Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyar epi 4

 Ajab pyar:

Ajab pyar

                                       قسط 4

پورا راستہ وہ یہی سب کچھ سوچتی رہی تھی۔اور اب اسے لگ رہا تھا کہ اسکا سر پھٹ رہا ہے۔
و


ہ جیسے تیسے اپنے  کیبن میں پہنچی اور اپنی کرسی پر جا بیٹھی۔زہرہ آج بھی نہیں آئی تھی۔وہ سراپنے ہاتھوں پر گرا کر بیٹھ گئی۔۔

کل سے اسکا دماغ سن سا ہو رہا تھا۔وہ اپنے ابو کو انکار کر سکتی تھی لیکن  صرف اسلئے کہ کوئی اسکے کردار کو داغ دار ناں کرے وہ شہزاد کے رشتہ پر ہاں کر بیٹھی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ اسے کوئی پسند تھا لیکن وہ  شہزاد سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اسکی سب سے بڑی وجہ  یہ تھی کہ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔جیسے اسکی ماں صرف اسکے باپ کی پسند تھی  ویسے ہی وہ بھی صرف شہزاد کی پسند ہوتی۔اور اس طرح کی پسند انسان کو مار دیتی ہے۔جیسے اسکی ماں گھٹ گھٹ کر مر گئی تھی۔وہ صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتی تھی۔
اسے علم تھا کہ دادی اور تائی نے اسکےباپ کے اتنے  کان بھرے تھے کہ انکے دل میں بھی یہی ڈر بیٹھ گیا تھا کہ  کہی کسی لڑکے کے ساتھ چکر ناں ہو۔۔اسی ڈر کی وجہ سے وہ اسکی شادی جلد از جلد  کر دینا چاہتے تھے تاکہ انکی رسوائی ناں ہو۔

اسلئے اگر وہ ناں کرتی تو یقینن انہیں لگتا کہ انکی ماں اور بھابھی سچ بول رہی ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں اپنے کردار پر انگلیاں نہیں اٹھوانا چاہتی تھی۔

وہ وہاں بیٹھے سوچی گئی۔تب ہی چپراسی  اسکے کیبن میں آیا۔۔اسنے زری کو ایسے سر ہاتھوں پر گرائے دیکھا تو آواز دی۔اپنا نام سن کر زری نے سراٹھایا تو چپراسی نے  اسکی طبیعت پوچھی تو وہ مسکرائی اور کہا
ہاں میں  ٹھیک ہو!بس سر درد ہے۔آپ چائے لا دیں "تو وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔پیچھے وہ  دوبارہ سے چئیر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی

۔اور اپنی زندگی کو سوچنے لگی۔کچھ دیر کے بعد چپراسی چائے لیکر آیا  تو اسنے چائے پیتے ہوئے فائل اٹھا کر کیس کو اسٹڈی کرناشروع کر دیا۔یہ سب تو ایسے ہی چلتے رہنا تھا۔۔وہ لوگوں کے سامنے اپنا تماشہ نہیں بنوا سکتی تھی۔اسلئے نارمل بی ہیو کر نے لگی ۔


۔۔۔۔،۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
و


ہ حیات صاحب  سے کیس کے معاملے میں کچھ اہم  باتیں پوچھنے گئی تو انہوں نے اسے چیدہ چیدہ باتیں بتائیں اورپھر  مزید  معلومات کے لئے اسے  ایک پولیس آفیسر زریاب قریشی کا  نام اور  نمبر لکھ کہ دیا کہ   یہ بندہ مزید تمہیں گائیڈ کر سکتا  ہے۔

وہ نمبر اور  پتہ  لیکر اپنے آفس میں آبیٹھی  اور کچھ سوچتے ہوئے دئیے ہوئے نمبر پر کال کرنے لگی۔
کافی دیر بیلیں ہو تی رہیں لیکن کسی نے بھی کال ریسیو نہیں کی۔زری نے جھنجھلاتے ہوئے دوبارہ کال ملائی۔۔
اب کی بار  دوسری بیل پر ہی کسی نے کال اٹھالی۔

ہیلو۔۔ایک گمبھیر آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی   تو وہ ایک سیکنڈ کے لئے خاموش ہوئی ۔اور پھر  ہیلو  کہا
جی کون ؟ زریاب نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا
سر میں زرتاشہ قیصر بات کر رہی ہو۔۔۔سر حیات  صاحب نے مجھے ایک کیس کے معاملے میں آپ سے مدد لینے کا کہا ہے تو اگر آپ برا ناں مانیں تو  آپ مجھ سے کہیں مل سکتے ہیں تاکہ میں آپ سے کیس  ڈسکس  کر سکو ؟

اسکی بات سن کر زریاب نے کہا 
محترمہ ! میرے پاس  وقت کی بہت کمی ہے اسلئے نہیں مل سکتا۔لاونج میں آتے دریاب نے زریاب  کی بات سنی اور اسکے پاس ہی آکر بیٹھ  گیا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔۔
دریاب کے مسکرانے پرزریاب نے اسے  گھورا لیکن وہ دریاب ہی کیا جو  اسکی ٹانگ ناں کھینچے۔اسکے بار بار مسکرانے پر  زریاب اٹھ کر  دور  جاکر بات کرنے لگا۔

دوسری طرف  زری نے زریاب کو کہا
سر  یہ کیس بہت ضروری ہے۔مجھے سر حیات نے یہ کیس ہینڈ اور کیا ہے ۔کائینڈلی آپ مجھ سے کاپریٹ کریں۔ اسکی بات سن کر وہ کچھ پل کے لئے خاموش ہوا اور پھرسوچتے ہوئے  بولا
ہممم۔۔۔۔تو آپ حیات انکل  کے ریفرینس سے آئیں ہیں

 تو آپ کو ناں  تو نہیں کیا جا سکتا لیکن آج کل  میں بہت مصروف ہوں اسلئے میں آپ کو کہی باہر نہیں مل سکتا لیکن اگر آپ چاہیں تو کال پر آپ مجھ سے کیس سے متعلق جو  ضروری معلومات لینا چاہیں آپ لے سکتی ہیں۔اسکی بات سن کر وہ سوچ میں پر گئی۔

اور پھر کہا  ٹھیک ہے تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ مقتولہ  جمیلہ اور اسکی ناموکود بیٹی  کو  اسکے شوہر نے کیوں قتل کیا تھا  ؟زری کے پوچھنے پر  زریاب نے کہا
"مقتولہ جمیلہ کو اسکے شوہر اور ساس نے  بیٹی ہونے کے جرم میں  آگ لگا دی تھی۔اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے دہل گئی اور پھر کہا

پولیس نےاب تک مجرموں کو پکڑا کیوں نہیں ؟ "اسکے سوال پر زریاب نے کہا
ابھی پولیس کیس کی جال پڑتال  کر رہی ہے۔اسکی بات سن کر  زری نے  اگلا سوال کیا
لیکن آپ لوگوں نے  اسکی ساس کو بھی ضمانت پر چھوڑ دیا  ہے۔اسکی وجہ ؟اس دفعہ زری نے چبھتے ہوئے انداز میں  کہا

کیونکہ اسکے شوہر میاں عابد نے   خود یہ گوائی دی ہے کہ  مقتولہ جمیلہ کا قتل اسنے کیا ہے۔اسکی ماں نے نہیں۔اسکی بات سن کر زری نے ناگواری سے کہا
اسکے کہنے کامطلب یہ تھوڑی ہے کہ وہ سچ ہی کہہ رہا ہوگا تو زریاب نے اب کی بار تھوڑا تنگ ہوتے ہوئے کہا

بی بی ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔آپ اپنے  کام پر دھیان دیں۔اسکی بات سن  زری نے کہا
میں اپنا ہی کام کر رہی ہو۔یہ کہہ کر وہ اپنے اگلے سوال کی طرف بڑھی
تو پھر  مقتولہ جمیلہ کے لواحقین کا  یہ کہنا کیوں  ہے کہ پولیس ملزم کو رہا کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟اب کی بار زریاب نے بیزاری سے کہا

یہ صرف اور صرف افوا ہے۔جب ہم   واردات   کی جگہ پر پہنچے تھے تو مقتولہ کے لواحقین  گنز کے  ساتھ اسکے گھر سے باہر کھڑے تھے  کہ ملزم باہر نکلے اور وہ اسے مار دیں۔۔تو ہم نے موقعہ واردات پر پہنچکر سب سے پہلے تو ان سب لوگوں سے گنز لیں۔تا کہ یہ لوگ قانون کو ہاتھ میں ناں لے سکیں۔اور اسکے بعد جو ہمیں ضروری لگا ہم نے کیا۔وہ پوری بات بتاکر خاموش ہوا  تو  زری نے کہا


"شکریہ سر۔امید ہے کہ مجھے دوبارہ آپ کو زحمت نہیں دینی پڑے گی"۔کہہ کر اسنے کال بند کر دی۔اور خود  حیات صاحب کو کیس کی upgrading بتانے چلی گئی۔دوسری طرف وہ  فون بند کر کے سوچ میں پڑ گیا کہ یہ آواز سنی سنائی کیوں لگ رہی تھی۔
ت


ب ہی اسے  دریاب کے کھنکھارنے کی آواز آئی تو وہ چونک کر پیچھے مڑا  اور پھر دریاب کو دیکھا جو اسے دیکھتے ہوئے مسکرا ئے جا رہا تھا۔
اسکے یوں دیکھنے پر زریاب نے الجھتے ہوئے کہا
کیا بات ہے ؟کیا ہوا ؟اسکی بات سن کر دریاب نے کہا

وہ تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کو کیا ہوا ہے ؟ کس کو منع کر رہے تھے کہ آج کل نہیں مل سکتا۔۔دریاب نے آنکھیں ادھر ادھر گھماتے ہوئے  اسے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔
زریاب  نے ایک لمحہ اسے دیکھا اور  پھر کہا

کوئی وکیل تھی۔آفیشل کام کے لئے ملنا تھا تم اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور ناں ڈالو۔۔اسکی بات سن کر دریاب نے کہا
پکا  ناں ؟  یا  کوئی محبت کا چکر ہے ؟ دریاب کے آنکھ مار کہ پوچھنے پر  زریاب نے ایک پل کے لئے  اسکی طرف دیکھا اور پھر  اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر  کہا
فضول ناں بولو۔۔اسکی بات سن کر دریاب  نے کہا

میں  جا رہا ہوں مما کو بتانے کہ آپکے بیٹے نے ایک لڑکی پسند کر لی ہے۔جس سے وہ کالز پر باتیں کرتا ہے۔کہتے ہی وہ باہر کی جانب بھاگ کھڑا ہوا تو زریاب بھی اس کے پیچھے بھاگا۔
تمہیں تو میں بتاتا ہو۔زریاب نے بھاگتے ہوئے کہا  تو دریاب نے جواب دیا
مجھے چھوڑیں مما کا سوچیں کہ انکو کیسے  یقین دلائیں گے کہ یہ سچ نہیں۔دریاب نے ہنستے ہوئے کہا تو زریاب نے  صوفے پر سے  کشن اٹھا کر اسے دے مارا۔
تب ہی شائستہ بیگم  اور قریشی صاحب لاونج میں داخل ہوئے اور انہیں ایک دوسرے کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگتے دیکھا تو شائستہ بیگم نے کہا

کیا ہو رہا ہے یہ ؟ انکی آواز سن کر وہ دونوں وہی رک گئے ۔۔اور پھر دریاب نے ہی کہا
کچھ نہیں مما ! ہم تو کھیل رہے تھے۔ہیں ناں بھائی۔اسنے اپنے  جھوٹ میں زریاب کو بھی شامل کیا تو اسنے  بھی اثبات میں سر ہلایا۔کیونکہ سچ بتانے کے بعد جو درگت اسکی بنتی  اس سے بہتر تھا کہ مما کو پتہ ناں لگنے دیا جائے ۔۔اسکی بات سن کر شائستہ بیگم نے کہا

کب بڑے ہو گے تم دونوں ؟ چھ فٹ کے ہو گئے ہو دونوں اور اب بھی بچوں کی طرح  ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہو۔اور یہ لاونج کا کیا  حشر کیا ہے ؟
انہوں نے ادھر ادھر   بکھرے کشنز  کو دیکھتے  ہوئے کہا تو زریاب نے  فورن سوری کہا جبکہ دریاب اب کشنز سمیٹ رہا تھا۔

قریشی  صاحب وہیں ٹی وی لگا کر بیٹھ گئے تھے۔وہ ان ماں بیےوں کے معاملوں میں  دخل اندازی نہیں دیتے تھے۔انہوں نے ایک نظر اپنے  بیٹوں پر ڈالی جو  اب  دونوں مل کر کشنز اٹھا  رہے تھے  جبکہ دوسری نظر  اپنی بیگم پر ڈالی  جو اب سنگل صوفے پر بیٹھ چکی تھیں۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔
د


ن یوں  ہی گزرتے چلے گئے۔۔جب گھر والوں  کا زیادہ پریشر پڑا تو اس نے  آفس سے استعفی دے دیا۔اب وہ   گھر میں ہی ہوتی تھی۔بولتی تو وہ پہلے بھی  گھر میں زیادہ نہیں تھی لیکن اب تو اس پر ایک جامد خاموشی طاری تھی۔وہ خاموشی سے گھر کے کام کئے جاتی۔


گھر میں اسکی شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔تائی ہی نے اسکی شادی کی شاپنگ کی تھی۔
اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کپڑے اسکی پسند کے ہیں کہ نہیں۔کیونکہ جب  وہ شادی ہی ایک ناپسندیدہ شخص سے کر رہی تھی تو شادی کی شاپنگ کوئی بھی کرے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔اسنے اب خود کو حالات کے دہارے پر چھوڑ دیا تھا۔

زری کو علم نہیں تھا کہ وقت اسے کہاں لے جارہا ہے۔وہ بس خود کو وقت پر اس امید پر چھوڑ چکی تھی کہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کیا تو میرے ساتھ بھی کچھ غلط نہیں ہوگا۔


۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
س


ر یہ پالر کا ایڈریس ہے۔طاہر نے اسے ایک ایڈریس  دیتے ہوئے کہا جو زریاب نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔


شاباش بہت اچھا کام کیا ہے تم نے۔اسے شاباش دیتے ہوئے زریاب نے ٹیبل پر رکھی گھنٹی بجائی  تو کانسٹیبل  اندر آیا
گاڑیاں تیار کرو۔فورن ریڈ کے لئے نکلنا ہے۔زریاب نے اسے حکم دیا  تو وہ حکم کی تعمیل کے لئے باہر چلا گیا۔پھر وہ طاہر کی طرف  متوجہ ہوا اور اسے کہا 
تم میرے ساتھ آو۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا


می ! زری   کے ساتھ میں بھی پارلر سے تیار ہونگی۔کومل نے اپنی ماں سےکہا تو انہوں  نے اسے دیکھا اور پھر کہا


نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس پارلر میں جانے کی۔۔انکےمنع کرنے پر کومل کا موڈ  خراب ہو گیا۔۔آپ چاہتی ہی نہیں کہ میں اچھی  دکھوں۔کومل نے پاوں پٹختے ہوئے کہا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔


جبکہ  وہی بیٹھی انکی بھتیجی حمیرا نے کہا


خالہ !آپ  اسے بھی بھیج دیتی ادھر تیار ہونے کے لئے۔اب دیکھیں بیچاری کا دل ہی  ٹوٹ گیا ہے۔حمیراکی بات سن کر وہ تھوڑا اور اسکے قریب کھسکی اور بہت مدہم آواز میں کہا


اس پالر کا نام بہت بدنام ہے۔اور  میں نہیں چاہتی کہ کومل کو کوئی وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھے ۔۔انکی بات سن کر  حمیرا نے کہا


تو پھر زری کا کیا ہوگا ؟ تو انہوں نے اونہہ کہہ کر منہ موڑا اور پھر کہا


بھاڑ میں جائے میری طرف سے۔ویسے بھی سستا   تھا تو میں نے اسکا وہاں کا  اپوائمنٹ لے لیا۔اور تمھارا اور کومل کا  دوسرے ایک اچھے پارلر  سے اپوائمنٹ لیا ہے۔


جاو اس بیوقوف کو بتاو۔۔تو حمیرا مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
ک


رتے کرتے شادی کا دن  آپہنچا تھا اور  وہ  تائی  کے بتائے ہوئے پارلراپنے تایا زاد سمیع کے ساتھ  تیار ہونے چلی گئی ۔وہ اسے وہاں چھوڑ کر خود واپس گھر چلا گیا۔


ابھی وہ  پارلر  میں جاکر بیٹھی تھی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا۔کیونکہ اسکے علاوہ وہاں کوئی اور کوئی کسٹمر نہیں تھا۔کچھ دیر کے بعد ایک لڑکی آئی اور اسے اندر آنے کا کہا تو وہ خاموشی سے اسکے ساتھ اندر چلی گئی۔۔


ابھی وہ  تیار ہی ہو رہی تھی  کہ اچانک کسی نے اسکے ناک پر کوئی کپڑا رکھا ۔وہ کچھ دیر تو ہاتھ پاوں ہلاتی رہی اور پھر بے ہوش ہو گئی۔
ا


سکے بے ہوش ہوتے ہی ایک موٹی سی خاتون وہاں آئیں اور اس لڑکی کوشاباشی دیتے ہوئے اسکا کندھا تھپتھپایا اور پھرزری کو دیکھتے ہوئے بولی۔


یہ بہت مہنگے داموں بکے گی۔ہے بھی تو خوبصورت کمبخت۔۔اسکی بات سن کروہ لڑکی ہنسی تو ساتھ میں موٹی خاتون نے بھی  اسکا بھر پور ساتھ دیا۔


تب ہی ایک عمر رسیدہ خاتون بھاگتی ہوئی وہاں آئی اور کہا


پارلر پر پولیس کا ریڈ پڑ گیا ہے۔اسکی بات سن کر موٹی خاتون ایک لمحے کے لئے پریشان ہوئی  اور پھر اپنے پرس سے پسٹل نکالتے ہوئے ان دونوں  کو کہا


چلو چیزیں سمیٹو۔پچھلے دروازے سے نکل کر بھاگتے ہیں۔اسکی بات سن کر عمر رسیدہ خاتون نے کہا


اس لڑکی کا کیا کریں گے ؟ اسنے بے ہوش پڑی  زری کی طرف اشارہ  کیا۔


پڑا رہنے دو اسے۔اور تم لوگ جلدی کرو۔۔۔وہ لوگ اسے وہی چھوڑ  کر خود پچھلے دروازے کی طرف بھاگیں۔


ابھی وہ لوگ دروازہ کھول کر باہر نکلی ہی تھیں کہ انکو پولیس نے چاروں طرف سے گھیر کر گرفتار کر لیا۔


انکی گرفتاری کے بعد زریاب  نےسپا ہیوں کو  پارلر کی تلاشی لینے کا کہا اور خود بھی تلاشی لینے کے لئے اندر ایک کمرے کی  طرف بڑھا۔


وہ ادھر ادھر دیکھتے  جیسے ہی اس روم میں داخل  ہوا تو اسے کوئی لڑکی دلہن کے لباس میں کرسی پر بیٹھی نظر آئی ۔لیکن وہ ایک طرف ڈھلکی ہوئی تھی۔اسلئے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔وہ فورن اسکی طرف بڑھا اور  اسکے پاس جاکر اسے آواز دی۔


محترمہ!۔۔۔۔۔۔لیکن اس میں کوئی جنبش ناں ہوئی ۔۔


زریاب نے اسکو دوبارہ آواز  دی  لیکن پھر بھی اس میں  کوئی حرکت  ناں ہوئی تو وہ حیران ہوتا ہوا آگے بڑھا اورکندھے سے پکڑ کر اسے ہلایا  تواسکا  سر ایک طرف ڈھلک گیا۔۔اور تب ہی زریاب نے اسکا چہرہ دیکھا۔


"یہ "


اسنے حیرانگی سے اسکو دیکھتے ہوئے کہا۔
و


ہ  اسکا چہرہ دیکھ کر اسکو  پہچان گیا حالانکہ نام اسے ابھی تک اس لڑکی کا معلوم نہیں  تھا۔لیکن دو بار ٹکراو اور بحث کے باعث اسے زری کا چہرہ یاد رہ گیا تھا۔


زریاب نے اپنے پیچھے کھڑے سپاہی سے لیڈی کانسٹیبل کو بلانے کا کہا اور خود اسکی نبض چیک کرنے لگا۔


نبض چیک کرنے  کرنے کے بعد اسے اطمینان ہوا کہ یہ  بے ہو ش ہے مری نہیں ہے۔


تب تک سپاہی لیڈی کانسٹیبل کو لیکر  وہاں آگیا تھا۔۔تو اسنے لیڈی کانسٹیبل سے کہا


میرے خیال میں یہ  بے ہوش ہے۔آپ  ایک دفعہ چیک کرلیں ۔زریاب کے کہنے پر  وہ آگے بڑھ کر اسے چیک کرنے لگیں۔پھر سر اٹھا کر  کہا


جی سر ۔انکو کچھ سنگھاکر بے ہوش کیا گیا ہے"۔تو زریاب نے  سر ہلایا اور کہا
ا


نکو ہوش میں لانے کی کوشش کریں ۔اگر یہ ہوش میں نہیں آتیں  تو   کچھ دوسری لیڈی کانسٹیبلوں کی مدد سے انہیں گاڑی میں لے جائیں۔یہ کہہ کر وہ خود باہر چلا گیا۔اسکے جانے کے بعد وہ  اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی ۔


تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ ہوش  میں تو آگئی لیکن   بے ہوشی کی دوائی کی بدولت بار بار غنودگی میں جارہی تھی۔ اسکی حالت دیکھ کر لیڈی کانسٹیبل اسے سہارا دیکر  گاڑی میں جاکر بٹھاآئی۔اورآکر زریاب کو اسکی  حالت کا بتایا تو وہ سر ہلا گیا۔۔اسی وقت ایک سپاہی نے آکر  بتایا کہپورے پارلر کی تلاشی لی جا چکی ہے۔کوئی اور مشکوک چیزیں  وہاں سے نہیں ملیں  ۔تو اسنے سب کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہا اور گاڑیاں چل پڑیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments