Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyar epi 3

 Ajab pyar:

Ajab pya

       قسط3 

"پتہ نہیں  کہاں سے آگیا  اگر وہ میرے منہ ناں لگتا تو میں لازمی تھانے کے کسی بڑے افسر سے  بات کر کے رجا کے خلاف رپورٹ درج کراتی کہ کیسے اس نے میری معصوم اور سادہ سی دوست سائرہ کو پریشان کیا ہوا ہے۔روز اسکے گھر تک اسکا پیچھا بھی کر رہی ہے"۔۔

"اففف۔۔۔۔۔زری ایک تو تم بھی ناں بس۔۔اپنے آپ پر قابو ناں رکھ پائی۔"

"کیا ضرورت تھی  اتنی سی بات پر   پولیس اسٹیشن سے نکل آنے کی۔اسنے سوچا اور پیچھے مڑ کے پولیس اسٹیشن کو دیکھا۔

"اب میں سائرہ کو کیا بولو گی؟میں نے تو اس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ جو بھی ہو میں اسکی مدد لازمی کرونگی۔میں کس منہ سے اسکے پاس جاونگی؟"زری نے پریشانی کے عالم میں سوچتے ہوئے سڑک کے کنارے دیکھا جہاں سائرہ اسے اپنے انتظار میں کھڑی دکھائی دی۔

جیسے ہی وہ وہاں پہنچی سائرہ نے اسے دیکھتے ہی بے چینی سے پوچھا

"کروائی رپورٹ درج؟"اسکے  پوچھنے پر زری نے سر جھکا کر نفی میں سر ہلایا۔۔

"کیوں ؟ تمہیں علم ہے ناں  یار کہ میں کتنی بڑی مشکل میں ہوں"۔سائرہ نے کہا تو زری نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔

"میں گئی تھی لیکن سب انسپکٹر کا کہنا تھا کہ کیا پتہ ان دوسری خاتون کو بھی وہی جانا ہو جہاں آپکی دوست جاتی ہے۔۔اس طرح صرف شک کی بنیاد پر ہم کسی لڑکی کے اوپر رپورٹ نہیں کر سکتے۔اور یہ بھی کہا ہے کہ جب تک آپ کے پاس اس لڑکی کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے تب تک ہم رپورٹ نہیں لکھیں گے"۔۔زری نے سب انسپکٹر کی بات دہرائی اور پھر سائرہ کو دیکھتے ہوئے کہا

"تم بھی تو میرے ساتھ ناں گئی۔ورنہ ہم دونوں مل کر اس سب انسپکٹر کو قائل کر لیتے"۔زری کے کہنے پر سائرہ نے نظریں چرائی ا

"نہیں  زری۔میں تو تھانے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔اگر رجانے مجھے تھانے جاتا دیکھ لیا تو پھر  کیا پتہ اسے علم ہو جائے کہ میں اسکی شکایت لگانے گئی ہوں۔اور پھر اسکے بعد پتہ نہیں وہ کیا کرے گی میرے ساتھ" ۔اسکی بات سن کر وہ اسے دیکھے گئی  تو سائرہ نے تلملاتے ہوئے کہا

"پتہ نہیں کہاں سے میرے گلے پڑ گئی یہ رجا"۔

اسکی بات سن کر زری  نے اسکی طرف دیکھا اور پھرکچھ سوچتے ہوئے  کہا

"تم پریشان ناں ہو۔۔ڈھونڈتے  ہیں اس مسئلے کا حل کچھ"۔اسکی بات سن کر سائرہ نے بھی سر ہلایا۔

اچانک زری  کسی خیال  کے آنے پر چونکی اور پھر سائرہ سے کہا

"تم  اپنے  بابا سے بات کیوں نہیں کرتی اس معاملے میں ؟ "زری نے کہا تو وہ  گڑبڑائی

"نہیں  یار بابا تو مجھے قتل کر دیں گے"۔سائرہ  نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو زری خاموش ہو گئی۔

اسکے خاموش ہونے پر سائرہ نے کہا

"چلو گھر چلیں " تو وہ بھی سر ہلا گئی۔اور پھر دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئیں جو کچھ فاصلے پر  کھڑی تھی۔

زری کو اسکے گھر  پر اتارنے کے بعد  سائرہ اب اپنے گھر جارہی تھی۔اور مسلس رجا کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

"یہ رجا  نجانے کون ہے۔۔اسے جلد سے جلد اپنی راہ سے ہٹانا ہوگا۔۔۔یہ ٹھیک نہیں ہوا۔اسے علم نہیں ہونا چاہیے تھا کہ میں کس گروہ سے ہوں"۔۔سائرہ نے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا اور پھر  خود کلامی کی

"چلو پھر ٹھیک ہے  رجا بی بی۔۔تمھاری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔میں تو تمہیں   پولیس کو دینا  چاہتی تھی لیکن تمھاری قسمت میں شاید  مڑنا لکھا ہے میرے ہاتھوں"۔سائرہ نے تنفر سے سوچا اور گاڑی کی اسپیڈ تیز کی۔

اب وہ گاڑی  چلاتے ہوئے اسکو مارنے کی پلاننگ کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"ہممم تو یہ ہے فلیٹ نمبر 132۔"رجا نےایک نظر فلیٹ کو دیکھا اور پھرآگے بڑھ کر   بیل بجائی۔

کچھ دیر کے بعد ایک ملازمہ نما عورت نے دروازہ کھولا  تو اسے دیکھتے ہی سائرہ نے کہا

"مجھے   رجا سے ملنا ہے۔میں انکی دوست ہوں۔"اسکے بتانے پر وہ خاتون اندر چلی گئی۔

کچھ دیر بعد وہ عورت واپس آئی اور اسے اندر آنے کا کہا جس پر  سائرہ بولی۔

"نہیں میں اندر نہیں آسکتی۔آ پ اسکو یہی بلا دیں"۔سائرہ کے بولنے پر وہ خاتون دوبارہ اندر چلی گئی۔

کچھ منٹ کے بعد رجا آئی اور دروازہ کھولتے ہی حیران ہو گئی۔

"تمہیں میرا گھر کیسے پتہ چلا"؟۔۔۔۔۔۔ابھی رجا نے اتنا ہی کہا تھا کہ سائرہ نے مسکراتے ہوئے کہا 

"میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پوری خبر رکھتی ہو"۔اس سے پہلے کہ رجا اسکی بات کی تہہ تک پہنچتی  سائرہ نے ڈوپٹے کے نیچے کیا ہوا ہاتھ اوپر کیا اور  سائلنسر لگے ہوئے  پسٹل سے دو گولیاں اوپر نیچے  اسکے پیٹ میں  مار  کر خود  لفٹ کی طرف بھاگی۔

لفٹ میں کھڑے ہوتے ہی وہ مسکرائی اور   طنزیہ خود کلامی کی

"جاو رجا بیٹا  جاو۔تمھاری قبر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

"تمھارا فون ہے"۔کومل نے آکر اسے بتایا اور وہ خود وہاں سے چلی گئی تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

ابھی وہ فون اسٹینڈ کے قریب پہنچی ہی تھی  کہ وہی بیٹھی دادی نے کہا

"میرا بچہ کما کما کر بوڑھا ہو گیا ہے اور یہاں بیٹی کی دوستیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔"

اسنے انکو نظر اٹھا کر دیکھا اور فون اٹھا کر ہیلو  کہا۔۔

"ہیلو!زری کدھر تھی یار۔تم  تو پیپرز کے بعد ایسی غائب ہوئی  کہ بس ۔۔انسان فون ہی کر لیتا ہے تو وہ خاموشی سے مسکرا دی۔"اور پھر کہا

"تمہیں پتہ ہے ناں کہ میرے پاس موبائل نہیں"۔اسکی بات سن کر زہرہ ایک لمحہ کے لئے چپ ہوئی  اور پھر  بات بدلنے کے لئے کہا 

"تمہیں پتہ ہے ہمارارزلٹ آگیا ہے"۔اسکی بات سن کر زری  پرجوش ہوئی 

"ہیں ؟ تم پاس ہو ؟ اور میں ؟ اور ورشہ؟"اسنے جزباتی ہو کر ایک ہی سانس میں پوچھا تو زہرہ ہنسی اور کہا

ہاں ہاں سب  پاس ہیں۔تو وہ بھی ہنسی

اسکی ہنسی  سن کر  تائی نے بے ساختہ پہلو بدلا اور کہا

"یہاں تو لوگوں کے ٹھٹے مارنا ہی ختم  نہیں ہوتے۔۔۔

او بی بی  تمھارا باپ  پیسے کماتا ہے درختوں سے اتارتا نہیں ہے۔"انکی بات سن کر اسنے  زہرہ سے کہا

"میں رکھتی ہو زہرہ۔تو زہرہ نے بھی اچھا کہہ دیا کیونکہ وہ بھی اسکے بیک گراونڈ سے آنے والی آواز سن چکی تھی۔"

دل ہی دل میں اسکے لئے افسرہ ہوتی زہرہ نے اسے خداحافظ کہا تو  زری نے بھی خدا حافظ کہہ کر  کال بند کر دی۔

وہ کال  بند کر کے اوپر چھت پر اپنے ابو کے پاس گئی  اور انہیں  بتایا کہ وہ پاس ہو گئی ہے۔

انہوں نے خبر سنی تو ایک لمحہ کے لئے انکی آنکھیں نم ہوئیں۔اور پھر انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر دیا اور کہا

"تمھاری ماں بہت خوش ہوتی جب وہ یہ  سنتی"۔انکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے سر جھکا گئی۔

انہوں نے اسے سر جھکائے دیکھا تو کہا

"بیٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔"وہ انہیں حیرت سے تکتی ہوئی انکے پاس چرپائی پر بیٹھ گئی۔

"تمہیں پتہ ہے زری میں آج ہوں کل نہیں ۔اسلئے میں چاہتا ہونکہ اپنے سامنے سامنے تمہاری شادی کر دو۔" انکی بات سن کر زری نے اچھنبے سے انہیں دیکھا تو انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

"تمھاری ماں ہوتی تو تم سے یہ بات کہتی لیکن خیر!تمہاری خالہ نے تمھارا رشتہ مانگا ہے ۔تم کیا کہتی ہو کہ ہاں کر دوں؟"

وہ سن کر ایک لمحے کے لئے سن ہوئی اور پھر سر اٹھا کر انکا چہرہ دیکھا جس پر اسے ہاں کی امید نظر آرہی تھی۔وہ جیسے آپکی  مرضی کہہ کر وہاں سے اٹھ کر نیچے چلی گئی۔اور آکر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

"تو یہ تھی تمھاری قسمت زرتاشہ احمد؟ جہاں سے نکلنے کے لئے اتنی محنت کی آخر میں اسی کنوئیں میں گر گئی"۔وہ سوچتی ہوئی بیڈ پر بے دم سی ہو کر گری۔

"اس وقت اسے بہت سا رونا آرہا تھا۔اسے ہمیشہ آدھی ادھوری خوشیاں ہی ملی تھیں۔لیکن آج جو  خوشی کے بعد دکھ ملاتھا اس سے یہ دکھ برداشت نہیں ہو رہاتھا۔وہ بلک بلک کر روتی ہوئی کب نیند میں گئی۔اسے علم ہی نا ں ہوا"

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

"ماجدہ کا قتل ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟" اسنے  اپنے کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے  موبائل پر کسی سے کہا

آگے سے نجانے کیا کہا  گیا کہ اسنے اچھا کہہ کر کال بند کرکے موبائل بیڈ پر پھینک کر خود بھی وہی بیٹھ گیا۔

"ماجدہ انکے قریب پہنچ چکی تھی ۔۔یقینا اسے کسی راز کا علم ہوا  ہوگا تب ہی اسے قتل گیا ہے"۔زریاب نے سوچا ۔

تب ہی اسکے موبائل پر  طاہر کی کال آئی۔

اسنے موبائل اٹھا کر نام دیکھا اور پھر کال ریسیو کر لی۔

"ہیلو زریاب قریشی از اسپیکنگ" ۔اسنے کہا

"ہیلو سر!"طاہر نے کہا اسکی آواز سنتے ہی زریاب   نے کہا

"ہاں بولو  طاہر ؟"

"کوئی خبر ؟" زریاب نے پوچھا

"سر ماجدہ کے پاس تھی خبر لیکن اسے مہلت ناں ملی"۔طاہر نے بتایا  تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔۔

"جیسے ہی کوئی خبر ملے مجھے اسی وقت انفارم کرنا۔اور اپنا خیال رکھنا"۔زریاب نے  کہا

"جی سر"۔۔طاہر نے کہہ کر کال بند کر دی۔۔

۔۔۔۔۔*۔،۔۔۔۔۔۔

زری کی ہاں کرتے ہی کچھ دنوں کے بعد اسکی خالہ آکر اسے انگوٹھی پہناگئی تھیں۔۔۔

اسنے بھی اپنے نصیب پر صبر کر لیا تھا ۔۔اور اپنے ابو سے اجازت لینے کے بعد مختلف لوئر  فرمز  میں اپلائی کرنے لگی تھی۔لیکن کہی سے بھی مثبت جواب نہیں مل رہا تھا۔۔

آج بھی اسے زہرہ نے کال کی تھی اور اس سے جاب کا پوچھا تو زری نے تمام صورتحال اسے بتا دی۔

اسکی بات کے جواب میں زہرہ نے کہا

"تم میرے بابا کی فرم کو  کیوں نہیں  جوائن کرتی"؟اسکی بات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے چپ ہوئی  اور پھر  کہا

"نہیں " ۔۔۔۔تو زہرہ نے کہا

"وہاں پر ایک  سیٹ خالی ہے اور پھر ہم دونوں دوبارہ ساتھ ہوجائیں گے۔"

"سوچو !کتنا مزہ آئے گا" ۔۔۔زہرہ  کی بات کے جواب میں وہ خاموش رہی۔

"تو پھر میں بابا سے بات کرو ؟زہرہ نے کال بند کرنے سے پہلے دوبارہ اس سے پوچھا تو  وہ گہرا سانس بھر کر بولی"

"زہرہ مجھے اچھا نہیں لگے گا۔"اسکی بات سن کر زہرہ نے کہا

"زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں بابا سے آج ہی بات کرونگی۔"اسکی بات کے جواب میں زری نے اسے کچھ کہنا چاہا تو زہرہ نے  اسکو ٹوک دیا۔

"ٹھیک ہے۔اگر  نہیں مان رہی تو پھر آج سے ہماری دوستی یہی پر ختم۔کیا فائدہ ایسی دوستی کا جس میں دوستیں تیرا میرا کریں۔"اسکی بات سن کر آخر زری نے ہار مانتے ہوئے کہا

"اچھا بابا  کر لینا  جاب  کی بات انکل سے۔"آخر اسنے ہاں کہی تو وہ کھلکھلا کر ہنسی۔

"چلو میں کال بند کرتی ہوں"۔اسنے زہرہ سے کہا تو وہ بھی خداحافظ کہہ گئی۔

وہ کچھ وقت کے لئے ہی سہی لیکن کھل کر سانس لینا چاہتی تھی۔اور گھر میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا۔اسلئے اسنے زہرہ کو ہاں کہہ دی تھی۔

"اسے لگتا تھا کہ اب اگر وہ مزید گھر میں رہی تو تائی ، دادی کے طنزوں نے اسے پاگل کر دینا ہے۔وہ کچھ لمحوں کے لئے طنزوں سے آزادی چاہتی تھی۔"

"اسے زندگی کبھی بوجھ نہیں لگی تھی لیکن منگنی کے بعد سے اسے زندگی بری لگنے لگی تھی۔

وہ سسک سسک کر زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ خالہ کبھی بھی اسے سکون سے نہیں رہنے دیں گیں۔

زری کو خالہ کبھی بھی پسند نہیں  رہی تھیں۔اور ناں وہ اسے پسند کرتی تھیں۔مگر بیٹے کی ضد پر ہار مان گئیں تھیں۔وہ اپنی ماں جیسی زندگی ہر گز نہیں گزارنا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک اور زرتاشہ دنیا میں آئے۔لیکن وہ یہ سب اپنے ابو سے کہنے سے ڈرتی تھی۔"

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

اسے زہرہ کے والد کی فرم جوائن کیے  تقریبا تین ماہ ہو گئے تھے اور ان تین ماہ میں اسنے   اپنی قابلیت کی ڈھاک ان پر بٹھا دی  تھی۔

"آج زہرہ نہیں آئی تھی۔وہ آفس میں بیٹھی کوئی کیس اسٹڈی کر رہی تھی  جب  اسے چپراسی نے آکر بتایا کہ حیات صاحب نے اسے اپنے آفس میں بلایا ہے" ۔۔تو وہ اٹھ کر انکے آفس کی طرف چلدی۔

جیسے ہیزری نے  انکے آفس کا دروازہ ناک کیا تو  انہوں نے کم ان کہا ۔۔

اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔انہوں نے فائل پر سے سر اٹھا کر اسے دیکھا  تو اسنے سلام کیا۔انہوں نے سر  کے اشارے سے اسے جواب دیتے ہوئے بیٹھنے کا کہا تو وہ شکریہ کہتی بیٹھ گئی۔اور پھر کہا

"آپ نے بلایا تھا  سر؟"اسکی بات سن کر انہوں نے اسے دیکھا اور پھر اپنے سامنے پڑی ایک فائل اسکے سپرد کی۔

اسنے سر سری  نظر فائل پر ڈالی تو حیات صاحب نے کہا

"میں چاہتا ہونکہ اس کیس کو تم ہینڈل کرو۔"انکی بات سن کر زری نے سر ہلایا تو انہوں  نے اس کیس کے بارے میں  مزید  کچھ ہدایات دینے کے بعد اسے جانے کا کہا تو وہ  اٹھ کھڑی ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔،۔

"توبہ ہے ۔آج پھر لیٹ ہوگئی۔تائی امی شور مچا رہی ہونگی۔"وہ عادت کے مطابق خود کلامی کرتی ہوئی آفس کی بلڈنگ سے باہر نکلی  تو اسکی اندر آتے زریاب کے ساتھ بڑی زبردست  قسم  کی ٹکر ہوئی۔

"ایک لمحے  کے لئے تو اسے لگا جیسے وہ کسی دیوار کے ساتھ ٹکرائی ہو"۔وہ  اپنا ماتھا مسلتی جیسے ہی پیچھے  ہوئی اور سنبھل کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تو یک دم غصے میں آئی

"آپ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے ؟"اسکی بات سن کر زریاب نے اسے گھورا اور پھر کہا

"محترمہ میں نے آپکو پہلے بھی کہا تھا  کہ آپ اپنی آنکھوں کا علاج کرائیں"۔اسکی بات  سن کر تو وہ جلتے توے پر جا بیٹھی۔

"آپ  ہوتے کون ہیں مجھے یہ بولنے والے۔"اسکے تلملا کہ کہنےپر  زریاب نے ایک نظر سر سے پاوں تک اسے دیکھا اور پھر کہا

"میں یہ بات اسلئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ دو دفعہ مجھ سے ٹکرا چکی ہیں۔اسلئے آئندہ یا تو آنکھوں کا استعمال کرنا شروع کر دیں یا پھر  اگر آنکھوں میں کوئی مسئلہ ہے تو ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ کرائیں"۔وہ اپنی بات کہہ کر آگے بڑھ گیا جبکہ وہ کچھ دیر وہی کھڑی منہ ہی منہ میں اسے القابات سے نوازتی رہی اور پھر اپنے گھر  جانے کے لئے مڑ گئی ۔

جب وہ تھکی ہاری گھر پہنچی تو گھر میں اسکی خالہ اسکے منگیتر شہزاد کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔وہ انکو سلام کر کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

ابھی اسے گھر آئے دس منٹ ہوئے تھے کہ اسکی تائی اسکے کمرے میں آئیں اور اسے طنزیہ کہا

"تمھارے سسرالی آئیں ہیں ۔آکر انکی خاطر مدارت کرو۔میں اور میری بیٹی تمھاری نوکر نہیں ہیں" ۔۔وہ کہہ کر تب فن کرتی وہاں سے چلی گئیں تو وہ خاموشی سے اٹھی اور تھکے ہوئے جسم کو گھسیٹتی کچن کی طرف  بڑھی۔

اسے دیکھتے ہی تائی اور کومل وہاں سے کھسک گئی تھیں۔

"اسنے پہلے کھانا بنانے کی تیاری کی "۔۔اور پھر ہانڈی چڑھاکر  وہ سنک میں رکھے گندے برتنوں کی طرف بڑھی  جو دوپہر کے تھے۔

وہ برتن دھو رہی تھی اچانک اسے  خود پر کسی کی نظریں محسوس ہوئیں تو وہ فورن پیچھے مڑی ۔

سامنے شہزاد کو کھڑے دیکھا تو دوبارہ سے مڑ کر برتن  دھونے لگی۔

شہزاد نے زری کو بے نیازی سے برتن دھوتے دیکھا تو کہا

"تم آج بھی گھر دیر سے آئی ہو۔تمہیں پتہ  ہے مجھے تمھارا  گھر سے باہر رہنا پسند نہیں۔"وہ خاموشی سے برتن دھوتی رہی تو اسنے کہا

"چلو خیر ہے جب میرے گھر آو گی توتیر کی طرح سیدھا کر دونگا۔"وہ  یہ کہہ کر وہاں  سے چلا گیا۔

"یہ ہے میرا مستقبل ؟"

وہ اسکی پیٹھ کو گھورت ے ہوئے سوچتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالہ  نےرات کا کھانا انکے یہاں ہی کھایا تھا اور کھانے کے بعد اسکے ابو،تائی اور دادی سے بند کمرے میں ایک میٹنگ کی تھی۔

اور میٹنگ کے بعد اپنے گھر سدھار گئی تھیں۔

وہ خاموشی سے آکر اپنے کمرے میں بیٹھ گئی۔۔

کچھ دیر کے بعد اسے کومل بلانے آئی کہ اسے اسکے ابو  بلا رہے ہیں۔

وہ خاموشی سے انکے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔

انہوں نے اسے دیکھا تو  خوشدلی سے کہا 

"آو آو۔بیٹھو بیٹا۔ میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا"۔۔۔وہ جاکرانکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"کچھ دیر تو وہ ادھر ادھر کی باتیں پھر انہوں نے بتایا کہ کہ اسکی خالہ شادی کی تاریخ مانگنے آئی تھیں۔انکی بات سن کر زری نے  بے ساختہ انکی طرف دیکھا  توانھوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر کہا کہ تمھاری دادی کے مشورے سے میں انہیں اگلے مہینے کی تاریخ دے چکا ہو۔انکی بات سن کر اسکی آنکھیں جلنے لگی تھیں۔تب ہی سر جھکا گئی"۔اور پھر کہا  

"میں جاو ؟" اسکی بات سن کر انہوں نے سر ہلایا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ابھی وہ جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ اسے انکی آواز سنائی دی ۔وہ جیسے ہی انکی طرف گھومی  تو انہوں نے کہا

"تمھاری خالہ کہہ رہی تھیں کہ شہزاد کو تمھارا نوکری کرنا پسند نہیں۔اسلئے شادی سے پہلے استعفی دے دینا"۔۔۔تو وہ خاموشی سے انکے کمرے سے نکل گئی۔اور اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بے دم سی ہو کر گر گئی۔

"یہ میرا مستقبل ہے ؟اس تاریکی  سے نکلنے کے  لئے تو میں نے اتنی محنت کی تھی اور پھر اب میں دوبارہ اس کنوئیں میں گر رہی ہوں"۔اسنے روتے ہوئے سوچا۔

"پوری رات اسکی سوتی جاگتی کیفیت میں گزری۔۔صبح اسکا آفس جانے کا دل بھی نہیں کر رہا تھا  اور ہمت بھی نہیں تھی لیکن وہ گھر میں رہ کر مزید ڈپریس نہیں ہونا چاہتی  تھی۔

وہ کچھ دیر کے لئے یہاں سے دور جانا چاہتی تھی  جہاں جاکر وہ سکون کا سانس لے سکے۔اور اسکام کے لئے آفس سے بہترین جگہ اور کوئی نہیں تھی۔"

وہ اٹھ کر تیار ہوئی اور کچن  میں جاکر اپنے لئے نچائے بنا کر پینے لگی۔

ابھی  وہ اپنی چائے کا کپ دھو ہی رہی تھی کہ اسکی تائی کچن میں آئیں۔تب تک  وہ کپ دھو چکی تھی۔

اسے آفس کے لئے تیار دیکھا تو سر جھٹک کر طنزیہ کہا

"بس کچھ دنوں کی بات ہے۔پھر یہ اکڑ نکل جانی ہے"۔وہ انکو کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے وہاں سے نکلی۔"

"اس میں آج لڑنے کی تو کیا جواب دینے کی بھی بھی ہمت نہیں تھی۔۔"

تب ہی اسکی آفس کی وین نے ہارن دیا تو وہ پرس اٹھاتی گھر سے نگل گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments