Ticker

6/recent/ticker-posts

Rishte chahat ke epi 5

 Rishte chahat ke

Rishte chahat ke

                                     قسط 5                                   

آغا جان ہسپتال میں ہیں ماہ خانم.اور رحمان بھائی کا کچھ علم نہیں .آغا جان نے انھیں گھر سے نکال دیا تھا.خالدہ بیگم نے بتایا.

ماہ خانم سنتے ہی رونا شروع ہو گئی.

 

بھابھی میری کوئی غلطی نہیں ہے.ماہ خانم نے کہا 

مجھے پتا ہے میری جان کے تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے.سب نصیب کا پھیر ہے.حسینہ بیگم نے کہا 

اب ہی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ روزینہ بیگم ,ماہم بھابھی اور ہانیہ بھابھی کے ساتھ ادھر آئیں۔

آپ لوگ اتنی دیر سے آئے!ماہ خانم بہت دیر سے آپ لوگوں کا انتظار کر رہی تھی.روزینہ بیگم نے کہا 

تو خالدہ بیگم نے کہا بس نکلتے نکلتے دیر ہو گئی.

پھر وہ دونوں ماہ خانم سے باتیں کرنے لگ گئیں.تھوڑی دیر کے بعد حسینہ بیگم نے کہا

اچھا! اب ہم لوگ چلتے ہیں تو روزینہ بیگم نے کہا 

 

آپ لوگوں نے تو کچھ کھایا پیا ہی نہیں ہے.

بہن آپ کو تو علم ہے شاہ صاھب نے کتنی مشکل سے آنے دیا ہے.ماہ خانم کو دیکھ لیا ہے.الله کا شکر ہے کہ یہ ٹھیک ہے.آپ اسکا بیحد خیال رکھیے گا.ہم نے اسے شہزادی بنا کر رکھا تھا ہمیں کیا معلوم تھا کہ قسمت میں یہ سب لکھا ہے .کوئی غلطی اس سے ہو جائے تو معاف کیجئے گا.حسینہ بیگم نے کہا تو روزینہ بیگم نے انکا ہاتھ پکڑ کر دبایا.

بےفکر رہیں .ماہ خانم میری بہو نہیں بیٹی ہے.

انکی بات سن کر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیں اور ماہ خانم سے گلے ملیں .

آپ لوگ اتنی جلدی جا رہے ہیں .ماہ خانم نے شکوہ کیا تو حسینہ بیگم نے کہا

تمہیں اپنے بھائی کا پتا تو ہے ماہ.اپنا خیال رکھنا اور پریشان مت ہونا.حسینہ اور خالدہ بیگم اسے ڈھیر

 

ساری تسلیاں دیکر چلی گئیں ۔

ماہ خانم جو سوچ رہی تھی کہ بی جان آئیں گی تو وہ انکو اپنا دکھ بتاے گی لیکن آغا جان کی اتنی سختی دیکھ کر اسے بیحد دکھ ہوا.اسے اس وقت سب چیزوں سے نفرت ہو رہی تھی اور سب سے زیادہ خود سے اسے نفرت ہو رہی تھی.ماہم بھابھی جو اسکے پاس بیٹھی تھیں اسکی پیلی رنگت دیکھ کر پریشان ہوگئیں اور جا کر روزینہ بیگم کو بلا لائیں۔

آنٹی !میری طبیعت خراب ہو رہی ہے .مجھے روم میں جانا ہے .ماہ خانم نے روتے ہوے کہا 

ماہم جاؤ !اسے روم میں لے جاؤ .روزینہ بیگم نے اسکی حالت دیکھ کر کہا 

وہ بلکل پیلی ہو رہی تھی .ماہم بھابھی اسے لے کر کمرے میں چلی گئیں .

تم بیٹھو !میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو لاتی ہوں .ماہم بھابھی نے کہا 

 

نہیں بھابھی !ماہ خانم نے کہا 

اچھا دودھ لے کر آتی ہو .وہ پی لو تم .ماہم بھابھی نے کہا 

بھابھی !میں نہیں پی پاونگی۔ میرا دل نہیں کر رہا . ماہ خانم نے کہا 

پاگل ہو تم.دل کیوں نہیں کر رہا ؟ ماہم نے کہا اور اسکے لئے دودھ لانے چلی گئیں .

وہ نیم گرم دودھ لے کر آئیں تو وہ وہی بیٹھی سو چکی تھی.

انہوں نے ماہ خانم کو اٹھایا اور زبردستی دودھ پلایا ۔ پھر اسے آرام کرنے کا کہ کر وہ نیچے لان میں چلی

 

گئیں . جہاں تقریب زور و شور سے جاری تھی.

انکے جانے کے بعد پہلےماہ خانم نے اپنا زیور اتارا .پھر بیڈ سے نیچے اتری اور الماری سے جا کر اپنا ایک سادہ سا سوٹ نکالا اور نہانے چلی گئی.نہا کر واپس آی تو پہلے بال سکھا ئے اور پھر سو گئی..پچھلے دو دن سے اسکی زندگی میں جو کچھ ہو رہا تھا اس سب نے اسکے اعصاب بہت کمزور کر دیے تھے .

ہانیہ اور ماہم بھابھی اسکی طبیعت کا پوچھنے آئیں تو وہ گہری نیند سو رہی تھی انہوں نے اسے اٹھانا مناسب 

نہیں سمجھا اور کمرے سے باہر نکل آئیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستقیم جب اندر آیا تو اسنے اپنے بیڈ پر ماہ خانم کو سوتا پایا .

اسے اپنے بیڈ پر دیکھ کر اسے ایک دفعہ پھر انسہ یاد آی جسکو کتنی ہی دفعہ تصور کی آنکھ سے وہ اپنے روم میں دیکھ چکا تھا. اسکا دل اتنا گھبرایا کہ وہ ٹیرس پر چلا گیا . کافی دیر ٹیرس پر کھڑے ہو کر سگرٹ پر سگرٹ پھونکنے کے باوجود جب اسے سکوں نہ آیا تو کمرے سے گاڑی کی چابیاں اٹھا کر وہ کمرے سے باہر نکلا . اسکا کمرہ بالائی منزل پر تھا . اسے وہاں کوئی نہ دکھائی دیا تو وہ جلدی جلدی سیڑھیاں اتر گیا.لاؤنج بھی خالی تھا سب سونے جا چکے تھے اسلئے وہ آرام سے باہر چلا گیا.

پوری رات آوارہ گردی کرنے بعد صبح اذانوں کے قریب وہ گھر واپس آیا .ماہ خانم اب بھی سو رہی تھی .اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر صوفے پر لیٹ گیا.

پوری رات کی آوارہ گردی کے بعد اب تھکن اس کے پورے جسم پر حاوی تھی.جسم درد سے بے حال تھا اور روح دکھ سے.سر عجیب بھاری ہو رہا تھا . تمام فنکشن میں اسنے خود پر قابو کئے رکھا تھا مگر اب سونا چاہتا تھا لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی .وہ اٹھا دراز سے سلیپنگ پلز نکالیں اور پانی کے

 

ساتھ نگل گیا .تھوڑی دیر کے بعد وہ نیند کی گہرایوں میں کھو گیا .

پہلی پسند کھوئی تھی اسنے . کچی عمر کا پہلا خواب ٹوٹ کر بکھر چکا تھا اور اسکی کرچیاں اسکی آنکھوں میں کھب رہیں تھیں . اذیت تو ہونی تھی۔لیکن پچھتاوا تو یہ تھا کہ اسنے اپنی بیوقوفی کے ہاتھوں اپنا پہلا خواب کھویا تھا۔تکلیف سی تکلیف تھی لیکن مداوا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ماہ خانم کی آنکھ کھلی تو پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے.پھر دماغ جب سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو اسے یاد آیا کہ وہ کدھر ہے اور کس کے روم میں ہے.

یہ خیال آتے ہی وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی.اسنے چاروں طرف نذر ڈالی مگر اسے کمرے میں مستقیم دکھائی نہ دیا ۔

وہ بیڈ سے اتری اور اپنے کپڑے الماری سے نکال کر واش روم میں چلی گئی.کافی دیر شاور لینے کے بعد جب وہ کمرے میں آی تو اسے صوفے پر مستقیم بیٹھا دکھائی دیا.

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی جبکہ مستقیم الماری سے اپنے کپڑے لے کر واش روم میں چلا گیا . وہ دونوں ایک دوسرے کو ایسے نظر انداز کر رہے تھے جیسے کمرے میں دوسرا انسان موجود ہی نہ ہو.

 

ماہ خانم نے بالوں کو ہئیر ڈرائر سے ابھی سکھایا ہی تھا کہ دروازے پر دستک کی آواز آی ۔ اسنے جاکر دروازہ کھولا تو سامنے ماہم بھابھی اور ہانیہ بھابھی کھڑی تھیں .

ماہ خانم نے ان دونوں کو سلام کیا .

وعلیکم سلام !انہوں نے جواب دیا.

 

تم تیار نہیں ہوئی ؟ ہانیہ بھابھی نے اسے سادہ سے سوٹ میں دیکھ کر کہا 

ہو گئی ہو بھابھی.ماہ خانم نے اپنی فطری سادگی سے کہا تو ہانیہ بھابھی ہنس دی.

پاگل ایسے تھوڑی تیار ہوتے ہیں. آؤ میں تمہارا میک اپ کروں.ہانیہ بھابھی نے کہا 

نہیں بھابھی! میں ایسے ہی ٹھیک ہوں.ماہ خانم نے کہا

 

ہانیہ بھابھی نے سنی ان سنی کرتے ہوے اسے ڈریسنگ چیئر پر بٹھایا اور خود اسکا میک اپ کرنے لگیں.

ہلکا ہلکا سا میک اپ کر کے جب وہ ہٹیں تو وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی.

چلو آؤ !نیچے چلتے ہیں.ماہم بھابھی نے کہا 

اور اسے لے کر وہ دونوں نیچے چلی گئیں جہاں روزینہ بیگم اور محتشم اعوان اپنے دونوں بڑے بیٹوں کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیے .

وہ دونوں اسے لئے آگے بڑھیں .ڈائننگ ٹیبل کے پاس پہنچ کر ماہ خانم نے سب کو مشترکہ سلام کیا تو محتشم اعوان کے ساتھ اسکے دونوں جیٹھوں نے بھی جواب دیا.

روزینہ بیگم نے اٹھ کر پیار کیا اور کہا

 

آؤ بیٹھو!بلکہ تم دونوں بھی آؤ .ماہم اور ہانیہ بھابھی کو روزینہ بیگم نے کہا 

جی مما ! بس جوس لے آئیں۔ماہم بھابھی نے کہا 

مستقیم کہاں ہے ؟ روزینہ بیگم نے پوچھا 

وہ فریش ہو رہا ہے.ماہم بھابھی نے جواب دیا.

 

اتنے میں محتشم اعوان اور مستقیم کے دونوں بھائی ناشتہ کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔

روزینہ بیگم کی نظر ماہ خانم کی پلیٹ پر پڑی جو ابھی تک خالی تھی تو انہوں نے سینڈوچ اٹھا کر اسکی پلیٹ میں رکھے ۔

جلدی کھاو یہ۔مجھے ماہم نے بتایا تھا کہ تم نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا۔روزینہ بیگم نے کہا

اتنے میں ماہم کے شوہر حسن اعوان کی اواز سنائی دی تو روزینہ بیگم نے کہا

جاو ماہم ! اسے دیکھو وہ کیا کہ رہا ہے؟ روزینہ بیگم نے کہا

 

جی مما ! ماہم بھابھی نے کہا اور اپنے کمرے میں چلیں گئیں ۔

جوس لوگی؟ روزینہ بیگم نے ماہ خانم سے پوچھا

نہیں ! ماہ خانم نے نفی میں سر ہلایا

اچھا دودھ لے لو پھر۔روزینہ بیگم نے کہا

نہیں آنٹی ! ماہ خانم نے کہا 

 

کیا بات ہے ماہ خانم ؟ اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو ؟ 

دیکھو ! مستقیم کے پاپا تمہیں بہو نہیں بیٹی مانتے ہیں اسلئے مجھے مما کہو . روزینہ بیگم ابھی بول ہی رہیں تھیں کہ انکی نظر مستقیم پر پڑی جو سیڑھیوں سے اتر رہا تھا.

مستقیم آکر ناشتہ کرو ! روزینہ بیگم نے کہا

 

میرا موڈ نہیں ہے مما ! یہ کہ کر وہ یہ جا وہ جا . روزینہ بیگم اسے دیکھتی رہ گئیں .

اور ماہ خانم سر جھکاے اپنی لکیروں کو دیکھتی رہی . 

آگے نجانے کیا ہونا تھا وہ اپنی لکیروں کو دیکھتی سوچ رہی تھی.

 

اسی وقت فون کی گھنٹی بجی تو روزینہ بیگم فون سننے چلی گئیں .وہ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر ناشتے کے برتن لے کر کچن میں چلی گئی جہاں ہانیہ بھابھی برتن دھو رہی تھیں .

تم کیوں لے کر آی ہو ؟ انہوں نے ماہ خانم کے ہاتھوں میں برتن دیکھ کر کہا

میں فارغ تھی تو لے آیی .اسنے جواب دیا 

تم مجھے آواز دے دیتی یا کام والی کو بول دیتی. ہانیہ بھابھی نے کہا 

وہ جوابا خاموش رہی اور پھر کہا 

 

بھابھی میں ہیلپ کراوں؟ 

کچن میں آتی روزینہ بیگم نے ماہ خانم کا جملہ سن لیا تھا تو وہ بولیں .

بے فکر رہو۔ تم سے بھی کروائیں گے کام۔ لیکن ابھی نہیں .ابھی تو ایک دن ہوا ہے اور ایک دن کی دلہن سے ہم کام کراتے کیا اچھے لگیں گے ؟ روزینہ بیگم نے کہا 

 

ویسے بھی میں اور ماہم بھابھی کچھ دنوں کے بعد پاکستان سے چلیں جائیں گے تو پھر تمنے ہی سب سنبھالنا ہے. ہانیہ بھابھی نے ہنستے ہوے کہا 

ہانیہ بھابھی کینیڈا میں رہائش پذیر تھیں جب کہ ماہم بھابھی امریکا میں.آج کل یہ لوگ اپنے ساس سسر سے ملنے آئی ہوئی تھیں.

 

اتنے میں ماہم بھابھی ہانیہ کے بیٹے شہام کو اٹھاے چلی آئیں۔

ہانیہ یہ کب سے روئے جا رہا ہے تم پہلےاسے فیڈ کراؤ . ماہم بھابھی نے کہا تو ہانیہ بھابھی شہام کو فیڈ کرانے چلی گئیں .

جبکہ ماہم بھابھی ناشتے کے برتن دھونے لگیں.

 

ماہ خانم تم جا کر ریسٹ کرو کل رات کو بھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی. ماہم نے کہا 

میں اب ٹھیک ہوں.ماہ خانم نے کہا 

تو ماہ خانم نے کام روک کر ایک نظر اسے دیکھا .انھیں وہ پیلی پیلی سی لگی.

انہوں نے آخری ڈش دھوئی اور اسے کہا 

 

چلو لاونج میں بیٹھتے ہیں اور ساتھ میں ناشتہ کرتے ہیں.ابھی ہانیہ بھی آجاے گی.تم نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا ناشتے میں.وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئیں۔

حمیدہ !! ہمارے لئے ناشتہ لے کر آو۔

انہوں نے کام والی کو آواز دی اور خود اسے لئے لاؤنج کی طرف بڑھ گئیں .

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مستقیم اس وقت انسہ کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا انسہ کا انتظار کر رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد وہ اندر آیی.

اسے اندر آتا دیکھا تو مستقیم اٹھ کھڑا ہوا .

اسلام و علیکم ! انسہ نے کہا 

وعلیکم سلام ! مستقیم نے جواب دیا 

 

کیا بات ہے آج بڑے بڑے لوگ ہمارے گھر آئیں ہیں .انسہ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے ہنس کر کہا 

اصل میں مجھے کچھ بتانا تھا اسلئے آیا ہو.مستقیم نے کہا

کیا بتانا ہے ؟ انسہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا 

مستقیم نے ایک نظر اسکے چہرے پر ڈالی اور پھر الفاظ کو ترتیب دینے لگا.

کل میرا ولیمہ تھا.اسنے سپاٹ لہجے میں اسے بتایا 

 

کیا ؟ انسہ بیٹھے سے اٹھ کھڑی ہوئی .

تم مذاق کر رہے ہو ناں؟ وہ مستقیم کے سامنے جا کھڑی ہوئی.

نہیں! مستقیم نے ادھر ادھر دیکھتے ہوے کہا 

سچ بول رہا ہوں.مستقیم نے کہا 

انسہ شاک کی کیفیت میں کھڑی اسے دیکھتی رہی .

 

کچھ بولو ! مستقیم نے اسے کہا 

وہ خاموش کھڑی اسے دیکھتی رہی۔اور پھر کہا 

آپ کو پتا ہے مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ آپ مجھے چھوڑ جائیں گے اور آج میرا شک سچ ثابت ہوا .انسہ نے روتے ہوے کہا 

 

تم یقین کرو میں مجبور تھا .میں پتا نہیں کیسے غصّے اور ضد میں غلطی کر بیٹھا اور یہ غلطی مجھے لے ڈوبی. مستقیم نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوے کہا

انسہ اسکے سامنے سے ہٹ گئی اور کہا 

آپ جائیں یہاں سے ! 

میری بات سنو ! مستقیم نے کہا 

 

آپ جائیں یھاں سے !اس دفع وہ چیختے ہوے بولی تو مستقیم تھکے قدموں سے اٹھ کھڑا ہوا .

وہ جب ڈرائنگ روم کے دروازے پر پہنچا تواسے انسہ کی آواز آیی.

آیندہ کے بعد یھاں مت آئیے گا .

 

مستقیم نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو اجڑی اجڑی کھڑی تھی.

وہ اپنے آپکو گھسیٹتا ہوا اسکے گھر سے نکل گیا اور اسکی زندگی سے بھی.

محبّت دور کھڑی بین کر رہی تھی .آج دو اور لوگوں کو ہجر نصیب ہوا تھا.

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پتا نہیں اس زعیم کو اپنے گھرمیں سکون کیوں نہیں ہے جب دیکھو ادھر آیا ہوتا ہے. شفا نے برتن دھوتے ہوئے خود سے کہا 

رضا جو ابھی پانی پینے کچن میں آیا تھا شفا کی بات سن کر ہنسنے لگ گیا .

آپی ! آپ اپنے زرین اقوال دل میں بولا کریں .کسی دن مما نے سن لیا تو آپکی بینڈ بج جانی ہے.رضا نے اسے مفت مشورے سے نوازا تو جواب میں شفا نے اسے گھورا اور کہا 

 

اگر تم دو منٹ کے اندر اندر باہر نہ گئے تو پھر دیکھنا تم.

اچھا اچھا جاتا ہوں.یہ تو بتائیں کہ آپ ان سے چڑتی کیوں ہیں ؟ 

شفا کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی کہ بتاے کہ نہیں پھر بولی

" تمنے ایک چیز نوٹ کی ہے رضا ؟" یہ کہتے ہوے اسکی آواز بہت دھیمی تھی.

کیا بات ؟ رضا نے اسکا سنجیدہ چہرہ دیکھا 

 

بابا زعیم بھائی سے بات تو نہیں کرتے لیکن جب جب زعیم بھائی یھاں آتے ہیں بابا خوش ہوتے ہیں.بابا کا چہرہ بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ خوش ہیں۔اتنے خوش تو وہ کبھی ہمارے لئے بھی نہیں ہوے.تو بس اسلئے مجھے زعیم بھائی سے چڑ ہوتی ہے.میری فرینڈز ہیں انکے بابا ان سے اتنا کلوز ہیں.اور ہمارے بابا تو ہمارے سامنے مسکراتے بھی نہیں.شفا نے سوچتے ہوئےرضا کو کہا 

رضا خاموشی سے اسکی باتیں سنتا رہا جب وہ بات ختم کر چکی تو بولا 

 

آپی ایسا کچھ نہیں ہے.بابا کی طبعیت ہی سنجیدہ ہے.آپ ایسے ہی یہ سب سوچ رہی ہیں ..اسے تو رضا نے یہ کہ کے چپ کرا دیا تھا لیکن خود وہ شفا کی باتیں سوچ رہا تھاکہ آخر کیا بات تھی کہ بابا زعیم بھائی کے آنے پر خوش بھی ہوتے تھے مگر ان سے بات نہیں کرتے تھے۔پھر اگر زعیم بھائی انکے کزن تھے تو وہ لوگ کبھی انکے گھر کیوں نہیں گئے؟اسے اور شفا کو مما نے اتنا بتایا تھا کہ زعیم بھائ انکے تایا زاد بھائی ہیں۔

 

اسے یاد تھا جب زعیم پہلی دفعہ انکے گھر آیا تھا تو شفا نےمما سے پوچھا تھا کہ انکا ددھیال کہاں ہے؟اور اگر زعیم بھائی یھاں آسکتے ہیں تو پھر تایا امی اور تایا ابو کیوں نہیں آتےتو مما نے سختی سے اسے ٹوک دیا تھااور پھر یہی بات جب شفا نے بابا سے پوچھی تھی تو بابا نے تھپڑ مارا تھا ۔اسکے بعد ان دونوں میں کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ لوگ اپنے ددھیال کے بارے میں مما بابا سے پوچھیں۔۔۔۔

لیکن بات سوچنے کی تھی کہ اگر انکاددھیال ہے تو کہاں ہے؟وہ لوگ کیوں اکیلے رہتے ہیں؟کیوں ان سے کوئی ملنے نہیں آتا؟کیوں وہ لوگ رشتے داروں سے کٹ کر رہتے ہیں؟.ابھی وہ سوچ میں ہی گم تھا کہ اسکے موبائل پر کال آئی اور وہ بات کرتے کرتے کچن سے باہر چلا گیا .

۔۔۔۔۔ *۔۔۔۔۔۔۔

 

پورا دن آوارہ گردی کرنے کے بعد جب رات میں مستقیم گھر آیا تو اسے لاؤنج میں کوئی دکھائی نہ دیا وہ اوپر اپنے کمرے مے گیا تو اسے ماہ خانم بیڈ پر سوتی نظر آیی .اسے دیکھ کر اسے انسہ کی باتیں یاد آنے لگیں.امستقیم کو انسہ کا ٹوٹا بکھرا لہجہ یاد آیا تو وہ آگے بڑھا اور ماہ خانم کا بازو دبوچا وہ گہری نیند سے جاگی.

 

بہت شوق ہے ناں تمہیں میری زندگی برباد کرنے کا.آج میں تمہیں بتاتا ہوںکہ برباد کرنا کسے کہتے ہیں یہ کہہ کر اسنے لیمپ بجھایا 

۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے


Post a Comment

0 Comments