Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke epi 11

 Rishte chahat ke:

Rishte chahat ke

                        

     قسط 11 

"بابا !مے آئی کم ان"۔زعیم نے شاہ زیب خان سے پوچھا 


"یس ۔مائی سن"۔انہوں نے اپنے آفس کی چوکھٹ پر زعیم کو کھڑے دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔


وہ آکر صوفے پر بیٹھ گیا ۔


"مصروف تو نہیں تھے آپ"؟زعیم نے پوچھا 


"نہیں !کیوں کیا ہوا؟"انہوں نے پوچھا 


"وہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی"۔زعیم نے کہا 


"ہاں بولو"وہ اسکی طرف متوجہ ہوئے۔


"بابا اصل میں۔۔۔۔۔۔"وہ بولتے بولتے اٹکنے لگا ۔


بابا سے اسکی فرینڈ شپ تھی۔لیکن انکو وہ شفا کے بارے میں بتاتےہوئے جھجھک رہا تھا۔


"کیا بات ہے زعیم؟کھل کر بات کرو"۔انہوں نے جیسے اسے فری ہینڈ دیا ۔


وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا اور پھریک دم بولا 


"میں شفا سے شادی کرنا چاہتا ہو۔"


وہ ایک ہی سانس میں جلدی جلدی پورا جملہ بول گیا ۔


اسکی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے رہے۔اوروہ انکے جواب کے انتظار میں آفس میں لگی پینٹنگز کو دیکھتا رہا ۔


جب کچھ لمحے وہ کچھ نہ بولے تو اس نے انہیں دیکھا ۔


وہ مسکرا رہے تھے۔ اسکو اپنی طرف دیکھتا پاکر کہا ۔


"نیک خیال ہے ویسے۔"


"توپھر کب کر رہے ہو شادی"۔انہوں نے ہنستے ہوئے زعیم سے کہا۔


تب تک وہ اپنا اعتماد برقرار کر چکا تھا ۔


"جب آپ اپنا دست شفقت مجھ پر رکھ کر رحمان چچا سے انکی اکلوتی دختر نیک اختر کا ہاتھ مانگیں گے بس تب ہی میں کر لونگا۔"


وہ بھی ان ہی کے لہجے میں بولا تو وہ ہنسنے لگ گئے۔


اتنے میں انکا انٹر کام بجا تو زعیم نے کھڑے ہوتےہوئے کہا


"آئم شیور سر کہ آپ میرا مسئلہ جلد حل کریں گے۔آئی ول بی ویری تھینک فل آف یو۔"


"وہ شرارتی انداز میں بولے گیا"۔ جسے سنکر وہ بھی ہنسنے لگے۔

اور وہ انکے آفس سے نکل گیا ۔


پیچھے وہ کافی ریر تک بیٹھے مسکراتے رہے۔


انہیں خوشی تھی کہ خان ولا پھر آباد ہو رہا تھا 


انکے بچے آباد ہورہے تھے۔


انکا گھر آباد ہورہا تھا 


خوشیوں نے ایک دفعہ پھر خان ولا کے دروازے پر دستک دی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


"انہوں نے پہلے بی جان سے بات کی تھی اور پھر رحمان صاحب اور جبیں بیگم سے شفا کا رشتہ مانگا تھا "۔


رحمان صاحب اور جبیں بیگم تو بے حد خوش ہوئے تھے۔لیکن انھوں نے شفا کی رضامندی جانچنے کے بعد جواب دینے کا کہا تھا۔


اسی سلسے میں جبیں بیگم ابھی شفا کے کمرے میں آئیں تھیں۔


"شفا کچھ بات کرنی ہے تم سے بیٹے"۔جبیں بیگم نے کہا ۔


"کیا بات"؟ شفا نے حیرانگی سے پوچھا کیونکہ اسکی مما اتنی فارمل کبھی نہیں ہوتی تھیں۔


"شاہ زیب بھائی اور گل جان نے تمھارا ہاتھ زعیم کےلئے مانگا ہے "۔۔انہوں نے کہا 


"وہ سن کر بلکل سن رہ گئی۔"


"تمہارا کیا خیال ہے؟ ہاں کر دیں؟"جبیں بیگم نے پوچھا 


"وہ انکا منہ تکتی رہی۔"


"شفا بولو بچے"۔جبیں بیگم نے کہا 


"مما میں نے نہیں کرنی ان سے شادی۔"اس نے کہا 


"کیوں؟" جبیں بیگم نے پوچھا 


"مجھے وہ نہیں پسند" ۔شفا نے کہا 


"تم کوئی معقول وجہ بتاو۔"انہوں نے شفا سے کہا 


"بس ایسے ہی مجھے وہ نہیں پسند"۔شفا نے کہاتو جبیں بیگم نے اسے دیکھا اور پھر کہنے لگیں۔


"تمھارے دو رشتے آئے ہوئے ہیں۔ایک زعیم کا اور دوسرا مسز ضیا تمھیں اپنے بیٹے کے لئے مانگ رہیں ہیں۔"


"ہم تو زعیم کے لئے خوش تھے۔کیونکہ ایک تو وہ اپنا ہے اور پھر اس سے شادی کے بعد بھی تم ہماری نظروں کے سامنے رہو گی۔"


"اور دوسری بات یہ کہ" ۔۔۔۔انہوں نے ایک لمحہ ٹہر کر اسکا چہرہ دیکھا اور پھر کہا 


"بہت سالوں کے بعد یہ خاندان جڑا ہے۔تمھارے بابا اپنوں میں آئے ہیں۔دوریاں مٹی ہیں۔اسلئے جو بھی فیصلہ کرنا سوچ سمجھ کر کرنا ۔کہیں تمھارے فیصلے سے یہ رشتے پھر سے نہ بکھر جائیں۔ انہوں نے نپے تلے لہجے میں بات مکمل کی۔"


وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔


"باقی فیصلہ تمھارا ہی مانا جائے گا۔ہم ہر حال میں تمھارا ساتھ دیں گے۔انہوں نے اسکے ماتھے پر پیار کیا اور کمرے سے چلی گئیں۔"


لیکن اسکے لئے سوچ کے در وا کر گئیں تھیں۔


وہ جیسے جیسے سوچتی جا رہی تھی اسکا دماغ شل ہوتا جا رہا تھا ۔


"وہ کیسے زعیم کے لئے ہاں کرتی؟ جو اسے پسند ہی نہیں کرتا تھا ۔"


"جسکو اسکا اپنے کمرے میں آنا پسند نہیں تھا۔وہ کیسے اسے تمام زندگی اپنے کمرے میں برداشت کرے گا"۔


"اگر وہ ناں کرتی تو رشتوں میں دڑار پڑ جاتی۔۔تایا ابو بابا سے ناراض تو نہ ہوتے لیکن دل خراب ہو جاتا ۔وہ کیسے اپنے باپ کو دکھ دے سکتی تھی۔پہلے ہی اسکا باپ بیس سال اپنے گھر والوں سے دور رہا تھا ۔"وہ سوچتی جا رہی تھی۔اور روتی جا رہی تھی۔


جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اٹھی اور جاکر وضو کیا ۔


"واپس آکر اس نے دو رکعت نفل حاجت کے پڑھے اور صحیح فیصلہ کرنے کی دعا مانگی۔"


"کافی دیر تک وہ جائے نماز پر بیٹھ کر روتی رہی۔۔۔"


پھر بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔پوری رات الٹی سیدی باتیں سوچتی رہی ۔۔


"اس رات وہ اکیلی ہی نہ جاگی تھی۔کوئی اور بھی تھا جو پوری رات سو نہ سکا تھا۔۔"


"ایک کو فیصلہ سنانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔


اور دوسرے کو اپنی مرضی کا فیصلہ نہ سننے کا ڈر تھا۔


تکلیف دونوں کو تھی۔لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کی حالت سے بے خبر تھے۔


بد گمانی سی بد گمانی تھی۔"


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔


صبح جب سو کر اٹھی تو سر بھاری اور آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں۔


وہ کچھ دیر ایسے یی بیڈ پر لیٹی رہی۔


تھوڑی دیر کے بعد افرا اسکے کمرے میں آئی۔


"اٹھ جاو لڑکی۔بارہ بج رہے ہیں۔"افرا نے اس پر سے چادر کھینچتے ہوئے کہا 


"ہاں اٹھ رہی ہوں۔"شفا نے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔


"اب اگر اٹھ ہی گئی ہو تو واش روم میں جاکر منہ دھو نے کی زحمت کر لو۔"


شفا نے اسے سستی سے بیٹھے دیکھا تو کہا 


تو وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔


اور الماری سے کپڑے نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔


شاور لیکر باہر نکلی اور بالوں کو سلجھا کر نیچے کچن میں چلی گئی۔


اسے آتے دیکھا تو شمع بھابھی نے کہا 


"اٹھ گئی شفا؟ "


"جی" ۔اسنے جواب دیا


"آج تو بہت سوئی تم"۔بھابھی نے ہنستے ہوئے کہا 


"بس رات میں نیند نہیں آئی تھی تو اسلئے" ۔اسنے جواب دیا 


"پراٹھا کھاوگی"؟ بھابھی نے اس سے پوچھا 


"آپکے ہاتھ کے بنے پراٹھے کو کون نہ کر سکتا ہے"۔شفا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اسکے لئے پراٹھا بنانے لگیں۔


"بھابھی ناشتہ" ۔۔۔۔۔۔زعیم اپنی دھن میں کہتا اندر آیا 


"ہاں بیٹھو۔۔۔"انھوں نے زعیم سے کہا 


"بھابھی میرے لئے بھی پراٹھا بنائیے گا۔"۔۔زعیم نے شمع بھابھی سے کہا تو وہ مسکرا کر سر ہلا دیں۔


اور وہ وہی ڈائننگ کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔


"پھر اسنے شفا کو دیکھا جو اپنے ناخنوں سے کھیل رہی تھی۔"


وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا ۔


"زعیم ناشتہ ۔۔۔۔۔۔"بھابھی نے ان دونوں کے آگے ناشتہ رکھا ۔


اتنے میں معیز ،صارم اور رضا آگے پیچھے کچن میں داخل ہوئے۔


اور ناشتے کو دیکھ کر کہا 


"ان پراٹھوں کی خوشبو ہمیں یہاں گھسیٹ لائی۔"


صارم نے ہنستے ہوئے کہا تو معیز اور صارم نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔


"بھائی یو نو۔۔شئیرنگ از کئیرنگ"۔۔۔رضا نے زعیم کو کہا تو وہ بولا 


"ہاں لیکن میں ابھی شئیر کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں" ۔۔زعیم شرارت سے بولا 


"آپ سے یہی امید ہے۔"صارم نے زعیم سے کہا


"دیکھئے گا شفا ہمیں کبھی نہ نہیں کرے گی۔"صارم نے کہتے ہوئے شفا سے کہا


کیوں بہنا ! آپ ہمیں بھی اپنے ناشتے میں سے کچھ دینا پسند کریں گیں؟ 


"اللہ کے نام پر سوال ہے بابا "معیز نے شرارت سے لقمہ دیا 


تو شفا نے سر ہلا دیا اور کہا 


ہاں تم لوگ کھا لو۔میرا دل نہیں کر رہا ۔


"جیو میری بہنا۔۔۔"معیز نے آگے ہو کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور پھر وہ لوگ بیٹھ کر ناشتے سے انصاف کرنے لگے۔


"اسکو تنگ نہیں کرو۔میں تم لوگوں کے لئے اور بنا دیتی ہوں۔"بھابھی نے کہا 


"نہیں بھابھی۔میرا دل بھی نہیں کر رہا اب۔عجیب سی طبیعت ہو رہی ہے۔"شفا نے بھابھی سے کہا 

اور اپنی چائے کا کپ لیکر باہر چلی گئی۔

"یہ دیکھے بغیر کہ زعیم کی نگاہوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا ۔"


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"جبیں بیگم کےدوبارہ پوچھنے پر اسنے ہاں کر دی تھی۔"


"کچھ بھی تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے اسکے بابا اور تایا ابو میں دڑار آئے۔اتنے سالوں کے بعد وہ لوگ ملے تھے تو وہ کیسے ان لوگوں کو جدا کر سکتی تھی۔"


"کیا تھا جو زعیم اسکو پسند نہیں کرتا تھا ۔کتنے ہی لوگ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے پھر بھی پوری زندگی ساتھ گزار دیتے ہیں ۔ان میں سے ہی ایک میں "شفا رحمان بھی سہی"۔

اسنے خود ترسی کے عالم میں سوچا اور رودی۔


"کیا اندھیروں کے دکھ 


کیا اجالوں کے دکھ 


جب ہرا دیں مقدر کی چالوں کے دکھ


جنکی آنکھیں نہیں 


وہ نہ روتے کبھی 


جان جائیں اگر 


آنکھوں والوں کے دکھ"


کسی زمانے میں شزا نے اسے یہ شعر سنایا تھا تب وہ اس شعر کو سمجھ نہ سکی تھی ۔اور آج اسے اس شعر کے ایک ایک لفظ کے معنی سمجھ آرہے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔ ۔۔۔


"تم لوگوں کو ایک بات بتاو؟"شمع بھابھی نے بچہ پارٹی سے کہا 


"ہاں !"معیز نے کہا 


"تم لوگوں کو پتہ ہے زعیم کا رشتہ شفا کیلئے مانگا گیا ہے۔"


"کیا "؟ سب سے اونچی آواز افرا کی تھی۔


"ایسا کیسے ہو سکتا ہے"؟ یہ آواز صارم کی تھی۔کیونکہ زعیم کا شفا سے رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں تھا ۔تو حیرت تو ہونی تھی۔


"یہ انہونی کیسے ہوئی"؟ معیز نے ہنستے ہوئے پوچھا


"یہ تو نہیں معلوم۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ شفا نے ہاں کر دی ہے۔"بھابھی نے خوش ہوتے ہوئے مزید بتایا 


"ہیں واقعی؟" اب کی بار افرا نے متجس ہوتے ہوئے کہا 


"ہاں ناں!تمہیں شفا نے نہیں بتایا ؟" بھابھی نے پوچھا 


"نہیں ناں"۔افرا نے کہا 


"ویسے آپکو اندر کی بات کیسے معلوم ہوئی بھابھی؟" معیز نے پوچھا 


"کل رات بڑوں کی میٹنگ ہوئی تھی ۔تو اس میٹنگ میں مابدولت بھی شامل تھیں"۔شمع بھابھی نے بتایا 


"واہ ہماری رپورٹر۔اسے کہتے ہیں پرفیکٹ کام"۔۔صارم نے اٹھ کر بھابھی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا 


اتنے میں زعیم وہاں آیا 


صارم نے معیز کو آنکھ مارتے ہوئے زعیم سے کہا 


"بھائی ابھی ہم نے ایک انوکھی بات سنی ہے۔"


"کیا بات سنی ہے؟"زعیم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا 


"یہی کہ شادیانے بجنے والے ہیں۔"صارم نے کہا 


"کس کے؟"زعیم نے ایک آبرو اٹھا کے پوچھا 


"آپ کے اور کس کے"شمع بھابھی نے زعیم کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو وہ ہنسنے لگ گیا ۔


"ویسے بھائی اس انہونی کی وجہ" ؟ افرا نے پوچھا 


"بس میری بہنا !انہونیاں بھی ہو ہی جاتی ہیں۔دنیا نام ہی انہونیوں کا ہے۔کسی نہ کسی سے تو شادی کرنی ہی تھی سو شفا ہی سہی ۔"


زعیم نے شفا کو وہاں سے گزرتے دیکھ لیا تھا ۔اسلئے زور سے کہا۔تاکہ وہ اسکی بات سن لے۔


"بکواس نہیں کرو۔میری اطلاع کے مطابق یہ رشتہ آپکی ذاتی پسند سے بھیجا گیا ہے۔"شمع بھابھی نے اسکے بال بکھیرتے ہوئے کہا تو وہ ہنسنے لگ گیا ۔


"آپ تو بڑی خطرناک خاتون ہیں۔بڑی اندر کی باتیں معلوم ہیں آپ کو تو۔"۔زعیم نے ہنستے ہوئے کہا 


"تم اپنی خیر مناو۔شفا مجھ سے بھی دو ہا تھ آگے ہے "۔تو وہ ہنسنے لگ گیا اور اسکے ساتھ باقی سب بھی ہنسنے لگ گئے۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


"تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟" افرا نےشفا سے کہا


"کیا نہیں بتایا "؟ شفا نے جوابن اس سے پوچھا 


"بنو مت۔یہی زعیم بھائی کے رشتے کا "افرا نے اسکے سر پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا


"میں خود سے کیسے بتاتی؟ مجھے شرم آرہی تھی۔"شفا نے ہنستے ہوئے کہا 


"بڑی آئی شرم والی۔جیسے مجھے تمھارا علم ہی نہیں ہے"

۔افرا نے ہنستے ہوئے گود میں رکھا کشن اسکی طرف پھینکا ۔


"تھینک یو ۔اسنے ہنستے ہوئے کشن اٹھا کر گود میں رکھ لیا ۔"


"بہت ہی ڈھیٹ ہو تم ۔بجائے شرمندہ ہونے کے ہنس رہی ہو۔"افرا نے کہا 


"آپکو آج پتہ چلا ہے آپی "اندر آتے رضا نے افرا کا آخری جملہ سن لیا تھا اسلئےافرا سے کہا۔


"پتہ تو مجھے پہلے سے تھا۔لیکن پہلے شک تھا۔اب یقین ہو گیا ہے۔"افرا نے ہنستے ہوئے کہا تو رضا بھی ہنس دیا۔تو وہ مسکرا دی۔


"اسکی ہاں کرنے سے سب خوش تھے۔تو وہ کیوں کسی کو ظاہر کرتی کہ وہ ناخوش ہے ۔


اس نے بھی اپنے چہرے پر جھوٹی خوشی کا لبادہ چڑھا لیا تھا ۔"


"اب محبت ہر کسی کے نصیب میں تو نہیں ہوتی ناں"۔


اس نے بھی اس بات پر صبر کر لیا تھا کہ زعیم خان کو شفا رحمان سے محبت نہیں ہے۔وہ انچاہی ہے "۔

۔۔۔۔*۔۔۔۔


اسکے ہاں کرتے ہی ڈیٹ فکس کر دی گئی تھی ۔


"مما ۔۔۔۔۔میری پڑھائی" ۔۔۔۔شفا کو جب پتہ چلا تو اسنے جبیں بیگم سے کہا 


"ہاں تو کر لینا۔۔۔زعیم کون سا منع کرے گا تمھیں پڑھنے سے۔"انہوں نے اطمینان سے جواب دیا 


"مما ۔۔۔۔۔۔۔"اسنے روہانسے ہو تے جبیں بیگم سے کہا تو انہوں نے کہا 


"بیٹے شادی بعد میں بھی تو ہونی ہے ناں ؟ تو کیا برا ہے جو ابھی ہوجائے؟"


وہ انکی بات سن کر خاموش ہو گئی تھی۔اور خود کو وقت کے دہارے پر چھوڑ دیا تھا۔


دن ایسے ہی گزرتے جارہے تھے۔اور شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے۔


شادی کے دن قریب آتے ہی انوشہ اور شزا خان ولا میں ڈیرا ڈال چکی تھیں۔

روز گانوں اور ڈانس کی پریکٹس کی جاتی تھی۔

شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔


تقریبا روز ہی بازار جانا ہو رہا تھا ۔۔


انوشہ جو پہلے بازار جانے سے گھبراتی تھی آج کل وہ بازار جانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔


جبکہ جو ہر وقت چہکتی رہتی تھی ۔اس پر عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔


۔۔۔۔۔*۔۔۔۔ 


"آخر مہندی کا دن آپہنچا تھا ۔اسے اسکے نام کی مہندی لگ چکی تھی۔اور ساتھ میں آج ہی نکاح کر دیا گیا تھا۔"


"اور اب رات گئے وہ کل کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ ایک بندہ اسے پسند ہی نہیں کرتا تو اسکے ساتھ تمام زندگی کیسے گزارے گی؟"


"اسے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں سوچ کر رونا آرہا تھا ۔بالاآخر پتہ نہیں کب وہ روتے روتے سو گئی۔"


صبح گیارہ بجے وہ اٹھی تو انوشہ اور افرا اسکی لال آنکھیں دیکھ کر ہنسنے لگیں تھیں۔


"یار کل چلے ہی جانا تھا تم نےزعیم بھائی کے پاس۔انکے خواب دیکھنے کی کیا ضرورت تھی"۔افرا نے شرارت سے اسے کہا 


تو وہ اس نے انہیں جواب دینے کے بجائے اٹھ کر وارڈ روب سے کپڑے نکالے۔ اور واش روم میں گھس گئی۔


باہر نکلی تو مما کمرے میں موجود تھیں۔

"دیکھو زرا آج بھی یہ لڑکی نہیں سدھری۔کیا بنے گا اسکا۔"انہوں نے اسکے کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹتے ہوئے افرا سے کہا


"بولتے بولتے انکی آواز بھی بھرا گئی تھی۔"


"تو افرا نے انہیں اپنے ساتھ لگا لیا اور کہآ ۔کچھ نہیں بنے گا ۔"


"آپ نے ناشتہ تیار کر لیا؟ہم آئیں نیچے؟"؟شزا نے انکا دھیان بٹانے کے لئے پوچھا 


"ہاں آجاو نیچے۔"انھوں نے جواب دیا اور نیچے چلی گئیں۔


تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ بھی نیچے چلی گئیں۔


"پارلر جانے سے پہلے تک جب تک وہ گھر میں رہی۔ خود بھی جی بھر کر روتی رہی اور جبیں بیگم اور رحمان صاحب کو بھی رلاتی رہی۔"

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

پارلر سےرضا انہیں پک کرنے آیا تھا۔


"جب وہ ہوٹل پہنچ کر گاڑی سے باہر نکلی تو اسے دلہن کے روپ میں دیکھ کر یک دم رحمان صاحب کی آنکھیں نم ہوئیں۔ابھی کل کی ہی تو بات لگتی تھی جب ڈاکٹر نے انہیں شفا کو لاکر تھمایا تھا۔"


"انکی نگاہوں کے سامنے اسکا بچپن گھومنے لگا ۔انکی چھوٹی سی گڑیا دلہن بنی انکے سامنے تھی۔وہ آگے بڑھے اور اسکے سر پر ہا تھ پھیرا۔


شزا اور افرا اسے لئے اسٹیج کی طرف بڑھیں۔


اسٹیج پر بیٹھے زعیم نے اسے دیکھا اور دیکھتا چلا گیا۔


"گولڈن اور میرون کلر کے لہنگے میں وہ نہا یت خوبصورت لگ رہی تھی ۔"


"وہ ہمیشہ خود سے بے نیاز رہتی تھی اور آج ٹوٹ کر روپ آیا تھا "۔


ان لوگوں نے اسے لے جاکر زعیم کے برابر میں بٹھا دیا ۔


دودھ پلائی کی رسم شزا ،افرا ،اور شمع بھابھی نے ادا کی۔


"ہمارے لڑکے کو دودھ نہیں پسند "یہ معیز کی آواز تھی۔


"جیسے ہم تو گھر پر رہتے ہی نہیں"۔افرا نے ناک چڑھا کر جواب دیا 


"ہمیں معلوم ہے بھائی کو دودھ پسند ہے۔"اس دفعہ انوشہ نے کہا 


"اور کیا معلوم ہے آپکو"شہام نے اسکی بات کے جواب میں کہا تو وہ شزا کے پیچھے ہو گئی۔


آخر لڑکیوں نے دودھ پلا کر ہی دم لیا۔


"اب نیگ نکالیں۔"افرا نے کہا 


"یار سو دو سو دیکر جان چھڑاو اپنی۔ بیچاری بچیاں بھی خوش ہو جائیں گیں۔"


واسع بھائی نے تو گویا لڑکیوں کو آگ ہی لگا دی تھی۔


اللہ اللہ کر کے بیس ہزار پر بات ختم ہوئی ۔


اور پھر کچھ دیر کے بعد رخصتی کا وقت آپہنچا ۔


"سب سے ملتے وقت وہ انتہائی بری طرح سے رو رہی تھی۔

بھلے وہ رخصت ہو کر کسی اور کے گھر نہیں جا رہی تھی۔لیکن پہلے وہ صرف اپنے ماں باپ کی بیٹی تھی۔ مگر اب رشتہ بدل چکا تھا۔

وہ کسی کی بیوی بن چکی تھی۔اس پر اس کے ماں باپ سے زیادہ اب زعیم خان کا حق تھا۔"


"اسنے سوائے دودھ کے دو دن سے کچھ نہیں کھا یا تھا ۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ چکرا کر گر پڑی۔تو زعیم نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا ۔"


"اور اسی طرح زعیم اسے بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر بیڈ روم میں لے آیا ۔"


اسکی طبیعت خرابی کی وجہ سے کوئی رسم ادا نہیں کی گئی تھی۔


رات کے کسی پہر شفا کی آنکھ کھلی تو اسنے زعیم کو جائے نماز پر بیٹھے دیکھا ۔


وہ نماز شاید پڑھ چکا تھا اور اب دعا مانگ رہا تھا ۔


وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور بیڈ سے اترنے لگی۔تو زعیم اسکی طرف آیا 


اور اس سے پوچھا 


"تم ٹھیک ہو"؟


"جی"شفا نے جواب دیا 


"چکر تو نہیں آرہے"؟زعیم نے پوچھا 


"نہیں۔"اس نے جواب دیا 


"بولتے ہوئے اسکی آواز بھرا گئی تو زعیم نے بغور اسکا چہرہ دیکھا اور کہا "


"کیا بات ہے شفا ؟"


"وہ بولنے کے بجائے رونے لگ گئی۔"


وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا پھر کہا 


"بتاوگی تو مسئلہ حل ہو گا ناں ؟"


"آپ نے سب کے پریشر میں آکر مجھ سے شادی کی ہے۔میں آپکو پسند نہیں ہوں۔میں انچاہی ہوں۔"

وہ زور و شور سے روتے ہوئے بولی تو زعیم نے بے ساختہ اسکا چہرہ دیکھا 


اور پھر کہا 


"میں اتنا شریف ہر گز بھی نہیں ہونکہ اپنی مرضی کے بغیر شادی کر لیتا "


"اور کیا میں تمھیں شکل سے بیوقوف لگتا ہوں"؟زعیم نے اس سے پوچھا


"وہ سر جھکا ئے روتی رہی تو زعیم نے کہا"


"شفا بی بی میں اتنا اچھا ہر گز بھی نہیں ہونکہ اپنی محبت کو کسی اور کے لئے چھوڑ دوں۔میں نے اسی سے شادی کی ہے جس سےمجھے محبت ہے۔"


شفا نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا اور پھر کہا 


آپ مجھے ڈانتے بھی تو تھے۔۔۔


اور ہاں۔۔۔اسے اچانک یاد آیا 


"مجھے اپنے کمرے میں آنے سے بھی منع کیا تھا"۔وہ اسے دیکھتا مسکرائے گیا 


" اور کوئی قصور"؟


"مجھے ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لیکر گئے تھے۔"


تو وہ بے ساختہ ہنس دیا ۔


پھر اسکی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔


تو وہ بولنا شروع ہوا 


"کمرے میں آنے سے اسلئے منع کیا تھا کیونکہ پوری زندگی کے لئے تمھیں یہاں لانے کا ارادہ تھا ۔"اس بات پر شفا کی آنکھیں حیرت سے مزید کھل گئیں۔


زعیم نے اسکی حیرت کو دیکھا اور مزید کہا 


"ڈانٹتا اسلئے تھا کیونکہ مجھے تمھارا روہانسا چہرہ دیکھنا پسند تھا"۔اس بات پر وہ اسے گھورنے لگی ۔


"اور ہاں ڈاکٹر کے پاس تو تمھاری بات مان کر نہیں لیکر گیا تھا۔ورنہ اگر تمھیں میرے ساتھ ہی جانا تھا تو بتا دیتی۔میں سر کے بل لیکر جاتا۔"تو وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔


"اور جہاں تک آپکو لگتا ہے کہ آپ انچاہی ہیں تو مس شفا میں نے یعنی کہ زعیم خان نے اپنی زندگی میں اگر کسی کو پانے کی خواہش کی ہے تو وہ آپ ہیں۔" زعیم نے اسکی طرف دیکھا اور مزید کہا 


"جب تک تم نے ہاں نہیں کی تھی میں سولی پر تھا ۔تمھیں چھوڑنے پر میرا دل آمادہ ہی نہیں تھا۔۔ہاں میں اعتراف کرتا ہونکہ تم میرا سکون ہوں۔میری خواہش ہو اور میرے دل کی خوشی ہو"۔


وہ جزب کے عالم میں بول ہی رہا تھا کہ وہ رونے لگ گئی۔تو زعیم گڑ بڑا گیا اور کہا 


"اب میرا کونسا قصور یاد آگیا ہے؟


"میں بہت بڑی ہوں۔میں آپ کے بارے میں اتنا غلط سوچتی رہی ۔میں نے اللہ سے اتنے شکوہ کئے تھے"۔وہ ہچکیاں لیتے ہوئے روتے ہوئے بولی


"جی مجھے معلوم ہے آپ کافی سے زیادہ بے وقوف ہیں"۔زعیم کو اسکے بہتے آنسو تکلیف دے رہے تھے اسلئے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا تو وہ مزید رونے لگی 


"مجھے معاف کر دیں۔میرے دل میں آپ کے لئے بد گمانی تھی۔میں رضا کو بھی آپ کے بارے میں غلط باتیں بولا کرتی تھی۔"


"معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میرے لئےاتنا ہی کافی ہے کہ تم میرے پاس ہو اور میری ہو"۔زعیم نے اسکے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا 


تو وہ اسے بغیر پلکیں جھپکائے دیکھے گئی۔


"اور سوچے گئی کہ کیا وہ اتنی خوش قسمت ہے کہ اللہ نے اتنے پرخلوص بندے کو اسکا ساتھی بنایا تھا۔ابھی کل تک اسنے دل ہی دل میں ہزار شکوے اللہ سے کئے تھے۔اور اللہ نے اس طرح سے اسکی خواہش کو پورا کیا تھا ۔جسکا اسنے گمان بھی نہیی کیا تھا۔وہ وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔واقعی اللہ بے نیاز ہے۔"


اور پھر اسے زعیم کی آواز خیالوں سے باہر لے آئی۔جو کہہ رہا تھا 


" میں چاہتا ہونکہ تم ہر وقت صرف مجھے سوچو ،مجھ سے محبت کرو۔" تو شفا نے اسکے شانے پر سر رکھ لیا۔

"زعیم نے اسے دیکھا ۔اور مسکرا دیا ۔"


دور کھڑی محبت بھی مسکرا رہی تھی۔


دو بے غرض دل کے لوگ ایک ہوئے تھے ۔محبت کیوں ناں شادماں ہو تی۔"


" جب کافی دیر وہ کچھ نہ بولا شفا نے اسکے کندھے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔جو اسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔تو وہ بھی مسکرا کر آنکھیں موند گئی۔"اسے یقین تھا کہ زعیم خان کے ساتھ زیست کا سفر بہت حسین گزرنے والا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


The End

..................

Shukrya sab ka jinho ne is khani ko prha ,

Shukrya un ka jinho ne is khani ko vote kiya 

Shukrya unka jinho ne comment kiye 

Shukrya unka jinho ne apna review dia .

Ap sab ka behad shukrya....

Love to all of u❤


Post a Comment

0 Comments