Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyar epi 2

Ajab pyar:


Ajab pyar

 
  
     قسط 2

اس وقت  وہ زہرہ اور ورشہ کے ساتھ ایگزیمینیشن ہال سے باہر کھڑی  بے فکری سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جبکہ وہ دونوں سرسری نظر نوٹس پر ڈال رہی تھیں۔

اسنے اپنے اردگرد اسٹوڈنٹس کو دیکھا  کچھ اسٹوڈنٹس نوٹس میں سر دئیے بیٹھے تھے اور کچھ اپنے گروپ کے پاس کھڑے اس بات پر ڈسکشن کر رہے تھے کہ  کونسا  سوال آسکتا ہے.زری نے اکتاکر اپنی  دوستوں پر نظر دوڑائی تو وہ بھی اسے نوٹس پڑھنے میں غرق نظر آئیں۔


بس کر دو تم لوگ۔کتنا پڑھوگی۔اسنے  زہرہ کے  ہاتھ سے نوٹس چھینتے ہوئے کہا تو زہرہ نے اسے گھورا

ناں کرو یار۔۔پہلا پیپر ہی سر عامر کا ہے۔۔پتہ نہیں کیسا پیپر بنایا ہوگا۔

ہاں ناں ۔۔۔ورشہ نے  زہرہ کی بات کی تقلید کی تو زری نے کہا

جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔اور تم لوگ یوں  ہی ٹینشن لے رہے ہو۔

اسلئے جو پڑھا ہے اسکو ہی ریوائس کرو اور کچھ ناں یاد کرو"۔اسکی بات سن کر زہرہ نے کہا

ناں بی بی! ہم تمھارے جتنے زہین نہی" ۔۔تو وہ اسکی بات سن کر ہنس دی۔پھر  ورشہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئےکہا


اگر تم لوگ ان اسٹوڈنٹس پر نظر ڈالو  تو ان میں  سینیرز اسٹوڈنٹ زیادہ ہیں جنکو سر نے فیل کیا ہ"۔اسکی بات سن کر زہرہ اور اسنے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کہا

ہاں یار کہہ تو سچ رہی ہو۔۔تو ورشہ نے کہا

میں کبھی کچھ غلط کہہ ہی نہیں سکتی۔اسکی بات سن کر ان دونوں نے اسے سر سے پاوں تک گھورا اور پھر زہرہ نے کہا

آئی بڑی زہین۔۔۔۔اسکی بات سن کر ورشہ اسے کچھ کہنے ہی والی تھی  کہ زری نے  ان دونوں کی توجہ  کچھ دور سے آتی رجا کی طرف کی۔


وہ دیکھ   ملکہ حسن چلی آرہی ہے۔اسکی بات سن کر انہوں نے بھی رجا کی طرف دیکھا اور اپنی ہنسی چھپانے  کے لئے رخ موڑ کر کھڑی ہو گئیں۔اسکے انکے قریب سے گزر جانے کے بعد ورشہ نے کہا

قسم سے یار !لوگ پتہ نہیں کیسے خود کو پیپر والے دن اتنا سجا  سنوا لیتے۔ تو زہرہ نے بھی اسکی بات کی اتفاق کیا۔اور کہا


ہاں سچ کہہ رہی ہو۔ایک ہم ہیں۔سر جھاڑ منہ پھاڑ  آجاتے۔اسکی بات سن کر  زری ہنسی اور کہا

میری حالت تو تم دونوں سے زیادہ پتلی ہے۔روز صبح تائی اور دادی کے طنز بھی سن کر آتی  ہو۔وہ کہہ کر ہنسی  تو ان دونوں نے بھی اسکی ہنسی میں اسکا بھر پور ساتھ دیا۔

تب ہی زہرہ نے اسٹوڈنٹس کو اندر جاتے دیکھا تو کہا

چلو یار ہم بھی چلتے ہیں۔اسکی بات سن کر  ورشہ نے نوٹس اپنے بیگ میں رکھے اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


سن لو میری بات ۔۔۔قریب قریب بیٹھیں گے۔تاکہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کاآسرا ہو۔کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ورشہ نے انکی طرف مڑ کر کہا  اور پھر  زری کی طرف مڑی 

اور بی بی تم!زرا  پیپر کرتے ہوئے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لینا۔یوں ناں ہو کہ ہم تمھاری نظر کرم  کے لئے تڑپتے ہی رہ جائیں۔اسکی بات سن زہرہ نے بھی کہا

ہاں یار۔پیپر کرتے ہوئے اسے دیکھو تو ایسا لگتا ہے کہ اسکا اور پیپر کا نکاح ہو گیا ہے۔۔انکی باتیں سن کر زری نے کہا


توبہ ہے۔کچھ بھی بول رہی تو  وہ دونو ں اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہنسیں  تو زری نے کہا

میری غلطی نہیں ہوتی ہے۔مجھے پیپر کرتے ہوئے کوئی آواز نہیں آتی۔اسنے  اپنی پریشانی بتائی  تو زہرہ نے سامنے والی ایک رو کی طرف اشارہ کر کے کہا

اچھا چلو۔۔اس رو میں چل کر بیٹھتے ہیں۔تو وہ تینوں اس طرف چلدی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


زہرہ اور زری آگے پیچھے کی چئیرز پر بیٹھیں  تو ورشہ نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا اور  پھر ساتھ والی رو میں بلکل زری کے برابر میں رکھی کرسی پر بیٹھی۔۔

اسے وہاں بیٹھتے دیکھ کر زہرہ  نے کہا

اس رو میں آو  تو ورشہ نے کہا


نہیں میں یہاں ٹھیک ہوں۔یہاں سے مجھے صاف زری کی کاپی پر لکھا نظر آئے گا۔

میں کہہ رہی  اس رو میں آو۔ابکی بار زہرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا تو ورشہ نے جواب دیا

میں فرنٹ پر نہیں بیٹھنا چاہتی  یار اور زری کے پیچھے کوئی لڑکا بیٹھا ہے۔اسنے   اپنی چئیر پر پین وغیرہ رکھ کر  ان دونوں کے پاس آکر کہا  تو وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔

تب ہی  کمرے میں invegilator کے ساتھ سر عامر داخل ہوئے  توہ اپنی چئیر  پر جاکر بیٹھ گئی۔

انہوں نے ایک طائرانہ نظر  پوری کلاس پر ڈالی اور پھر کہا


یہ بیچ والی رو   کو خالی کر دیں۔اور آپ سب ان چئیرز پر جاکر بیٹھیں جو خالی ہیں۔انکی بات سن کر زہرہ اور زری نے بے ساختہ اس رو کی طرف دیکھا

جہاں سے اب لڑکے اور لڑکیاں اٹھ کر سر کی بتائی ہوئی جگہ پر جاکر بیٹھ رہے تھے۔

سب کے بیٹھنے کے بعد انہوں نے کاپی اور  پرچہ بچوں میں بانٹنا شروع کر دیا۔۔

پیپر  جیسے ہی سب کو ملے توکلاس میں  چہ مگوئیاں ہوناشروع  ہو گئیں تو انہوں نے  کہا


"سائلنس!اگر کوئی چیٹنگ کرتا  پکڑا گیا  تو میں پیپر کینسل کر دونگا"۔سر کی بات سن کر کلاس میں خاموشی طاری  ہو گئی تو انہوں نے سب پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا

"سب کو مل گیا پیپر ؟ "تو کلاس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"اچھا اب یہ پہلا سوال دیکھیں"۔۔۔انہوں نے پیپر ریڈ کر کے  بچوں سے پوچھا

"سمجھ میں آگیا؟ کوئی ڈاوٹ اگر ہے تو ابھی کلئیر کر لیں"۔انکی بات پر ایک لڑکی نے ہاتھ اٹھایا اور کہا

"سر کیا  ہم سوال بھی اتاریں کاپی میں ؟"


"نہیں !صرف سوال نمبر لکھ کر جواب لکھ دیں"۔اسکی بات کا جواب دینے کے بعد انہوں نے  کہا

"کوئی اور سوال  کسی کوپوچھنا ہے ؟" 

"نو سر"۔۔۔۔سب نے یک زبان ہو کر کہا  تو وہ سر ہلا گئے ۔

اور وہ سب پیپر  کرنے میں مصروف ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"زری  سوال نمبر تین میں کیا لکھوں ؟" زہرہ نے پیچھے مڑ کراس سے کہا

"یار یہ ٹاپک میں نے صرف دیکھا تھا پڑھا نہیں ہے"۔اسنےتھوڑا  آگے جھک کر  اس کو جواب دیا تو زہرہ نے پوچھا

"تم نے یہ سوال اٹیمپٹ کیا ہے ؟"وہ  جواب دینے کے لئے آگے ہوئی تو اسکی نظر invegilator پر پڑی جو انہیں ہی دیکھ رہا تھا  ۔اسنے بہانے سے پینسل اٹھا کر زہرہ کو  دی اور کہا

"یہ لو پینسل"اور پھر سر نیچے کرتے ہوئے آہستہ سے کہا 

"نہیں!لاسٹ والا آسان ہے وہ کر لو"تب ہیinvegilator نے کہا


"اگر کوئی مجھے بات کرتا دکھائی دیا  تو  میں اسکا پیپر کینسل کر دونگا۔۔"

اسکی بات سن کر  اسکے پیچھے  بیٹھے لڑکے آہستہ سے کہا

"سرآپ پریشان ناں ہو۔۔کیونکہ سر عامر کی بدولت کسی  کو بھی پیپر نہیں آرہا۔"اسکی بات سن کر اسنے بے ساختہ اپنی ہنسی روکی۔


"آرٹیکل نمبر ...... کو وضاحت سے بیان کریں"۔اس لڑکے نے سوال پڑھا اور پھر کہا

"اور کتنی وضاحت  سے بیان کرو۔اپنی زندگی کی کہانی لکھ دو کیا؟ "زری کو پھر اسکی جھنجھلائی ہوئی آواز سنا ئی دی تو وہ بے ساختہ مسکرائی۔اور پھر  سر اٹھا کر پوری کلاس پر نظر دوڑائی 

تب ہی اسے ورشہ پریشان حال چہرہ لئے بیٹھی نظر آئی۔


اتفاق کی بات تھی  کہ وہ بھی اسی کو دیکھ رہی تھی۔جب زری نے اسکی طرف دیکھا تو ورشہ نے پیپر کی طرف اشارہ کر کے اشارے سے کہا

"پاگل ہو گئی میں"۔۔اسکی بات  سمجھ کر اسنے بے ساختہ اپنی  مسکراہٹ کو دبایا اور آگے ہوکر زہرہ سے کہا

"ورشہ کو دیکھو"۔اسکی بات سن کر زہرہ نےبھی گردن موڑ کر ورشہ کو دیکھا   اور پھر پیچھے مڑ کر زری سے کہا

"اب بھگتے"۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر پیپر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ تو  زری بھی جلدی پیپر کرنے لگی۔

کیونکہ اسکے پاس وقت کم تھا اور ابھی اسکا بہت پیپر سولو ہونا رہتا تھا۔۔۔۔وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


آخری پانچ منٹ رہتے تھے۔اسنے ورشہ کی طرف دیکھا تو اسنے اشارہ سے  پیپر دینے کا کہا تو وہ سر ہلا گئی۔۔

اسکے سر ہلاتے ہی ورشہ نے اٹھ کر پیپر اور کاپی سر کو دی اور خود کمرے سے باہر نکل گئ۔

اسکے باہر نکلتے ہی زری اور زہرہ نے بھی اپنے اپنے پیپر سر کو دئیے اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر چلی آئیں۔

انہیں باہر آتا  دیکھا تو وہ لپک لر انکی طرف بڑ ھی اور پوچھا

"پیپر کیسا  ہوا؟" اسکی بات سن کر زری نے ہنستے ہوئے کہا


"ہماری چھوڑو اپنا  بتاو !تمھارا کیسا ہوا پیپر !اکیلے  بیٹھ کر اچھے سے کیا ہوگا پیپر"۔تو اسنے منہ بسورا 

"مت یاد دلاو مجھے کچھ"۔اسکی بات سن کر ورشہ نے کہا   تو زہرہ نے اسکی نقل اتاری۔

"میں یہاں بیٹھو گیں تو مجھے زیادہ اچھے طریقے سے نظر آئے گا زری کا پیپر"۔تو ورشہ نے اسے تھپڑ مارا

"تو پھر بتاو کتنا نظر آیا تمھیں زری کا پیپر؟ "زہرہ نے  ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس  دی۔

"سر نے ویسے بہت ہی بکواس پیپر بنایا ہے۔"ورشہ نے کہا تو زری نے کہا


"پہلی دفعہ پڑھنے کے بعد مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔پھر میں نے دوسری دفعہ پڑھا تو مجھے کچھ کچھ سمجھ آیا"۔۔۔اسکی بات سن کر ورشہ نے کہا

"تمہیں پھر بھی سمجھ میں توآگیا تھا ناں ۔مجھے تو وہ بھی نہیں آیا"۔اسکی بات سن کر وہ ہنسی اور کہا 

"تم لوگوں کو ایک بات بتاتی ہوں۔میرے پیچھے ایک لڑکا بیٹھا تھا۔۔یار وہ بندہ  اتنے ٹینشن کے ماحول میں بھی اتنی مزاحیہ باتیں کر رہا تھا"۔اسکی بات سن کر ورشہ نے پوچھا

"کس سے ؟ تم سے ؟"


"نہیں خود اپنے آپ سے لگا ہوا تھا"۔اسنے ہنستے ہوئے بتایا۔اسکی بات سن کر ورشہ نے کہا

"پاگل تو نہیں تھا؟" تو وہ ہنسی اور کہا

"پتہ نہیں"انکے ساتھ کھڑی  زہرہ  جوکب سے  ہنستی ہوئی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی اچانک  اسنے کہا

"یہ تو بتاو بول کیا رہا تھا؟"زہرہ کے پوچھنے پر اسنے  تمام روداد کہہ سنائی جسے سن کر وہ دونوں ہنس ہنس کر پاگل ہوگئیں۔۔


"قسم سے یار!ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں"۔۔۔ورشہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ تینوں پھر ہاتھ  پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا فائل اسٹڈی کر رہا تھا جب دریاب اسکے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔

زریاب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو کہا

"اور سناو ہیرو! پیپر کیسا گیا؟"

"ناں پوچھیں۔اللہ جانے کہاں سے پیپر بنایا تھا سر نے"۔اسنے سر جھٹکتے ہوئے  کہا تو وہ ہنسا

"مطلب تمھارا آج کا پیپر اچھا نہیں ہوا؟" اسکی بات سن کر دریاب نے اسے دیکھا اور کہا

"بھائی آپ اچھا کی بات کر رہے ہیں ؟ اور ادھر مجھے پاس ہونے کی بھی امید نہیں"۔اسنے اپنا دکھ سنایا تو زریاب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا


"تو  بیٹا پاپا تک یہ بات نہیں پہنچنی چاہیے۔ورنہ تمہیں پتہ ہے انکا۔"

"وہی میں  کہہ رہا ہوں"۔دریاب نے کہا 

تبھی انکی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں۔

"آئیں مما! "زریاب نے فائل رکھتے ہوئے کہا  تو وہ آکر اسکے پاس بیٹھ گئیں اور پھر اسے دیکھتے  ہوئے کہنے لگیں


"مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی؟ " انکی بات سن  اسنے انکی طرف دیکھا اور کہا 

"جی مما! " اسکے جواب پر انہوں نے ایک لفافہ اسکی طرف بڑھایا  تو اسنے حیرت سے اس لفافے کو پکڑتے ہوئے انکی طرف  سوالیہ  نظروں سے دیکھا 

"یہ  کچھ لڑکیوں کی تصاویر ہیں۔تم دیکھ لو۔۔جو پسند آئے مجھے بتا دینا"۔۔انہون نے اسکی نظروں کا سوال پڑھ کر اطمینان سے جواب دیا تو وہ جھنجھلایا

"ناٹ اگین مام!" اسکی جھنجھلاہٹ پر انہوں نے اسے دیکھا اور خفگی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تم میری خواہش کو کبھی پورا مت کرنا!" وہ کہہ کر اسکے کمرے سے نکل گئیں۔جبکہ وہ وہی خاموش بیٹھا رہ گیا۔۔


انکے جانے کے بعد دریاب نے لفافہ کھول کر تصاویر دیکھتے ہوئے کہا

"بھائی آپ شادی کے لئے  مان کیوں نہیں جاتے "؟تو اسنے چونکتے ہوئےاسکی طرف دیکھا اور پھر کہا

"میں فی االحال اس  زمہ داری کواٹھانا نہیں چاہتا"۔۔اسکی بات سن کر دریاب نے اسکی طرف دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑی تصاویر کو دیکھتے ہوئے کہا


"ویسے  مما پتہ نہیں کہاں سے اتنی خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر  آپ کے لئے ڈھونڈ  کر لاتی ہیں"۔اسکی بات سن کر اسنے دریاب کے ہاتھ میں پکڑی تصاویر لیکر لفافے میں ڈالیں اور کہا

"مجھے میک اپ کی دکانوں والی لڑکیاں پسند نہیں "۔کہہ کر  اسنے لفافہ لاپرواہی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔

تب ہی  اسکا موبائل رنگ کرنے لگا تو اسنے کال اٹھا کر بات سنی اور پھر کال بند کرنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔

"میں آفس جارہا ہوں۔کام ہے۔۔۔مما کو بتا دینا۔۔۔"


وہ دریاب سے کہہ کر گھر کے کپڑوں میں ہی آفس کے لئے نکل کھڑا ہوا۔اسکے جانے کے بعد  دریاب بھی مما کو اسکا بتانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


"ہاں  کچھ علم ہوا ؟" اسنے سامنے بیٹھی ماجدہ کو دیکھا تو اسنے کہا

"سر زیادہ تو نہیں لیکن  وہ لڑکی آج کل کالج  کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادہ اٹھنے بیٹھنے لگی ہے۔لیکن میں اس پر گہری نظر  رکھی ہوئی ہو"۔۔

"اوکے ٹھیک ہے! کوئی بھی کوتاہی  کسی بھی حالت میں نہیں  ہونی چاہیے" تو ماجدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اوکے سر پھر میں چلتی ہوں"۔تو اسنے  سر ہلاکر فائل اپنے آگے کر لی۔


"یہ کیس اسکی سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہا تھا۔وہ جب اس گروہ کے قریب پہنچتا  تب ہی  وہ لوگ اسلے ہاتھ سے نکل جاتے اور وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا"۔۔وہ سوچ ہی رہاتھا کہ کانسٹیبل سعود اندر آیا اور سلیوٹ مارکر اسے بتایا

"سر باہر طاہر آیا ہے اور وہ آپ سے ملنا  چاہتا ہے"۔اسکی بات سن کر زریاب نے کہا

"فورن بھیجو اسے !" کچھ دیر کے بعد  وہ اندر آیا تو  زریاب نے کہا

"بتاو کوئی خبر ؟" اسکے پوچھنے پر طاہر نے سر ہلایا اور کہا


"جی سر! ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ انکے گرہ کی ایک اہم رکن پارلر چلا رہی ہیں۔جہاں سے وہ لڑکیوں کو اغوا  کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں"۔ طاہر نے بتا کر زریاب کی طرف دیکھا تو اسنے پوچھا

"پارلر کا نام اور جگہ معلوم ہے ؟ " اسکی بات کے جواب میں طاہر نے نفی میں سر ہلایا

"نو سر!لیکن ہم اپنی  پوری کوشش کر رہے ہیں۔"طاہر کے جواب پر  زریاب نے سوچتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور پھر کہا


"ابھی کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم انکے قریب پہنچنے والے ہیں"۔طاہر نے اسکی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا اور کہا

"یس سر!اور کوئی حکم سر ؟ "تو زریاب نے کہا

"نہیں بس جو ڈیوٹی تمھاری ہے اسکو پورا کرو" تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سیلوٹ مارکر چلا گیا۔

طاہر کے جانے کے بعد وہ ریلیکس انداز میں کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔


آج بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر اسے ملی تھی۔

"چلو دیکھتے ہیں کہاں تک  تم لوگ بھاگتے ہو"۔اسنے خود کلامی کی تب ہی  فون کی گھنڑی بجی تو وہ فون کی طرف متوجہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"دیکھیں آپ میری بات سنیں۔آپ ابھی کے ابھی میری رپورٹ درج کریں"۔وہ زور وشور سے پولیس اسٹیشن میں کھڑی سب انسپیکٹر سے بحث کئے جارہی تھی۔

"دیکھیں بی بی جنکے ساتھ یہ واقعہ "۔سب انسپکٹر نےاپنی بات پوری بھی ناں کی تھی کہ زری نے اسے بیچ میں جھنجھلاتے ہوئے ٹوکا


"آپ کو جو میں کہہ رہی ہوں وہ  بات سمجھ کیوں نہیں آرہی؟ " تو سب انسپکٹر نے اکتاتے ہوئے کہا

"میڈم آپ  اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہی ہیں" ۔اسکی بات سن کر وہ غصہ میں آگئی 

"آپ کو میں ویلی لگ رہی ہو ؟ بھائی میرے بھی بہت سے کام ہیں ۔اور ہاں مجھے بھی پتہ ہے کہ تم  کونسا کام کر رہے ہو۔یہاں بیٹھے اونگھتے رہتے ہو۔۔اور  گورنمنٹ سے فضول میں تنخواہ بٹورتے ہو"۔۔اندر آتے زریاب نے اسکی بات سنی تو اسنے کانسٹیبل سے کہا


"کون ہے یہ محترمہ ؟" اسکی بات سن کر کانسٹیبل نے کہا

"سر جی !کافی دیر سے آئی ہوئی ہیں۔اور لڑائی کئے جا رہی ہیں"۔تب ہی اسے لڑکی آواز آئی

"کہاں ہیں تمہارے سر ؟ میں نے ان  سے بات کرنی ہے"۔اسنے اب  غصہ میں آتے ہوئے کہا تو وہ اسکی طرف بڑھ گیا ۔جب وہ وہاں  پہنچا تو سب انسپکٹرنے  فورن کھڑا ہو کر اسے سلام کیا۔۔

زری نے اسے سلام کرتے دیکھا تو  تلملاکر کہا


"اپنے رشتہ داروں سے بعد میں سلام دعا کر لینا!پہلے مجھے  اپنے صاحب کا بتاو کہ کہاں ہیں وہ۔۔مجھے ان سے تمھاری شکایت کرنی ہے۔عوام کی خدمت کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر کریں خدمت"۔اسکی بات سن کر سب انسپکٹر نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا   تو اسنے  سب انسپکٹر کو کچھ بھی کہنے سے ہاتھ  کے اشارے سے روکا اور اس  سے مخاطب ہوا۔


"محترمہ!آپ کو کیا مسئلہ ہے؟" اسکی بات سن کر وہ اسکی طرف گھومی اور پھر اسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی کہا

"اووو! تو تم یہاں بھی  آگئے؟" اور دوسری طرف زریاب نے جیسے ہی  اسکا چہرہ دیکھا تو اسے بھی یاد آگیا کہ یہ وہی ہے کالج والی۔۔۔


"یہی سوال اگر میں آپ سے کرو کہ اب آپ کےساتھ کیا مسئلہ ہوا ہے  جو آپکو پولیس اسٹیشن آنے کی زحمت کرنا  پڑی"۔زریاب نے  ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا تو  زری نے اسے گھورا اور پھر کہا

"کیوں پولیس اسٹیشن آپ کے نام ہے ؟ " اسکی بات پر سب انسپکٹر نے  زری کو کچھ بتانا چاہا تو  زری نے اس کو بھی لتاڑ کر رکھ دیا اور پھر دوبارہ زریاب کی طرف متوجہ ہوئی 


"میں  تو یہاں رپورٹ کرنے آئی تھی۔لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ  جہاں آپ جیسے نامعقول  لوگوں کاآنا جانا ہو  وہاں کسی اچھی بات کی امید نہیں رکھی جاسکتی"۔اسکی بات سن کر زریاب کے ماتھے پر لکیریں پڑیں۔

"بی بی! "ابھی اسنے  اتنا ہی بولا تھا کہ زری نے اسکی بات کاٹی  اور کہا


"آپ اپنے دوستوں سے  پولیس اسٹیشن سے باہر ملا کریں۔کیونکہ میرے جیسے مصروف لوگوں کو کبھی کبھار یہاں آنا پڑ جاتا ہے تو آپ جیسے لوگوں سے بات کر کے ہمارا وقت صرف ہوتا ہے"۔

"لیکن ہاں آپ جیسے  عام لوگ کیا جانیں ایسی جگہوں کی حساسیت کو۔اسنے کہہ کر ایک نظر اسکے سادہ کپڑوں پر ڈالی اور وہاں سے نکل گئی۔ اسکے جانے کے بعد وہ بھی اندر اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا۔ابھی اسنے چند ہی قدم بڑھائے تھے کہ اسے سب انسپیکٹر کی آواز آئی


"کیا خاتون تھی یار سعود"۔۔۔میں تو میں دو منٹ میں سر کو بھی لتاڑ کر رکھ دیا۔سب انسپکٹر نے انسپکٹر سعود سے کہا زریاب نے اپنے آفس کی طرف جاتے جاتے انکی طرف  سر گھماکر دیکھا ۔اسکے دیکھنے پر وہ لوگ اپنا اپنا کام کرنے لگے تو وہ بھی آگے بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments