Ticker

6/recent/ticker-posts

بھروسہ اعتماد کا

"Bharo sa Aetamad Ka "

 A novel by Ayesha Saeed

Bharosa Aetamad Ka
                               

آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئیں  تھیں۔چھاجوں چھاج مینہ برس رہا تھا۔بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک کی لگاتار آوازیں آرہی تھیں۔لیکن وہ سب باتوں سے بے نیاز ٹیرس پر کھڑی اپنے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔اچانک بجلی  زور سے  کڑکی  تو اسنے چونک کر آسمان کی طرف دیکھا ۔
تبھی کوئی ٹیرس کا دروازہ کھول کر اسکے برابر میں آکھڑا ہوا۔اپنے پاس کسی کے کھڑے ہونے کا احساس ہوتے ہی اسنے گردن موڑ کر اپنے برابر میں دیکھا تو اسکی بہن بولی
"آئمہ!یہاں کیوں کھڑی ہو؟چلو اپنے کمرے میں۔"تبھی بادل دوبارہ گرجے  تو رائمہ اسکا ہاتھ پکڑکر کھینچتے ہوئے کمرے میں لے گئی۔کمرے میں جاکر رائمہ نے اسے دیکھا جو اپنا ہاتھ چھڑواکر بیڈ پرجابیٹھی تھی۔کچھ دیر 
وہ اسے دیکھتی رہی اور پھر بولی

"کپڑے تبدیل کرلو۔بیمار ہو جاوگی۔"اسکی بات پر وہ سر جھٹکتےہوئے بولی
"میں بہت سخت جان ہوں آپی۔اتنی جلدی مرنے والوں میں سے نہیں ہوں میں۔"اسکی بات سن کر رائمہ نے  زچ ہوتے ہوئے کہا
"تم کیوں خود کو ازیت دے رہی ہو۔مان کیوں نہیں لیتی  کہ یہ سب تمھارے نصیب میں تھا۔"اسکی بات سن کر وہ بے قراری سے بولی

"کیوں آپی کیوں؟میرے ساتھ ہی کیوں ؟میں نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا پھر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟"اسکی اس بات پر رائمہ اسے ٹوکتے ہوئے بولی
"کیونکہ اللہ تمہیں اس سے بچانا چاہتا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ تم کسی بندے کے ہاتھوں ٹوٹ جاو یا کھلونا بنو۔اسلئے اسنے تمہیں اس سے دور کر دیا۔"اسکی بات پر آئمہ  نے بے زاری  سے سر جھٹکا اور پھر کہا
"اچھا آپ ہی تو کہا کرتی تھیں  دعا سے نصیب بدل جاتا ہے پھر میرا کیوں ناں بدلا؟تو رائمہ بولی
"اللہ ہم سے ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے اسلئے اسے زیادہ پتہ ہے کہ کون تمھارے لئے صحیح ہے اور کون غلط ۔اسلئے اللہ نے ۔۔۔ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ رائمہ اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی
"لیکن میں اسکے ساتھ خوش رہتی۔وہ میرے پاس ہوتا تو میں مطمئن رہتی۔"اسکی بات سنتے ہی رائمہ نے اسے سخت نظروں سے گھورا اور  پھر کہا
"وہ تمھارے قابل تھا ہی نہیں۔تمہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی؟اسی کی وجہ سےابھی تم ڈپریشن اور anxiety کی مریض ہو۔اور میں تو شکر ادا کرتی ہونکہ وہ تمھارا محرم نہیں ہے۔ورنہ ابھی  تو صرف ڈپریشن کی مریض ہو۔۔تب نجانے کیا حال ہوتا۔"تبھی آئمہ اسکی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر بولی
"اور آپ کو لگتا ہے میں ضارب کے قابل تھی ؟اس کے ساتھ بھی تو میں خوش نہیں۔بلکہ ہم دونوں ہی خوش نہیں۔بلکہ میں کسی بوجھ کی طرح اس پر سوار ہوں۔"تبھی رائمہ نے تاسف سے سر  ہلاتے ہوئے کہا
"تم خود سے یہ سب سوچ رہی ہو۔حالانکہ وہ بیچارا اتنا اچھا ہے۔"تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے اٹھتے ہوئے بولی

"میں چینچ کر لو"۔اسکے اس انداز پر وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
جبکہ اسنے پہلے جاکر وارڈ روب سے اپنے کمرے نکالے اور پھر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔وہاں جاکر پہلے تو واش بیسن کے سامنے کھڑے ہوکر وہ خوب سارا روتی رہی۔
"کوئی کیوں نہیں سمجھتا میرا دکھ؟ضارب نے کبھی وہ بھروسہ نہیں دیا جو بھروسہ ہر لڑکی کو چاہیے ہوتا ہے۔ہر دفعہ دکھ مجھے ہی کیوں ملے ؟"اسنے روتے ہوئے خود سے خود ہی سوال کیا اورپھر کافی دیر رونے کے بعد جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو وہ کپڑے تبدیل کر کےکمرے میں آکر بیڈ پر لیٹ گئی۔
آپی اسکے کمرے سے جاچکی تھیں۔اور وہ اب اپنی ہی سوچوں میں گھری تھی۔
"کاش میں بھی نارمل ہوتی۔"یہ سوچتے ہوئے  دو آنسو اسکی آنکھوں سے نکل کر چہرے پر پھسلے تو اسنے خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔
آنکھوں کے سامنے ایک کے بعد ایک ماضی کے منظر آتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

"جاسم تم سمجھنے کی کوشش کرو۔بابا مما  ضارب کے لئے ہاں کر دیں گے۔تم پلیز واپس پاکستان آجاو۔دیکھو تم نے مجھے کہا تھا ناں کہ تمھارا انتظار کروں ۔لیکن جاسم میں مزید اب  گھر والوں کو نہیں روک سکتی۔۔"وہ بے ربط سی بولتی جا رہی تھی جب کہ دوسری طرف  ہنوز خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔اسی خاموشی کو محسوس کر کے وہ بے ساختہ بولی
"جاسم تم سن رہے ہو ؟"کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد اسے جاسم  کی آواز  سنائی دی۔آواز کیا تھی کوئی جام تھا جسکے نشے سے وہ ایک دم خود میں زندگی محسوس کرنے لگی تھی۔لیکن تب ہی اسکے کانوں نے جان فشاں الفاظ سنے۔

"آئمہ تمہیں جہاں بھی تمھارے گھر والے شادی کرنے کا کہتے ہیں کر لو۔میں واپس نہیں آوں گا۔ہم مختلف دنیا کے باسی تھے اور یہ بات تم جتنی جلدی خود کو سمجھالو بہتر ہوگا۔"لفظ کیا تھے زہر تھا جو اسکی روح میں پھونک دیا گیا تھا۔۔
وہ مزید نجانے اور کیا کیا بولتا رہا لیکن موبائل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا۔اور وہ منہ پر ہاتھ رکھے کھڑے سے بیٹھتی چلی گئی۔

"جاسم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔"اسکے ہونٹوں سے سرگوشی میں یہ الفاظ نکلے تبھی رائمہ کچھ کہتے ہوئے اسکے کمرے میں داخل ہوئی لیکن جب اسے  بے حس و حرکت بیٹھے  دیکھا تو عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوتی فورن اسکی طرف بڑھی اور اس کے  کندھے کو ہلکا سا ہلاکر بولی
"آئمہ آئمہ  ؟ کیا ہوا ہے ؟"اسکے کندھا ہلانے پر آئمہ نے شاکڈ نگاہوں سے اسے دیکھا ۔اسکے یوں دیکھنے پر رائمہ  نے اس سے دوبارہ پوچھا تبھی وہ سر گوشی نما   آواز میں بولی

"جاسم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔"اسکے بتانے پررائمہ نے پہلے تو کچھ بولنے کے لئے  منہ کھولا لیکن پھر آئمہ کی طبیعت دیکھ کر  بے ساختہ لب بھینچتے ہوئے  بولی
"اٹھو تم ادھر سے۔اوپر بیڈ پر بیٹھو"اسکو ہاتھ کے سہارے سے کھڑا کر کے بیڈ پر بٹھایا اور  پھر پہلے تو جاکر کمرے کا دروازہ بند کیا اور پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھی بوتل سے پانی گلاس میں ڈال کر اسکی طرف بڑھایا  جسے اسنے ہاتھ کے اشارے سے پینے سے  منع کر دیا۔اسکی حرکت پر وہ گہرا سانس بھرتی اسکے برابر میں بیٹھ گئی۔
کچھ لمحے کمرے میں خامو شی چھائی رہی  ۔پھر رائمہ  نے ہی اسے مخاطب کیا
"پوری بات بتاو کیا ہوا ہے ؟"اسکے پوچھنے پر  وہ  سر جھکائے جھکائے بولی

"میں نے جاسم کو کال کی تھی یہ بتانے کے لئے کہ مما بابا ضارب کو ہاں کر رہے ہیں۔تم اب پاکستان آجاو۔"لیکن وہ  کہتا ہے  "ہم مختلف دنیا کے باسی ہیں۔تمھارے والدین جہاں شادی کرانا چاہتے ہیں کر لو۔"اسنے دھیمی آواز میں بتاکر اپنے بہتے آنسو پونچھے  ۔تبھی رائمہ نے اسے تاسف سے دیکھتے ہوئے کہا
"آئمہ میں نے تمہیں سمجھایا تھا یہ لڑکا تمھارے قابل نہیں ہے اور ناں ہی شریف ہے۔اچھا ہوا اسنے خود منع کر دیا ورنہ مما بابا اسکے لئے کبھی ناں مانتے۔"تبھی آئمہ بے چینی سے بولی

"آپی ایسے تو ناں بولیں۔کیا پتہ و ہ مجھ سے مزاح کر رہا ہو۔"یہ کہتے ہوئے وہ بے چینی سے اٹھ کر کارپٹ پر گرے اپنے موبائل کی طرف بڑھی لیکن  رائمہ نے اسکی کلائی پکڑ کر کہا
"وہ تمہیں چھوڑ چکا ہے سمجھ کیوں نہیں آتا تمہیں۔"رائمہ کے سخت لہجے پر وہ بے قراری سے بولی
"آپی میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتی۔"اسکی بات پر وہ بے ساختہ سر جھٹکتے ہوئے بولی
"تم ابھی نا سمجھ ہو۔نا سمجھی کی عمر میں سچی محبتیں نہیں ہوتیں  بلکہ ایٹریکشن ہوتی ہے۔وہ کیا کہتے ہیں
"کچی عمر کی محبت کے رنگ بھی کچے ہوتے ہیں۔زرا سی وقت کی دھول پڑنے پر گرد آلود ہوجاتے ہیں۔لیکن یہ بات تمہیں وقت کے ساتھ سمجھ آئے گی۔"رائمہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
اور پھر بات بدلتے ہوئے کہا

"اور ہاں منہ ہاتھ دھو کر نیچے آو۔ضارب کی مما  آئی ہیں۔تمھارے ڈریس کا ناپ لینے "وہ اپنی بات کہہ کر اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔جبکہ وہ وہی بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
"یا اللہ میں کیا کرو؟ میں کیسے اس مصیبت سے خود کو بچاو؟"تبھی اسکے دماغ میں کچھ کلک ہوا تو وہ اس خیال پر اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔
پھر کھڑی ہو کر اسنےرائمہ آپی کی ہدایت کے مطابق منہ ہاتھ دھوئے اور نیچے کی طرف بڑھ گئی۔جہاں اس وقت ضارب کی مما موجود تھیں۔اسے آتا دیکھا   تو بےساختہ مسکرائیں جبکہ وہ جبری مسکراہٹ لئے انکو  سلام کرتی ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔
تبھی وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولیں

"کیا ہوا ہے ؟ طبیعت ٹھیک ہے ؟"انکے پوچھنے پر وہ خود کو دل ہی دل میں کو ستے ہوئے جوابن مسکراتے ہوئے بولی
"جی آنٹی بس  میرا سر درد ہے ۔"تو وہ پریشانی کے عالم میں گویا ہوئیں
"اوہو۔۔آج کل یہ سر درد  بچوں کو بہت ہو رہا ہے۔"انکے بولنے پر آئمہ کی مما نے انکی ہاں میں ہاں ملائی  تو یوں انکی توجہ انکی طرف متوجہ ہو گئی۔
وہ کچھ دیر بے زاری سے وہاں بیٹھنے کے بعد آہستہ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔اور  جاکر لاونج میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئی ۔نجانے کتنی دیر وہ یونہی بیٹھی اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی   کہ اچانک اسے دور سے اپنا نام سنائی دیا۔

بے ساختہ گردن موڑ کر اپنے اردگرد دیکھا تو اسے اپنے بلکل سامنے ضارب نظر آیا۔اسکے متوجہ ہوتے ہی وہ بے ساختہ بولا
"شکر ہے آپ اپنے خیالات سے تو باہر آئیں۔ویسے اب کیسی طبیعت ہے ؟"تو وہ آہستگی سے  جواب دیتے ہوئے بولی
"مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔کیا آپ مجھے اپنا سیل فون نمبر دےسکتے ہیں ؟"اسکی بات پر وہ کچھ لمحے حیران ہوا مگر پھر مسکراتے ہوئے بولا
"وائے ناٹ"۔یہ کہہ اسنے اپنے والٹ سے ایک کارڈ نکال کر اسکی طرف بڑھایا جہاں اسکا موبائل ،آفس نمبر درج تھا۔اسنے جھجھکتے ہوئے کارڈ لیا اور پھر جلدی سے اٹھ کر اوپر کی طرف بڑھ گئی۔اسکے انداز پر ضارب الجھ کر رہ گیا۔

"یہ ایسے کیوں بی ہیو کر رہی ہے؟ جب سے وہ وہاں سے گھر آیا تھا تب سے  وہ دل ہی دل میں اسے سوچے جا رہا تھا۔
اسکی  بے توجہی کو ناٹس کرتے ہوئے آخر کار شازم بولا
"بھائی اللہ خیر ہی کرے بس۔ابھی بھابھی کے گھر سے آئے ہیں یہ حال ہے جب وہ  بیاہ کر آجائیں  گی تب کیا حال ہوگا۔"تبھی واسق  ہنستے ہوئے بولا
"بس بھائی یہ تو گئے کام سے ۔"انکی جملہ بازی سے وہ اکتاتے ہوئے بولا
"انسان بنو۔"تبھی واسق اسکے برابر میں آکر بیٹھتے ہوئے بولا
"اگر کوئی غم ہے یا کوئی پریشانی سب کا علاج ہےعالم بنگالی  کالی کے پاس"۔اسکی بات پر وہ کچھ لمحے اسے گھورتا رہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا

سنگل صو فے پر بیٹھے شازم نے واسق کو غصے سے گھورتے ہوئے ضارب کو مخاطب کر کے کہا
"یار اسے مت بتانااگر کوئی مسلئہ ہے بھی تو۔"اس کی بات پر ضارب حیرت سے بولا
"مطلب؟"تو وہ بولا
"تم اگر اپنی پریشانی اس بد تمیز انسان کو بتاوگے تو مسئلہ تو کوئ حل ہوگا نہیں ہاں البتہ مزید بڑھ ضرور جائے گا۔"اسکی بات پر واسق تڑپتے ہوئے بولا
"تم ایک انتہائی شریف انسان کو بد تمیز کا لقب دے رہے ہو"تبھی شازم نے واسق کی گردن کو پچھلی طرف سے پکڑ کر کہا

"ابھی تو  صرف بدتمیز کہا ہے لیکن جو تم نے کیا تھا اسکے مطابق تمہے گدھا الو سب کہنا چاہیے۔"انکی ادھوری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے آخر کار ضارب  جھنجھلاتے ہوئے بولا
"یار پوری بات سمجھاو"تبھی شازم  اسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے بولا

"ہونا کیا تھا یار۔ہانیہ صاحبہ اور میری لڑائی  ہو گئی تھی۔تو  ان محترم سے ہانیہ نے بول دیا کہ شازم نکاح کے بعد لڑائی کرنے لگا ہے ۔تو یہ صاحب اسے بولے کہ میری ایک عالم کالی بنگالی سے جان پہچان ہے۔وجوہات میں پتہ کر کے بتاونگا کہ شازم اب کیوں لڑتا ہوں۔۔اور پھر اس بے شرم انسان نے ہانیہ کو بولا کہ میں یعنی کہ شازم انصاری  کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی ہوں۔اور یوں جو چھوٹی لڑائیاں تھیں وہ جنگوں میں تبدیل ہو گئیں۔"شازم نے واسق کی پیٹھ پر تھپڑ مارتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا اور پھر مزید یاد آنے پر بولا
"اور ہاں ایک عدد وظیفہ بھی بتایا تھا انہوں نے۔"ابکی بار شازم نے کشن گود میں رکھتے ہوئے ہنستے ہوئے ضارب کو بتایا
"وہ کیا؟"تو وہ بولا

"پھونکیں مارنی تھیں مجھ پر"۔اسکے جواب پر ضارب مسلسل پیٹ پکڑے ہنستےہوئے بولا
"یہ وظیفہ تھا ؟"تو شازم بھی ہنستے ہوئے بولا
"ہاں۔یہ خاص وظیفہ عالم کالی بنگالی عرف واسق انصاری نے ایجاد کیا تھا۔"ابھی وہ بول ہی رہے تھے کہ ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی باقی سب کو نظر انداز کرتے ڈائیریکٹ ضارب سے بولی
"بھائی آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے بھی ساتھ لیکر جائیں گے۔آپ اور آنٹی چلے گئے مجھے ساتھ لیکر بھی نہیں گئے۔"اسکے روہانسے لہجے پر  وہ آرام سے بولا

"یار مجھے کام سے جانا تھا سو چلا گیا  تھا۔اچھا خیر تم نارض ناں ہو۔جب جانا ہو مجھے بتا دینا ۔میں لے جاونگا"اسکی بات پر وہ نرمی سے مسکراتے ہوئے بولی
"پکا ناں ؟تو ہنستے ہوئے بولا "بلکل پکا"۔تبھی واسق کی زبان میں کھجلی ہوئی تو وہ بولا
"واہ میرے مولا کیا ہی بات ہے۔بد روح آئی بھی اور تباہی بھی ناں ہوئی۔"ابھی اسنے یہ کہا ہی تھا کہ ہانیہ نے صوفے پر رکھے کشن کو اسے مارتے ہوئے کہا
"اور اب جب یہ بد روح  تمھارا کارنامہ صائم انکل کو بتائے  گی تو بلکل بھی رونا مت"۔تو وہ کشن کیچ کر کے ہنستا ہوا بولا

"باقی باتیں چھوڑو  تم لوگ یہ چیک کرو  یہ خود کو بد روح مان رہی ہے ۔ویسے شازم تمھاری تو قسمت پھوٹی ہے۔ایک ہی منکوحہ وہ بھی دماغ سے پیدل۔"ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ
"ہانیہ نے اپنی چپل پاوں سے نکال کر ہاتھ  میں لیتے ہوئے کہا 
"ابھی بیٹا میں بتاتی ہوں تمہیں کس کی قسمت پھوٹی ہے بلکہ  رکو یہ بھی بتاونگی کہ کس قدر پھوٹی ہے۔
اب منظر یہ تھا واسق آگے تھا اور ہانیہ اسکے پیچھے پیچھے۔

جبکہ شازم اور ضارب ہنستے ہوئےاس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔یوں نیچے لاونج میں کافی دیر گزارنے کے بعد جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو  وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ کیوں پریشان تھا۔ابھی اسے اپنے کمرے میں آئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اسکے موبائل پر کسی انجان نمبر سے کال آنے لگی۔اس وقت  کس کی کال ہو سکتی ہے ؟ اسنے چند لمحے سوچا  اور  پھر کال ریسیو کر لی۔
"ہیلو؟"اسکے ہیلو  کہتے ہی دوسری طرف سے اسے گھبرائی ہوئی کسی لڑکی کی آواز سنائی دی۔
"جی ہیلو! کیا آپ ضارب انصاری ہیں ؟"اسکے سوالیہ انداز میں پوچھنے پر وہ تائیدی انداز میں بولا
"جی میں ضارب ہوں۔آپ کون ؟"تو وہ دھیمے اور گھبرائے ہوئے انداز میں بولی
"میں آئمہ بات کر رہی ہوں۔"اسکے نام بتاتے ہی وہ چونک سا  گیا تبھی وہ دوبارہ بولی
"مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے "تو وہ متوجہ ہوتے ہوئے بولا
"جی بولئے " تبھی آئمہ نے کہا
"وہ اصل میں مجھے یہ بتانا ہے  میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔آپ خود اس رشتہ سے منع کر دیں۔میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔"وہ جلدی جلدی اپنا مطالبہ اسے بتا گئی۔جبکہ وہ اسکی بات سن کر بھونکچا سا  رہ گیا اور پھر اپنے غصے کو دباتے ہوئے بولا

"تو یہ نیک کام آپ خود کیوں نہیں کر لیتیں ؟"تب ہی وہ گھبرائے ہوئے انداز میں جلدی سے بولی
"میں کیسے منع کروں ؟کوئی مانے گا ہی نہیں ۔اور پھر سب مجھے برا سمجھیں گے۔"اسکے روہانسے انداز پر وہ  جھنجھلاتے ہوئے بولا
"محترمہ یہ آپ کا مسئلہ ہے اور جہاں تک بات ناں کرنے کی ہے وہ میں نہیں کرونگا۔کیونکہ اگر ناں کرنے سے آپ کو برا سمجھا جائے گا تو میرے ناں کرنے سے مجھے برا سمجھے گا جبکہ رشتہ بھیجا بھی میری  ایما پر گیا تھا۔تو میری طرف سے تو ناں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا"۔اسکے صاف جواب پر وہ جھنجھلاتے ہوئے بولی
"آپ میری مجبوری کو سمجھیں"تبھی وہ غصے سے ہونٹ بھینچتے ہوئے بولا
"اپنے مسئلوں کو خود حل کریں۔مجھ سے پوچھ کر آپ نے محبت نہیں کی تھی کہ میں آپ کو اس مسئلے سے نکالوں۔"یہ کہہ کر اسنے کال بند کر دی۔

جبکہ دوسری طرف وہ غصے سے کھول کر رہ گئی۔
"اف اللہ اب میں کیا کروں"وہ بڑبڑاتے ہوئے وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔جبکہ دوسری طرف ضارب  بھی غصے سے کھول کر رہ گیا تھا۔پھر کتنے ہی دن  وہ آئمہ کے گھر والوں کی طرف سے   ناں کامنتظر رہا  تھا لیکن وہاں بھی خاموشی  رہی تھی۔اور  یوں دن گزرتے چلے گئے تھے۔
ان گزرتے دنوں میں آئمہ کسی معجزے کی منتظر جاسم کے کال کی منتظر رہی تھی لیکن اسکی کال ناں آنی تھی سو ناں آئی  ۔لیکن اب اسے  سمجھ آرہا تھا کہ وہ  ضارب کو اپنا ماضی بتا کے خود کے لئے مسئلہ پیدا کر چکی تھی۔

اب اسکی صورتحال یہ تھی کہ ناں آگے کوئی راستہ دکھتا تھا اور ناں پیچھے۔اس طرح جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے وہ ڈپریشن کا شکار بھی ہوتی جا رہی تھی۔
ان ہی گزرتے دنوں میں ضارب کے گھر  کی طرف سے آنے والی خبر نے اسے بھونکچا کر کے رکھ دیا تھا۔ضارب کو اسکے آفس والے  کچھ عرصے کے لئے آوٹ آف کنٹری بھیج رہے تھے اسلئے  اسکے گھر والے چاہتے تھے  کہ وہ شادی کر کے آئمہ کو  بھی ساتھ لے جائے۔اسی سلسلے میں آج کل انکے گھر میں مشورہ کیا جا رہا تھا اور نتیجہ  شادی کی صورت میں ہی نکلا تھا۔اور آنا فانا شادی کی تاریخ رکھ دی گئی تھی۔اور یوں دو نوں گھروں میں شادی  کی تیاریاں ہونے لگی تھی۔

وہ جیسے جیسے شادی کی تیاریاں ہوتی دیکھ رہی تھی اسے  اپنے مستقبل سے ڈر  محسوس ہونے لگا تھا۔اسکی اس  بیزار سی کیفیت کو رائمہ  نے بھی محسوس کیا تھا لیکن مصروفیت کے باعث وجوہات ناں پوچھ سکی تھی اور  وہ  بھی اپنا مسئلہ کسی کو بتا ناں سکی تھی۔دن ایسے ہی گزرتے چلے گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے  مہندی کا دن آپہنچا تھا۔
مہندی کی رسومات  سے فراغت کے بعد  وہ تھکی ہاری اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی زندگی  کو سوچے جا رہی تھی۔
"یہ سب تو ناں سوچا تھا میں نے۔پھر میرے ساتھ ہی ایسا ہی کیوں ہوا ؟"وہ آہستہ سے بڑبڑائی اور پلکوں پر اٹکے آنسو چہرے پر بہتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔*۔،۔۔۔۔۔

اگلے دن بارات  تھی  اسلئے رخصتی سے پہلے جب نکاح  کی کاروائی شروع ہوئی تو  وہ کچھ لمحے گنگ بیٹھی رہی۔
"یہاں تو ہمیشہ کسی اور کا نام سوچا تھا۔لیکن قسمت کے ایک ہی وار نے سب الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔نکاح کے بعد ضارب کو اسکے ساتھ بٹھا دیا گیا تھا۔وہ گم صم  سن کیفیت میں سب کچھ ہوتا دیکھتی رہی ۔اسکے احساسات جامد ہو رہے تھے۔اور یہ جامداحساسات اسکے تب بھی ناں ٹوٹے جب وہ سب گھر والوں سے گلے مل رہی تھی۔
اسی کیفیت کے ساتھ  وہ تمام راستہ گاڑی میں بیٹھی رہی اور پھر اسی طرح وہ اسکے گھر پہنچ گئی تھی۔لیکن  اسکی بے حسی نا ٹوٹی تھی ۔اسکا وجود حال میں تھا لیکن دماغ ماضی کا سفرکررہا تھا۔بہت ساری رسومات کے بعد اسے اسکے کمرے میں پہنچا دیا تھا۔
اور اب وہ  بیڈ سے ٹیک لگائے  پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔تبھی کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور کوئی  اندر داخل ہوا۔اسنے نظر گھماکر سامنے دیکھا  تو اسے ضارب دروازہ بند کرتا دکھائی دیا۔وہ اسے دیکھتے ہی بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔تب تک  وہ اسکے پاس آکھڑا ہوا تھا۔وہ جیسے ہی اسکی سائیڈ سے نکل کر جانے لگی تو  وہ اسے سختی سے بازو سے پکڑ کر بولا
"انسان کو ایسے کام نہیں کرنے چاہیے  جس پر آپکو شرمندگی ہو۔"اسکی  بات پر وہ غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولی
"آپکو کس نے کہہ دیا کہ مجھ
ے شرمندگی ہے ؟"اسکی بات سن کر وہ استہزائیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا
"اوں ہاں آپ تو انتہائی ڈھیٹ واقع ہوئی ہیں۔"اسنے جواب سن  کر کچھ کہنے کے بجائے اپنا بازو چھڑایا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔وہ کچھ لمحے واش روم کے بند دروازے  کو گھورتا رہا  اور پھر خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔جیسے ہی وہ  باہر نکلی تو  وہ اسے نظر انداز کرتا  وارڈروب سے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔
جب  چینج کر کے واپس آیا تو کمرے  میں نائٹ بلب جل رہا تھا اور وہ صوفے پر لیٹی ہوئی تھی۔وہ خاموشی سے جاکر بیڈ پر لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔۔

کچھ جگہ کی تبدیلی تھی اور کچھ اسے اپنے نصیب پر رونا آرہا تھا اسلئے   وہ پوری رات سو ناں سکی۔صبح آذان و کے قریب  جاکر اسکی آنکھ لگی  تو  پھر وہ ایسی غافل ہوئی کہ کسی کے زور سے جھنجھوڑنے پر ہی اسکی آنکھ کھلی۔
لیکن آنکھ کھلنے پر جس شخص پر نظر پڑی تو اسے دیکھ کر وہ بھونچی سی رہ گئی۔
"آپ؟"تو وہ  بولا

"جی  میں۔برائے مہربانی اٹھ کر کپڑے چینج کر لیں۔گیارہ بج رہے ہیں اور باہر سب آپکا ہی انتظار کر رہے ہیں۔"اسکے بولنے پر اسکی نظر گھڑی کی طرف اٹھی تو وہ شرمندہ سی ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ وہ خود ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا۔
آدھے گھنٹے  کے بعد جب وہ تیار ہوکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے  کھڑی اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دے رہی  تھی تب ہی ضارب دوبارہ  کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی اسے مخاطب کر کے کہا
"میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بیچ کی لڑائی مما بابا کو پتا چلے۔سو  سب کے سامنے اچھے طریقے سے ہی رہنا"۔اسکی بات سن کر وہ طنزیہ مسکراتی ہوئی بولی

"اور اگر میں ایسا ناں کرو ں تو ؟"اسکے زچ کر  دینے والے انداز پر وہ  لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسکے قریب گیا اور پھر سختی سے اسکا منہ دبوچتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا
"تو پھر مجھ سے کسی بھی قسم کی  رعایت کی   توقع مت رکھنا۔تمھاری باتیں تمھارے  پاپا اور مما  کو بتادونگا اور پھر نتیجہ تم خود سوچ لو کہ  کیا ہو سکتا ہے؟"وہ اپنی بات مکمل کر کے اس سے تھوڑا  دور ہوا جبکہ وہ اب آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
"آپ ایک جنگلی انسان ہیں۔"تو وہ  ہنستے ہوئے بولا
"ابھی تک تو میں نے بہت شرافت کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن یہ میں تب  تک کرونگا جب تک تم اس کمرے میں ہوئی کوئی بھی بات بابا  مما تک نہیں پہنچنے دوگی۔ابھی اسنے بات مکمل کی ہی تھی کہ  دروازے پر دستک ہوئی  ۔تو وہ اس سے تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے بولا

"آجاو۔"تبھی اسکی کزنز کمرے میں داخل ہوئی ۔
"لو جی یہاں تو بھابھی آپ  تیار ہی نہیں ہوئی"۔ان لڑکیوں میں سے ایک کے بولنے پر  وہ  جلدی سے دھیمے لہجے میں بولی
"نہیں تو بس ہو گئی  ہوں۔"تب ہی علشبہ  نے ضارب کو مخاطب کر کے کہا
ویسے بھابھی ہیں تو بہت خوبصورت "تو وہ دھیمے سے ہنستے ہوئے بولا
"میں بھی ہوں ہینڈسم"تبھی  اسکے موبائل کی بیل بجی تو وہ باہر چلا گیا ۔
اسکے باہر جاتے ہی   وہ گہری سانس بھرتی ہانیہ کی طرف متوجہ ہوئی جو اسے کچھ کہہ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے۔ناں وہ اس سے بات کرتا تھا اور ناں وہ اسے مخاطب کرتی تھی لیکن بہت کامیابی سے گھر والوں سے اپنی رنجشوں کو چھپایا جارہا تھاان ہی  بے مصرف دنوں میں اچانک ضارب کے باہر جانے کا شور دوبارہ اٹھا تو وہ جھنجھلا اٹھی اور ساتھ ہی  یہ ڈر بھی اسکے دل میں پیدا ہوگیا کہ اگر اسے بھی ساتھ بھیجا گیا تو سب کے بغیر وہ اکیلی وہاں کیا کرے گی۔
اسی بات کو سوچتے ہوئے آج اسنے ضارب سے بات کرنے کا عہد کیا تھا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔

وہ جیسے ہی کمرے میں داخل  ہوا تو  اسے خلاف معمول صوفے پر بیٹھے دیکھا تو  حیران تو ہوا لیکن پھر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی روزانہ کے روٹین کے مطابق اپنے کام کرنے میں مگن ہوگیا۔۔
جبکہ وہ کچھ دیر تو اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی  لیکن جب وہ اسے مکمل نظر انداز کئے کام کرتا رہا تو  وہ اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے؟"

"بولیں؟"وہ نظریں فائل پر جمائے جمائے  ہی   بولا تو  وہ کچھ لمحے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ میں پھنسائے سوچتی رہی اور پھر بولی
"مجھے وہ یہ کہنا  ہے کہ میں نے نہیں جانا باہر"۔اسکی بات پر وہ اسی اطمینان سے فائل کو دیکھتے ہوئے بولا
"ہاں تو ٹھیک ہے ۔یہی بات جاکر  باہر  مما بابا کو بھی بول دو۔"تبھی وہ جھنجھلاتے ہوئے بولی
"آپ  بھی تو بول سکتے ہیں؟"تو وہ ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے  بے ساختہ بولا
"لیکن میں ساتھ لے جانا چاہتا ہوں"اسکا جواب سن کر وہ تلخی سے بولی
"مجھے پتا تھا آپکو مجھے زچ کر کے مزا  آتا ہے تبھی وہ اٹھ کر اسکے برابر میں آکر بیٹھتے ہوئے آہستہ سے بولا

"تم نے کبھی غور ہی نہیں کیا  مجھ پر ۔ورنہ جان پاتی کہ میں کیوں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔"وہ اسکے دھیمے انداز پر غور کئے بغیر غصے سے بولی
"مجھے  کیاضرورت  ہے غور کرنے کی۔مجھے پتا ہے آپ مجھے ازیت دینا چاہتے ہیں اور دے رہے ہیں۔کیونکہ میری زندگی میں آپ سے پہلےکوئی میری محبت رہ چکا ہے۔"اسکی بات   سن کر وہ کچھ لمحے اسے تاسف سے دیکھتا رہا جبکہ وہ اپنے پاوں کےانگوٹھوں پر نظریں جمائے بیٹھی رہی  ۔پھر اچانک  اسنے آائمہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا

"اور اگر میں  کہوں کہ مجھے  کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہارا ماضی کیا تھا۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم دوبارہ سے اپنی زندگی کو شروع کریں۔"اسکی بات سن کر وہ کچھ لمحے تحیر سے اسے دیکھتی رہی اور پھر غصے سے بولی
"ہرگز نہیں۔میں آپکے ساتھ کبھی محبت نہیں کرونگی۔"اسکے جملے پر وہ مسکراتے  ہوئے بولا
"لیکن محبت ہوجایا کرتی ہے"۔تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
"نہیں جب ہم کسی انسان کے بارے میں بہت سوچتے ہیں تو وہ ہمارے دماغ پر حاوی ہونے لگتا ہے اور یوں ہمیں لگتا ہے کہ  ہمیں محبت ہو گئی ہے۔"اسکی  جملہ بازی پر وہ کچھ لمحے اسے تکتا رہا اور پھر  بولا
"چلو پھر میں اللہ سے دعا کرونگا کہ تمہارے دل میں میری  محبت پیدا کر دے۔"تو وہ تلخی سے ہنستے ہوئے بولی

"اور میں دعا کرونگی کہ مجھے موت آجائے۔"وہ اسکے جواب پر کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر بیڈ پر  لیٹ گیا۔جبکہ وہ کچھ دیر اسے خاموشی سے دیکھتی رہی اور پھر اٹھ کرصوفے پر لیٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔

چند دنوں کے بعد وہ  اکیلا ہی باہر چلا گیا تھا۔اسنے ناجانےمما بابا سے کیا  کہا تھا کہ کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
جبکہ اسکے جانے کے بعد سے وہ عجیب بے چینی کا شکار ہوگئی تھی۔ایسا لگتا تھا  جیسے کوئی کمی اسکی زندگی میں پیدا ہو گئی ہو۔"کیا واقعی اسکے ناں ہونے سے مجھ پر فرق پڑ رہا ہے ؟"وہ جتنی دفعہ یہ سوال خود سے کرتی  اتنی ہی دفعہ  اسکا دل گہری چپ میں جا  ڈوبتا۔

انہی اداسی بھرے دنوں میں اتفاق سے اسکا اور جاسم کا آمنا سامنا ہو گیا۔اور وہ جو اپنے ماضی کو بھلائے جارہی تھی  اچانک سب کچھ اسکی نظروں کے سامنے آتا چلا گیا۔جبکہ وہ اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بڑھا
"آئمہ میری بات سنو"جبکہ وہ سنی ان سنی کر کے پارکنگ کی طرف بڑھ گئی ۔
جب وہ اپنی گاڑی تک پہنچی تو تب تک اسنے اسکو جالیا۔
"پلیز ایک دفعہ میری بات سنو"اسکے ملتجی انداز پر وہ سختی سے بولی
"کیوں ؟اور میں انجان لوگوں سے بات نہیں کرتی "تبھی وہ  دوبارہ بولا

"مجھے معاف کر دو۔مجھے سکون نہیں ہے۔"اسکی بات سن کر وہ ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے بولی
"مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہیں ؟"تبھی وہ دوبارہ آہستہ سے بولا
"ایک دفعہ صرف ایک دفعہ مجھ سے  ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر بات کر لو"وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی اور پھر بولی

"ریسٹورنٹ میں تو نہیں لیکن سامنے آئسکریم پارلر ہے ۔وہاں جاکر بات کر لیتی ہوں۔لیکن پندرہ منٹ میں اپنی کہانی ختم کر دینا۔"اسکے مان جانے پر وہ خوش دلی سے بولا
"ٹھیک ہے۔"۔اور یوں اب وہ دونوں آئسکریم پارلر میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
"بولو"اسکے پوچھنے پر  وہ  مجروح سے انداز میں ہنستا ہوا بولا
"تم کب سے ایک لفظی جملہ بولنے لگی ؟"تو وہ مسکراتے ہوئے بولی
"جب سے آنکھیں کھلی ہیں۔بحرحال اپنی بات بتاو۔مجھے جانا بھی ہے۔"تو وہ آہستہ سے بولا
"کیا ہم دوبارہ سے ریلیشن شپ میں آسکتے ہیں ؟ "اسکی بات سن کر وہ تلخی سے بولی
"شاید آپکو یاد نہیں ہے محترم لیکن میں اب ایک معزز انسان کی بیوی ہوں۔"اسکا جواب سن کر وہ کچھ لمحے اسے تکتا  رہا اور پھر بولا

"ہاں میں وہ شخص ہوں جس نے خود خود کو تباہ کیا"تبھی وہ اٹھتے ہوئے بولی
"میرے خیال سے آپ اپنی بات کہہ چکے ہیں۔اب دوبارہ مجھے کبھی دیکھیں بھی تو ایسے ہی نظر انداز کر کے گزر جائیے گا جیسے مجھے تنہا کرتے ہوئے نظر انداز کیا تھا"۔کہہ کر اسنے سن گلاسز آنکھوں پر ٹکائے اور ٹک ٹک کرتی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ وہ بنا پلک جھپکائے اسے تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ شاپ سے نکل ناں گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔

اسے تو ناں کر کے وہ  وہاں سے آگئی تھی لیکن گاڑی میں بیٹھتےہی  اسکی حسیات دوبارہ سے اجاگر ہونے لگیں تھیں۔
اسنے اپنی  کیفیت کو دیکھتے ہوئے ضارب کےگھر جانے کے بجائے گاڑی اپنی مما کے گھر کی طرف موڑ لی۔
شام ڈھلے وہ گھر پہنچی تھی ۔جہاں اسے دیکھ کر وہ خوش ہوئی تھیں ساتھ میں ہی اسکی زرد رنگت دیکھ کر پریشان بھی ہو گئی تھیں۔
"کیا ہوا ہےآئمہ؟سب خیریت ہے ؟"انکے پوچھنے پر اسنے بمشکل سر ہلایا اور پھر اٹھ کر اپنے شادی سے پہلے والے کمرے  میں آکر لیٹ گئی۔

کچھ دیر یوں ہی بے حس سی لیٹی رہنے کے بعد اسنے اپنے  موبائل کو اٹھاکر اپنی ساس کو کال ملائی۔تین دفعہ بیل بجنے کے بعد آخر فون ریسیو کر لیا گیا۔
"ہیلو آئمہ بیٹے کدھر ہو ؟"تبھی وہ  بولی
"مما میں اپنی مما کے گھر آئی ہوں۔میں یہاں رات رہ لوں؟میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسلئے ادھر گاڑی موڑ لی تھی۔"

"اوہو آئمہ ایک تو تم لوگ نجانے کیوں اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے۔زیادہ طبیعت خراب ہے ؟"
نہیں بس سر چکرا رہا ہے۔ابھی میڈیسن لونگی تو ٹھیک ہو جاونگیں۔"تبھی وہ اوکے کہتی کال بند کر گئیں۔
جبکہ اسنے انکی کال بند ہوتے ہی موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پھر جاسم سے ہوئی ملاقات کو سوچنے لگی۔
"کیا میں واقعی  بدل گئی ہوں؟ایسا کیسےممکن ہے ؟میں تو اسکے لئے پاگل تھی پھر اب کیا ہوا؟"اسنے حیرت سے سوچا  اورپھر ایک سوچ کے بعد دوسری سوچ کا سفر شروع ہوگیا۔کب اسکی آنکھ لگی اسے کچھ علم نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔****۔۔۔۔۔

جب سوکر اٹھی تو سر بھاری تھا۔اور آنکھوں پر بھی بوجھ تھا۔کچھ لمحے وہ اپنے آپکو ڈھیلا چھوڑے لیٹی رہی ۔اور تھوڑی دیر کے  بعد دوبارہ غنودگی میں چلی گئی۔
جب دوسری دفعہ اسکی آنکھیں کھلیں تو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اسے رائمہ بیٹھی دکھائی دی۔اسے آنکھیں کھولتے دیکھا تو وہ مسکراکر بولی

"شکر ہے تمہیں ہوش آگیا ہے۔میں مما کو بتاتی ہوں۔"کہتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد اسکی مما بھی اسکے پاس بیٹھی اسکی خیریت پوچھ رہی تھیں۔وہ انہیں تسلی دینے کے بعد خود بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اورکپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔
جب وپس آئی تو رائمہ اب بھی بیڈ پر بیٹھی اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔
اسنے رائمہ کی نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
"آپی آپ اپنے ڈرائیور کے ساتھ آئی ہیں "اسکے پوچھنے پر وہ اثبات میں سر ہلاگئی۔اور پھر کہا
"ہاں لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"تو وہ بولی
"مجھے بھی ڈراپ کرادیں۔مجھے آج واپس جانا ہے۔"اسکی بات پر رائمہ نے اسےایک دیکھا اور پھر بولی
"تم جب بیہوش تھی تب  تمھاری ساس بھی آئیں تھیں تمہیں دیکھنے۔اسلئے آرام سے یہیں دو تین دن رہو۔"
"میں وہاں بھی کوئی کام نہیں کرتی۔"

"وہ تو ہمیں بھی علم ہے۔"رائمہ کے مسکراکے  بولنے پر وہ بھی مسکرا کر رہ گئی۔اور پھر کچھ یاد آنے پر پوچھا
"گاڑی بھجوا دی تھی ناں ؟"
"ہاں"۔رائمہ کے بتانے پر وہ مطمئن  سی  ہو کر بیٹھ گئی۔تب ہی رائمہ نے اسکی طرف بغور دیکھتے ہوئے  پوچھا

"کل کیا ہوا تھا آئمہ ؟"اسکی بات سن کر وہ کچھ لمحوں کے لئے پریشان ہوئی اور پھر بولی
"نہیں کچھ نہیں ہوا۔"تو رائمہ نے  نے نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
"بتاو کیا بات ہے ؟"وہ کچھ لمحے اسکا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر بولی
"کل  جاسم  ملا تھا۔"اسکی پہلی بات پر ہی رائمہ نے طیش کے عالم میں اسکی طرف دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی آئمہ نے مزید کہا

"وہ دوبارہ ریلیشن شپ میں آنے کا بول رہا تھا۔"
"تو تم نے کیا جواب دیا؟"رائمہ نے اپنا غصہ دباتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ آہستگی سے بولی
"مجھے کیا جواب دینا تھا آپی۔میری تقدیر نے مجھے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا تھا""وہ آہستگی سے کہہ کر خود ٹیرس پر چلی گئی۔

کافی دیر جب وہ واپس ناں آئی  تورائمہ   نے کھڑکی سے لمحہ با لمحہ تیز ہوتی بارش کو دیکھا اور پھر اٹھ کر خود بھی ٹیرس کی طرف  چلدی۔
"چلو اپنے کمرے میں۔بیمار ہو جاونگی۔"اسکی بات سن کر وہ تلخی سے مسکراتی ہوئی بولی
"میں بہت سخت جان ہوں  ۔نہیں مرنے والی۔"تبھی رائمہ نے زچ ہوتے ہوئے کہا
"اپنے نصیب سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے آئمہ۔ورنہ  زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔"
"لیکن آپی میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ایسا۔میں نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا""اسکے رو  کے بولنے پررائمہ نے  تاسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر بولی

"تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم  بچ گئی ہو۔وہ  تمھارے قابل تھا ہی نہیں۔"اسکی بات سن کر وہ ضدی لہجے میں بولی
"لیکن میں اسکے ساتھ خوش رہتی۔"تو رائمہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
"تم اسکے ساتھ بے سکون رہتی۔" اسکی بات سن کر وہ  غصے سے بولی
"اب کونسا  سکون سے ہوں میں ۔"اسکے تلخی سے کہنے پر رائمہ اسے ترس بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی تو وہ مزید بولی

"اگر آپکو لگتا ہے میں ضارب کےساتھ خوش ہوں  تو یہ آپکی غلط فہمی ہے۔میں کسی بوجھ کی طرح ان پر سوار ہوں۔"
"تمنے خود سے سب کچھ سوچ رکھا ہے۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ شریف انسان ہے۔"اس کی بات سن کر وہ غصے سے بولی
"مجھے پتا تھا کوئی میرا دکھ نہیں سمجھتا۔کوئی مجھے نہیں سمجھتا"۔وہ  کہہ کر  ٹیرس سے چلی گئی۔جبکہ رائمہ نے گہری سانس بھرتے ہوئے اسکے راہ راست پر آنے کی دعا مانگی اور خود بھی کمرے میں چلی آئی۔
۔۔۔۔***۔۔۔۔

"مما  میں سوچ رہی ہوں آج شام واپس اپنے گھر چلی جاو۔"اسنے اپنے لئے کافی بناتے ہوئے   اپنی مما کو بتایا  تو وہ بولیں
"ہاں شام کو ضارب آئے گا تو تم اسکے ساتھ ہی چلی جانا۔"انکی بات سن کر وہ تحیر زدہ سی رہ گئی ۔
"ضارب اور یہاں ؟"تب ہی وہ  بولیں
"ہاں وہ کل رات پاکستان آیا تھا۔تمہیں نہیں بتایا ؟"انکی بات  سن کر وہ حیرت سے باہر آتے ہوئے بہانہ بناتے ہوئے بولی

"شاید کال کی ہو لیکن میرا موبائل آف تھا"۔تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولیں
"ہاں ہوسکتا ہے ۔"وہ یہ کہہ کر کچن سے باہر چلی گئیں جبکہ  وہ سوچوں کے گرداب میں پھنس کر رہ  گئی ۔
"ضارب پاکستان آگئے اور مجھے کسی نے بتایا بھی نہیں؟"
"انہوں نے تو مجھے خود بھی نہیں بتایا ۔یہ تھی انکی محبت ؟اور پھر آپی کہتی ہیں ضارب میرے لئے بہتر تھا اسلئے اللہ نے اسے میرے لئے چنا۔لیکن  انکے ناں بتانے پر مجھے کیوں برا لگ رہا ؟آخر میں چاہتی کیا ہوں؟جب محبت ان سے نہیں تو پھر تکلیف کیوں ہے ؟بتائیں یا ناں بتائیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ "اسنے دل ہی دل میں خفگی سے خود کو تسلی دی لیکن دماغ تھا کہ اسی ایک بات پر اٹک  کر رہ گیا تھا۔

"آئم آئمہ ۔"تبھی  اسے اپنی مما کی آواز سنائی دی تووہ اپنا کپ لیکر لاونج کی طرف بڑھ گئی۔سامنے ہی اسے صوفے  پر ضارب بیٹھا دکھائی دیا۔
پہلے تو اسکا دل چاہا کہ سلام کا جواب ہی ناں دے لیکن   پھر مما کے ہوتے ہوئے اسنے کوئی بد تمیزی ناں کرتے ہوئے شرافت سے سلام کا جوب دے دیا۔
اسنے بھی مزید کوئی بات اس سے ناں کی بلکہ مما کے ساتھ ہی باتیں کرتا رہا۔وہ کچھ دیر انکے پاس بیٹھی رہی پھر اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلدی۔
بیزاری سی بیزاری تھی۔کچھ لمحے وہ کتابوں کے شیلف سے کتابیں اٹھا کر ادھر ادھر کرتی رہی۔پھرجاکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

اچانک اسکی نظر بیڈکی سائیڈ ٹیبل پر رکھی کتاب "نسخہ ہائے وفا "پر پڑی  
"شاید آپی نے رکھی ہو۔"اسنے سوچتے ہوئے  وہ کتاب اٹھائی اور ساتھ میں ہی اپنی ٹانگوں پر کمفرٹ ڈالا۔
ابھی اسنے ایک دوپیج ہی پڑھے تھے کہ کلک کی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔
وہ جو اپنے دھیان میں مگن کتاب پڑھ رہی تھی  کسی کے کمرے میں داخل ہونےکے احساس نے اسے  کمرے پر نظر دوڑانے پر مجبور کر دیا ۔سامنے ہی  سے ضارب چلتا آرہا تھا۔

وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اسے دیکھتی رہ گئی تب تک وہ اسکے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔
کچھ پل یوں ہی خاموشی  میں  بیت  گئے ۔آخر  ضارب نے ہی  بات کی شروعات کی
"چلو گھر"۔اسکی آواز سن کر ایک سکون سی کیفیت اس میں گھر کر گئی۔جس کو وہ پچھلے کچھ  مہینوں سے مس کر رہی تھی وہ ضارب  تھا۔"یہ ادراک ہوتے ہی اسکی آنکھوںسے آنسو بہتے چلے گئے۔جبکہ ضارب نے  ناں اس سے رونے کی وجہ پوچھی تھی  ناں کچھ اور۔بس خاموشی اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر  اپنے ساتھ ہونے کا بھروسہ دلایا تھا۔وہ کچھ لمحے یونہی اسکا ہاتھ پکڑے روتے رہی تو وہ بولا

"تمہیں آخر رونا کس بات پر آرہا ہے ؟"اسکے سوال پر وہ نفی میں سر ہلاکربولی
"ایسے ہی"تو وہ دھیمے سے مسکراتے ہوئے بولا
"لیکن ایسے ہی تو کچھ نہیں ہوتا ناں۔"اسکے جواب پر وہ کچھ دیر خاموش رہی اور اسکی زبان پھسلی
"آپ نے  مجھے آنے کا کیوں نہیں بتایا۔"اسکی زبانی شکوہ سن کر وہ پہلے توحیرت زدہ ہوا اور پھر بولا
"تمہیں برا لگا؟" اسکے جوابی سوال پر  وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی اور پھرصاف گوئی سے بولی
"ہاں"۔اسکا جواب سن کر وہ مسکراتے ہوئے بولا
"میں نے تو اسلئے نہیں بتایا تھا کہ تمہیں کیا فکر میرے آنے یا ناں آنے کی۔"اسکا جواب سن کر وہ یک دم خاموش ہو گئی تو وہ اسکی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے بولا

"چلو آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔اب چلو اٹھو"۔وہ خود بھی کھڑا ہوتے ہوئے بولا تو آئمہ نے  جھجھکتے ہوئے کہا
"آپ مجھے وہاں سے کال بھی نہیں کرتے تھے۔"اسکے اس شکوہ پروہ  بے ساختہ مسکراتے ہوئے بولا
"آپ مزید شکوے گھر جاکر بھی کر سکتی ہیں محترمہ"۔تبھی  وہ نروس ہوتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اور پھر اسے مخاطب کر کے کہا

"آپ مجھے پندرہ منٹ دیں۔میں آتی ہوں۔چاہیں تو مما کے پاس جاکر بیٹھ جائیں میرے آنے تک۔"وہ وارڈ روب کی طرف بڑھتے ہوئے بولی تو وہ  بے ساختہ بولا
"آپ چاہیے تو میری ساری زندگی کا وقت لے لیں ۔میں برا نہیں مانوں گا۔بس شرط یہ ہے کہ  آپ واپس لازمی آئیں۔"ضارب کی اس بات پر بے ساختہ اسکے گال تپ کر گرم ہوئے تو وہ اسے نروسنس سے نکالنے کے لئے مزید بولا

""اچھا چلو جلدی آو ۔میں نیچے ہوں۔"وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔جبکہ پیچھے  وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
تب ہی اسکی نظر سامنے دیوار پر لگی فریم پر پڑی  جس پر لکھا تھا
اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡر ٌ "
 اور بے شک اللہﷻ ہر چیز پر قادر ہے " - 
اسنے بے ساختہ یہ آہت دہرائی اور پھرزیر لب  بولی

"بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔وہ چاہے تو کسی کے دل میں بھی محبت پیدا کر سکتا ہے بشرطیکہ رشتہ پاک ہو اور محرم ہوں۔جیسے میرے دل میں ضارب کے لئے محبت پیدا کی۔اور جو میرے لئے بہتر نہیں تھا اسے مجھ سے دور کر دیا۔
یہ ہم انسان ہی ہیں  جو خود سے سب پلاننگ کر کے سمجھتے ہیں  ہم نے اپنے لئے بہتر سوچا۔لیکن  سچائی یہ ہے کہ ہم اپنے لئے آگ کو خرید رہے ہوتے ہیں۔"یہ سب باتیں سوچتے ہوئے اسکی آنکھوں سے آنسو  بہہ رہے تھے۔تب ہی وہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے بولی

"یااللہ تیرا شکر ہے تونے نجانے کس  دعا یا کس نیکی کے بدلے مجھے محفوظ رکھا۔میں ہی تیری مصلحت ناں سمجھ سکی۔"وہ سوچتے ہوئے پھر دوبارہ سے رو دی تب ہی  دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی ملازمہ کی آواز آئی

"باجی ضارب بھائی بلا رہے ہیں۔"اسنے جلدی جلدی آنسو  پونچھے اور بولی
"آرہی ہوں"یہ کہہ کر اسنے وارڈ روب سے اپنے کپڑے نکالے اور واش روم کی طرف چلدی۔
کچھ دیر کے بعد وہ ضارب کے ساتھ اپنے  گھر کی طرف روانہ تھی۔چلتی گاڑی سے اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے سڑک پر دھول اٹھتی دکھائی دی۔ساتھ میں ہی اسے جاسم دکھائی دیا۔جسکا چہرہ دھول سے دھندلا نظر آرہا تھا۔

" یہ میری نادانی کی دھول تھی جسے میں آج یہی اس سڑک پر چھوڑ کر جارہی ہوں۔"اسنے دل میں کہا اور پھر سیدھی ہو کر اسنے ضارب کو دیکھا جسکی توجہ ڈرائیونگ کی طرف تھی۔
"ہاں یہی وہ شخص ہے جو میری ٹھیک سے حفاظت کرسکتا ہے ۔اسنے دل میں کہا اور پھر مطمئن ہوکر سیٹ کی بیک سے سر ٹکا دیا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
The End
x

Post a Comment

0 Comments