Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyaar epi 10

  Ajab Pyaar ki Shayri:

Ajab pyaar ki shayri

    قسط 10

"انا کی بھی کو ئی حد ہوتی ہے۔کہہ دے کی نہیں لینی میں نے طلاق۔لیکن ناں جی۔اوروں کے سامنے  تو بولا جاتا  ہے کہ میں نہیں لونگی طلاق ۔اور حقیقت یہ ہے"۔اسنے سوچتے ہوئے سگریٹ کا کش لیا  تب ہی اسکے موبائل پر زائرہ کا  میسج آیا تو اسنے  میسج پڑھا

"جس پر لکھا تھا کہ کال می"۔ میسج پڑھ کے زریاب نے اسے کال 

کی۔

دوسری ہی بیل پر اسنے کال ریسیو کرلی  لیکن  ہیلو ناں بولا۔

آخر زریاب نے  ہیلو کہا تو دوسری طرف زائرہ نے کہا

"شکر ہے تم ہو۔ورنہ میں تو سمجھی تھی  کہ بھا بھی سے پھر کلاس ہونی ہے میری" تو وہ بے ساختہ مسکرایا۔

"کیا ہوا ؟ سب ٹھیک ہے ؟"زریاب نے مسکراتے ہوئے کہا

"نہیں۔"اسنے ایک لفظی جواب دیا تو زریاب نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا

"کیا ہوا ہے ؟  "تووہ بولی

"تمھارا بدتمیز دوست مجھ سے ناراض ہے اور مجھے ہر جگہ سے بلاک کیا ہوا ہے۔ٹھیک ہے مجھے اس پر اعتماد کرنا چاہیے تھا لیکن وہ میری بات  تو سنے ایک دفعہ"۔وہ جوش سے بولتے بولتے ایک دم روہانسی ہوئی  تو زریاب نے کہا

"تم آمنے سامنے بیٹھ  کر اس سے بات کرو۔یہ مسئلہ کالوں پر حل نہیں ہونے والا"۔اسکی بات سن کر وہ ہنستے  ہوئے بولی

"سیدھا بولو ناں کہ بیوی سے ڈر گئے ہو۔ویسے زریاب کیسا لگے گا جب زرتاشہ بھابھی  تم پر نظر رکھیں گیں"۔تو وہ ہنسا اور پھر کہا

"ویل  وہ  ویسے بھی مجھ پر نظر رکھتی ہے ۔۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"تو وہ حیران ہوتے ہوئے بولی

"تمہیں غصہ نہیں آتا کہ کوئی کیوں تمھاری روٹین کو یاد کیا ہوا ہے اور تمھارے پل پل کا حساب رکھتا ہے "تو وہ بولا

"نہیں غصہ کیوں آئے گا؟ مجھے اچھا لگتا ہے کہ اسے میری فکر ہے۔اور صرف میں اسکے  دماغ میں گھومتا ہوں"۔زریاب نے مزے سے بتایا

"مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ کیا تم وہی زریاب ہو جو لڑکیوں سے بھاگتے تھے"۔تو آگے سے برجستہ بولا

"یہ بیوی  ہے ناں۔اسلئے میں اس سے نہیں بھاگتا "۔تو زائرہ ہنستے ہوئے بولی

"او بھائی تم پکے عاشق ہو گئے ہو"۔۔تووہ  قہقہہہ لگا کر ہنس دیا۔اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کال بند کر دی۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحب  باہرایک آدمی بہت دیر سے بیٹھا ہے۔اور اپ سے ملنا چاہتا ہے۔ابھی وہ آفس میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ  کانسٹیبل نے آکر اسے بتایا تو وہ بولا

"بھیجو۔"کہہ کر وہ خود پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔

جب وہ شخص اندر آیا تو وہ خوف بخود کھڑا ہو گیا اور کہا

"آئیں بیٹھیں"۔تو وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔

کچھ دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے خاموش بیٹھے رہے اور پھر صابر صاحب بولے۔

"میں آپکا بہت مشکور ہونکہ آپ نے میری بیٹی کو تب اپنا  نام دیا جب کوئی بھی اسے اپنا نہیں رہا تھا۔اور میں خود اسے اپنے گھر میں نہیں رکھنا چاہتا تھا"۔انکی بات  اسنے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور کہا

"آپ  گزری ہوئی باتوں کو مت دہرائیں۔اگر آپ یہاں کومل کے سلسلے میں آے ہیں تو  کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔کیونکہ  اسنے خود الزامات کو قبول کیا ہے ۔"اسکی بات سن کر وہ آنکھیں پونچھتے ہوئے بولے

"میں یہاں تم سے اجازت لینے بلکہ  درخواست لیکر آیا ہونکہ زری کو مجھ سے ملنے پر راضی کرو۔اسکی تائی  دادی اس سے تین دفعہ ملنے گئیں ہیں لیکن وہ ملتی ہی نہیں۔"زریاب نے ایک نظر انکی بھیگی آنکھوں کی طرف دیکھا اورپھر کہا

"میں اس سے بات کرونگا۔۔آپ  پریشان ناں ہو۔"تو وہ شکریہ کہتے اٹھ کھڑے ہوئے

اسنے بھی کھڑے ہو کر ان سے ہاتھ ملایا اور پھر وہ اسکے آفس سے نکل گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کھانا کھانے کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے زریاب نے اسے دیکھا  اور پھر نظریں موبائل پر جما دیں۔

کچھ دیر کے بعد وہ صوفے پر لیٹنے  لگی تو زریاب نے کہا

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے "۔اسکی بات سن کر وہ سیدھی ہو بیٹھی لیکن بولی کچھ نہیں۔

اس دن کے بعدسے  ان  دونوں کی بات چیت بند تھی ۔آج زریاب نے ہی اسے مخاطب کیا  تو وہ اسے خاموشی سے دیکھے گئی۔

"تمھارے ابو میرے پاس آفس میں آئے تھے۔وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں اور وہ بہت شرمندہ ہیں  سب باتوں پ"ر۔۔زری نے اسکی بات  سنی اور پھر  کوئی جواب دئیے بغیر  لیٹ گئئ۔

تو زریاب نے  کہا

"کل تیار رہنا۔میں تمہیں انکے گھر لیکر جاونگا"۔تو وہ بولی

"مجھے کسی کے گھر نہیں جانا۔ناں مجھے کسی سے ملنا ہے"۔اسکی بات سن کر زریاب نے  اسکے لیٹے ہوئے وجود کو دیکھا اور پھراٹھ کر  اسکے پاس  جاکر  ہاتھ  پکڑ کر اسے بٹھالیا

"کیوں نہیں جانا تم نے ؟"وہ اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا تو وہ خاموش رہی۔

وہ کچھ لمحے اسکے بولنے کاانتظار کرتا رہا اور پھر بولا

"دیکھو ماضی کو یاد کرنے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔وہ شرمندہ ہیں۔اور تمہیں دل بڑا کر کے انکو معاف کر دینا چاہیے جنہوں نے تمہیں  بڑا کیا تمھاری پرورش کی"۔تو وہ   بولی

"ہاں  مجھے بڑا کیا،میری پرورش کی،میرے نخرے بھی اٹھائے لیکن بس مجھ پر بھروسہ ناں کیا ۔مجھے بلکل اکیلا چھوڑ دیا۔جب مجھے  انکی سب سے زیادہ ضرورت تھی تب  مجھے انہوں نے چھوڑ دیا" ۔وہ روتے ہوئے بولی  تو وہ   اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا

"تم سب بھول  جاو۔زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو "۔اسکی  بات سن کر وہ  روتے ہوئے بولی

"کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا ۔ناں میں ان سے پہلے کی طرح  بات کر سکتی ہوں  کیونکہ میرا دل ہی نہیں کرے گا۔یہ میرا بھروسہ لا دیں۔میری عزت لادیں۔میں اس گلی سے جب گزرتی ہوں تو میں خود کو  ان سب لوگوں میں ذلیل محسوس کرتی ہوں۔کیونکہ میری کوئی عزت رہی ہی نہیں۔مما پپا  مجھے بیٹیوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔دریاب  مجھے بھائیوں کی طرح چاہتا ہے لیکن  پھر بھی میں پہلے  کی طرح لوگوں پر اعتبار نہیں کرتی۔آپ بتائیں ناں میں کیا کرو ایسا کہ میرے دل میں ابو کے لئے گنجائش نکل آئے۔کیونکہ مجھ پر پہلا الزام لگانے والےوہ خود تھے۔"وہ زارو قطار روتے ہوئے بولی  تو وہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔

کافی دیر وہ  اسکے ساتھ لگی  روتی رہی۔جب خیال آیا تو وہ اس سے پیچھے ہٹی۔

اور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی  "مجھے  کہی نہیں جانا"۔۔تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جاکر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھا کر گلاس میں پانی ڈالا اور  پھر دوبارہ اسکے پاس آیا اور گلاس اسے  دیتے ہوئے کہا

"پانی پیو"۔ تو وہ   سسکتے ہوئے بولی  

"نہیں پینا"۔اسکے جواب پر زریاب نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سختی سے کہا

"خود پیو گی کہ میں پلاو "؟تو وہ گلاس ہاتھ میں لے لی۔۔

"چلو شاباش"۔۔تو اسنے تھوڑا سا پانی پیا اور پھردوبارہ سے  گلاس ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گئی تو  وہ اسکے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے بولا

"زری معاف کر دینا  اللہ کا پسندیدہ کام ہے ۔اسلئے  اللہ کی رضا کے لئے معاف کر دو ۔اور ماں  باپ کو آزمائش میں ڈالنا انتہائی غلط ہے"۔وہ اسکی بات سن کر خاموشی سے رو دی لیکن بولی کچھ نہیں تو وہ  اسکے برابر سے اٹھتے ہوئے بولا

"کل تیار رہنا"۔۔وہ کہہ کر بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔

جبکہ پوری رات زری کا تکیہ بھیگتا رہا۔

۔،۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن جب وہ آفس سے آیا تو  لاونج بلکل خالی تھا۔وہ سر جھٹکتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اورشاور وغیرہ لیکر  جب نیچے آیا تو تب بھی نیچےہو کا عالم تھا۔وہ شائستہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھا جسکا دروازہ ادھ کھلا تھا۔

تب ہی اسے روتی ہوئی زری کی آواز سنائ  دی

"مما مجھے کہیں نہین جانا۔آپ انکو منع کریں"۔اسکی بات پر زریاب نے تھوڑا سا آگے ہو کے کمرے میں جھانکا 

جہاں زرتاشہ صاحبہ شائستہ بیگم کے  پیروں میں بیٹھی انکی گود میں سر رکھے  بولے جا رہی تھی۔

"لیکن بیٹے  آپ اپنے ابو سے مل کر واپس آجانا۔اتنا کیوں رو رہی ہو؟" تو زری نے کہا

"یہ مجھے طلاق دیں گے اگر میں گئی تو۔اور پھر میں کیوں جاو انکے پاس جنہوں نے میرا اعتبار نہیں کیا"۔وہ بولتے ہوئے رو گئی  تو  شائستہ بیگم نے کہا

"تم پاگل ہو۔طلاق کیوں دیگا ؟ہر بیوی اپنے ماں باپ سے ملنے جاتی ہے۔تم کوئی انوکھا کام تھوڑی کر رہی ہو"۔انہوں نے غصے سے کہا  تو  زری بولی

"ہمارا کانٹریکٹ  سائن ہواتھا کہ جب سب ٹھیک ہو جائے گا اور میں ابو کے پاس جاونگی تو یہ کسی اور کو پسند کر کے مجھے طلاق دیں گے"۔اسکی بات سن کر شائستہ بیگم ششد رہ گئیں۔

جبکہ وہ روتے ہوئے بولی

"مجھے نہیں لینی کوئی بھی طلاق۔میں ایسے ٹھیک ہوں۔"تو شائستہ بیگم نے کہا

"تم دونوں اتنے بڑے کب سے ہو گئے کہ کانٹریکٹ سائن کرنے لگے؟"تو وہ بغیر کچھ بوکے روتی رہی تو انہوں نے اپناغصہ ضبط کرتے ہوئے کہا

"کوئی نہیں دیگا طلاق۔اسکے بچے صرف تم سے ہی ہونگے۔"تو وہ  سسکتے ہوئے بولی

"یہ کسی سے پیار کرنے لگ گئے ہیں"۔تو وہ حیران ہوئیں اور پھر کہا

"تمہیں کیسے علم ہوا؟ "

"انکو وہ  کالز کرتی رہتی ہے۔تو  وہ اسے دیکھے گئیں۔"اور پھر اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا 

"کچھ بھی نہیں ہوگا۔میں اس سے بات کرونگی"

تب ہی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور اسے دیکھ کر کہا

"زرتاشہ  جاو تیار ہو جاو"۔تو وہ شائستہ بیگم کی طرف دیکھنے لگیں تو انہوں نے بھی کہا

"جاو بیٹے"۔۔تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

اسکے جانے کے بعد وہ  اپنے بیٹے کی طرف مڑی اور کہا

"یہ سب میں نے کیا سنا ہے ؟ "تو وہ بولا

"آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے ناں   کہ میں کچھ غلط نہیں کر سکتا " تو وہ بولیں 

"یہ بھروسہ تھا لیکن اب مجھے ڈر ہے۔میری بچی کو دکھ مت دینا زریاب"۔وہ  بولتے ہوئے رو گئیں تو  اسنے  انکے شانے پر ہاتھ رکھا اور پھر کہا

"آپ کو علم ہے کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں کیوں دونگا طلاق  میں اسے ؟"وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا

"لیکن وہ تو کہہ رہی تھی کہ تم لوگوں کا کانٹریکٹ سائن ہوا تھا اور تم اب اسے طلاق دو گے۔"تو وہ بولا

"ہاں ہوا تھا۔۔ولیمہ سے پہلے  ہوا تھا۔۔بعد میں مجھے اس سے محبت ہو گئی تو ارادہ بدل گیا"۔تو  وہ  آگے بولیں اور ایک عدد جو "لڑکی تم پسند کرتے ہو  اسکا کیا ہو گا ؟"تو وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا

"مما میں ایک زندگی میں صرف ایک بیوقوف بیوی برداشت کر سکتا ہوں۔اور چونکہ میرا دل ایک ہی ہے اسلئے یہ صرف اسی کے پاس ہے"۔تو وہ حیرانگی سے بولیں

"لیکن وہ تو کہہ رہی ہے کہ تمہیں کوئی اور لڑکی پسند ہے"۔تو وہ بولا

"کچھ زیادہ ہی سوچتی ہے۔اسے سمجھائیں اتنا مت سوچے"۔تب ہی زری اندر آئی  تو  اسنے  شائستہ بیگم سے کہا

"آکر سب بتاتا ہوں"۔۔وہ کہہ کر زری کی طرف مڑا اور  اسے  باہر آنے کا کہتا  وہاں سے چلا گیا۔

جبکہ وہ شائستہ بیگم سے گلے ملتے ایک دفعہ پھر رودی

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments