Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke epi 6

 Rishte chahat ke:

Rishte chahat ke

                                                        قسط 6                                                             

 

ا تھا کہ میں تمہیں برباد کرونگا تو واقعی وہ برباد کر گیا تھا .


مستقیم نے ماہ خانم کو بیوی تو بنایا تھا لیکن عزت نہ دی تھی . عورت کو محبّت سے زیادہ عزت کی طلب ہوتی ہے اور اسے مستقیم نے نہ محبّت دی تھی اور نہ عزت .


ماہ خانم اپنی اس تذلیل کو نہ بھولی تھی .اسکی وجہہ سے وہ اپنے گھر والوں سے کٹ گئی تھی .قصور وار نہ ہوتے ہوے بھی اسنے سزا بھگتی تھی. وہ آج بھی اپنے گھر والوں سے ملنے کے لئے تڑپتی تھی. ولیمے کے بعد سے آج تک کوئی بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا اور نہ کسی نے رابطہ کیا تھا. آغا جان نے اس سے کہا تھا کے تم ہمارے لئے مر گئی ہو تو انہوں نے اپنی کہی بات کو سچ ثابت کیا تھا. اور وہ واقعی مر گئی تھی . اسکا دل مر چکا تھا .روح اسکی گھائل تھی.صرف سانسوں کے چلنے کا مطلب ہی تو زندہ رہنا نہیں ہوتا ....


وہ کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچتی چلی جاتی تھی کے کیسے ہونگے سب ؟ کیا وہ ان سے مل سکے گی ؟ اسے اپنوں سے ملنے کی تڑپ بے چین رکھتی تھی .جب شزا پیدا ہوئی تھی تو وہ جی بھر کر روئی تھی.اسے بیٹی کے پیدا ہونے کا دکھ نہیں تھا اسے اسکے نصیب سے ڈر لگا تھا. اور مستقیم اعوان بھلے اچھا شوہر ہو یا نہ ہو لیکن وہ ایک شفیق باپ ثابت ہوا تھا .شزا کی آنکھ سے گرا ایک آنسوں اسے بے چین کر دیتا تھا اور تب ماہ خانم کو آغا جان یاد آتے تھے.وہ بھی تو ایسے ہی تھے لیکن وقت نے کیا ہیر پھیر کی تھی.وقت کا کام گزرنا ہوتا ہے وقت گزر گیا تھا لیکن وہ اپنوں کی دوری سے اور اپنے باپ کی دی ہوئی سزا کو بھگتتے بھگتتے نفسیاتی مریضہ بن چکی تھی.


جب سے شزا ہوئی تھی تب سے ہر دن مستقیم ماہ خانم سے اپنی کی ہوئی غلطی کی معافی مانگتا تھا .اسے اب ڈر لگتا تھا کے میری بیٹی کے آگے میرا کیا ہوا نہ آئے۔ لیکن ماہ خانم سب باتوں سے بے نیاز ہو چکی تھی ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شفا کو خدا حافظ کہ کر جب شزا واپس لاؤنج میں گئی تو اچانک فون کی بیل بجنے لگی.


ہیلو ! شزا نے فون اٹھایا


اسلام و علیکم ! کسی نے سلام کیا


وعلیکم سلام ! شزا نے جواب دیا


جی کون ؟ شزا نے پوچھا


یہ ماہ خانم کا نمبر ہے ؟ فون کرنے والے نے پوچھا


جی !اس نے جواب دیا


جواب ہاں کی صورت میں ملنے کے بعد فون کرنے والے نے جو خبر سنائی وہ شزا کے ہوش گم کر گئی.


"ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے .اس میں ایک مرد اور ایک خاتون تھیں.انکے ہی موبائل سے یہ نمبر ملا ہے جو لاسٹ ڈائل تھا .براہ مہربانی آپ اپنے گھر میں انفارم کریں.ہم انکو ہوسپٹل لے کے جا رہے ہیں." فون کرنے والے نے کہا


شزا کے ہاتھوں سے فون پھسلتا جا رہا تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے.کیا کہے.


آپ اس فون کو اپنے پاس رکھیں .میں اپنے بابا کو بتاتی ہوں .اسنے کہا اور فون بند کر دیا


کانپتے ہاتھوں سے اس نے مستقیم اعوان کو کال کی.


ہیلو ! مستقیم اعوان نے کال رسیو کی



شزا کیا ہوا بیٹا ! مستقیم اعوان جو اس وقت اپنے آفس میں ریلیکس انداز میں بیٹھے تھے شزا کی پریشان آواز سن کر سیدھے ہو بیٹھے .


بابا ! شزا سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا


کیا ہوا ہے ؟ مما ٹھیک ہیں ؟ گھر پر کچھ ہوا ہے کیا ؟ مستقیم اعوان نے پریشان ہوتے ھوے کہا


بابا !ابھی ایک کال آئ تھی .انہوں نے بتایا ہے کہ کار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اس میں ایک مرد اور ایک خاتون تھیں.اور انکے ہی موبائل سے انھیں ہمارا نمبر ملا ہے. شزا نے روتے ہوے کہا


نمبر کیا ہے ؟ مستقیم اعوان نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوے کہا


شزا نے انھیں نمبر بتایا .وہ نمبر ماہم بھابھی کا تھا .


مما کو بتایا ؟ انہوں نے شزا سے پوچھا


نہیں !شزا نے جواب دیا


ٹھیک کیا ہے.ابھی مما کو کچھ مت بتانا .اوکے ؟ مستقیم اعوان نے شزا کو تاکید کی اور فون بند کر دیا .


اور پھر خود ماہم بھابھی کے نمبر پر کال کرنے لگے.


ایک بار ,دو بار ,تین بار .


بیل جا رہی تھی لیکن کوئی رسیو نہیں کر رہا تھا. مستقیم اعوان سولی پر لٹکے جا رہے تھے .انھیں آج معلوم ہو رہا تھا کہ انتظار کرنا کتنا کٹھن ہے. بڑی مشکل سے کال رسیو ہوئی تو بتانے والے نے جو بتایا وہ انکے حواس گم کر گیا .


انکے پیارے اس وقت آئ ۔سی۔ یو میں تھے اور زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے.


مستقیم اعوان نے وہیں بیٹھے بیٹھے امریکا جانے والی فلائٹس کا پتا کرایا .اس وقت امریکا جانے کی کوئی فلائٹ دستیاب نہیں تھی.جو فلائٹ دستیاب تھی وہ منگل کی تھی اور وہ بھی چانس کی سیٹ تھی آخر انہوں نے ہار مانتے ہوے منگل کی ہی فلائٹ کا ٹکٹ لیا اور پھر کسی کو فون کرنے لگے .


ہیلو ! فون رسیو کر لیا گیا تھا .


میں مستقیم بول رہا ہوں ارحم ! مستقیم نے کہا


کیا بات ہے ؟ بڑے عرصے کے بعد کال کی ہے.ارحم نے مزاحیہ انداز میں کہا


ارحم مستقیم کا یونیورسٹی کے زمانے کا دوست تھا اور آج کل امریکا میں مقیم تھا .


مجھے تم سے کام ہے ارحم.مستقیم نے چھوٹتے ہی کہا اور ارحم کی بات سنے بنا بولے گیا


"ابھی گھر پر ماہم بھابھی کے نمبر سے کسی نے کال کی تھی اور بتایا ہے کہ ماہم بھابھی اور حسن بھائی کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے.میں تمہیں ہوسپٹل کا پتا دیتا ہوں.تم وہاں جا کر صورتحال معلوم کرو.میں منگل سے پہلے امریکا نہیں آسکتا .مستقیم اعوان نے اسے بتایا


تم پریشان نہ ہو.مجھے ایڈریس دو۔میں وہاں جا کر صورتحال بتاتا ہو.ارحم نے کہا


ایڈریس لکھو ! مستقیم نے کہا


ایڈریس لکھنے کے بعد ارحم نے مستقیم کو تسلی دے کر فون بند کر دیا .اور خود ہوسپٹل کے لئے روانہ ہوے .وہاں جا کر معلوم ہوا کے ماہم بھابھی اور حسن صاھب کی صورتحال بیحد نازک تھی.بچنے کے چانس بلکل بھی نہیں تھے.انہوں نے مستقیم اعوان کو پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا اور انھیں جلد آنے کی تاکید کی.


مستقیم اعوان کے لئے وہ دو دن قیامت کے تھے.انہوں نے ماہ خانم کو ایکسیڈنٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا اور شزا کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا تھا کہ اب سب ٹھیک ہے.لیکن خود انھیں لگ رہا تھا کہ وہ انگاروں پر زندگی گزار رہیں ہیں.آخر الله الله کر کے منگل آیا اور وہ امریکا کے لئے روانہ ہوے.


ایئر پورٹ پر انھیں ارحم صاھب نے رسیو کیا .مستقیم اعوان ارحم صاھب کے ساتھ وہیں سے ہوسپٹل روانہ ہوے.وہاں جا کر ڈاکٹر سے ملے تو ڈاکٹر نے انھیں دعا کرنے کا کہا .


وہ آئ۔سی ۔یو کے باہر کھڑے تھے کہ انھیں اچانک انوشہ کا خیال آیا !


انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے انوشہ کو کال کی جو تھوڑی دیر کے بعد رسیو کر لی گئی .


اسلام و علیکم چچا ! انوشہ نے کہا


وعلیکم سلام بیٹا ! مستقیم صاحب نے جواب دیا


آپ کیسی ہو بیٹا ؟ مستقیم اعوان نے پوچھا


میں ٹھیک ہوں.آپ کیسے ہیں ؟ انوشہ نے کہا


میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا.آپ سے ایک کام تھا ! اپنے ہوسٹل کا ایڈریس دو .میں یھاں آیا ہوا ہوں تو میں نے سوچا میں آپ سے بھی مل لو.مستقیم اعوان نے اسے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتانا ٹھیک نہ سمجھا.


اچھا ! یہ کہہ کر اسنے اپنے ہوسٹل کا ایڈریس انھیں لکھوایا .


ایڈریس لکھنے کے بعد مستقیم صاحب نے کہا ! چلو پھر میں آپکو لینے آتا ہوں.


ابھی کچھ دن پہلے ہی تو میں گھر سے ہو کر آئ ہوں.انوشہ نے ہنستے ہوے کہا


چلو ! خدا حافظ.میں آپکو لینے ہوسٹل آرہا ہوں.باقی باتیں یھاں آ کر کر لینا.


اوکے ! خدا حافظ .یہ کہہ کر انوشہ نے بھی فون بند کر دیا .


انوشہ حسن اعوان اور ماہم بھابھی کی اکلوتی اولاد تھی جو پڑھائی کے سلسلے میں ہوسٹل میں مقیم تھی.


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔


تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہ اسکے ہوسٹل میں تھے اور اب اسے لے کر واپس جا رہے تھے.


چچا ! کیا ہوا ہے ؟ انوشہ نے پوچھا


کچھ نہیں بیٹے ! انہوں نے جواب دیا


جب گاڑی انہوں نے ہوسپٹل کے سامنے روکی تو انوشہ نے الجھے الجھے انداز میں انھیں دیکھا اور کہا


یھاں کیوں آئے ہیں ؟


تم آؤ تو سہی ! انہوں نے اسے بازو سے پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالا اور اسے لئے ہوسپٹل کے اندر گئے.


وہاں جا کر ابھی وہ آئی سی یو کے سامنے کھڑے ہوے ہی تھے کہ انوشہ نے پھر پوچھا


چچا یھاں کیوں آئے ہیں ؟ وہ اسکو جواب دینے ہی والے تھے کہ ایک ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر نکلا


وہ فورن سے ڈاکٹر کے پاس گئے اور کہا


میرے بھائی کیسے ہیں ؟ تو ڈاکٹر نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا


ھی از نو مور ۔ ڈاکٹر تو یہ کہہ کر انکا شانہ تھپتھپا کر آگے چلا گیا لیکن وہ اپنی جگہہ سن کھڑے رہ گئے .جبکہ انوشہ وہی بیہوش ہو چکی تھی.


۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


انوشہ کو جب ہوش آیا تو اسنے خود کو بیڈ پر لیٹے دیکھا .


ہوش میں آتے ہی اسے ڈاکٹر کے الفاظ یاد آئے۔


ائی ایم سوری۔


ھی از نو مور ۔


پھر اسنے مستقیم چچا کو اپنے قریب آتے دیکھا .


اسے اپنے ہینڈ سم سے چچا ان چند گھنٹوں میں صدیوں کے بوڑھے دکھائی دئے۔


تب تک وہ اسکے قریب پوھنچ چکے تھے.


انوشہ بیٹے ! انہوں نے اسے پکارا تو انوشہ نے خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھا .


"وہ یھاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی.وہ اپنے بابا کے مرنے کی خبر نہیں سننا چاہتی تھی".


بیٹا ! ہمیں پاکستان جانا ہے.مستقیم اعوان نے کہا


اسکا دل کیا وہ بولے کہ" مجھے نہیں جانا " .لیکن اسکی زبان نے اسکا ساتھ نہ دیا .


مجھے انکی ڈیتھ بوڈیز لے کر جانی ہیں.مستقیم اعوان نے پھر کہا


انوشہ کا دل کیا کہ وہ بین کرے لیکن وہ رونا بھول چکی تھی.وہ ٹکر ٹکر انھیں دیکھتی رہی.


"انوشہ تم میری بہادر بیٹی ہو نا ں ؟ بچے میرا ساتھ دو.مجھے مشکل میں مت ڈالو.ہمّت کرو.


مستقیم اعوان نے اس دفعہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوے کہا تو وہ بلک بلک کر رونے لگ گئی.


اسکا نقصان نہ قابل تلافی تھا .اسے لگ رہا تھا کہ اب وقت آگے نہیں گزرے گا .


ہوسپٹل سے ایئر پورٹ اور ایئر پورٹ سے پاکستان وہ کیسے پہنچی ؟ اسے کچھ معلوم نہیں ہوا تھا.


اسے جو جہاں لے جا رہا تھا وہ چلتی جا رہی تھی.


جب وہ گھر پہنچی تو مختلف لوگوں نے اسے گلے لگایا .کچھ کو وہ جانتی تھی اور کچھ کو نہیں جانتی تھی .وہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھی کہ اسکے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے ؟ اسکی مما بابا بھی اسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں ؟ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو قبول نہیں کر پا رہی تھی.


اسے رہ رہ کر آخری دفعہ کا منظر بار بار یاد آرہا تھا .


جب بابا نے اسے کچھ دن اور رکنے کا کہا تھا لیکن وہ اسٹڈی کے لاس کی وجہ سے واپس چلی گئی تھی.اگر اسے معلوم ہوتا کہ یہ اس سے بابا کی آخری ملاقات ہے تو وہ کبھی واپس نا جاتی.پچھتاوا سا پچھتاوا تھا ."


ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ ہانیہ چچی اسکے قریب آئیں اور اسے اپنے ساتھ میتوں کے قریب لے جانے لگیں.


وہ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہ رہی تھی لیکن اسے لگ رہا تھا کہ اسکے ہاتھوں میں جان نہیں رہی.


اتنے میں وہ لوگ میتوں کے قریب پہنچ چکے تھے .


پھر کسی نے سامنے پڑی میّتوں میں سے ایک پر سے چادر ہٹائی تو اسنے آنکھیں بند کر لیں.


انوشہ ! آنکھیں کھولو بیٹا ! مما بابا کو آخری دفعہ دیکھ لو.پھر دوبارہ ان چہروں کو نہیں دیکھ پاؤ گی.ہانیہ چچی نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوے کہا


مجھے نہیں دیکھنا ! انوشہ نے کہا


اپنے بابا کو آخری سفر پر جانے سے پہلے دیکھ لو چندا .اس دفعہ اسے ماہ خانم چچی نے کہا


اسنے آنکھیں کھولیں تو کوئی کفن کو منہ سے ہٹا رہا تھا اور انوشہ کا دل کر رہا تھا کے وہ کہیں چھپ جائے.


پھر اسنے اپنے باپ کا چہرہ دیکھا .جہاں بلکل خاموشی تھی.جن ہونٹوں کو وہ ہمیشہ بولتے دیکھتی رہی تھی آج وہ ہونٹ خاموش تھے.


پھر اسکی نظر ساتھ والی میت کی طرف اٹھی جو اب بھی چادر سے ڈھکی تھی .اسکے نیچے اسکی پیاری سی مما تھیں.ابھی وہ دیکھ ہی رہی تھی کہ اسنے اپنے چچاؤں اور دادا کے ساتھ کچھ لوگوں کو آتے دیکھا جن کو دیکھ کر لوگ اونچی آواز میں رونے لگے.


کسی نے کلمہ شہادت کہا اور اسکی مما کی میّت کو اٹھانے لگے.وہ کھلی آنکھوں سے اپنی مما کی میّت کو جاتا دیکھ رہی تھی.ہانیہ بھابھی نے اسے اپنے ساتھ لگھایا ہوا تھا .


پھر جیسے ہی اسکے بابا کی میّت کی ڈولی اٹھی وہ وہیں بیہوش ہو کر گر گئی.


۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔


جاری ہے

Post a Comment

0 Comments