گئی۔


وہ اسکے لئے ناشتہ بنانے کچن میں گئیں تو وہ  انکے پاس ہی کچن میں رکھے ڈائننگ ٹیبل  کی کرسی گھسیٹ کر  بیٹھ گئی اور پھر کچھ سوچ کر فری کو میسج کیا 


"میں سو رہی تھی فری ! "


کچھ ہی دیر کے بعد فری کا میسج آیا 


"ہاہا پتہ تھا " ۔ اسنے میسج پڑھا اور پھر کوئی جواب  دینے کے بجائے موبائل رکھ دیا ۔


اسکی طبیعت پر عجیب بوجھل پن سا سوار تھا۔


وہ  سن ہوتے  دماغ  کے ساتھ وہاں  بیٹھی تھی کہ  اچانک اسکی والدہ نے کہا 


"عرشی یہ لو ناشتہ۔ انھوں نے اسکے آگے ناشتہ رکھا   تو اسنے پراٹھے کو دیکھتے ہی کہا "


"امی میں یہ نہیں کھاونگی۔"


"تھوڑا سا  کھا لو ! تو  وہ خاموشی سے کھانے لگی۔آدھا پراٹھا کھانے کے بعد ہی اسنے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔اور  برتن اٹھا کر سنک میں رکھے تو اسکی والدہ نے  پیچھے مڑ کر اسے دیکھا  جو ان سے بے نیاز  برتن رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔"


"یہ اتنی خاموش کیوں ہے ؟"  انہوں نے سوچا اور پھر دل میں کہا 


"شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسکی ۔" ور پھر خود دوپہر کا کھانا بنانے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔


۔۔۔۔*۔ ۔۔۔


اس وقت مس نسرین لیکچر  دے رہیں تھیں ۔جب انھوں نے عرشی کی غائب دماغی  کو نوٹ کیا 


عرشی ۔۔۔۔انھوں  نے اسکا نام پکارا تو اسنے  انکی طرف دیکھا اور پھر کہا 


"جی مس! " 


"آپکو سمجھ آرہا ہے ؟"  انھوں نے پوچھا 


"جی مس ! " اسنے جواب دیا  تو وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں لیکن کہاں کچھ نہیں ۔


اور پھر  دوبارہ   لیکچر دینے لگیں۔جب مس کچھ لکھنے  کے لئے بورڈ کی طرف گئیں تو  اقصی نے عرشی کو کہنی ماری 


جس پر اسنے ہڑ بڑا کر  اسے دیکھا 


اسکے دیکھتے ہی اس نے عرشی سے کہا 


"کیا ہوا ہے ؟ "


"کچھ نہیں " ۔اسنے آہستہ سے جواب دیا   تو اقصی نے  کچھ لکھنے کے لئے  اسکی نوٹ بک کو اپنی طرف کیا لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ  عرشی نے ایک جملہ تک  لیکچر کا نوٹ نہیں کیا تھا۔


اسنے کچھ کہنے کے لئے  عرشی کی طرف دیکھا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ جسمانی طور پر وہاں ہو  زہنی طور پر نہیں۔


"عرشی ! " اسنے آہستہ سے اسے پکارا تو عرشی نے اسکی طرف دیکھا 


"لیکچر نوٹ کرو !اس نے کہا تو اس نے اپنی نوٹ بک اپنی طرف کر لی اور لیکچر نوٹ کرنے لگی ۔"


"جب  چھٹی کی بیل ہوئی تب کہی جاکر مس نسرین  نے اپنی  کلاس ختم کی"

۔انکے جاتے ہی عرشی نے  اپنی چیزیں سمیٹ کر بیگ میں رکھیں اور جانے کے لئے  اٹھ کھڑی ہوئی  اسے جانے کے لئے  تیار دیکھا تو فری نے کہا 


"عرشی کیا بات ہے ؟ آج بہت جلدی میں ہو " ۔فری کی بات کے جواب میں اسنے کوئی جواب دینے کے بجائے مسکرا کر اسے دیکھا  ۔ اتنے میں اقصی نے  اسکی کلائی کو دیکھا  تو پوچھا 


"یہ پٹیاں پٹیاں کیوں ہو رہی ہو بہن ؟"  


عرشی نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنی کلائی کو دیکھا 


"میں گر گئی تھی " ۔اسنے جواب دیا  


"اچھا !" ان دونوں نے کہا


"اور منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں ؟" فری نے پوچھا 


"ایسے ہی یار ! شاید مجھے تھکن ہو رہی ہے " ۔عرشی نے کہا 


"چلو ہم بھی چلتے ہیں گھر !" فری نے کہا تو عرشی نے بھی سر ہلایا 


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"انکل یہ میں آپ کے لئے بنا کر لائی ہوں۔" اسرا نے بریانی کا ڈونگہ رحیم کو دیتے ہوئے کہا 


"اچھا !" وہ مسکرائے اور پھر کہا 


"اسکی ضرورت نہیں تھے بیٹا ۔" 


"کیسے ضرورت نہیں تھی ؟ مجھے پتہ ہے آپ کو بریانی پسند ہے ۔" اسرا نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر ادھر ادھر دیکھا 


"علی نہیں آیا ابھی تک انکل ؟ " اسنے ان سے پوچھا 


تب ہی  اسکی گاڑی کا ہارن بجا تو وہ مسکرائی اور کہا 


"شیطان کا نام لیا اور شیطان  حاضر۔" ابھی وہ اس بات پر ہنس ہی رہے تھے کہ وہ گلاس ڈور کھول کر اندر داخل ہوا ۔


اور اسرا کواپنے گھر میں  بیٹھے دیکھ کر اسکا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔لیکن کچھ کہنے کے بجائے  وہ دونوں کو مشترکہ سلام کرتے ہوئے  وہی صوفے پر بیٹھ گیا ۔


"وعلیکم سلام  ! " حسین صاحب نے جواب دیا جبکہ اسرا نے سر اٹھا کر مسکرا کر اسے دیکھا


"تم بہت دیر سے آنے لگے ہو علی !" اسرا  نےحسین صاحب کے سامنے ہی اس سے شکوہ کیا  جس پر اسنے  نے حیرت سے اسرا کو دیکھا اور پھر کہا 


"میں تو ہمیشہ سے اس ٹائم پر آتا ہوں۔یا کبھی اس سے بھی زیادہ لیٹ ہو جاتا ہوں۔میں نہیں جانتا کہ تم کب کی بات کر رہی ہو ۔" علی نے صاف گوئی سے کہا 


اسکی صاف گوئی سن کر اسرا ایک لمحے کے لئے گھبرائی اور  پھر کہا 


"امریکہ میں تم جلدی آتے تھے ۔" 


"مجھے نہیں یاد کہ کبھی  امریکہ میں تم رات میں ہمارے یہاں کھانے پر آئی ہو ۔" اس دفعہ پھر علی نے سخت لہجے میں کہا جسے سن کر اسرا کا چہرہ شرمندگی سے لال ہوا ۔


"حسین صاحب نے ایک  نظر اسرا کے شر مندگی سے لال چہرے کو دیکھا اور پھر  ایک نظر اپنے  بیٹے کے غصے سے لال چہرے پر ڈالی ۔اور پھر انھوں نے بات سنبھالتے ہوئے کہا "


"اسرا  میرے لئے بریانی بنا کر لائی  ہے ۔" انکی بات سن کر علی نے  انہیں دیکھا اور پھر لمحوں میں فیصلہ کرتے ہوئے کہا


"لیکن میں نے آپ سے کہا تھا کہ آج عرشی کے گھر جانا ہے۔۔اور پھر اسنے جو تیاری کی ہوگی اسکا کیا ہوگا؟ " 


انھوں نے  حیرت سے علی کو دیکھا  کیونکہ ایسی کوئی بات انکے درمیان  ہوئی ہی نہیں تھی۔


"عرشی ؟"  اسرا نے زیر لب اسکا نام لیا۔


"یہ عرشی کون ہے ؟"  اسرا نے بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے پوچھا جس پر وہ مسکرایا 


اسکی مسکراہٹ  دیکھ کر اسرا نے کہا 


"لگتا ہے  یہ بہت خاص لڑکی ہے ۔" 


"ہاں !"  علی نے  اطمینان سے اسکی بات کا جواب دیا ۔جسے سن کر عرشی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔لیکن وہ ضبط کئے بیٹھی رہی ۔


"مجھے کب ملواوگے اس سے ؟"  اسرا نے کہا 


"بہت جلد  میں اس سے نکاح کرونگا تو تب تم بھی مل  لینا۔" 


اسکی بات سن کر اسرا تو اسرا حسین صاحب بھی حیرت زدہ ہو ئے ۔ اور وہ اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔


"میں  ایسا کرتا ہوں عرشی کو فون کر کے کہہ دیتا ہونکہ میری ایک دوست  آگئی ہے اسلئے ہم آج نہیں آئیں گے " ۔اسنے فراٹے بھرتے ہوئے جھوٹ کہا 


جس پر حسین صاحب نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔۔


جبکہ اسرا وہی بیٹھی نفرت کی آگ میں جل رہی تھی ۔اسے عرشی سے نفرت ہو رہی تھی۔ایک ایسی لڑکی سے نفرت جسکی محبت میں علی ڈوبا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔

اسے لگ رہا تھا کہ اب اسکی ہار یقینی ہے ۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"میں حسین انکل سے آنکھ کیسے ملاونگی ؟ اس جنگلی نے جاکر سب کچھ انکل کو بتا دیا ہو گا ۔اور اگر انکل نے بابا کو بتا دیا تو " ۔عرشی نے بیڈ پر لیٹے لیٹے سوچا 


"میں کیا کرو ؟ " اسنے بے بسی سے دل میں کہا 


"ایسا کرتی ہوں کہ میں انکل  کو اور امی بابا کو سب کچھ خود بتا دیتی ہو" ۔اسنے الجھتے ہوئے  دل میں کہا 


"لیکن سب کیا سوچیں گے ؟ اور وہ علی کیا سوچتا ہوگا کہ میں غلط لڑکی ہوں تب ہی اس بندے نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔" 


"ہاں تب  ہی تو   مجھ  پر اتناغصہ کیا تھا ۔وہ خود  ہی خود سے سوال کر رہی تھی اور خود ہی سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔" 


"وہ سوچے جارہی تھی اور یہ سوچ کا عمل اسے تھکا رہا تھا" ۔اتنے میں اسکی والدہ اسکے کمرے میں آئیں۔


"عرشی ہنزہ تم سے بات کرنا چاہتی ہے" ۔انھوں نے کارڈ لیس اسکی طرف بڑھایا اور خود وہاں سے چلی گئیں۔


انکے جانے کے بعد اسنے کارڈ لیس کان سے لگا یا  تو   اسے ہنزہ کی آواز سنائی دی 


"عرشی عرشی ! پھراچانک  اسے  اپنے کانوں میں علی کی اس دن کی غصیلی آوازسنائی دی تو اس نے  کچھ کہنے کے بجائے کال بند کر دی۔"


وہ چاہنے کے باوجود اس دن کے واقعے کو نہ بھول پا رہی تھی اور نہ کسی کو بتا پا رہی تھی۔


اور اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس بوجھ کو مزید سہہ نہیں پائے گی۔


وہ وہی بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔کسے بتائے۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

لنچ بریک میں  وہ آج بھی غائب دماغی سے ان دونوں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور انکی باتوں پر ہوں ہاں کر رہی تھی  کہ اچانک اقصی نے کہا  ۔


"عرشی  کیا بات ہے ؟ تم آج کل غائب دماغ سی رہتی ہو ۔"


"نہیں تو۔" عرشی مسکرائی ۔


"جھوٹ مت بو لو ۔اس دن مس نسرین کی کلاس  میں اسنے زرا سا بھی لیکچر نوٹ نہیں  کیا ہوا تھا" ۔اقصی نے فری کو بتایا  تو فری نے بھی پوچھا 


"عرشی کیا بات ہے ؟ کوئی مسئلہ ہے تو ڈسکس کرو ۔"


"نہیں یار کچھ بھی نہیں۔بس مڈ ٹرم کی ٹینشن" ۔عرشی نے کہا 


"وہ تو ہمارے بھی ہونے ہیں  لیکن ہم تمھاری طرح بی ہیو نہیں کر رہے " ۔اقصی نے کہا 


تو وہ جواب دینے کے بجائے کھڑی ہو گئی۔۔


"میں  یہ بک ری ایشو کرا آو "۔اسنے کہا اور بک اٹھا کر چلی گئی۔


"تمہیں یہ بدلی بدلی سی نہیں لگ رہی فری ؟ " اقصی نے کہا 


"ہاں" ۔۔فری نے جواب دیا 


"لیکن بات  کیا ہے ؟ " اقصی نے پر سوچ انداز میں کہا 


"مجھے کیا پتہ ۔" فری نے کہا 


"تو پتہ کرتے ہیں ۔" اقصی نے پر جوش ہوتے ہوئے کہا تو فری نے بھی سر ہلایا


"مجھے لگتا ہے کوئی بات اسکو پریشان کر رہی ہے ۔اور یہ کسی کو بتانا نہیں چاہتی " ۔فری نے کہا 


"اسے ہمیں بتانا چاہیے یار"  ۔اقصی نے کہا


"اسے  وقت دو۔بتا دے گی۔فری نے کہا تو اقصی نے سر ہلا یا"


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments