Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke (epi 2)

 Rishte chahat ke:

Rishte chahat ke
 

             2قسط        

مجھے دیر ہو رہی ہے اسلئے جلدی جواب دینے کی کوشش کرنا۔مستقیم نے کہا

دیکھیں!مم۔۔میں۔۔ابھی لفظ اسکے منہ میں ہی تھے کہ مستقیم نے کہا ۔صرف ہاں یا ناں میں ہی جواب چاہئے۔بس۔اسکے علاوہ اور کچھ نہیں۔

یہ کہ کر وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا ۔

اور ماہ خاہ خانم وہی بیٹھ کر رونا شروع ہو گئی۔

کافی دیر کے بعد وہ اٹھی اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع ہوگئی۔

 

جب تھک گئی تو بیٹھ کر رونا شروع ہوگئی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟

کیسے یہاں سے نکلے؟اسے یہاں بند ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے۔

کافی دیر کے بعد مستقیم دروازہ کھول کر اندر آیا تو وہ اٹھ کر باہر جانے کو لپکی۔

مستقیم نے اس سے زیادہ پھرتی سے اسے پکڑ کر بیڈ پر دھکا دیا اور غرایا! تمہاری عقل ابھی تک ٹھکانے تک نہیں آئی؟

 

مجھے جانے دیں۔ماہ خانم روتے ہوئے بولی۔

ہاں !جاو۔کس نے روکا ہے؟نکاح کرو اور جاو۔اس سے پہلے تو تم یہاں سے نکل کر نہیں جا سکتی۔مستقیم نے سختی سے کہا

وہ خاموش بیٹھی روتی رہی۔

بولو کیا جواب ہے؟

ابھی دو گھنٹوں کے بعد شام ہو جائے گی۔رات یہی گزارنی ہے یاں گھر جانا ہے؟

جواب تمھارے خود کے پاس ہے۔مستقیم نے کہا

مجھے منظور ہے۔ماہ خانم نے روتے ہوئے کہا

مستقیم طنزیہ مسکرایا

 

یہ کی ہے ناں اچھے بچوں والی بات۔چلو اندر کمرے میں۔میں نکاخ خواں کا انتظام کرتا ہوں۔

ابھی نکاح؟آپ ۔۔۔لفظ اسکے منہ سے بے ربط نکل رہے تھے۔

ہاں تم یہاں سے میری منکوحہ بن کر ہی جاو گی۔مستقیم نے اطمینان سے کہا

جاو اندر!مستقیم نے اسے کہا

وہ روتی رہی۔

میں کہ رہا ہو اندر جاو۔اس دفعہ مستقیم نے چلاتے ہوئے کہا

تو وہ سن ہوتی ٹانگوں کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔

 

ایک گھنٹے کے بعد نکاح کی کاروائی پوری ہو چکی تھی۔

اور اب وہ اسے لیکر اسکے گھر جا رہا تھا۔وہ نکاح کے بعد سے روتی جارہی تھی۔

میرے خیال سے جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔اب آنسو بہانے کا مقصد؟تمھاری رضامندی سے نکاح ہوا ہے۔

بلیک میل کر کے آپ نے نکاح کیا ہے۔ماہ خانم نے اسے کہا

چلو جیسے کو تیسا۔اب تو میرے نکاح میں ہو ناں۔اب تمہیں سکھاونگا کہ بات کیسے کی جاتی ہے۔۔مستقیم نے غراتے ہوئے کہا

 

وہ خاموشی سے روتی رہی۔

گھر سے کچھ فاصلے پر مستقیم نے گاڑی روکی تو وہ جلدی سے نکل کر باہر چلی گئی۔

جلدی میں اسنے یہ بھی نہیں دیکھا کہ پیچھے سے آنے والی گاڑی میں اسکے بابا تھے اور اسے دیکھ چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شفا ٹی وی کی طرف دیکھتے دیکھتے اچانک رضا کی طرف مڑی اور کہا

آئسکریم کھاوگے؟

بابا کل لائے تھے۔اسنے رضا کو بتایا

نیکی اور پوچھ پوچھ۔جلدی لائیں۔رضا نے جواب دیا۔

امی آپ کھائیں گی ؟شفاء نے جبیں بیگم سے پوچھا

نہیں بیٹا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا

 

اسنے کانچ کے خوبصورت سے پیالوں میں آ ئسکریم ڈالی اور اسے لیکر لاونج کی طرف بڑھی۔

اچانک پتا نہیں کیا ہوا اسکا پاوں رپٹا اور  اسکے ہاتھ سے پیالے گر پڑے جب کہ وہ خود گڑتے گڑتے سنبھل گئی۔

جبیں بیگم اور رضا دونوں ہی اس اچانک ہونے والی افتاد سے گھبرا گئے۔

اور اس سے پوچھا! تم ٹھیک ہو؟

ہاں میں ٹھیک ہوں۔شفا نے جواب دیا

اسکی خیریت کا جب اطمینان ہوا تو انکو پیالوں کا خیال آیا

تم نے نئے پیالے توڑ دئیے۔جبیں بیگم نے کہا

 

امی آپ اتنی حیران کیوں ہو رہی ہیں؟میری آپی بہت ٹیلنٹد ہیں۔انکو ایک پیالہ دو یہ دو کر کے دیتی ہیں۔رضا نے مسکراتے ہوئے شفا کو چھیڑا 

تم بد تمیزی مت کرو اور امی یہ میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑے۔

پتہ نہیں خود ٹوٹ گئے۔شفا نے کہا

 

ہاں آپی بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں امی۔پیالوں کے پاوں نکل آئے تھے وہ خود انکے ھاتھ سے نکلے اور زمیں پر گر پڑے۔ہیں ناں آپی۔میں ٹھیک کہ رہا ہوں ناں؟رضا نے شرارت سے شفا سے کہا۔

جبیں بیگم بھی اسکی بات پر مسکرانے لگیں تھیں۔

میں قتل کر دونگی تمہارا۔شفا نے رضا کے بال پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا

شفا اور رضا دونوں خاموش ہو جاو۔اس سے پہلے کہ لڑائی مزید طول پکڑتی جبیں بیگم نے پیش بندی کی۔

شفا یہ کانچ سمیٹو۔کسی کے پاوں میں لگ جائیں گے اور تم رضا کوچنگ کیوں نہیں گئے؟

جاونگا امی۔لیکن آسکریم کھانے کے بعد۔رضا نے جواب دیا

 

شفا یہ کانچ سمیٹ لو۔میں تم دونوں کے لئے آئسکریم لاتی ہو۔وہ بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔

تمہیں میں چھوڑونگی نہیں۔شفا نے رضا سے کہا

ہی ہی۔۔۔وہ ہنسنے لگا اور اسے ریموٹ دکھایا

اور اب میں ریسلنگ لگانے لگا ہوں۔رضا نے ہنستے ہوئے کہا

رضا کے بچے تم۔شفا نے جواب دینا چاہا لیکن کچن سے جبیں بیگم کی آواز آئی 

کانچ سمیٹ لئے شفا؟

جی امی۔۔۔۔وہ جلدی جلدی کانچ سمیٹنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آگئی تم؟اج جلدی آئی ہو۔بی جان نے ماہ خانم سے کہا

جی! بی جان میں اپنے کمرے میں جارہی ہو ۔اسنے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چلدی۔

ماہ خانم۔۔۔۔۔ماہ خانم۔۔۔۔آغا جان لاونج میں آتے ہی زور سے چلائے۔

کیا ہوا؟بی جان ہولتے ہوئے بولیں

ماہ خانم ۔۔۔۔۔وہ پھر چیخے۔

 

ماہ خانم نے جیسے ہی آغا جان کی آواز سنی وہ جہاں تھی وہیں تھم گئی۔

ہوا کیا ہے؟بی جان نے آغا جان سے پوچھا

کہاں ہے وہ؟آغا جان نے غصے سے لال ہوتے ہوئے کہا

اپنے کمرے میں ہے۔بی جان نے جواب دیا

 

وہ کچھ بولے بغیر اسکے کمرے کی طرف گئے اور ڈھار سے دروازہ کھولا

کس کے ساتھ تھی تم؟انہوں نے ماہ خانم کے بال پکڑتے ہوئے کہا

آغا جان وہ۔۔۔۔انھوں نے اسکے منہ پر تھپڑ مارا۔

 

اس دن کے لئے یونی بھیجا تھا ؟آغا جان اسے مارتے ہوئے چلاتے ہوئے بولے۔

آغا جان !آغا جان آپ ۔۔۔۔آپ میری بات سنیں۔وہ میں ۔۔۔میں ایسی نہیں ہوں۔وہ خود پتہ نہیں کیوں میرے پیچھے پڑگیا تھا اوروہ مجھے بلیک کر رہا تھا۔وہ بے ربط سی بولی۔

جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی؟انھوں نے اسے زور سے تھپڑ مارا

میں ۔۔۔۔میں آغا جان میں۔۔۔۔جھوٹ نہہیں بول رہی۔وہ روتے ہوئے اٹکتے ہوئے بولی

 

میں نے اپنی آنکھوں سے اسے اسکی گاڑی سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔آغا جان نے اسے دھکا دیا

کمرے میں آتے رحمان صاحب جو آج خرابی طبیعت کے با عث گھر پر ہی تھے شور کی آواز سن کر اس طرف آئے اور ادھر ایک بہت بڑی خبر انکی منتظر تھی۔

میں اسے قتل کر دونگا۔آغا جان دوبارہ ماہ خانم کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔

آغا جان مجھے معاف کر دیں۔میری غلطی نہیں ہے۔۔وہ مسلسل روتی ہوئی بولی۔

آغا جان اب اسے لاتوں سے مار رہے تھے۔رحمان صاحب فورن آگے بڑھے 

آغا جان !چھوڑیں اسے۔رحمان صاحب نے کہا

 

ہٹو پیچھے تم۔اسنے میرے خاندان کی عزت کو بٹہ لگایا ہے میں اسے نہیں چھوڑونگا۔آغا جان نے رحمان صاحب کو دھکیلتے ہوئے کہا

لیکن رحمان صاحب نے مضبوطی سے انہیں پکڑ لیا۔

جبیں اسے دوسرے کمرے میں لیکر جاو۔

تم چھوڑو مجھے!میں آج اسکا قصہ صاف کرونگا۔آغا جان چیختے ہوئے بولے

 

جبیں بیگم فورن اسے کمرے سے باہر لے گئیں۔

آغا جان پانی۔گل بی بی نے پانی کا گلاس انکی طرف بڑھایا ۔انہوں نے گلاس توڑدیا۔

تم مجھے کہ رہے تھے اسے یونی میں پڑھاو۔

دیکھ لو نتیجہ۔۔میری عزت کو بٹہ لگا گئی ہے۔وہ چیختے ہوئے بولے۔

آغا جان !آپ اسکی بات سن لیتے ۔کیا پتہ وہ سچ کہ رہی ہو۔رحمان صاحب نے کہا

رحمان میں نے خود اسے اس لڑکے کی گاڑی سے نکلتے دیکھا ہے۔اسکی اگر مرضی نہیں تھی تو یہ اسکی گاڑی میں کیا کر رہی تھی؟آاغا جان چیختے ہوئے بولے۔

 

آغا جان !مجھے اس سے بات کر لینے دیں۔رحمان صاحب نے کہا

تم مجھے اسکا قتل کر لینے دیتے رحمان۔آغا جان بے بسی سے بولے

جہانزیب اور شاہزیب بھائی کو آنے دیں مل کر اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔رحمان صاحب نے کہا

رات آغا جان نے ماہ خانم کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا بتاو اپنے بھائیوں کو سب سچ۔کیوں تھیں تم اسکی گاڑی میں؟

 

میں سچ کہ رہی ہو میرا کوئی افئیر نہیں تھا اس بندے سے۔لیکن وہ مجھے بلیک میل کر رہا تھا تو میں آج اسکے ساتھ گئی تھی۔میں۔۔۔۔۔۔ابھی ماہ خانم بول ہی رہی تھی کہ آغا جان چیخ اٹھے ۔سن لیا تم سب نے ؟

سب سن لیں میں اسکا نکاح کل ہی اپنے بھتیجے سے کرادونگا۔وہ سنتے ہی سن ہو گئی۔

آغا جان میں یہ نکاح نہیں کر سکتی۔اسنے روتے ہوئے کہا

بکواس مت کرو۔منہ توڑ دونگا میں۔آغا جان چیخے

 

آغا جان میں یہ نکاح کبھی نہیں کرونگی کیونکہ میں پہلے سے ہی کسی کے نکاح میں ہوں۔میں منکوحہ ہومستقیم اعوان کی۔

آغا جان تو سنتے ہی بپھر گئے اور اسے مارنے لگ گئے۔بڑی مشکل سے جہانزیب خان اور شاہزیب خان نے اسے چھڑوایا۔رحمان صاحب تو گویا گنگ کھڑے تھے۔

آغا جان خود کو چھڑواکر رحمان صاحب کی طرف لپکے اور انہیں مارنے لگے۔تمہاری وجہ سے اسے ڈھیل دی اور یہ کسی غیر سے نکا ح کر آئی۔شاہ زیب خان نے بپھرے ہوئے آغا جان کو قابو کیا 

اورماہ خانم سے کہا اس لڑکے کو بلاو ہم بات کرتے ہیں۔

 

کوئی کسی سے بات نہیں کرے گا تم ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے دفع ہوجاو۔میرے گھر میں تمھاری کوئی جگہ نہیں ہے۔

آغا جان نے ماہ خانم کو کہا

 

یہ آپ کیا کہ رہے ہیں؟برادری والوں کو کیا جواب دیں گے؟بی جان نے کہا 

تم چپ رہو۔آغا جان نے بی جان کو کہا

جاو نکلو۔وہ پھر ماہ خانم کی طرف بڑھے اور اسے بازو سے پکڑ کر مین گیٹ کی طرف بڑھے۔

آغا جان مجھے معاف کردیں۔مجھے معاف کردیں ۔وہ مسلسل یہ لفظ بول رہی تھی۔

 

انھوں نے نے اسے مین گیٹ سے باہر نکالا اور کہا آج سے اس گھر کے تمام افراد تمھارے لئے مر گئے اور تم ہمارے لئے مر گئی ۔یہ کہ کر دروازہ بند کر دیا 

وہ دنگ کھڑی رہ گئی اور وہی بے ہوش ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments