Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke epi 7

 Rishte chahat ke:

Rishte chahat ke epi



                                     قسط 7                                           

اسکے مما بابا کو گزرے ایک سال ہو گیا تھا .کہنے کو یہ صرف سال تھا لیکن اس ایک سال میں سب بدل گیا تھا.


اسکے پلانز ، اسکے خواب اور وہ خود بھی بدل گئی تھی. ٦ ماہ پہلے اسکے دادا کا بھی انتقال ہو چکا تھا .


وہ انوشہ اعوان جو نان اسٹاپ بولتی تھی.جسے ہنسنا اور خوش رہنا آتا تھا وہ اب گوشہ نشین ہو گئی تھی.


زندگی سب کی پہلی کی طرح رواں دواں تھی .بس وہ اپنے مما بابا کی ڈیتھ کے بعد ایک جگہ ٹہر گئی تھی.اسے لگتا تھا وہ زندگی گزار رہی ہے .جی نہیں رہی.


وہ گہری سوچ میں غرق تھی جب اسے شزا کی آواز آیی.


یار آو ناں ! شہام بھائی ہمیں آئسکریم کھلانے لے کے جا رہے ہیں.شزا نے کہا


نہیں یار! میرا موڈ نہیں ہے.تم جاؤ .اسنے شزا کو ٹالا .


کوئی نہ! شزا نے کہتے ہوے اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا .


"میرے کپڑے بھی خراب ہو رہے ہیں".انوشہ نے اپنے کپڑوں کی شکنوں کو ہاتھ سے سلجھاتے ہوے کہا


"تو میری بہن کوئی اور پہن لو.ویسے کوئی اتنا خاص پتا نہیں لگ رہا ."شزا نے اسے تسلی دی تو وہ سر ہلا کے رہ گئی اور اسکے پیچھے کمرے سے نکل گئی.


لاؤنج میں شہام بیٹھا کوئی نیوز چینل دیکھ رہا تھا.ان دونوں کو آتے دیکھا تو ٹی وی آف کرتا اٹھ کھڑا ہوا .


چلیں ؟ شہام نے پوچھا


ہاں ناں ! شزا نے جواب دیا


تو وہ سر ہلاتا انھیں اپنے ساتھ آنے کا کہتا باہر چلا گیا.


پورا راستہ شزا ہی بولتی رہی.انوشہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی.


شہام آج کل کام کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا.اب اسکے واپس جانے کے دن قریب تھے اور کچھ شزا کی ضد تھی کہ وہ اسے اور انوشہ کو گھمانے لے کر جائے تو آج اسی وجہہ سے وہ ان دونوں کو باہر لے کر گیا تھا.


شزا سے اسکی شروع سے بہت بنتی تھی.


دوستی تو اسکی انوشہ کے ساتھ بھی تھی لیکن یہ ایک سال پہلے کی بات تھی جب انوشہ کسی دوست ہوا کرتی تھی.

مما بابا چاہتے تھے کہ اب وہ شادی کر لے.لیکن وہ جب بھی شادی کا سوچتا تھا تو اسکے خیالوں میں انوشہ آتی تھی.شہام پورا وقت انوشہ کے گم سم روئیے کو دیکھتا رہا.اور دل میں پکّا عہد کیا کہ وہ انوشہ کے سلسلے میں بابا سے بات کرے گا.جو بھی تھا زندگی ایک ہی جگہ ٹھہرنے کا نام نہیں تھی.اسے انوشہ پیاری تھی ، اسکی خوشیاں پیاری تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی شزا کی طرح ہنسے ،کھیلے اور نارمل زندگی گزارے.


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔


رحمان صاھب آج گھر پر ہی تھے . دس بجے کے قریب اچانک انکے دل میں درد اٹھا .پہلے تو انہوں نے زبان کے نیچے گولی رکھی تا کہ صورتحال کنٹرول ہو.لیکن جب درد سے حال بحال ہوا تو انہوں نے جبیں بیگم کو آواز دی جو اس وقت کام والی سی لاؤنج کی صفائی کروا رہیں تھیں.


رحمان صاحب کی پکار پر وہ فورن اندر گئیں .سامنے کا منظر دیکھ کر انکے ہاتھ پاؤں پھول گئے.


رحمان صاھب سینے پر ہاتھ رکھے آدھے بیڈ کے اوپر تھے اور آدھے بیڈ کے نیچے.وہ شاید اٹھ کر باہر جانا چاہتے تھے کہ وہ گر پڑے.


کیا ہوا ہے ؟ جبیں بیگم انکے پاس آتے ہوے بولیں .


میرے درد ہو رہا ہے.ڈاکٹر کو فون کرو.رحمان صاحب نے بمشکل اس سے یہ کھا.


شفا شفا ! جبیں بیگم نے شفا کو آواز دی.


وہ ابھی سو کر اٹھی تھی اور لاؤنج میں بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی .جبیں بیگم کی آواز سن کر اندر گئی.


بابا کو کیا ہوا ہے ؟ وہ رحمان صاھب کی ایسی حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی .


تم ڈاکٹر حسان کو بلا کر لاؤ۔جبیں بیگم نے کہا


.ڈاکٹر حسان انکے پاڑوسی تھے اور دو گھر چھوڑ کر رہتے تھے.شزا بھاگھتی ہوئی انکے گھر گئی.جہاں معلوم ہوا کہ وہ تو کل رات سے گھر ہی نہیں آئے۔


وہ گھر واپس آیی اور جبیں بیگم کو بتایا .


رحمان صاحب اب بھی درد کی شدّت سے نڈھال تھے .انہوں نے کہا


شفا ! ڈائری میں زعیم کا نمبر ہوگا .اسے کال کرو.


شفا نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے رحمان صاھب کی ڈائری نکالی اور زعیم کا نمبر ملانے لگی.


ہیلو ! تھوڑی دیر کے بعد اسے زعیم کی آواز سنائی دی.


"بابا میرے بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے .گھر پر رضا بھی نہیں ہے.آپ آجایئں." وه ٹوٹے پھوٹے لہجے میں اسے بتاتی گئی۔


میں آتا ہوں! اس نے کہتے ہی کال بند کی اور میٹنگ روم سے نکلتا چلا گیا .


اسکے آفس سے رحمان چچا کا گھر آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا .اسنے آدھے گھنٹے کے راستے کو بیس منٹ میں طے کیا .بیس منٹ کے بعد وہ رحمان چچا کے گھر کے باہر کھڑا بیل بجا رہا تھا.


شفا نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو وہ آگے بڑھا اور کہا


چچا کہاں ہیں ؟ اسنے شفا سے پوچھا


اندر کمرے میں .ابھی اسنے اتنا ہی کہا تھا کہ ضعیم نے اسے بازو سے پکڑ کر سامنے سے ہٹایا اور تقریباً بھاگھتا ہوا اندر کمرے میں گیا جہاں رحمان صاھب لیٹے ہوے تھے اور جسم انکا پسینہ پسینہ ہو رہا تھا.


وہ آگے بڑھا اور رحمان صاھب کی ہارٹ بیٹ چیک کی جو بہت آہستہ آہستہ چل رہیں تھیں.


اسنے مزید وقت ضائع کئے بغیر انھیں اٹھایا اور گاڑی میں لے جا کر لٹا دیا .


چچی آپ لوگ بھی آئیں تو وہ اور جبیں بیگم جا کر گاڑی میں بیٹھ گئیں .


تھوڑی دیر کے بعد وہ شہر کے ایک بڑے ہوسپٹل میں موجود تھے.


رحمان صاحب کو فوری طور پر اندر آئی سی یو میں لے جایا گیا تھا جہاں انکا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا.


جبیں بیگم مسلسل روتی جا رہیں تھیں اور شفا کی آنکھوں سے تو جیسے سمندر بہہ رہا تھا.جب رضا وہاں آیا تو شفا فورن اٹھی اور اسکے گلے لگ کر رونے لگی.شفا نے بچپن سے آج تک صرف رضا ، بابا،مما کو ہی اپنے قریب دیکھا تھا.انکے علاوہ اسکا کوئی تھا ہی نہیں .وہ انکو کھونے سے ڈرتی تھی.


بابا کی طبیعت خراب ہے رضا ! شفا نے روتے ہوے کہا


ٹھیک ہو جایئں گے بابا ! رضا نے رندھے ہوے لہجے میں شفا کو تسلی دی.


