Woh Shakhas Kabhi Gharoor Tha Mira:
وہ ہنس ہنس کر کہتا تھا
تم پاگل بہت ہو
میں مسکرا مسکرا کر کہتی تھی
وجہ تو تم ہی ہو
پھر وہ ہنستا تو ہنستا ہی چلا جاتا
اور پھر کہتا تم تو خوش فہم بھی بہت ہو
میں مسکراتی اور مسکراتی ہی رہ جاتی
اور پھر کہتی غلط کیا ہے ؟
مجھے لگتا تھا اگر وہ خص کبھی مجھ سے روٹھ گیا
تو بہاریں روٹھ جائیں گیں
سانسیں میری اکھڑ جائیں گی
دل دھڑکنا بھول جائے گا
زندگی مجھ سے روٹھ جائے گی
مدت ہو گئی ان سانسوں کو چلتے چلتے
مدت ہو گئی آج یہ بات سوچتے سوچتے
مدت سے جو ڈھرک رہا ہے کیا وہ دل ہے میرا ؟
مدت سے جو چل رہی ہیں کیا وہ سانسیں ہیں میری ؟
میں جو کہتی تھی کہ لمحہ ایک ناں گزاروں گی اسخے بغیر
مجھے ہی آج اس سے بچھڑے مدتیں گزر گئیں
زندگی مجھ سے روٹھی ناں تھی
وہ رضامند تھی تو وجہ کیا تھی ؟
قسمت نے مجھے اس شخص سے ملایا ہی کیوں تھا ؟
اور اگر ملایا تھا تو چھڑا یا ہی کیوں تھا ؟
مدتیں بیت گئیں آج ہر جواب مانگنے بیٹھی میں
زندگی سے اسکی رضامندی کا
قسمت سے اسکی ستم ظریفی کا
دونوں میں بحث چلی تو بحث تھی طویل بہت
زندگی کو قسمت سے اور قسمت کو زندگی سے تھے
یکایک ایک نقطے پر وہ دونوں ہی چونکیں
طویل بحث مختصر ہوتی ہوئی پھر ختم ہی ہوگئی
مزید کچھ کہنے کو بچا ہی کیا تھا ؟
وہ ایک شخص جو غرور تھا میرا
اس ایک نقطے نے ہی غرور میرا پاش پاش کر دیا
پھر وہ مڑیں اور طنزیہ سی مسکرائیں
کہنے لگیں لو آج تمھارے ہر سوال کا جواب مل ہی گیا
جو جواب تم خود جانتی تھی
وہ جواب آج آشکار ہو ہی گیا
چھپاکر رکھنا چاہتی تھی تم جس جواب کو اپنے دل رازداں میں
لو آج ڈھونڈ کر وہ جواب ہم نے کمال ہی کر دیا
مختصر یہ کہ اس شخص کی بے وفائی اور دوری میں
قصور تمھارا بھی برابر تھا اس شخص کے
یہ الزام لگاکر وہ دونوں ہی مڑ گئیں
کہ تم وفادار بہت تھی ایک بے وفا شخص کے
پر میں کیا کروں
وہ ایک شخص کبھی غرور تھا میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****۔۔۔۔۔۔۔۔
(رائٹر مریم راشد)
0 Comments