Ticker

6/recent/ticker-posts

Yaadghaar lamhe epi 17

Yaadghaar lamhe:

Yaadghaar lamhe

قسط 17

 "اکڑو،چیٹر "۔۔۔۔وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی  اور  دودھ ابالنے کے لئے رکھا

"وہ اسرا کا نام لے رہے تھے۔مطلب وہ اور عمر  اسرا کے لئے گفٹ لے رہے ہیں ؟" اسنےآنچ   کو دیکھتے ہوئے سوچا

"یہ اسرا پتہ نہیں میری زندگی سے کب جائے گی۔میری زندگی کا روگ ہے یہ بندی تو۔" وہ سوچے گئی۔

"تبھی اسکی امی نے آکر چولہا بند کیا۔تمھارا دماغ کدھر ہے عرشی ؟" انہوں نے کہا تو وہ ہڑ بڑا کر خیالات سے باہر آئی۔


"دودھ گرنے والا تھا  اگر میں نہ دیکھتی تو گرجاتا۔" انہوں نے کہا 

"سوری۔"اسنے کہتے ہوئے اپنے دھیان میں جیسے ہی دیگچی  کو پکڑا تو اسکا ہاتھ  جل گیا۔

بے ساختہ اسکے ہاتھ سے دیگچی گری اور پورا دودھ زمین پر جا گرا۔

"کیا ہوا؟ " برتن اور اسکی چیخ پر انہوں  نے پلیٹ دھوتے دھوتے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو ہاتھ  پکڑی ہوئی بیٹھی تھی اور زمین پر دودھ گرا ہوا تھا

"ادھر آو۔" وہ اسے لئے  ڈائننگ ٹیبل کی چئیر پر آبیٹھیں۔

"یہ تو زیادہ جل گیا ہے"۔انہوں نے اسکی  آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھتے ہوئے کہا

"تم رکو میں آتی ہو۔۔کچھ دیر کے بعد وہ برنال  لیکر آئیں۔"

اور اسکے جلے ہوئے حصے پر لگانے لگیں۔


جب وہ برنال لگا چکیں تو انہوں نے اسے دیکھا جسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

"اف عرشی !کتنا چھوٹا دل ہے تمھارا۔کچھ دیر میں جلن ختم ہو جائے گی "۔۔انہوں نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

"وہ انہیں بول نہ سکی کہ ہاتھ اور پاوں سے زیادہ دل جل رہا ہے۔جسکی وجہ آپ کا لاڈلا داماد ہے۔"

"چلو جاو کمرے میں۔پہلے تو کچن میں آتی نہیں ہو اور جب آتی ہو یا تو کچن کا  نقصان کر دیتی ہو یا اپنا"۔انہوں نے نرمی سے اسے جھڑکا تو وہ سرجھکائے اپنے کمرے میں آگئ۔

اور بیڈ پر بیٹھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

تب ہی اسکا موبائل بجا۔


اسنے نمبر دیکھا توحسین  انکل کا تھا۔

"اسلام و علیکم!" اسنے کہا

"وعلیکم سلام !" انہوں نے جواب دیا

"میرا بچہ ٹھیک ہے ؟"  انہوں نے  نرمی سے پوچھا 

"جی!" اسنے جواب دیا

"انکل !مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔" اس نے کہا

"ہاں تو کرو بیٹے۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا

"نہیں یہاں نہیں۔میں آپ کے  گھر آجاو ؟"  اسنے کہا

"بیٹے وہ آپکا ہی  گھر ہے۔آجاو۔" انہوں نے کہا  پھر پوچھا 

"کس کے ساتھ آو گی ؟ "


"آٹو میں آجاونگی۔" اسنے جواب دیا

"نہیں میں ایسا کرتا ہوں علی کو بھیجتا ہوں۔" انہوں نے کہا،تو وہ خاموش رہی

"انکل آپ کسی کو بھی مت بتائیے گا کہ میں نے آپ کو کچھ بتانا ہے" ۔تو وہ مسکرائے پھر کہا

"بلکل بھئی۔یہ ہم باپ بیٹی کی بات ہے۔کسی اور کو کیوں بتائیں بھلا"۔انہوں نے کہا  تو وہ مسکرائی

"چلو میں فون رکھتا ہوں"۔ اور پھر  انہوں نے الوداعی کلمات کہنے کے بعد کال بند کر دی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

"یہ میں نے ٹھیک کیا ہے "؟ اسرا نے سوچا 

جیسے جیسے شادی کے دن قریب آرہے تھے ویسے ویسے  وہ یہ سوچ کر اب خوفزدہ ہو رہی تھی  کہ اسنے جلد بازی میں غلط فیصلہ ناں کر لیا ہو۔

احمد نے اپنی بات کا پاس رکھا تھا  اور کسی کے سامنے بھی اسکا  نام نہیں لیا تھا کہ جلدی شادی اسکی نہیں بلکہ اسرا کی خواہش ہے۔


وہ دل ہی دل میں اسکی ممنون تھی ۔

وہ اپنےہی خیالوں میں گم تھی جب فارحہ ادھر آئی۔

"اسر ا یہ  دیکھو۔اسنے کچھ زیورات کے ڈبے اسکے پاس بیڈ پر رکھے اور کہا"

"یہ خاندانی زیورات ہیں۔جو جو پسند ہیں لے لو۔" اسکی بات پر اس نے اسکو دیکھا

"مجھے کچھ نہیں لینا فارحہ۔"

"ضد نہیں کرتے اسرا۔یہ والا تم پر اچھا لگے گا۔اور یہ بھی۔ان دونوں کی پالش کرا دیں"؟ اسنے کہا تو وہ خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔اور پھر کہا

"مرضی ہے۔" کہہ کر تکیہ منہ پر رکھ لیا تو  وہ افسوس سے سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اور  پھر جاتے جاتے کہا

"شام میں تیار ہوجانا ۔تمھاری ساس کا فون آیا تھا ۔وہ کچھ شاپنگ تمہیں ساتھ لے جاکر کرانا چاہتی ہیں۔"

اس بات پر اسنے منہ سے تکیہ ہٹایا اور کہا


"تم کہہ دیتی کہ میں بزی ہوں۔

میں کیوں کہتی کہ تم بزی ہو ؟ جب کہ تم بزی بلکل بھی نہیں ہو۔"اسنے کہا

"اگر انکا بیٹا بھی ساتھ ہوا تو میں نہیں جاونگی" ۔فون پر خود سے احمد کوشادی کا کہہ تو دیا تھا لیکن اب اسکے سامنے جانے کا سوچ کر ہی اسے جھجھک ہو رہی تھی۔

"ایسا کرنا خود کہہ دینا احمد بھائی کو کہ اگر آپ ساتھ ہوئے تو میں نہیں جاونگی۔وہ تمھاری بات جلد مان لیں گے "۔

اسکی بات پر اسرا نے تکیہ اٹھا کر اسے دے مارا ۔

جس پر وہ ہنستی ہوئی باہر نکل گئی۔

بہت عرصہ کے بعد اسرا نے نارمل بی ہیو کیا تھا۔شاید سالوں کے بعد۔

یہ تبدیلی اس میں خوشگوار تبدیلی تھی۔

بابا کا طریقہ سخت سہی لیکن فیصلہ بلکل درست تھا۔فارحہ سوچ کر مسکرائی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


وہ منیجنٹ کا پیپر  دیکر باہر نکلیں تو  انکے پیچھے چلتے لڑکوں کے ایک گروپ  میں سے ایک لڑکے نے کہا

"یار بلیکنس تو بہت آسان تھیں۔میں نے  لمحوں میں انہیں فل کیا تھا۔"

اس لڑکے کی بات پر فری نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھا

"سنی اس بندے کی بات؟ "فری نے عرشی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

"ہاں ۔شاید   پیپر دماغ پر چڑھ گیا ہےاسکے"۔عرشی نےکہا

"قسم سے یار! ۔۔مجھے  بھی اسکی بات سن کر  یہی لگا کہ بندے کا دماغ خراب ہے"۔اقصی نے کہا

"اور میں تو اسلئے ہی اس عظیم بندے کی شکل دیکھنے کے لئے پیچھے مڑی کہ کون ہے وہ عظیم انسان جسے بلیکنس آسان لگی تھیں۔"


فری نے جلے ہوئے انداز میں کہا

"مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ  میں نے یہ نام ہی پہلے دفعہ پڑھے ہیں" ۔عرشی نے کہا 

"بلکل یار!" اقصی نے کہا

"اللہ کرے اسیسمنٹ کا پیپر آسان ہو۔" عرشی نے کہا

"توبہ ہے عرشی۔تمھیں مس شمیم  کا سبجیکٹ ہی کیوں مشکل لگتا ہے۔" اقصی نے  ہنستے ہوئےکہا

"محبت ہے مجھے ان سے بے حد۔" عرشی نے چڑتے ہوئے کہا

"سچی ؟" اقصی نے کہا


"مچی" ۔۔عرشی نے جواب دیا تو وہ ہنسی۔

"علی بھائی سے بھی زیادہ ؟  "فری نے پوچھا تو وہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹکی۔

"فضول نا ں  بولو! میں کسی سے بھی پیار نہیں کرتی"۔عرشی نے کہا

"آہاں ؟؟"  اقصی نے کہا

"ہاں ناں" ۔وہ گھاس پر  فائل رکھ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔

"سچ سچ بتاو وہ تمہیں واقعی پسند نہیں ؟" اقصی نے حیرت سے کہا تو وہ اسے دیکھنے لگی

"بولو عرشی"  ۔۔فری نے کہا


"پسند ہیں۔اسنے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے کہا "

دیکھا میں کہتی تھی ناں کہ صرف اوپر اوپر سے یہ ناٹک کرتی ہے۔ورنہ دل تو انہیں دے ہی چکی ہے اقصی نے اسکے سر پر فائل مارتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی۔

"تم لوگوں کی بات ہوتی ہے ؟"  اقصی نے پوچھا

"کل کال آئی تھی۔کہہ رہے تھے کہ انکے کسی فرینڈ کو لیڈیز  گفٹ چاہیے تو میں انکے ساتھ جاکر لے آو۔" اسنے بتایا 

"پھر ؟ " فری نے پوچھا


" میں نے منع کر دیا۔" عرشی نے کہا

"کیوں بہن ؟"  فری نے پوچھا

"بس مجھے غصہ آگیا تھا کہ وہ کسی  لیڈی  کے لئے کیوں گفٹ لیں" ۔۔اسنے کہا

"اوئے ہوئے جیلسی"۔۔۔۔فری نے ہنستے ہوئے چھیڑا

"ویسے  عرشی نظر رکھا کرو۔لڑکا ہے بھی ہینڈ سم۔۔کہی کوئی لے ہی نہ اڑے"۔اقصی نے کہا

"اللہ نہ کرے" ۔۔اسکے بے ساختہ بولنے پر فری ہنسی اور کہا

"انداز دیکھو بس عرشی کا۔۔"


تو وہ بھی  اسکے ہاتھ پر ہاتھ  مار ہنسنے لگی۔

ا"یسے کتنا مزہ آرہا ہے ناں ہم تینوں ساتھ ہیں۔" اقصی نے سامنے ایک گروپ کو دیکھتے ہوئے کہا

"ہاں" ۔فری نے جواب دیا


"پیپرز کے بعد  پھر نجانے ہم کب اکٹھے ہو"۔اقصی نے کہا تو وہ دونوں  بھی خاموش ہو گئیں۔

"پتہ نہیں یار  بچھڑنے کے بعد ہم کب ملیں گے"۔اقصی نے پھر کہا

"کس بات سے پریشان ہو اقصی ؟ "فری نے آخر پوچھا

تو   ٹپ ٹپ اقصی کے آنسو گرنے لگے۔

تو وہ دونوں اسکے بلکل قریب ہو کے بیٹھ گئیں۔

"کیا ہوا؟ " عرشی نے کہا


"پتہ ہے  کل امی نے ایک رشتے  کے بارے میں  مجھ سے میری رائے پوچھی ہے۔اور تصویر بھی دکھائی ہے"۔اسنے بتایا

"پھر ؟"  ان دونوں نے  پوچھا

"یار  وہ اتنا بڑا ہے۔اور پھر  پیچھے سے گنجا بھی ہے "۔اقصی نے اسکا حلیہ بتایا 

"تم نے  کیا جواب دیا امی کو ؟"  فری نے پوچھا

"میں نے کچھ نہیں بولا۔امی بیٹھی کافی دیر مجھے سمجھاتی رہیں کہ لڑکے کو نہیں دیکھا جاتا اسکی کمائی کو دیکھا جاتا ہے۔" اسنے بتایا

"حد ہے"۔۔عرشی نے کہا


"اور میں نے ماہ نور سے کہا تھا  کہ یہ ہینڈ سم نہیں ہے۔تو اسنے کہا  

کہ ہمارے جیسے گھروں میں ایسے ہی رشتے آتے ہیں۔اسلئے انسان کو بڑے بڑے خواب دیکھنے کے بجائے حقیقت کی دنیا میں رہنا چاہیے"۔اقصی نے مزید بتایا تو وہ دونوں چپ کی چپ رہ گئیں۔

"شاید میں آگے پڑ ھ نہیں پاوں" ۔۔اقصی نے کہا

"شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے پڑھ لینا" ۔فری نے کہا

"جب سگے ماں باپ ہی نے  مجھے بوجھ سمجھ لیا ہے تو  پھر اوروں سے کیا توقع رکھو۔" اقصی نے کہا تو ان دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔


"تم پریشان نہ ہو اقصی" ۔فری نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا

"جبکہ عرشی دل ہی دل میں خداکا شکر ادا کر رہی تھی کہ اسکے نصیب میں علی  کو لکھا گیا تھا۔اور اسے ایسے خاندان میں پیدا کیا گیا تھا جہاں بیٹیوں کو بوجھ نہیں بلکہ رحمت سمجھا جاتا ہے۔"

۔۔۔۔۔*۔۔۔


"پاپا میں عمر کے ساتھ  شاپنگ پر جا رہا ہوں۔"اسنے  رسٹ واچ کلائی پر باندھتے ان سے کہا

"اوکے۔ایسا کرنا عرشی کو بھی لے آنا۔" انکی بات سن کر اسنے ان کو دیکھا 

"میں لیٹ ہوجاونگا" ۔اسنے کہا 


"میری بچی کو گھر چھوڑ کر اپنی   شاپنگ پر چلے جاو یا اسے پک کر کے شاپنگ پر  چلے جاو۔واپسی میں گھر لے آنا۔" انہوں نے اطمینان سے جواب دیا

"میرے پیارے پاپا جانی!لاسٹ ٹائم آپکی بیٹی نے یہاں لانے پر طوفان اٹھایا تھا۔نظارہ تو آپ نے بھی دیکھا تھا"۔اسنے طنزیہ کہا

اسکی بات سن کر انہوں نے اپنی مسکراہٹ کو دبایا اور کہا


"غلطی تمھاری تھی۔زبردستی کیوں لائے تھے۔اور اسنے بس تمھاری شکایت کی تھی۔"

"شکایت نہیں شکایات۔۔جملہ درست کریں"۔اسنے تپے ہوئے لہجے میں کہا

"ہاں تو مت پریشان کیا کرو میری بچی کو۔" انہوں نے کہا

"آپ کی بچی مجھے پریشان کر رہی ہے۔نا کہ میں اسے"۔اس نے کہا

"وہ تو کچھ بھی نہیں کہتی"۔انہوں نے پھر اسکی سائیڈ لی۔


"آپ سے میں نہیں جیت سکتا۔" اسنے کہا اور باہر جانے کے لئے مڑا۔

"میری بچی کو یاد سے لے آنا۔ورنہ پھر آج تم بھی گھر مت آنا" ۔انہوں نے پیچھے سے آواز لگائی۔

"آپکی بچی نے اگر میرے ساتھ آنا پسند کیا تو لے آونگا میری تو  کوئی ویلیو ہی نہیں بھائی اپنے گھر میں۔" کہتے ہوئے  گلاس ڈور کھول کر باہر نکلا۔


پیچھے حسین صاحب مسکراتے رہے۔یہی تو چاہا تھا انہوں نے زندگی سے کہ  انکا بیٹا خوش رہے۔وہ اسکی آنکھوں میں اسکی خوشی دیکھ سکتے تھے۔

انہوں نے دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔

۔۔۔۔۔*۔  ۔۔۔۔۔


کوئی تیسری دفعہ اسنے گھنٹی بجائی تھی۔اور کافی دیر تک انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی تھی۔

"پتہ نہیں کون پاگل انسان ہے"۔اسنے چپل پاوں میں گھسیٹے اور گرل کھول کر  دروازے کی طرف بڑھی۔

"کون ہو بھائی دماغ درست ہے تمھارا ؟" اسنے دروازہ کھولتے ہی بغیر دیکھے غصے میں کہا   اور پھر سامنے اسےکھڑا  دیکھا تو چپ کی چپ رہ گئی۔

وہ آگےبڑھا اور اسکے قریب جاکر کہا

"بہتر ہے کہ تم اپنی آنکھوں بلکہ کانوں کا بھی علاج کراو۔اور سب سے پہلےتو  اپنی اس گز بھر لمبی زبان کا  علاج کراو  تاکہ دیکھنے سے پہلے بول نہ سکو۔"

"دیکھیں آپ "۔۔۔۔۔عرشی کے منہ سے غصے سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔

"کیا میں ؟" اسنےتھوڑا اور اسکے قریب  ہو کر پوچھا 


"دیکھیں آپ۔۔۔۔آپ اپنی حد میں رہیں"۔عرشی نے  اٹکتے ہوئےکہا

"آہاں ؟ تو تم مجھے میری حدود بتاوگی ؟" علی نے کہا

"آپ بد تمیزی نہیں کریں۔ورنہ میں انکل کو بتا دونگی"۔اسنے دھمکی دی۔

"پہلی بات تو یہ کہ میں بد تمیزی نہیں کر رہا ۔اور دوسری بات یہ کہ اگرمیں بد تمیزی  کرو بھی تو مجھے کوئی  روک نہیں سکتا۔" علی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

"اور اگر  روک لیا تو ؟ "عرشی بغیر سوچے سمجھےغصے سے کہا


"چلو پھر روک کر دکھاو۔لیکن  پھر اگر میں نے اپناحق استعمال  کیا  تو  مجھ سے شکایت مت کرنا۔"۔اسنے جگڑ جگڑ کرتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا

"بہت ہی فضول انسان ہیں  آپ۔" وہ پاوں پٹختی اندر کی طرف بڑھی۔

جبکہ وہ اسکے پیچھے  چلتا ہوا مسکراتا گیا۔

وہ ہر دفعہ دل میں کہتا تھا کہ اب سامنا ہونے پر  اسے نہیں چھیڑونگا۔لیکن اسکو دیکھتے ہی اسکا دل بے ایمان ہو نے لگتا  تھا۔۔

اور ہر دفعہ کی ملاقات  کااختتام لڑائی پر ہوتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔


کون ہے عرشی ؟ صفیہ بیگم کہتی  ہوئی لاونج میں آئیں تو انہیں وہ عرشی کے پیچھے آتا دکھائی دیا

"ارے علی ۔" انہوں نے اسے دیکھتے ہی خوش ہو کر کہا

"اسلام و علیکم! " وہ انکے آگے جھکا  تو انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا

"کیسے ہو ؟" انہوں نے اس سے پوچھا 


"میں ٹھیک ہوں۔آپ کیسی ہیں؟ "اسنے مسکرا کر  جواب دیا

"اللہ کاشکر ہے بیٹا۔"انہوں نے  اسے جواب دیا اور پھر اپنے کمرے کی طرف جاتی عرشی کو آواز دی۔

"اچھا یہ بتاو چائے بنواو یا کچھ ٹھنڈا پیو گے ؟"  انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا

"چائے پینے کا توٹائم ہی نہیں آنٹی۔جلدی میں ہوں۔آپ کچھ ٹھنڈا پلوا دیں۔" اسنےعرشی کو کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے ان سے کہا


"جاو عرشی جوس لیکر آو" ۔انہوں نے  عرشی کو کہا تو وہ  اسے گھورتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔

"ایک تو امی کو بھی میں ہی ملی ہوں انکی خدمت کے لئے۔"اسنے تپتے  ہوئے سوچا اور   فریج سے جوس کا جگ نکالا

"ا چھا یہ بتاو  جلدی میں کیوں ہو ؟" انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا

"شاپنگ پر جانا ہے آنٹی اور پاپا نے کہا تھا کہ عرشی کو لیکر آو"۔۔اسنے آنے کا مقصد بتایا

"اچھا" ۔۔انہوں نے جواب دیا


تب ہی وہ جوس لیکر آئی۔اور  اسکے آگے ٹرے کی  تو اسنے جوس اٹھا لیا

دوسراگلاس اسنے اپنی امی کو دیا اور خود ٹرے لیکر واپس کچن کی طرف مڑی تو اسکی والدہ نے کہا

"عرشی  جاو تیار ہو جاو۔۔حسین بھائی نے تمہیں بلایا ہے۔ " تو علی نے جوس کا گھونٹ بھرکر  کہا

"میں جلدی میں ہو۔ایسا کرو  صرف چادر لے لو" ۔ابکی بار اسنے صفیہ بیگم کے سامنے ہی اسے کہا

"ہاں ہاں  یہ ٹھیک رہے گا" ۔انہوں نے کہا تو وہ اسے گھورتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔


"میں ان سے پوچھو کہ گفٹ کیا اسرا کے لئے خریدنا تھا"؟اسنے  ڈرائیونگ کرتے علی کو دیکھا 

جو بلکل سنجیدہ شکل بنائے ڈرائیو کر رہا تھا۔

"سنیں!" اسنے آواز دی

"بولو!  " اسنے سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا تو وہ  چپ ہو کر اسے دیکھنے لگی۔

کچھ پل جب وہ نہ بولی تو پھر  علی نے اسکی طرف دیکھا

"کیا ہوا ؟تم کچھ بولنے والی تھی ناں"۔اسنے کہا


"نہیں !" اسنے نفی میں سرہلایا   تو اسنے حیرت سے اسے دیکھا  اور پھرکندھے اچکاکر سامنے دیکھنے لگا۔

"اسکے اس رویے پر وہ کھڑکی سے با ہر دیکھنے لگی۔

انکو اسرا ہی پسند ہے ۔تب ہی اسکی باتیں بھی اتنی غور سے سنی جاتی ہیں کہ پزا ہٹ لے جایا جاتا ہے۔تو ٹابت ہوا عرشی کہ تم  انکی پسند نہیں ہو ۔سوچتے ہوئے آنسو اسکے  چہرے پر بکھر رہے تھے۔"

اچانک علی کی نظر اس پر پڑی تو اسے لگا وہ رو رہی ہے۔

"عرشی" ۔۔۔۔اسنے اسے آواز دی لیکن اسکی پکار پر اسکے آنسو اور بہنے لگے۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے سڑک پر ہی گاڑی ایک سائیڈ پر لگا گیا۔

اور ہاتھ بڑھا کر اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔

جو آنسو سے تر تھا۔


"کیا ہوا ہے ؟" اسکے پوچھنے پر وہ اور تیزی سے رونے لگی۔

"یار! بتاو تو سہی  ۔" اسنے پھر پوچھا 

"کچھ نہیں ہوا۔" وہ بول کر دوبارہ کھڑکی طرف دیکھنے کگی۔

"کہیں درد ہو رہا ہے کیا ؟"  اسنے پھر پوچھا  تو وہ  جواب دئیے بنا خاموشی سے باہر دیکھے گئی۔

"عرشی "۔۔۔ابکی بار اسنے ہاتھ پکڑا ۔

"بولو ؟ کیا مسئلہ ہے؟" اسنے نرمی سے پوچھا


"آپ میری طرف دیکھ کر بات نہیں سن رہے تھے تو مجھے لگا کہ آپ میری وجہ سے ڈسٹرب ہو رہے ہیں"۔اسنے  سسکتے ہوئے بتایا

"بات سن کر اسکا دل کیا کہ وہ اپنا سر دیوار میں دے مارے"۔لیکن اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا

"میں ڈرائیو کر رہا تھا ناں۔اسلئے تمھاری طرف نہیں دیکھا۔"اسنے جواب دیا مگر وہ پھر بھی خاموشی سے روتی رہی۔

کچھ دیر وہ اسے ایسے ہی دیکھتا رہا  اور پھر کہا 

"تم کیا پوچھنے والی تھی ؟"


"میں  پوچھ رہی تھی آپ کو گفٹ کس کےلئے لینا تھا ؟" اسنے جان بوجھ کر اسرا کا نام نہیں  لیا ۔لیکن وہ بھی علی تھا جو اسے گہرائی تک جانتا تھا۔اسکی بات سن کر وہ سمجھ گیا کہ وہ اسرا کا ہی پوچھنا چاہ رہی ہے۔

"اوو۔۔تو رونے کے پیچھے کا ماجرا یہ ہے ؟" اسنے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر کہا

"میری اور عمر کی ایک کامن فرینڈ ہے۔اسکے لئے ہی لینا ہے"۔اسنےجواب دیا

"میں آپ کے ساتھ چلو "؟ یہ سوال  سن کر وہ پہلے حیرت زدہ ہوا اور پھر مسکرا اٹھا

"ہاں" ۔۔اسنے جوا ب دیا   تو وہ اسے دیکھے گئی

"ابھی گھر جانے سے پہلے گفٹ لینے چلیں ؟ "اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے عرشی سے پوچھا   تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

وہ گفٹ لیکر باہر نکلے تو اسی وقت علی کا موبائل بج اٹھا

"علی کے بچے ؟ کد ھر ہے ؟ میں کب سے یہاں بیٹھا تمھارا انتظار کر رہا ہو"۔عمر نے کہا

"کیوں بھائی کیوں انتظار کر رہے ہو ؟" وہ کہتے ہوئے شاپنگ مال سے باہر نکلا 

"شاپنگ پر جانا تھا ناں ۔گفٹ لینا تھا۔اسنے الفاظ چباتے ہوئے کہا"

"اووو وہ تو میں نے لے لیا۔" اسنے ہنستے ہوئے کہا


"ہیں ؟ کس کے ساتھ جاکر لیا ہے ؟ ؟" عمر نے حیرت سے کہا  تو اسنے مسکراتے ہوئے اپنے آگے چلتی عرشی کو دیکھا  اور پھر اسکی نظر  سامنے سے تیز رفتاری سے آتی  ون ویلنگ  کرتی بائیک پر پڑی  تواسنے  آگے بڑ ھ کر زور سے عرشی کا بازو کھینچا ۔

اسطرح اچانک بازو کھینچنے سے وہ  اسکے سینے سے آلگی۔اور تب ہی زن  کرتی بائیک انکے پاس سے گزری۔

اسکی دل کی دھڑکن اتنی تیز چل رہی تھی کہ اسے اپنی دھڑکن کی آواز کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔جبکہ اسکے ساتھ لگی عرشی بھی اسکی تیز رفتاری سے چلتی دھڑکنوں کو سن رہی  تھی ۔

اگر  اسے کچھ ہو جاتا تو۔اسنے سوچا   اور پھر  اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا 

"ریلیکس"۔۔تو وہ شرمندہ ہوتی پیچھے ہٹی۔


"اسے ابھی تک نہیں سمجھ آیا تھا کہ یہ  کیا ہوا ہے ؟ وہ عادت کے مطابق چلتے ہوئے  خیالوں میں گم تھی۔جب اسے اسنے کھینچا۔اسکی سانسیں ابھی تک اتھل پتھل ہو رہی تھیں۔"

علی نے ایک نظر اسکے  چہرے پر ڈالی اور ہاتھ پکڑ کر گاڑی  کی طرف لے گیا۔

جو اب شاک کے بعدروئی جا رہی تھی۔

"یار !ایک تو  اس لڑکی کا رونا۔" وہ بڑ بڑا یا


"ریلیکس یار !کچھ نہیں  ہوا۔۔میری طرف دیکھو"۔۔اسنے  کہا لیکن وہ سر جھکائے روتی گئی۔

"اسنے پانی کی بوتل اٹھا کر اسے دی۔" اور کہا

"پانی پیو تو اسنے بوتل منہ سے لگا لی۔"

"تم ٹھیک ہو ؟"  اسنے پوچھا 

"جی لیکن وہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہونگے "؟اچانک عرشی نے اس سے کہا تو وہ اسکی بات پر حیرت زدہ ہوا۔


قسط 17

پھر اسکی بات سمجھ آنے پر بے ساختہ قہقہہ لگا گیا۔

"سمجھنے دو جو سمجھتے ہیں۔اور جس  کسی نے کچھ کہا  تو نکاح نامہ دکھا دیں گے"۔علی نے ہنستے ہوئے اسے کہا اور پھر  گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

"حد ہے یار۔کیا بندی ہے یہ۔" اسنے ڈرائیو کرتے ہوئے اسکی طرف دیکھا جو ایک دفعہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔اور اسے یقین تھا کہ وہ ابھی تک وہی سڑک والی بات پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔*۔۔۔ 

جاری یے

Post a Comment

0 Comments