Ticker

6/recent/ticker-posts

Ajab pyaar epi 6

 Ajab pyaar poetry:

Ajab pyaar poetry
  
                                                        قسط 6

کیا میں نے یہ ٹھیک کیا ہے ؟ سوچتے ہوئے وہ وہی صوفے پر لیٹ گیا۔
مجھے جزباتی نہیں ہونا چاہیے تھا۔کیا پتہ کوئی ایسا راستہ بھی ہوتا کہ وہ لوگ اسکو رکھنے کے لئے مان جاتے اور مجھے نکاح ناں کرنا پڑتا۔
پھر اسے ایک اور خیال آیا
جس طرح میں شادی سے انکاری ہوں کیا پتہ اسی طرح وہ بھی اس نکاح کو قبول ناں کر سکے۔یہ خیال آتے ہی وہ بے چین ہوا۔
ریجیکشن کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی یہی حال زریاب کا بھی تھا کہ اپنے ریجیکٹ 
ہونے کا سوچ کر ہی اسے برا لگا تھا۔۔
اب کیا کرو ؟ 
اسنے لیٹے لیٹے ہی سوچا
زرتاشہ کے پاس سے ہو کر وہ جب دوبارہ لاونج میں گئیں تو انہوں نے صوفے پر لیٹے زریاب کو دیکھا جو دو انگلیوں سے اپنے ماتھے کو دبا رہا تھا۔
وہ خاموشی سے اسے دیکھی گئیں۔انہیں علم تھا کہ وہ اب اپنے اٹھائے گئے قدم پر سوچ رہا ہے۔

وہ آہستہ آہستہ چلتی اسکے پاس گئیں اور تھوڑا سا جھک کر اسکا ماتھے دباتے ہاتھ کو پکڑا تو اسنے چونک کر آنکھیں کھولیں۔
سامنے شائستہ بیگم کو کھڑا دیکھا تو اٹھ کر بیٹھ گیاوہ بھی اسکے برابر میں بیٹھ گئیں۔اور پھر اسکی طرف د یکھتے ہوئے پوچھنے لگیں
کیا ہوا ہے ؟ کیوں پریشان ہو؟انکے پوچھنے پر وہ صرف انکی طرف دیکھے گیا ۔
وہ کیسے بتاتا کہ اسکے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔۔اسکے یک ٹک دیکھنے پر شائستہ بیگم نے اسے پکارا تو وہ ہڑبڑاتا ہوا انکی طرف متوجہ ہوا ۔

کیا ہوا ہے ؟ شائستہ بیگم نے دوبارہ پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاگیا اور پھر صوفے سے اٹھ کر انکے قدموں میں بیٹھ کر سر انکی گود میں رکھ لیا۔
تو وہ اسکے سیاہ گھنے بالوں میں آہستگی سے ہاتھ پھیرنے لگیں۔
اسے انکی انگلیوں کی نرمی سے سکون سا محسوس ہو رہا تھا۔اسی سکون کو محسوس کرتے کرتے وہ آنکھیں موند گیا۔
تین چار منٹ کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ وہ نیند میں جارہا ہے تو انہوں نے اسکے کندھے کو ہلایا تو وہ سر انکی گود سے اٹھا کر انہیں نیند بھری آنکھوں سے دیکھنے لگا۔

جاو شاباش اپنے کمرے میں جاکر ریسٹ کرو۔۔انکے کہنے پر وہ خاموشی سے اٹھ گیا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
وہ نہاکر باہر نکلی اور پھر اسنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بال سکھائے۔

بال سکھانے کے بعد وہ لائٹ آف کر کے لیٹ گئی۔
اسکے جسم میں سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔وہ نیند میں کھو جانا چاہتی تھی۔ فلحال وہ خود پر گزری کسی بھی بات کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔آخر نیند کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی اور وہ دکھتے جسم کے ساتھ نیند میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔
اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بس جاکر اپنے بیڈ پر گر کر سوجائے۔
وہ ان لوگوں میں سے تھا جنکو اپنے کمرے اور اپنے بیڈ کے علاوہ مشکل سے ہی کہیں اور نیند آتی ہے۔
وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندرداخل ہوا اور پھر ہاتھ مار کر لائٹس آن کیں۔
کمرہ روشن ہوتے ہی اسکی نظر سامنے بیڈ پر پڑی تو وہ کچھ لمحوں کے لئے حیران کھڑا رہ گیا۔

اسے لگا تھا کہ مما نے اسے کسی اور روم میں ٹہرایا ہوگا۔وہ الٹے قدموں کمرے سے باہر نکلا۔
دوسری طرف لائٹ کی روشنی جیسے ہی زری کی آنکھوں پر پڑی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔اچانک اسے آواز سنائی دی
مما!آپ اسے کسی اور روم میں بھجوا دیں۔میں نے سونا ہے۔وہ بالائی منزل سے ہی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر بول رہا تھا۔۔
اسکی بات سن کر وہ شرمندگی کے مارے سر جھکا گئی۔حالانکہ وہ وہاں اکیلی تھی لیکن اسے سن کر ہی شرمندگی ہو رہی تھی کہ اسکا وجود زریاب کے لئے بوجھ ہے۔
وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب اسے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔

جیسے کوئی کمرے کی طرف آرہا ہو۔وہ شرمندگی کے مارے اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔تب ہی دوبارہ آنکھیں بند کر کے سوتی بن گئی۔
وہ دوبارہ کمرے میں آیا 
اور بیڈ کی اپنی طرف کی سائیڈ کی طرف بڑھا۔
وہ ادھ کھلی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔جب اسے بیڈ کے پاس آتے دیکھا تو وہ لرز کر رہ گئی۔

یہ بیڈ پر سوئیں گے ؟زری نے دل میں سوچا 
تب تک وہ بیڈ کے پاس پہنچ چکا تھا۔
تھوڑا سا جھک کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے فائل اٹھا ئی اور واپس مڑ گیا۔
اسکے واپس مڑتے ہی زری کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔
وہ جانے سے پہلے ایک لمحے کے لئے سوئچ بورڈ کے پاس رکا اورپھر کمرے کی لائٹس آف کر کے کمرے سے نکل گیا۔
اسکے نکلتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
یہ ہے میری قسمت کہ میں بوجھ کی طرح انکے اوپرسوار کی گئی ہوں۔؟ سوچتے ہوئے آنسو اسکے چہرے پر بکھر رہے تھے ۔
کچھ دیر کے بعد وہ لیٹ گئی اور پھر روتے روتے کب اسکی آنکھ لگی اسے علم ہی ناں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

وہ فائل لیکر دریاب کے کمرے میں گیا اور جا کر بیڈ پر لیٹ گیا۔
نیند کا آنا تو اب محال تھا کیونکہ اپنے کمرے کے بغیر کم ہی اسے کہیں اور سکون ملتا تھا۔
لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا۔اسکے کمرے میں کوئی اور موجود تھا۔اور اسکے ہوتے ہوئے وہ وہاں سو نہیں سکتا تھا۔
وہ بازو اپنی آنکھوں پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا اور بالاآخر نیند اس پر مہربان ہو ہی گئی۔
ابھی اسکی آنکھ لگے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دریاب اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا اور بیڈ پر زریاب کو لیٹا دیکھ کر پہلے توحیران ہوا کہ بھائی اسکے کمرے میں کیسے سو رہےہیں۔۔ورنہ وہ تو کبھی بھی اسکے کمرے میں نہیں سوتے تھے۔
وہ کچھ لمحے حیران کھڑا رہا اور پھر کندھے اچکا کر وارڈ روب کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

ارے میں ناں کہتی تھی کہ یہ کالج کی پڑھائی رنگ لائے گی۔اب دیکھو چڑھا گئی ناں چاند تمھاری بیٹی۔زری کی دادی نے اسکے والد سے کہا وہ خاموش بیٹھے رہے۔
"ہم توتمہیں کہتے رہ گئے کہ مت پڑھاو اسے لیکن تم نے ہماری ایک ناں سنی۔انہوں نے پھر کہا تب بھی وہ خاموش رہے۔
جیسی ماں تھی ویسی ہی بیٹی نکلی۔اب کی دفعہ تائی بولیں تو انہوں نے جھکا ہوا سر اٹھا یا اور پھر کہا

میری بیوی بدکردار نہیں تھی۔خبردار اسکا کسی نے نام بھی لیا تو۔۔کہہ کر چارپائی کو ٹھوکر مار کر چھت کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے ۔
انکے جانے کے بعد دادی منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔تو تائی نے دونوں ہاتھ جھاڑے اور پھر کہا
خس کم جہاں پاک۔کہہ کر وہ کچن کی طرف چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ چارپائی پر لیٹے اسے سوچ رہے تھے۔
کیا واقعی میری بیٹی بدکردار تھی ؟ انہوں نے دل میں سوچا اور آنکھ سے آنسو جاری ہوئے۔

کیوں زری ؟ کیوں کیا ایسا؟ میں نے تمہیں زندگی کی ہر اسائش دی۔لیکن پھر بھی تم نے یہ سب کیا۔۔ا نہوں نے روتے ہوئے دل میں اس سے شکوہ کیا۔
جب وہ رات کو بارات کے لئے ہال نہیں پہنچی تھی تب انہوں نے شدت سے اسکی موت کی دعا مانگی تھی ۔۔۔
لیکن ہوا اسکے الٹ تھا۔۔
انہیں اتنی تکلیف تب بھی نہیں ہوئی تھی جب انہوں نے اپنی محبوبہ جوان بیوی کی قبر پر مٹی ڈالی تھی۔جتنی تکلیف انہیں زرتاشہ کو اس پولیس آفیسر کے ساتھ دیکھ کر ہوئی تھی۔
مجھے اسکو قتل کر دینا چاہیے تھا۔۔۔انہوں نے غصے سے سوچا اور پھر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
لیکن اس سے کیاہوتا؟ عزت تو میری چلی گئی ناں۔۔یہ خیال آتے ہی انکے اعصاب ڈھیلے پر گئے۔
آج سے تم میرے لئے مرگئی ہو اور میں تمھارے لئے۔انہوں نے دل میں اسے مخاطب کر کے کہا اور خاموشی سے لیٹ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

دیکھو ! ابھی میں تم سے ملنے نہی آسکتی۔کومل نے فون پر بات کرتے ہوئے آہستگی سے کہا
لیکن کیوں ؟اتنے دن ہو گئے ہیں ہم ملے بھی نہیں۔دوسری طرف لڑکے نے آہ بھرتے ہوئے کہا
میری کچھ مجبوری ہے تم بات کو سمجھو۔کومل نے پھر آہستگی سے کہا
کیا مجبوری ہے ؟ تم اپنی کسی دوست سے ملنے کا بہانہ کر کے آسکتی ہو۔لڑکے نے پھر کہا

میں کچھ سوچتی ہوں۔لیکن ابھی نہیں مل سکتی۔۔پابندی لگی ہوئی ہے۔۔اب کی بار کومل نے اکتاتے ہوئے کہا
چلو ٹھیک ہے سوئیٹ ہارٹ ۔۔۔پھر مجھے بتا دینا کہ کب ملنا ہے۔لڑکے کے کہنے پر کومل نے اوکے کہہ کر کال بند کر دی۔
دوسری طرف لڑکے نے کال بند کرتے ہی اسے گالی دی۔
دیکھتا ہوں کب تک ناں ملنے کا بہانہ کرتی ہو۔۔اسنے خباثت سے مسکراتے ہوئے سوچا
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

اچانک اسکی آنکھ کھلی تو کچھ لمحے وہ ڈھیلے ڈھالے سے انداز میں بیڈ پر لیٹی رہی ۔اور پھرنظر گھماکر گھڑی کی طرف دیکھا۔جہاں دن کے چار بج رہے تھے۔۔
ٹائم دیکھتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور دل میں کہا
میں اتنی دیر سوتی رہی ہوں ؟ دل ہی دل میں اتنی دیر سونے پر شرمندہ ہوتے ہوئے وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھی ۔
اور جاکر منہ دھویا۔

منہ دھوکر واپس آنے کے بعد وہ کچھ منٹ کمرے میں کھڑی سوچتی رہی کہ کمرے میں ہی رہوں یا لاونج میں جاو ؟ 
پھر باہر جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلی اور اردگرد دیکھا تو اسے کوئی نظر نہیں آیا ۔
پتہ نہیں آنٹی کہاں ہیں؟اسنے ادھر دیکھتے ہوئے دل میں کہا اور پھر سیڑھیاں اتر کر لاونج میں گئی۔۔
وہ بھی خالی تھا۔وہ پریشان حال وہی کھڑی ادھر ادھر نظریں گھمانے لگی۔
دل ہی دل میں وہ دعا کر رہی تھی کہ کوئی ملازمہ ہی مل جائے لیکن وہاں تو نابندہ تھا نہ بندے کی زات۔

اسے خالی گھر میں خوف سا محسوس ہوا تو اسنے دل میں واپس کمرے میں جانے کا ارادہ کیا۔ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کوئی لاونج کی گرل کھول کر وہاں آیا۔اور اسے وہاں کھڑے دیکھ کر حیران رہ گیا۔پھر سنبھلتے ہوئے کہا
"آپ کون ہیں ؟"
زری نے چونک کر آنے والے کی شکل دیکھی تو پہلے تو انجان لڑکے کو دیکھ کر گھبرائی۔

دریاب نے اسے گھبرائے ہوئے دیکھا تو تیز لہجے میں کہا
کون ہو تم ؟اسکے لہجہ سے سہمتے ہوئے زری نے گھبراتے ہوئے کہا
مم۔۔۔میں ۔۔وہ ۔۔میں ۔۔وہ اٹکتے ہوئے بولی۔
کیا میں میں لگا رکھی ہے ؟ ہاں بتاو کون ہو تم ؟ تمہیں پتہ ہے تم کس گھر میں چوری کی نیت سے آئی ہو ؟ یہ پولیس آفیسر کا گھر ہے۔اور یہاں سے سیدھا تم پولیس اسٹیشن پہنچوگی۔

اسکی بات سن کر زری نے اٹکتے ہو ئے کہا
مم۔۔میں چور نہیں ہوں۔اسکی بات سن کر دریاب نے کہا
"جاو ۔۔جاو۔۔۔ہمیں بھی علم ہے کہ تم لوگ اپنی خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کے گھروں میں جاکر چوری کرتی ہو۔لیکن میں تمھارے اس فراڈ میں نہیں آنے والا۔
دیکھیں۔۔ابھی وہ منمنا ہی رہی تھی کہ دریاب نے کہا
فورا نکلو یہاں سے۔۔۔۔تبھی زریاب نے دریاب کو پکارا تو وہ دونوں ہی آواز کی سمت دیکھنے لگے۔۔۔
انکے دیکھنے پر وہ دو دو سیڑھیاں پھلانگتا نیچے انکے پاس آیا۔۔
اسے دیکھ کر دریاب نے زری سے کہا
لو پولیس آفیسر خود آگیا۔اور پھر وہ زریاب کی طرف مڑ اور کہا
"بھائی یہ یہاں خود سے آگئی۔"
اسکے کہنے پر زریاب نے ایک نظر زری کو دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا

تب ہی شائستہ بیگم سامنے والے کمرے سے نکل کر وہاں آئیں۔
زری کو روہانسی دیکھا تو پوچھا
کیا ہوا ہے ؟ تو دریاب نے کہا
مما یہ بلا جھجھک یہاں لاونج میں بیٹھی تھی۔میرے خیال سے یہ چوری کی نیت سے آئی تھی۔
اسکی بات سن کر شائستہ بیگم نے کہا
یہ میری بہو زرتاشہ ہے۔انکی بات سن کر دریاب نے حیرانگی سے انہیں دیکھا اور پھر دہرایا 

بہو ؟پھر جیسے ہوش میں آتے ہوئے بولا
مما کون سی بہو ؟ کہاں کی بہو ؟ کل تک تو آپکی کوئی بہو نہیں تھی۔
اسکی بات سن کر انہوں نے زری کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
زریاب کی بیوی ہے یہ۔انکی بات سن کر دریاب نے حیرانگی سے زریاب کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر جھجھک کر نظریں جھکاکر بالو ں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
"مما یہ سچ ہے ؟دریاب کے پوچھنے پر انہوں نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا ۔
مما چائے بھجوادیں۔میں لان میں ہوں۔زریاب اپنی بات کہہ وہاں سے چلا گیا تو دریاب بھی اسکے پیچھے چل پڑا تاکہ پوری بات علم ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

بھائی۔۔۔بھائی۔۔۔۔دریاب نے اسے پکاڑا تو وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگ گیا۔
جب وہ اسکے قریب پہنچا تو زریاب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
کیا ہوا ؟اسکی بات سن کر دریاب نے کہا 
یہی تو میں پوچھ رہا ہونکہ جو میرے کانوں نے سنا ہے کیا یہ سچ ہے کہ آپ بھی بیوی والے ہو گئے ہیں؟اسکی بات سن کر زریاب نے آہسستگی سے سر ہلایا تو دریاب حیرانگی سے اسے دیکھے گیا اور پھر پوچھا
یہ معجزہ کب ہوا ویسے ؟
صبح۔۔زریاب نے ایک لفظی جواب دیا۔۔
ویسے آپ تو شادی سے تو صاف انکاری تھے۔۔کیسے نکاح پڑھوا لیا۔اور مجھ تک تو نکاح میں نہیں بلایا"۔۔دریاب نے شکوہ کیا تو وہ کچھ لمحے سوچتا رہا اور پھر اسے پوری بات بتا دی۔۔

چلیں جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔اسی بہانے آپ نے شادی تو کی "۔دریاب نے اسکی بات سن کر کہا تو زریاب نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
تب ہی شائستہ بیگم زری کے ساتھ وہاں آئیں اور کہا
"زریاب ہمیں شاپنگ کے لئے لے جاوگے؟ ضروری جانا ہے۔"انکے کہنے پر زریاب نے کہا

مما مجھے ابھی کچھ دیر بعد ایک میٹنگ میں جانا ہے۔آپ دریاب کو لے جائیں"۔
اسکے کہنے پر انہوں نے دریاب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو دریاب نے کہا
ویسے تو میں کبھی ناں جاتا لیکن آج چونکہ بھابھی کا پہلا دن ہمارے گھر میں ہے تو میں لازمی انکو شاپنگ کرانے لے جاونگا۔"
اسکی بات سن کر زریاب نے زرتاشہ کو دیکھا جو خاموشی سے سر جھکائے ہوئے تھی۔
چلو آو زری "۔۔۔۔شائستہ بیگم نے اسے پکارا تو وہ خاموشی سے انکے پیچھے چل دی۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

انکے جانے کے بعد وہ کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا ۔ابھی اسے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اسکے پاپا کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔
اسنے انکی گاڑی کو دیکھتے ہوئے سوچا
یہ پاپا آج اتنی جلدی کیسے آگئے؟"اور پھر اٹھ کر انکی طرف بڑھا۔
تب تک وہ بھی گاڑی کا دروازہ کھول کرباہر نکل چکے تھے۔وہ تیز تیزچلتا انکے پاس پہنچا تو انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا 
اسلام و علیکم پاپا"۔۔اسکے کہنے پر وہ تھوڑا سا آگے بڑھے اور اسے گلے لگا کر وعلیکم سلام کہا۔

وہ انکے انداز پر ابھی دل ہی دل میں حیران ہو ہی رہا تھا کہ انہوں نے اسکے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتے ہو ئے اسے مبارکباد دی تو پہلے تو وہ چونکا اور پھر جھجھک کر رہ گیا۔۔
تب تک وہ بھی اسے اپنی گرفت سے آزاد کر چکے تھے تب ہی وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولے۔
بیٹے ! اگر کوئی مبارکباد دے تو جواب میں خیر مبارک کہا جاتا ہے۔"
انکے کہنے پر زریاب نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کہا
آپ کو کس نے بتایا ؟"تو وہ مسکرائے اور پھر بولے 
چلو اندر چل کر بات کرتے ہیں" تو وہ باپ بیٹا آگے پیچھے چلتے گھرمیں داخل ہوئے۔

قریشی صاحب جاکر صوفے پر بیٹھ گئے جنکہ وہ کچن کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ سیکنڈز کے بعد پانی کا گلاس لا کر انہیں دیا تو انہوں نے پہلے پانی پیا ۔۔
اور پھر اسے دیکھا جو اب خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔
ہاں اب بولو!کیا پوچھ رہے تھے ؟"انہوں نے کہا تو زریاب نے ایک نظرانہیں دیکھا اور پھر کہا

آپ ریسٹ کر لیں۔بعد میں بات کر لیں گے۔"تو وہ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا
اس خوشخبری کی وجہ سے میں جلدی گھر آیا ہوں۔ویسے میری بہو کدھر ہے ؟"انکے کہنے پر زریاب نے کہا
مما اور وہ شاپنگ پر گئی ہیں۔"اسکے بتانے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسے اور پھر کہا
چلو تمھاری ماں کا شکوہ ختم ہو گیا کہ میں گھر پر اکیلی ہوتی ہوں۔"انکی بات سن کر وہ بھی آہستگی سے مسکرا دیا۔اور پھر کہا
آپ کو کس نے بتایا؟ "تو انہوں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا
کس بات کا ؟"وہ انجان بنے
میرے نکاح کا"۔۔زریاب نے آہستگی سے کہا تو انہوں نے نرمی سے اسے دیکھا اور پھر کہا

تمھاری ماں کا میسج میں نے ابھی آدھا گھنٹہ پہلے دیکھا اور تب ہی گھر آنے کے لئے نکل گیا تھا"۔انکے بتانے پر وہ خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگا اور پھر پوچھا
پاپا آپ کو برا تو نہیں لگا کہ میں نے آپ سے ناں ہی پوچھا ناں آپ کو نکاح میں بلایا"۔

اسکے کہنے پر انہوں نے اسے دیکھا اور پھر بولے 
مجھے یقین ہے کہ کوئی ناں کوئی ایسی وجہ ہو گی جسکی وجہ سے تم نہیں بلا پائے" ۔انکے کہنے پر وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھے گیا اور پھر دھیمے لہجے میں انہیں سب بتاگیا۔

جیسے ہی وہ خاموش ہوا تو انہوں نے کہا
تمھارے نصیب میں ایسے ہی نکاح ہونا لکھا تھا تب ہی ایسا ہوا ہے۔اسلئے اس بوجھ کو دل سے نکال دو۔"وہ انکی بات سن کر انہیں کچھ لمحے انہیں دیکھتا رہا تو انہوں نے مزید کہا
کیا تم اس نکاح سے خوش نہیں ہو ؟"وہ انکی بات سن کر کچھ پل کے لئے خاموش رہا اور پھر بولا

میں کنفیوز ہو پاپا۔میں نے اس وقت جزبات میں آکر نکاح کر لیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ غلط کیا ہے۔"اسکی بات سن کر وہ ہلکا سا مسکرائے اور پھر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دباو ڈالتے ہوئے بولے
تم زمہ داری اٹھانے سے خوفزدہ ہو۔۔جب اللہ اور اسکے رسول کو گواہ بناکر نکاح پڑھوا لیا ہے تو اب کنفیوزڈ ہونا چھوڑو۔اور اپنی شادی شدہ زندگی کی طرف قدم بڑھاو۔"انکے کہنے پر وہ تھوڑا جھجھکا اور پھر کہا
میرے خیال سے پاپا وہ بھی اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی۔"اسکے کہنے پر وہ بولے

مجھے حیرت ہے کہ تم کیسے اتنی زمہ دار پوسٹ پر ہو۔۔خود سوچو اسکے ساتھ اتنا کچھ صرف چند گھنٹوں میں ہو گیا ہے تو وہ کیسے چار پانچ گھنٹوں میں اس نئے رشتے کو قبول کر ے۔"
اسے وقت دو۔بچی ہے۔سمجھ جائے گی"۔انکی بات کے جواب میں اسنے خاموشی سے سر ہلادیا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔

توبہ توبہ! کتنا تھکاتی ہیں آپ خواتین۔"دریاب نے صوفے پر نیم دراز ہو نے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا تو شائستہ بیگم بولیں
تمہاری اس جلدی جلدی مچانے کے چکر میں ہم نے پوری شاپنگ نہیں کی"۔ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ انکی نظر لاونج میں آتے قریشی صاحب پر پڑی تو ان سے مخاطب ہوئیں۔

آپ کب آئے گھر ؟ "شائستہ بیگم کے پوچھنے پر انہوں نے کہا
کچھ دیر پہلے"۔۔۔انہوں نے جواب دیکر سنگل صوفے پر خاموش بیٹھی زرتاشہ کو دیکھا ۔۔
انکی نظروں کے تعاقب میں شائستہ بیگم نے دیکھا تو پہلے مسکرائی اور پھر بولیں۔
یہ زرتاشہ ہے ہماری بہو"۔انکے بولنے پر زری نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور پھر آہستہ سے سلام کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔۔۔
تب ہی زریاب کا خیال آنے پر شائستہ بیگم نے کہا

زریاب کہاں ہے؟ "انکے پوچھنے پر قریشی صاحب بولے 
وہ ابھی ضروری کام سے باہر گیا ہے"۔۔۔انکے بتانے پرشائستہ بیگم نے کہا
ایک تو یہ لڑکا ٹک کر گھر نہیں بیٹھتا۔"۔تب ہی دریاب کی شرارتی رگ پھڑک اٹھی اور اسنے زرتاشہ کو مخاطب کر کے کہا
بھابھی اگر آپ کو بھائی کو گھر میں بٹھانے کا کوئی طریقہ معلوم کرنا ہو۔تو براہ مہربانی ہماری اماں سے رابطہ کیجئے گا۔یہ بہت اچھی چھترول کرتی ہیں ۔۔اگر آپ ان سے ٹریننگ لیں گی تو انشااللہ بھائی آپ سے بے حد ڈریں گے۔"

اسکی بے تکی بات پر وہ ہونق سی اسے دیکھتی رہی۔جبکہ شائستہ بیگم نے کہا
اسکو ٹریننگ بعد میں دونگی۔پہلے ادھر آو تمھاری دہلائی کر دوں"۔تو دریاب نے کہا
ارے مما میں تو آپکی تعریف کر رہا تھا۔آپ تو سیریس ہی ہو گئیں" تو وہ اسکے کندھے پر تھپڑ مار کر ہنسنے لگیں۔جبکہ زری اسی طرح سر جھکائے بیٹھے رہی تو قریشی صاحب نے اسے مخاطب کیا۔۔ 

زری بیٹے آپ اس گھر کو اپنا گھر ہی سمجھو۔اور یہاں تم بہو نہیں بلکہ بیٹی بن کر آئی ہو تو اسنے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور مسکرادی۔"تب ہی وہ اٹھ کر اسکے پاس گئے اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔،۔۔۔
جاری ہے

Post a Comment

0 Comments