شفا کو آج احساس ہو رہا تھا کے بھائی چھوٹے بھی ہوں تو کتنا برا سہارا ہوتے ہیں.


زعیم جو کچھ دوائیاں لینے باہر گیا تھا جب واپس آیا تو اسنے رضا کو آئی سی یو کی کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھا


وہ فورن رضا کے پاس گیا


رضا ! زعیم نے اسے پکارا تو وہ مڑا ۔ اسکی آنکھیں اس وقت بہت لال ہو رہیں تھیں جیسے وہ رونا برداشت کر رہا ہو.


اس نے اسے گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا .


کچھ نہیں ہوگا چچا کو یار ! زعیم نے کہا


تو وہ آنکھیں مسلتا پیچھے ہوا.


آپ بابا کو یھاں کیسے لے کر آئے؟ رضا نے پوچھا


وہ بتانے ہی لگا تھا کہ اسکا موبائل بجنے لگا.


اسنے کال رسیو کی


ہیلو ! زعیم نے کہا


تم کدھر ہو ابھی ؟ شاہ زیب خان نے پوچھا


میں باہر ہوں.زعیم نے جواب دیا .


یہ کوئی طریقہ ہوتا ہے زعیم ؟ میٹنگ ایسے ادھوری چھوڑ کر جاتے ہیں ؟ کوئی رولز ہوتے ہیں،کوئی ریگولیشن ہوتے ہیں۔شاہ زیب خان نے کہا


بابا ! میں رحمان چچا کو ہوسپٹل لے کے آیا تھا.زعیم نے کہا


کیا ہوا ہے رحمان کو ؟ انکا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا .


وہ ! زعیم سے کوئی جواب نہ بن پڑا .


زعیم ! بتاؤ کیا ہوا ہے رحمان کو ؟ رحمان صاھب کا نام سنتے ہی ساتھ بیٹھے آغا جان کو کرنٹ لگا.


بابا انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے.ابھی وہ آئی سی یو میں ہیں. زعیم نے بتایا


کیا !! شاہ زیب خان نے کہا


ہوسپٹل کا ایڈریس دو.؟ شاہ زیب خان نے کہا


تو زعیم نے انھ ایڈریس لکھوا کر فون بند کر دیا .


کیا ہوا ہے ؟ آغا جان نے پوچھا


شاہ زیب خان نے ایک نظر آغا جان کو دیکھا اور پھر کہا


رحمان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے.اور وہ ابھی آئی سی یو میں ہے.شاہ زیب خان نے بتایا تو آغا جان بیٹھے سے اٹھ کھڑے ہوے .


مجھے میرے رحمان کے پاس لے چلو.آغا جان نے شاہ زیب خان کو کہا .


لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی آغا جان ہیں جو بیس سالوں سے اپنے سگے بیٹے سے ناراض تھے.


انکے جواب دینے سے پہلے ہی آغا جان آفس سے نکل گئے .انکے پیچھے پیچھے شاہ زیب خان تھے .ایسے ہی بھاگتے دوڑتے وہ لوگ لفٹ تک پہنچے .


اور آفس کی بلڈنگ سے باہر نکل آئے۔


ڈرائیور نے جب انھیں آتے دیکھا تو وہ سیدھا ہو بیٹھا


انہوں نے کار میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو ایڈریس بتایا اور جلد وہاں پہنچانے کا کہا


پینتس منٹ میں نہ جانے کتنی دفعہ انہوں نے ڈرائیور کو ڈانٹا .


آخر الله الله کر کے وہ اور شاہ زیب خان ہوسپٹل پوھنچے.وہاں پہنچ کر ریسپشن سے انہوں نے معلومات لی .اور تجوڑی دیر کے بعد وہ آئی سی یو کی طرف جا رہے تھے۔


وہاں اس وقت صرف زعیم تھا کیونکہ جبیں بیگم اور شفا پریئر ہال میں نوافل ادا کرنے گئیں تھیں ۔اور رضا ابھی کسی کام سے باہر نکلا تھا.


زعیم نے انھیں کوریڈور سے آتے دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا.


وہ زعیم کے پاس پہنچے اور کہا


رحمان کدھر ہے ؟ اسنے آئی سی یو کی طرف اشارہ کیا اور کہا آپ کھڑکی سے دیکھ سکتے ہیں.


تو وہ کھڑکی کے قریب جا کھڑے ہوے.


جہاں بیڈ پر رحمان صاھب مختلف مشینوں سے جکڑے ہوے تھے.وہ اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھتے ہی رونا شروع ہو گئے.


رحمان مجھے معاف کر دو .


اپنے آغا جان کو معاف کر دو.


انہوں نے زیر لب بڑبڑاتے ہوے کہا


آنسو اب انکی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے.


پھر وہ زعیم کی طرف مڑے اور کہا


ڈاکٹر نے کیا کہا ہے.؟


ڈاکٹر نے دعا کرنے کا کہا ہے. زعیم نے بتایا


جبیں بیگم جو ابھی شفاکے ساتھ پریئر ہال سے آئیں تھیں آغا جان کو زعیم کے ساتھ دیکھ کر وہیں کھڑی سن ہو گئیں .


آغا جان کی نظر ان پر پڑی تو وہ انکے پاس گئے .


کیسی ہو بیٹا ؟ انہوں نے جبیں بیگم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا


میں .... وہ اب بھی سن تھیں .انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ آغا جان کبھی دوبارہ بھی ان سے بات کر سکتے ہیں.


کیا قسمت کی ستم ظریفی تھی .آغا جان آئے بھی تو تب جب رحمان صاحب اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے.


جبیں !! انہوں نے پکارا


مجھے معاف کر دو بچے.


وہ بولتے ہوے رونا شروع ہو گئے .


اسے بولو آغا جان کو تنگ نہ کرے .میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا .یہ شروع سے ہی مجھے اذیت دیتا رہا ہے اور اب مجھے تنگ کرنے کا نیا بہانہ سوچ لیا ہے.وہ روتے ہوے بول رہے تھے.ساتھ میں جبیں بیگم بھی رو رہیں تھیں.


شفا حیران نظروں سے سب دیکھ رہی تھی.


جب آغا جان تھوڑا سا ریلکس ہوے تو شفا پر انکی نظر پڑی۔


یہ آپکی پوتی ہے شفا.


آغا جان کی نظروں کے سامنے وہ چھوٹی سی دو پونیاں بنائی شفا گھوم گئی جو اب اپنی ماں کے قد کے برابر تھی.


انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا .


زعیم بھائی !! رضا اپنی ہی دھن میں بولتا ہوا زعیم کے پاس آیا تو اسنے وہاں ایک نفیس سے بزرگ اور ایک مرد کو کھڑے دیکھا تو بولتے بولتے چپ ہو گیا.


یہ رضا ہے.جبیں چچی کا بیٹا .زعیم نے تعارف کرایا .


آغا جان تو یک تک اسے دیکھے جا رہے تھے .انھیں لگ رہا تھا کہ وقت بیس سال پیچھے چلا گیا ہےاور انکے سامنے نو جوانی کا رحمان کھڑا ہے.


آغا جان ! زعیم نے انھیں آواز دی.


تو انہوں نے چونک کے زعیم کو دیکھا اور آگے بڑھ کر رضا کو سینے سے لگا لیا.


پھر اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بولے .


یہ میرے رحمان کی جوانی ہے. بولتے ہوے آغا جان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.یہ بے تابی شاید اسلئے بھی تھی کیوں کہ آج پہلی دفعہ وہ رضا کو دیکھ رہے تھے.


اتنے میں ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر نکلا تو سب لپک کر اس کے پاس پوھنچے .


رحمان کیسا ہے ؟ آغا جان نے پوچھا


فکر کی بات نہیں ہے.وہ خیریت سے ہیں .کچھ گھنٹوں کے بعد روم میں شفٹ کر دیں گے.


تو سب نے الله کا شکر ادا کیا.


آغا جان اور شاہ زیب خان نوافل ادا کرنے مسجد چلے گئے .جبکہ زعیم اور رضا صدقہ دینے چلے گئے.


میں شکرانے کے نوافل پڑھ لو .جبیں بیگم نے شفا سے کہا تو وہ سر ہلا دی .


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


رحمان صاحب کے ہارٹ اٹیک کی خبر خان ولا کے لوگوں پر بجلی بن کر گری تھی.


بی جان کا رو رو کر برا حال تھا .زعیم انھیں تسلی دے چکا تھا لیکن انھیں صبر ہی نہیں آرہا تھا .آخر ہار مانتے ہوے زعیم انھیں ہسپتال لے گیا .


جہاں رحمان صاحب سے تو وہ نہیں مل سکیں تھیں کیوں کہ وہ بیہوش تھے .البتہ جبیں بیگم ،رضا اور شفا سے مل لیں تھیں.


جبیں بیگم جب بی جان کے گلے لگیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور گزرے ماہ و سال کے تمام آنسو انکے کندھے پر سر رکھ کر بہا دئیے۔


شفا ! بیٹے گھر چلی جاؤ.ریسٹ کر لو.بی جان نے شفا کی سوجی سوجی آنکھیں دیکھ کر کہا


میں ٹھیک ہوں بی جان.شفا نے جواب دیا


اچھا جاؤ ! گھر جا کے نہا آؤ .بی جان نے پھر کہا تو جبیں بیگم نے بھی کہا


بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں بی جان شفا.


جاؤ زعیم ! شفا کو گھر چھوڑ آؤ .بی جان نے زعیم سے کہا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔


تو شفا بھی جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی.


وہ اسے اپنے ساتھ لئے پارکنگ میں گیا .اور دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے .


تمام راستہ شفا اپنے خیالات میں کھوئی رہی .


ابھی ایک دن پہلے تک سب ٹھیک تھا اور اب بابا ہوسپٹل میں تھے . اسکے ہینڈ سم سے بابا جن کو کبھی کبھار ہی نزلہ ہوتا تھا وہ ہارٹ اٹیک کے مریض بنے ہوسپٹل میں تھے.


بابا کا خیال آتے ہی اسکی آنکھیں آنسو سے بھر گئیں .


اچانک اسے لگا کہ گاڑی رک گئی ہے.وہ چونکی اور سر اٹھایا .


تو گاڑی ایک ولا کے سامنے کھڑی تھی.


شفا نے حیرت زدہ نظروں سے زعیم کو دیکھا تو وہ بولا


آغا جان کا گھر ہے.اتنے میں ملازم نے گیٹ کھول دیا تھا تو وہ گاڑی اندر لے گیا .


آپ مجھے یھاں کیوں لے کر آئیں ہیں ؟ شفا نے پوچھا


کیونکہ بی جان نے کہا تھا .کہتے ہوے زعیم نے اپنا سیٹ بیلٹ اتارا اور اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا .


چاروں نہ چار وہ بھی دروازہ کھول کر باہر نکلی.


زعیم اسے لئے گھر میں داخل ہوا .


ابھی شفا نے لاؤنج میں قدم رکھا ہی تھا کہ کہیں سے کشن آکر اسکے چہرے سے ٹکرایا تو وہ گڑ بڑا کر رہ گئی.


کبھی تو تم لوگ اوٹ پٹانگ حرکتوں سے باز آجایا کرو.زعیم نے کہا


جبکہ معیز اور صارم کے ساتھ آئی لڑکی کو غور سے دیکھ رہے تھے .


زعیم !! "آگئے تم "گُل جان بولتے ہوے اندر آئیں۔ لیکن زعیم کے ساتھ لڑکی کو دیکھ کر جملہ انکے منہ میں ہی رہ گیا .


شفا ابھی تک حیران و پریشان تھی اور زعیم کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ تعارف کرائے۔


اسکا تمام اعتماد اس وقت ختم ہو چکا تھا.


امی!یہ شفا ہے .جبیں چچی کی بیٹی.زعیم نے کہا


تو وہ آگے آئیں اور اسے اپنے ساتھ لگایا .


جاؤ خالدہ کو بلا کر لاؤ .دیکھو شفا آئی ہے.


تھوڑی دیر کے بعد وہ سب کے گھیرے میں تھی .


امی ! شرٹ پریس کریں .اور کھانے کے لئے کچھ بھجوائیں۔ میں شاور لینے جا رہا ہوں.زعیم نےکہا


شفا بیٹے ! تم نے بھی کچھ نہیں کھایا ہوگا .ٹھہرو .میں تمہارے لئے بھی لاتی ہو.گل جان نے کہا


نہیں تائی امی ! میں پہلے نہا لو.وہ جھجکتی ہوئی بولی تو انہوں نے افرا کو بولا


جاؤ ! بہن کو روم میں لے جاؤ تو افرا اسے لئے اپنے روم میں چلی گئی اور اسے اپنا ایک سوٹ نکال کر دیا اور کہا


جلدی سے نہا لو پھر کھانا کھاتے ہیں.


ہم نے بھی نہیں کھایا ! وہ نان اسٹاپ بولتی رہی.


عام دنوں میں شفا کے بولنے کی اسپیڈ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا .لیکن آج جیسے وہ بولنا بھولی ہوئی تھی.


وہ نہا کر باہر نکلی تو اسنے کمرے میں صارم ,معیز ,اور افرا کو دیکھا .


اصل میں ہمارا آپ سے بات کرنے کو دل کر رہا تھا.صارم نے کہا

یہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔ہم اصل میں آپ کا انٹر ویو لینے آئے ہیں۔معیز نے کہا تو وہ حیران نظروں سے انھیں دیکھنے لگی۔


اگنور کرو اگنور شفا ! افرا نے ناک چڑھاتے ہوے کہا


ساری باتیں چھوڑو۔ .شفا میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں . معیز دھڑام سے اسکے پاس بیٹھتے ہوے بولا .


اسے معیز بلکل رضا کی کاپی لگا.


تم لوگ جاؤ!ہمیں باتیں کرنے دو.افرا نے کہا


کیوں ؟ تمہیں کیوں باتیں کرنے دیں ؟معیز نے باقاعدہ آستینیں اوپر کرتے ہوے کہا


اتنے میں شمع بھابھی کھانے کی ٹرے لے کر آگئیں۔


میں نے سوچا یہی لے جاوں۔


بس ایسے ہی اچھا اچھا سوچا کریں.اور نالائق لوگوں سے دور رہا کریں.ورنہ اچھا اثر نہیں پڑے گا .


معیز نے قورمہ پلیٹ میں نکالتے ہوے کہا


معیز کے بچے! تم آنے دو بابا کو.میں ان سے تمہاری شکایت کرو گی.افرا نے کہا


شفا اس افرا سے دور رہنا !یہ پوری پھاپھا کٹنی ہے.صارم نے کہا


جس پر افرا نے اسکے بال نوچے.


بس چپ کر کے کھانا کھاؤ .بھابھی نے کہا


اور شفا سر جھکاے یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اتنا عرصۂ اتنے پیارے پیارے رشتوں سے کیوں دور رہی.پھر وہ بابا کے بارے میں سوچنے لگی تو اسے رونا آگیا۔


اسے سوچوں میں کھویا دیکھا تو بھابھی نے کہا


کھانا کھا کر تھوڑا سا ریسٹ کر لینا شفا !


جی ! جی بولتے بولتے اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تو وہ سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے.


کیا ہوا چندا ! کیوں رو رہی ہو ؟ شمع بھابھی نے اسکے پاس بیٹھتے ہوے پوچھا تو شفا نے نفی میں سر ہلا یا اور کہا


کچھ نہیں .


جس پر معیز نے کھا " لو افرا تمہاری بھی پارٹنر آگئی ہے بغیر وجہہ کے رونے والی ".


میں بغیر وجہہ کے نہیں روئی .اس دفعہ شفا نے اپنے پرانے روپ میں آتے ہوے کہا


اچھا تو پھر بتاؤ روئی کیوں ہو.؟ افراہ نے پوچھا


بابا ٹھیک ہو جایئں گے ناں؟ شفا نے رندھے ہوئے لہجے میں بولا


جس پر بھابھی نے اسے ساتھ لگاتے ہوے کہا


ہاں ! بہت جلد ٹھیک ہونگے .تم جلدی سے کھانا کھاؤ تب تک میں زعیم سے پوچھتی ہوں کہ اسے کچھ چاہیے تو نہیں .


وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئیں .


۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments